• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
210-بَاب التَّشْدِيدِ فِي تَرْكِ الْجُمُعَةِ
۲۱۰-باب: جمعہ چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان​


1052- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبِيدَةُ بْنُ سُفْيَانَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ -وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < مَنْ تَرَكَ ثَلاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ >۔
* تخريج: ت/ الصلاۃ ۲۴۲ (الجمعۃ ۷) (۵۰۰)، ن/الجمعۃ ۲ (۱۳۷۰)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۹۳ (۱۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۸۳)، وقد أخرجہ: ط/الجمعۃ ۹ (۲۰)، حم (۳/۴۲۴)، دي/الصلاۃ ۲۰۵ (۱۶۱۲) (حسن صحیح)

۱۰۵۲- ابو جعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (انہیں شرف صحبت حاصل تھا) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سستی سے تین جمعہ چھو ڑ دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت : اس مہر کے لگ جانے سے خیر اور ہدایت کی چیز اس کے دل میں داخل نہیں ہوسکے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
211-بَاب كَفَّارَةِ مَنْ تَرَكَهَا
۲۱۱-باب: جمعہ چھو ڑنے والے کے کفارہ کا بیان

1053- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ وَبَرَةَ الْعُجَيْفِيِّ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِنِصْفِ دِينَارٍ >.
قَالَ أَبودَاود: [وَهَكَذَا] رَوَاهُ خَالِدُ بْنُ قَيْسٍ، وَخَالَفَهُ فِي الإِسْنَادِ، وَوَافَقَهُ فِي الْمَتْنِ.
* تخريج: ن/الجمعۃ ۳ (۱۳۷۳)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۹۳ (۱۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳۱، ۱۹۲۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸، ۱۴) (ضعیف)

(’’قدامہ‘‘ مجہول راوی ہیں، نیز ’’سمرہ‘‘ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں)
۱۰۵۳- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’جو شخص بغیر عذر کے جمعہ چھوڑ دے تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر اسے ایک دینار میسر نہ ہو تو نصف دینار کرے ‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اِسے خالد بن قیس نے اسی طرح روایت کیا ہے، اور سند میں ان کی مخالفت کی ہے اورمتن میں موافقت۔

1054- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ،عَنْ أَيُّوبَ أَبِي الْعَلاءِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ وَبَرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < مَنْ فَاتَهُ الْجُمُعَةُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِرْهَمٍ، أَوْ نِصْفِ دِرْهَمٍ، أَوْ صَاعِ حِنْطَةٍ، أَوْ نِصْفِ صَاعٍ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ [عَنْ قَتَادَةَ] هَكَذَا، إِلا أَنَّهُ قَالَ: مُدًّا أَوْ نِصْفَ مُدٍّ، وَقَالَ: عَنْ سَمُرَةَ.
[قَالَ أَبودَاود: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يُسْأَلُ عَنِ اخْتِلافِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ هَمَّامٌ عِنْدِي أَحْفَظُ مِنْ أَيُّوبَ، يَعْنِي أَبَا الْعَلاءِ]۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۳۱، ۱۹۲۳۱) (ضعیف)

(قدامہ مجہول ہیں ، نیز سند میں ان کے درمیان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دو آدمیوں کا انقطاع ہے)
۱۰۵۴- قدامہ بن وبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس سے بغیر عذر کے جمعہ چھوٹ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ ایک درہم یا نصف درہم یا ایک صاع گیہوں یا نصف صاع گیہوں صدقہ دے‘‘ ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اِسے سعید بن بشیر نے قتادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے مگر انہوں نے اپنی روایت میں مد یا نصف مد کہا ہے نیز ’’عَنْ سَمُرَةَ‘‘ کہا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے سنا ان سے اس حدیث کے اختلاف کے متعلق پوچھا جا رہا تھا تو انہوں نے کہا: میرے نزدیک ہمام ایوب ابو العلاء سے زیادہ حفظ میں قوی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : صاع ڈھائی کلوگرام کا، درھم: چاندی کا سکہ تین گرام کے سے کچھ کم (۹۷۵,۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
212- بَاب مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ؟
۲۱۲-باب: کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟

1055- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ الْجُمُعَةَ مِنْ مَنَازِلِهِمْ، وَمِنَ الْعَوَالِي۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۵ (۹۰۲)، والبیوع ۱۵ (۲۰۱۷)، م/الجمعۃ ۱ (۸۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۳)، وقد أخرجہ: ن/الجمعۃ ۹ (۱۳۸۰) (صحیح)

