- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
13- بَاب مَا يُكْرَهُ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ
۱۳-باب: ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں
2065- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا، وَلا الْعَمَّةُ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا وَلا الْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا، وَلا الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا، وَلا تُنْكَحُ الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى، وَلا الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى >۔
* تخريج: خ/النکاح ۲۷ (۵۱۰۹)، ت/النکاح ۳۱ (۱۱۲۶)، ن/النکاح ۴۸ (۳۲۹۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۳۹)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، ق/النکاح ۳۱ (۱۹۳۰)، ۳۰ (۱۱۲۶) ط/النکاح ۸ (۲۰)، حم (۲/۲۲۹، ۲۵۵، ۳۹۴، ۴۰۱، ۴۲۳، ۴۲۶، ۴۳۲، ۴۵۲، ۴۶۲، ۴۶۵، ۴۷۴، ۴۸۹، ۵۰۸، ۵۱۶، ۵۱۸، ۵۲۹، ۵۳۲)، دي/النکاح ۸ (۲۲۲۴) (صحیح)
۲۰۶۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''پھوپھی کے نکاح میں رہتے ہوئے بھتیجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا، اور نہ بھتیجی کے نکاح میں رہتے ہوئے پھوپھی سے نکاح درست ہے، اسی طرح خالہ کے نکاح میں رہتے ہوئے بھانجی سے نکاح نہیں کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی بھانجی کے نکاح میں رہتے ہوئے خالہ سے نکاح درست ہے، غرض یہ کہ چھوٹی کے رہتے ہوئے بڑی سے اور بڑی کے رہتے ہوئے چھوٹی سے نکاح جائز نہیں ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہاں اگر ایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدے تو دوسری سے شادی کرسکتا ہے۔
2066- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي قَبِيصَةُ بْنُ ذُؤَيْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَخَالَتِهَا، وَبَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِهَا۔
* تخريج: خ/ النکاح ۲۷ (۵۱۱۰، ۵۱۱۱)، م/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، ن/ النکاح ۴۷ (۳۲۹۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۰۱، ۴۵۲، ۵۱۸) (صحیح)
۲۰۶۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خالہ اور بھانجی اور اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
2067- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَطَّابُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الْعَمَّةِ وَالْخَالَةِ، وَبَيْنَ الْخَالَتَيْنِ وَالْعَمَّتَيْنِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۰)، وقد أخرجہ: ت/النکاح ۳۰ (۱۱۲۵)، حم (۱/۲۱۷) (ضعیف)
(اس کے راو ی ''خصیف'' حافظہ کے ضعیف ہیں)
۲۰۶۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے پھو پھی اور خالہ کو ( نکاح میں ) جمع کرنے، اسی طرح دو خالائوں اور دو پھوپھیوں کو ( نکاح میں) جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
2068- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} قَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي، هِيَ الْيَتِيمَةُ تَكُونُ فِي حِجْرِ وَلِيِّهَا، فَتُشَارِكُهُ فِي مَالِهِ، فَيُعْجِبُهُ مَالُهَا وَجَمَالُهَا، فَيُرِيدُ (وَلِيُّهَا) أَنْ يَتَزَوَّجَهَا بِغَيْرِ أَنْ يُقْسِطَ فِي صَدَاقِهَا فَيُعْطِيَهَا مِثْلَ مَا يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوهُنَّ، إِلا أَنْ يُقْسِطُوا لَهُنَّ وَيَبْلُغُوا بِهِنَّ أَعْلَى سُنَّتِهِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا طَابَ لَهُمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنّ، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ هَذِهِ الآيَةِ فِيهِنَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ، قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ، وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} قَالَتْ: وَالَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ أَنَّهُ يُتْلَى عَلَيْهِمْ فِي الْكِتَابِ الآيَةُ الأُولَى الَّتِي قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِيهَا: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ}، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الآيَةِ الآخِرَةِ: {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} هِيَ رَغْبَةُ أَحَدِكُمْ عَنْ يَتِيمَتِهِ الَّتِي تَكُونُ فِي حِجْرِهِ حِينَ تَكُونُ قَلِيلَةَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُهُوا أَنْ يَنْكِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِهَا وَجَمَالِهَا مِنْ يَتَامَى النِّسَاءِ إِلا بِالْقِسْطِ ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُنّ،َ قَالَ يُونُسُ: وَقَالَ رَبِيعَةُ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى} قَالَ: يَقُولُ: اتْرُكُوهُنَّ إِنْ خِفْتُمْ فَقَدْ أَحْلَلْتُ لَكُمْ أَرْبَعًا۔
* تخريج: خ/الشرکۃ ۷ (۲۴۹۴)، الوصایا ۲۱ (۲۷۶۳)، تفسیرسورۃ النساء ۱ (۴۵۷۶)، النکاح ۱ (۵۰۶۴)، ۱۶ (۵۰۹۲)، ۱۹ (۵۰۹۸)، ۳۶ (۵۱۲۸)، ۳۷ (۵۱۳۱)، ۴۳ (۵۱۴۰)، الحیل ۸ (۶۹۶۵)، م/التفسیر ۱ (۳۰۱۸)، ن/النکاح ۶۶ (۳۳۴۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۹۳) (صحیح)
۲۰۶۸- عروہ بن زبیر نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالی کے فرمان:{وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} ۱؎ کے بارے میں دریافت کیا تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے ، جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہرا دا کئے نکاح کرنا چاہتا ہو( یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو ) چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا ، اگر وہ انصاف سے کام لیں اور انہیں اونچے سے اونچا مہر ادا کریں تو نکاح کر سکتے ہیں ورنہ فرمان رسول ہے کہ ان کے علاوہ جو عورتیں انہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلیں۔
عروہ کا بیان ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے نزول کے بعد یتیم لڑکیوں کے بارے میں حکم دریافت کیا تو یہ آیت نازل ہوئی:{وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ، قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ، وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللاتِي لا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} ۲؎ ام المومنین عائشہ نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ ان پر کتا ب میں پڑھی جاتی ہیں اس سے مرا د پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ} اور اس دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے قول: {وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ} سے یہی غرض ہے کہ تم میں سے کسی کی پر ورش میں کم مال والی کم حسن والی یتیم لڑکی ہو تو وہ اس کے ساتھ نکاح سے بے رغبتی نہ کرے چنانچہ انہیںمنع کیا گیا کہ مال اور حسن کی بنا پر یتیم لڑکیوں سے نکاح کی رغبت کریں، ہاں انصاف کی شرط کے ساتھ درست ہے۔
