• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب قَوْلِهِ تَعَالَى: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ}
۲۳-باب: آیت کریمہ: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًاوَلاتَعْضُلُوهُنَّ } کی تفسیر​


2089- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ (بْنُ مُحَمَّدٍ)، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ الشَّيْبَانِيُّ: وَذَكَرَهُ عَطَائٌ أَبُو الْحَسَنِ السُّوَائِيّ:ُ وَلا أَظُنُّهُ إِلا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي هَذِهِ الآيَةِ: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ}، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ إِذَا مَاتَ، كَانَ أَوْلِيَاؤُهُ أَحَقَّ بِامْرَأَتِهِ مِنْ وَلِيِّ نَفْسِهَا: إِنْ شَائَ بَعْضُهُمْ زَوَّجَهَا أَوْ زَوَّجُوهَا، وَإِنْ شَائُوا لَمْ يُزَوِّجُوهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي ذَلِكَ۔
* تخريج: خ/تفسیر النساء ۶ (۴۵۷۹)، الإکراہ ۶ (۶۹۴۸)، ن/ الکبری/ التفسیر (۱۱۰۹۴)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۰، ۶۲۵۶) (صحیح)
۲۰۸۹- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ} ۱؎ کی تفسیر کے سلسلہ میں مروی ہے کہ جب آدمی کا انتقال ہو جاتا تواس (آدمی ) کے اولیاء یہ سمجھتے تھے کہ اس عورت کے ہم زیادہ حق دار ہیں بہ نسبت اس کے ولی کے، اگر وہ چاہتے تو اس کا نکاح کر دیتے اور اگر نہ چاہتے تو نہیں کرتے، چنانچہ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم عورتوں کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھو اور نہ ہی تم انہیں نکاح سے اس لئے روک رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں کچھ لے لو'' (سورۃ البقرۃ: ۱۹)
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی مر جائے تو اس کی عورت کو اپنے نکاح کا اختیار ہے، میت کے رشتہ داروں کو اسے زبردستی اپنے نکاح میں لینا جائز نہیں، اور نہ انہیں یہ حق ہے کہ وہ اسے نکاح سے روکیں۔


2090- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ (بْنِ وَاقِدٍ)، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاتَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ}، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَرِثُ امْرَأَةَ ذِي قَرَابَتِهِ، فَيَعْضُلُهَا حَتَّى تَمُوتَ أَوْ تَرُدَّ إِلَيْهِ صَدَاقَهَا، فَأَحْكَمَ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ، وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۶) (حسن صحیح)
۲۰۹۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: {لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ} ۱ ؎ کے متعلق مروی ہے کہ ایسا ہوتا تھاکہ آدمی اپنی کسی قرابت دار عورت کا وارث ہوتا تو اسے دوسرے سے نکاح سے روکے رکھتا یہاں تک کہ وہ یا تو مرجاتی یا اسے اپنا مہر دے دیتی تو اللہ تعالی نے اس سلسلہ میں حکم نازل فرما کر ایسا کرنے سے منع کردیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عد ت پو ری ہو جائے تو تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو'' (سورۃ البقرۃ: ۲۳۲)


2091- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبُّوَيْهِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ مَوْلَى عُمَرَ، عَنِ الضَّحَّاكِ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: فَوَعَظَ اللَّهُ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۲۰۹۱- ضحاک سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے:تو اللہ تعالی نے اس کی نصیحت فر مائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-بَاب فِي الاسْتِئْمَارِ
۲۴-باب: نکاح کے وقت لڑکی سے اجازت لینے کا بیان​