۱۰۵۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لئے اپنے اپنے گھروں سے اور عوالی ۱؎سے باربار آتے تھے ۔
وضاحت ۱؎ : عوالی مدینہ منورہ میں قباء سے متصل علاقہ ہے ۔

1056- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ -يَعْنِي الطَّائِفِيَّ- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْهٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ هَارُونَ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < الْجُمُعَةُ عَلَى [كُلِّ] مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ جَمَاعَةٌ عَنْ سُفْيَانَ مَقْصُورًا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ قَبِيصَةُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۴۵) (حسن لغیرہ)

(ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۱۰۵۶، وارواء الغلیل: ۵۹۳)
۱۰۵۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جمعہ ہر اس شخص پر ہے جس نے جمعہ کی اذان سنی ہے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو ایک جماعت نے سفیان سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما پر موقوف کیا ہے اور صرف قبیصہ نے اِسے مسند (یعنی مرفوع روایت) کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
213- بَاب الْجُمُعَةِ فِي الْيَوْمِ الْمَطِيرِ
۲۱۳-باب: بارش کے دن جمعہ کے حکم کا بیان

1057- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ كَانَ يَوْمَ مَطَرٍ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مُنَادِيَهُ: أَنَّ الصَّلاةَ فِي الرِّحَالِ۔
* تخريج: ن/الإمامۃ ۵۱ (۸۵۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۳۵ (۹۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۴، ۷۴، ۷۵) (صحیح)

۱۰۵۷- ابو ملیح کے والد اسامہ بن عمیر ھزلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین کے روز بارش ہو رہی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے منادی کو حکم دیا کہ (وہ اعلان کردے کہ) لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لیں۔

1058- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ صَاحِبٍ لَهُ، عَنْ أَبِي مَلِيحٍ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ يَوْمَ جُمُعَةٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳) (صحیح)

۱۰۵۸- ابو ملیح سے روایت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا۔

1059- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ: خَبَّرَنَا، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ وَأَصَابَهُمْ مَطَرٌ لَمْ تَبْتَلَّ أَسْفَلُ نِعَالِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا فِي رِحَالِهِمْ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳) (صحیح)

۱۰۵۹- ابو ملیح اپنے والداسامہ بن عمیر ہزلی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صلح حدیبیہ کے موقع پرجمعہ کے روز حاضر ہو ئے وہاں ایسی بارش ہوئی تھی کہ ان کے جوتوں کے تلے بھی نہیں بھیگے تھے توآپ نے انہیں اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لینے کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207


214- بَاب التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ
۲۱۴-باب: سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان

1060- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ نَزَلَ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَأَمَرَ الْمُنَادِيَ، فَنَادَى: أَنِ الصَّلاةُ فِي الرِّحَالِ، قَالَ أَيُّوبُ: وَحَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ مَطِيرَةٌ أَمَرَ الْمُنَادِيَ فَنَادَى: الصَّلاةُ فِي الرِّحَالِ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۳۵ (۹۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۵۰)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۱۷ (۶۳۲)، ۴۰ (۶۶۶)، م/المسافرین ۳ (۶۹۷)، ن/الأذان ۱۹ (۶۵۵)، ط/الصلاۃ ۲(۱۰)، حم (۲/۴، ۱۰، ۵۳، ۶۳)، دي/الصلاۃ ۵۵ (۱۳۱۱) (صحیح)

۱۰۶۰- نا فع سے روایت ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اوراس نے آواز لگائی: لوگو! اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں: اورہم سے نا فع نے عبداللہ بن عمرکے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ ’’الصَّلاةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ (لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو) کا اعلان کرتا۔

1061- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: نَادَى ابْنُ عُمَرَ بِالصَّلاةِ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ نَادَى: أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ الْمُنَادِيَ فَيُنَادِي بِالصَّلاةِ، ثُمَّ يُنَادِي: < أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ > فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ، وَفِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، فِي السَّفَرِ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ وَعُبَيْدِاللَّهِ، قَالَ فِيهِ: فِي السَّفَرِ، فِي اللَّيْلَةِ الْقَرَّةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۵۰) (صحیح)