یونس نے کہا کہ ربیعہ نے اللہ کے فرمان: {وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى} کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑ کیوں کے بارے میں انصا ف نہ کر پا نے کا ڈر ہو تو انہیں چھوڑدو (کسی اور عورت سے نکاح کر لو)میں نے تمہارے لئے چار عورتوں سے نکاح جا ئز کر دیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرپانے کاڈر ہو تو تم ان عورتوں سے نکاح کرلوجوتمہیں اچھی لگیں (سورۃ النساء: ۳)
وضاحت ۲؎ : لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے ، اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑ کیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں ، جنہیں تم ان کا مقرر حق نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو (سورۃ النساء: ۱۲۶)
2069- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الْوَلِيدِ ابْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدِّيْلِيُّ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ -مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْهُمَا- لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ فَقَالَ لَهُ : هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟؟ قَالَ : فَقُلْتُ لَهُ : لا، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ؟ وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى يُبْلَغَ إِلَى نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: <إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا>، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ (إِيَّاهُ) فَأَحْسَنَ، قَالَ: <حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَّى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلالا وَلاأُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا >۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۲۹ (۹۲۶)، فرض الخمس ۵ (۳۱۱۰)، المناقب ۱۲ (۳۷۱۴)، ۱۶ (۳۷۲۹)، النکاح ۱۰۹ (۵۲۳۰)، الطلاق ۱۳ (۵۲۷۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱۴ (۲۴۴۹)، ق/النکاح ۵۶ (۱۹۹۹)، ن/ الکبری/ المناقب (۸۳۷۲)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۸)، وقد أخرجہ: ت/المناقب ۶۱ (۳۸۶۷)، حم (۴/۳۲۶) (صحیح)
۲۰۶۹- علی بن حسین کا بیان ہے: وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے توان سے مسور بن مخر مہ رضی اللہ عنہ ملے اورکہا: اگر میرے لا ئق کوئی خد مت ہو تو بتا ئیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار دے سکتے ہیں ؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے،اللہ کی قسم!اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎ ۔
علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہاکے ہوتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی ۲؎ کو نکاح کا پیغام دیا تو میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو اپنے اسی منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، اس وقت میں جوان تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ دین کے معا ملہ میں کسی آزما ئش سے دو چار نہ ہو جائے''، پھر آپ ﷺ نے بنی عبد شمس میں سے اپنے ایک داماد کا ذکر فرمایا، اور اس رشتہ دامادی کی خوب تعریف کی، اور فرمایا :'' جو بات بھی اس نے مجھ سے کی سچ کر دکھائی، اور جو بھی وعدہ کیا پورا کیا، میں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قطعا ًنہیں کر رہا ہوں لیکن اللہ کی قسم، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہر گز ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی''۔
وضاحت ۱؎ : جب تک میری جان میں جان رہے گی اسے کوئی مجھ سے نہیں لے سکتا۔
وضاحت ۲؎ : امام ابن قیم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر طرح سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچانے کی حرمت ہے چاہے وہ کسی مباح کام کرنے سے ہو، اگر اس کام سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچے تو ناجائز ہوگا، ارشاد باری ہے: {وما كان لكم أن تؤذوا رسول الله}۔
2070- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَسَكَتَ عَلِيٌّ عَنْ ذَلِكَ النِّكَاحِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۸) (صحیح)
۲۰۷۰- ابن ابی ملیکہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: تو علی رضی اللہ عنہ نے اس نکاح سے خاموشی اختیار کر لی ۔
2071- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، الْمَعْنَى، قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عَبْدُللَّهِ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: < إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ مِنْ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَلا آذَنُ، ثُمَّ لا آذَنُ (ثُمَّ لاآذَنُ) إِلا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي، يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا >، وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ أَحْمَدَ۔
* تخريج: خ/المناقب ۱۲ (۳۷۱۴)، م/فضائل الصحابۃ ۱۴ (۲۴۴۹)، ت/المناقب ۶۱ (۳۸۶۷)، ن/الکبری/ المناقب (۸۳۷۰، ۸۳۷۱)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۸) (صحیح)
۲۰۷۱- مسور بن مخرمہرضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرما تے ہوئے سنا : '' ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے ۱؎ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کر انے کی اجا زت مجھ سے ما نگی ہے تو میں اجا زت نہیں دیتا ، میں اجازت نہیں دیتا ، میں اجازت نہیں دیتا،ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں ، کیونکہ فا طمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے ''۔
وضاحت ۱؎ : ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں سے مراد ابوالحکم عمرو بن ہشام جسے ابوجہل کہتے ہیں کے بھائی حارث بن ہشام اور سلمہ بن ہشام ہیں جوفتح مکہ کے سال اسلام لے آئے تھے اور اس میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی داخل ہیں جوسچے مسلمان تھے۔