171- بَاب فِي قَطْعِ السِّدْرِ
۱۷۱-باب: بیر کے درخت کاٹنے کا بیان
5239- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ >.
[سئِلَ أَبو دَاود عَنْ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ مُخْتَصَرٌ، يَعْنِي مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً فِي فَلاةٍ يَسْتَظِلُّ بِهَا ابْنُ السَّبِيلِ وَالْبَهَائِمُ عَبَثًا وَظُلْمًا بِغَيْرِ حَقٍّ يَكُونُ لَهُ فِيهَا صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۲) (صحیح)
۵۲۳۹- عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا ۱؎ اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرادے گا''۔
ابو داود سے اس حدیث کا معنی و مفہوم پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے، پوری حدیث اس طرح ہے کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آکر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آکر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے ( تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے ) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھو نک دے گا۔
وضاحت ۱؎ : طبرانی کی ایک روایت میں
''من سدر الحرم'' (حرم کے بیر کے درخت)کے الفاظ وارد ہیں جس سے مراد کی وضاحت ہوجاتی ہے اور اشکال رفع ہو جاتا ہے۔
5240- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ وَسَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ شَبِيبٍ- قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۲، ۱۹۰۴۴) (ضعیف)
(عروہ تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے)
۵۲۴۰- عروہ بن زبیر نے اس حدیث کو نبی اکرمﷺ سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے۔
5241- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَأَلْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ عَنْ قَطْعِ السِّدْرِ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى قَصْرِ عُرْوَةَ، فَقَالَ: أَتَرَى هَذِهِ الأَبْوَابَ وَالْمَصَارِيعَ؟ إِنَّمَا هِيَ مِنْ سِدْرِ عُرْوَةَ، كَانَ عُرْوَةُ يَقْطَعُهُ مِنْ أَرْضِهِ، وَقَالَ: لا بَأْسَ بِهِ، زَادَ حُمَيْدٌ فَقَالَ: هِيَ يَا عِرَاقِيُّ جِئْتَنِي بِبِدْعَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا الْبِدْعَةُ مِنْ قِبَلِكُمْ، سَمِعْتُ مَنْ يَقُولُ بِمَكَّةَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ قَطَعَ السِّدْرَ، ثُمَّ سَاقَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (حسن) (الصحیحۃ ۶۱۵)
۵۲۴۱- حسان بن ابراہیم کہتے ہیں:میں نے ہشام بن عروہ سے جو عروہ کے محل سے ٹیک لگائے ہوئے تھے بیر کے درخت کاٹنے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان دروازوں اور چوکھٹوں کو دیکھ رہے ہو، یہ سب عروہ کے بیر کے درختوں کے بنے ہوئے ہیں، عروہ انہیں اپنی زمین سے کاٹ کر لائے تھے، اور کہا: ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حمید نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ہشام نے کہا: اے عراقی ( بھائی ) یہی بدعت تم لے کر آئے ہو، میں نے کہا کہ یہ ''بدعت'' تو آپ لوگوں ہی کی طرف کی ہے، میں نے مکہ میں کسی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیر کا درخت کاٹنے والے پر لعنت بھیجی ہے، پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی ۔