۱۰۶۱- نافع کہتے ہیں: ابن عمررضی اللہ عنہما نے وادی ضجنان میں صلاۃ کے لئے اذان دی، پھر اعلان کیا کہ لوگو ! تم لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو، اس میں ہے کہ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کی کہ آپ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں منادی کو حکم فرماتے تو وہ صلاۃ کے لئے اذان دیتا پھر وہ اعلان کرتا کہ لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو۔
ابو داود کہتے ہیں: اِسے حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے روایت کیا ہے اس میں ’’فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ، وَفِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، فِي السَّفَرِ‘‘ کے بجائے ’’فِي السَّفَرِ، فِي اللَّيْلَةِ الْقَرَّةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔

1062- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلاةِ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، فَقَالَ فِي آخِرِ نِدَائِهِ: أَلا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، أَلا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ فِي سَفَرٍ يَقُولُ: أَلا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ۔
* تخريج: م/المسافرین ۳ (۶۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۳۴) (صحیح)

۱۰۶۲- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے مقام ضجنان میں سرد اور آندھی والی ایک رات میں اذان دی تو اپنی اذان کے آخر میں کہا :لوگو! اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو، لوگو! اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو، پھرانہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے اندر سردی یا بارش کی رات میں مؤذن کو حکم فرماتے تھے کہ اعلان کردو: لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو۔

1063- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ -يَعْنِي أَذَّنَ بِالصَّلاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ- فَقَالَ: أَلا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ يَقُولُ: أَلا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ۔
* تخريج: خ/الأذان ۴۰ (۶۶۶)، م/المسافرین ۳ (۶۹۷)، ن/الأذان ۱۷ (۶۵۵)، ط/الصلاۃ ۲(۱۰)، حم (۲/۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۴۲) (صحیح)

۱۰۶۳- نا فع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سرد اور آندھی والی ایک رات میں صلاۃ کے لئے اذان دی تو کہا: لوگو! ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو، پھر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سردی یا بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیتے: ’’لوگو! ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو‘‘۔
1064- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِذَلِكَ فِي الْمَدِينَةِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ وَالْغَدَاةِ الْقَرَّةِ.
(ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، ’’في المدينة‘‘ اور ’’الغداة القرة‘‘ کے الفاظ منکر ہیں۔ جیسا کہ ابوداود نے اس کی طرف آگے کے جملہ میں ارشاد فرمایا ہے)۔

قَالَ أَبودَاود: وَرَوَى هَذَا الْخَبَرَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم ، قَالَ فِيهِ: فِي السَّفَرِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۱۳) (منکر)

۱۰۶۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منا دی نے مدینہ کے اندر بارش کی رات یا سر دی کی صبح میں ایسی ہی ندا کی ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو یحییٰ بن سعید انصا ری نے قاسم سے،قاسم نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے، ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں ’’فِيْ السَّفَرِ‘‘کے الفاظ بھی ہیں۔

1065- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ فَمُطِرْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : < لِيُصَلِّ مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فِي رَحْلِهِ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۳ (۶۹۸)، ت/الصلاۃ ۱۸۹ (۴۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۲، ۳۲۷، ۳۹۷) (صحیح)

۱۰۶۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو چاہے وہ اپنے ڈیرے میں صلاۃ پڑھ لے‘‘۔

1066- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالْحَمِيدِ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ابْنِ عَمِّ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ: إِذَا قُلْتُ < أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ > فَلا تَقُلْ: < حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ > قُلْ: <صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ >، فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلَ ذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، إِنَّ الْجُمُعَةَ عَزْمَةٌ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُخْرِجَكُمْ، فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالْمَطَرِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰ (۶۱۶)، ۴۱(۶۶۸)، والجمعۃ ۱۴ (۹۰۱)، م/المسافرین ۳ (۶۹۹)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۳۵ (۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۷) (صحیح)

۱۰۶۶- محمد بن سیرین کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا: جب تم ’’أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘ کہنا تو اس کے بعد ’’حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ ‘‘ نہ کہنا بلکہ اس کی جگہ ’’صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ‘‘ (لوگو! اپنے اپنے گھر وں میں صلاۃ پڑھ لو) کہنا، لوگوں نے اسے برا جانا تو انہوں نے کہا: ایسا اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)، بیشک جمعہ واجب ہے، لیکن مجھے یہ بات گوارہ نہ ہوئی کہ میں تم کو کیچڑ اور پانی میں (جمعہ کے لئے) آنے کی زحمت دوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
215-بَاب الْجُمُعَةِ لِلْمَمْلُوكِ وَالْمَرْأَةِ
۲۱۵-باب: غلام اور عورت کے لئے جمعہ کا حکم کیا ہے؟

1067- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُرَيْمٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ؛ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلا أَرْبَعَةً: عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيٌّ أَوْ مَرِيضٌ >.
قَالَ أَبودَاود: طَارِقُ بْنُ شِهَابٍ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۸۱) (صحیح)

۱۰۶۷- طا رق بن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعہ کی صلاۃ جماعت سے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار لوگوں: غلام، عورت، نابالغ بچہ، اور بیمار کے‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: طارق بن شہاب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے مگر انہوں نے آپ سے کچھ سنا نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
216-بَاب الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى
۲۱۶-باب: دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا بیان

1068- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْمُخَرِّمِيُّ، لَفْظُهُ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي الإِسْلامِ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالْمَدِينَةِ لَجُمُعَةٌ جُمِّعَتْ بِجَوْاثَاءَ قَرْيَةٌ مِنْ قُرَى الْبَحْرَيْنِ، قَالَ عُثْمَانُ: قَرْيَةٌ مِنْ قُرَى عَبْدِ الْقَيْسِ.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۱ (۸۹۲)، والمغازي ۶۹ (۴۳۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۹) (صحیح)

۱۰۶۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں: اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین ۱؎کا ایک گائوں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گائوں ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں بحرین سے مراد سعودی عرب کا مشرقی علاقہ ہے، ’’جو اثی‘‘ منطقہ احساء کے ہفوف نامی شہر کے ایک گاؤں میں واقع ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے اور اس کے بعد والی حدیث سے معلوم ہواکہ جمعہ گاؤں میں پڑھنا درست ہے، اس لئے کہ جواثی اور ہزم النبیت دونوں گاؤں ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ قریہ کا اطلاق عربی میں گاؤں اور شہر دونوں پرہوتا ہے، اس لئے یہ استدلال تام نہیں، جب کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جواثی بحرین کا ایک شہر ہے اور ہزم النبیت مدینہ ہی کا ایک حصہ ہے۔
اس سلسلے میں بہتر طریق استدلال یہ ہے کہ جمعہ کی فرضیت آیت اور حدیث سے مطلق ثابت ہے اس میںشہر کی قید نہیں، لہذا اس قید کا اضافہ کرنا کتاب اللہ پر زیادتی ہے، جو حنفیہ کے نزدیک حدیث مشہور ہی سے جائز ہے، اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت:’’لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع‘‘ پیش کی جاتی ہے وہ دراصل موقوف روایت ہے، امام احمد نے اس کے مرفوع ہونے کی تضعیف کی ہے اس لئے اس سے خود حنفیہ کے اصول کے مطابق کتاب اللہ پرزیادتی جائز نہیں کیوں کہ وہ استدلال کے قابل نہیں۔
ابن ابی شیبہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے بحرین والوں کو لکھا کہ تم لوگ جمعہ پڑھو جہاں بھی رہو ان کا یہ حکم شہر اور گاوں دونوں کو عام ہے، اسی طرح بیہقی نے بھی عمرسے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جمعہ واجب ہے ہرگاؤں پر اگر چہ اس میں صرف چار ہی آدمی ہوں، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور دیگر صحابہ سے شہر اور صحراء دونوں جگہ میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے۔

1069- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاَقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ أَبِيهِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ بَصَرُهُ عَنْ أَبِيهِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ تَرَحَّمَ لأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِذَا سَمِعْتَ النِّدَاءَ تَرَحَّمْتَ لأَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، قَالَ: لأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ جَمَّعَ بِنَا فِي هَزْمِ النَّبِيتِ مِنْ حَرَّةِ بَنِي بَيَاضَةَ فِي نَقِيعٍ يُقَالُ لَهُ نَقِيعُ الْخَضَمَاتِ، قُلْتُ: كَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۷۸ (۱۰۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۹) (حسن)

۱۰۶۹- عبدالرحمن بن کعب بن مالک اپنے والد کعب بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی بصارت چلی جانے کے بعدوہ ان کے راہبر تھے،وہ کہتے ہیں کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے رحمت کی دعا کرتے، عبدالرحمن بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ جب آپ اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں ان کے لئے رحمت کی دعا اس لئے کرتا ہوں کہ یہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں قبیلہ بنو بیاضہ کے حرہ نقیع الخضمات میں واقع ھزم النبیت ۱؎میں جمعہ کی صلاۃ پڑھائی، میں نے پوچھا: اس دن آپ لوگ کتنے تھے؟ کہا :ہم چالیس تھے۔
وضاحت۱؎ : مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام ہزم النبیت تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
217- بَاب إِذَا وَافَقَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ يَوْمَ عِيدٍ
۲۱۷-باب: جمعہ اور عید ایک دن پڑے توکیا کرنا چاہئے؟

1070- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ الشَّامِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ قَالَ: أَشَهِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ صَنَعَ؟ قَالَ: صَلَّى الْعِيدَ ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: < مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ >۔
* تخريج: ن/العیدین ۳۱ (۱۵۹۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۶۶ (۱۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۲)، دي/الصلاۃ ۲۲۵ (۱۶۵۳) (صحیح)

۱۰۷۰- ایا س بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابو سفیا ن رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آپڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ توانہوں نے کہا : ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا ؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی صلاۃ پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: ’’جو جمعہ کی صلاۃ پڑھنی چاہے پڑھے ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طورپر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی صلاۃ کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہرپڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہوگا، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا:’’ ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔‘‘

1071- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا ابْنُ الزُّبَيْرِ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ أَوَّلَ النَّهَارِ، ثُمَّ رُحْنَا إِلَى الْجُمُعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْنَا، فَصَلَّيْنَا وُحْدَانًا وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ بِالطَّائِفِ، فَلَمَّا قَدِمَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَصَابَ السُّنَّةَ۔
* تخريج: م/صلاۃ العیدین (۸۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۶) (صحیح)

۱۰۷۱- عطاء بن ابو رباح کہتے ہیں: عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ہمیں جمعہ کے دن صبح سویرے عید کی صلاۃ پڑھائی، پھر جب ہم صلاۃ جمعہ کے لئے چلے تو وہ ہماری طرف نکلے ہی نہیں، بالآخر ہم نے تنہا تنہا صلاۃ پڑھی ۱؎ا بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت طائف میں تھے، جب وہ آئے تو ہم نے ان سے اس کا ذکر کیا توآپ نے کہا: انہوں( ابن زبیر رضی اللہ عنہ ) نے سنت پرعمل کیا ہے۔
وضاحت۱؎ : یعنی ظہر پڑھی کیونکہ جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے اس کے بغیر جمعہ صحیح نہیں۔

1072- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ عَطَائٌ: اجْتَمَعَ يَوْمُ جُمُعَةٍ وَيَوْمُ فِطْرٍ عَلَى عَهْدِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: عِيدَانِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَجَمَعَهُمَا جَمِيعًا، فَصَلاهُمَا رَكْعَتَيْنِ بُكْرَةً، لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِمَا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۸۳) (صحیح)

۱۰۷۲- عطاء کہتے ہیں: عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہو گئے توآپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھر آپ نے دونوں کو ملا کر صبح کے وقت صرف دو رکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصرپڑھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دراصل عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما گھر سے نکلے ہی نہیں (جیساکہ اگلی حدیث میں ہے) اس سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ انہوں نے ظہر بھی نہیں پڑھی، حالانکہ ایسی بات نہیں،آپ نے گھر میں ظہر پڑھ لی تھی، کیونکہ عید کے دن جمعہ معاف ہے ظہر نہیں۔ یہ اسلام کا عام قاعدہ ہے کہ جس سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہے اس کے لئے ظہر پڑھنی ضروری ہے۔

1073- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى وَعُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الْوَصَّابِيُّ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ الضَّبِّيِّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ: < قَدِ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ: فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ >.
قَالَ عُمَرُ: عَنْ شُعْبَةَ۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۶۶ (۱۳۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۲۷) (صحیح)

۱۰۷۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہوگی اورہم تو جمعہ پڑھیں گے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
218- بَاب مَا يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
۲۱۸-باب: جمعہ کے دن فجر میں کون سی سورہ پڑھے؟

1074- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ { تَنْزِيلُ } السَّجْدَةَ، وَ{هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ}۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۷ (۸۷۹)، ت/الصلاۃ ۲۵۸ (۵۲۰)، ن/الافتتاح ۴۷ (۹۵۶، ۹۵۷)، والجمعۃ ۳۸ (۱۴۲۲)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۶ (۸۲۱)، حم (۱/۲۲۶، ۳۰۷، ۳۱۶، ۳۲۸، ۳۳۴، ۳۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۳) (صحیح)

۱۰۷۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر میں سورہ’’ السَّجْدَةَ‘‘ اور {هَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ} پڑھتے تھے۔

1075- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ؛ عَنْ مُخَوَّلٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ فِي صَلاةِ الْجُمُعَةِ بِسُورَةِ الْجُمُعَةِ وَ{إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُونَ}۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۳) (صحیح)

۱۰۷۵- اس طریق سے بھی مخول سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مر وی ہے، اس میں انہوں نے اتنا اضا فہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ میں سورہ ’’جمعة‘‘ اور’’ {إِذَا جَائَكَ الْمُنَافِقُونَ} پڑھتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
219- بَاب اللُّبْسِ لِلْجُمُعَةِ
۲۱۹-باب: جمعہ کے لباس کا بیان

1076- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ -يَعْنِي تُبَاعُ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ - فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : <إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لا خَلاقَ لَهُ فِي الآخِرَةِ >، ثُمَّ جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ: كَسَوْتَنِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدَ مَا قُلْتَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: < إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا >، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۷ (۸۸۶)، والعیدین ۱ (۹۴۸)، والھبۃ ۲۷ (۲۶۱۲)، ۲۹ (۲۶۱۹)، والجھاد ۱۷۷ (۳۰۵۴)، واللباس ۳۰ (۵۸۴۱)، والأدب ۹ (۵۹۸۱)، ۶۶ (۶۰۸۱)، م/اللباس۱ (۲۰۶۸)، ن/الجمعۃ ۱۱ (۱۳۸۳)، والعیدین ۴ (۱۵۶۱)، والزینۃ ۸۳ (۵۲۹۷)، ۸۵ (۵۳۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۳، ۸۳۳۲۵)، وقد أخرجہ: ق/اللباس ۱۶ (۳۵۸۹)، حم (۲/۲۰، ۳۹، ۴۹) ویأتی ہذا الحدیث فی اللباس (۴۰۴) (صحیح)

۱۰۷۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں،اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جو ڑے آئے توآپ نے ان میں سے ایک جو ڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں نے تمہیں یہ جو ڑا اس لئے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو‘‘، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لئے دے دیا۔

1077- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ حُلَّةَ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ بِالسُّوقِ فَأَخَذَهَا، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَقَالَ: ابْتَعْ هَذِهِ، تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَلِلْوُفُودِ، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ، وَالأَوَّلُ أَتَمُّ۔
* تخريج: م/اللباس ۱ (۲۰۶۸)، ن/العیدین ۴ (۱۵۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۹۵) (صحیح)

۱۰۷۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عمر بن خطا ب رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک موٹے ریشم کا جوڑا بکتا ہوا پایا تو اسے لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ اِسے خرید لیجیے اور عید میں یا وفود سے ملتے وقت آپ اسے پہنا کیجئے۔
پھر راوی نے پوری حدیث اخیر تک بیان کی اور پہلی حدیث زیادہ کامل ہے ۔

1078- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي [يُونُسُ وَ]عَمْرٌو، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدَ >، أَوْ: < مَا عَلَى أَحَدِكُمْ إِنْ وَجَدْتُمْ أَنْ يَتَّخِذَ ثَوْبَيْنِ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ سِوَى ثَوْبَيْ مِهْنَتِهِ >.
قَالَ عَمْرٌو: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ حَبَّانَ، عَنِ ابْنِ سَلامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ.
قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلامٍ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم .
* تخريج: ق/ إقامۃ الصلاۃ ۸۳ (۱۰۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۴، ۱۱۸۵۵)، وقد أخرجہ: ط/الجمعۃ ۸ (۱۷) (صحیح)

۱۰۷۸- محمد بن یحییٰ بن حبان نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر میسر ہوسکے تو تمہارے لئے کوئی حرج کی بات نہیں کہ تم میں سے ہر ایک اپنے کام کا ج کے کپڑوں کے علاوہ دو کپڑے جمعہ کے لئے بنا رکھے ‘‘ ۱؎ ۔
عمرو کہتے ہیں: مجھے ابن ابو حبیب نے خبر دی ہے، انہوں نے موسی بن سعد سے، موسی بن سعد نے ابن حبان سے، ابن حبان نے ابن سلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے منبر پر فرماتے سنا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:اِسے وہب بن جریر نے اپنے والد سے، انہوں نے یحییٰ بن ایوب سے،یحییٰ نے یزید بن ابو حبیب سے، انہوں نے موسی بن سعد سے، موسی بن سعد نے یو سف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔
وضاحت۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے لئے کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ الگ کپڑے رکھنا بہتر ہے۔
 
Top