2092- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < لا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلا الْبِكْرُ إِلا بِإِذْنِهَا >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَمَاإِذْنُهَا؟ قَالَ: < أَنْ تَسْكُتَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۵۸)، وقد أخرجہ: خ/النکاح ۴۱ (۵۱۳۶)، والحیل ۱۱ (۶۹۷۰)، م/النکاح ۹ (۱۴۱۹)، ت/النکاح ۱۸ (۱۱۰۷، ۱۱۰۸)، ن/النکاح ۳۴ (۳۲۶۹)، ق/النکاح ۱۱ (۱۸۷۱)، حم (۲/۲۲۹، ۲۵۰، ۴۲۵، ۴۳۴)، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۲) (صحیح)
۲۰۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' غیرکنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جائے ، اور نہ ہی کنواری عورت کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے کیا جائے ''، لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! اس کی اجا زت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''( اس کی اجازت یہ ہے کہ) وہ خامو ش رہے''۔


2093- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ -الْمَعْنَى- حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < تُسْتَأْمَرُ الْيَتِيمَةُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ سَكَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلا جَوَازَ عَلَيْهَا >.
وَالإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ.
قَالَ أَبو دَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ أَبُو خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، وُمُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۴، ۱۵۱۱۳)، وقد أخرجہ: ت/النکاح ۱۹ (۱۱۰۹)، ن/النکاح ۳۶ (۳۲۷۲)، حم (۲/۲۵۹، ۳۸۴) (حسن صحیح)
۲۰۹۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' یتیم لڑ کی سے اس کے نکاح کے لئے اجازت لی جائے گی ، اگر وہ خا مو شی اختیار کرے تو یہی اس کی اجازت ہے اور اگر انکار کر دے تو اس پر زبر دستی نہیں''۔


2094- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِإِسْنَادِهِ، زَادَ فِيهِ قَالَ: < فَإِنْ بَكَتْ أَوْ سَكَتَتْ >، زَادَ: < بَكَتْ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَلَيْسَ < بَكَتْ > بِمَحْفُوظٍة، وَهُوَ وَهْمٌ فِي الْحَدِيثِ، الْوَهْمُ مِنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَوْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَلاءِ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ أَبُو عَمْرٍو ذَكْوَانُ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحِي أَنْ تَتَكَلَّمَ، قَالَ: < سُكَاتُهَا إِقْرَارُهَا >.
* تخريج: حدیث محمد بن العلاء قد تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۵)، وحدیث أبو عمر وذکوان عن عائشۃ، قد رواہ خ/النکاح ۴۱ (۵۱۳۷)، م/النکاح ۹(۱۴۲۰)، ن/ النکاح ۳۴ (۳۲۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵، ۱۶۵، ۲۰۳) (صحیح)
(مگر''بکت'' کا لفظ شاذہے )
۲۰۹۴- اس سندسے بھی محمد بن عمرو سے اسی طریق سے یہی حدیث یوں مروی ہے اس میں ''فَإِنْ بَكَتْ أَوْ سَكَتَتْ'' ( اگر وہ رو پڑے یا چپ رہے ) یعنی ''بَكَتْ'' (روپڑے )کا اضافہ ہے ، ابو داود کہتے ہیں ''بَكَتْ'' (روپڑے) کی زیادتی محفوظ نہیں ہے یہ حدیث میں وہم ہے اور یہ وہم ابن ادریس کی طرف سے ہے یا محمد بن علاء کی طرف سے ۔
ابوداود کہتے ہیں:اسے ابو عمروذکوان نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اس میں ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول!باکرہ تو بولنے سے شرمائے گی،آپ ﷺ نے فرمایا :'' اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے''۔


2095- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، حَدَّثَنِي الثِّقَةُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < آمِرُوا النِّسَاءَ فِي بَنَاتِهِنَّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۸۵۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں ایک راوی ''الثقۃ'' مبہم ہے)
۲۰۹۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' عورتوں سے ان کی بیٹیوں کے بارے میں مشورہ لو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب فِي الْبِكْرِ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا وَلا يَسْتَأْمِرُهَا
۲۵-باب: کنو اری لڑکی کا نکاح اس سے پوچھے بغیر اس کا باپ کر دے تو کیا حکم ہے؟​


2096- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِيَةً (بِكْرًا) أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ ، فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ ﷺ ۔
* تخريج: ق/النکاح ۱۲ (۱۸۷۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۰۰۱، ۱۹۱۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۳) (صحیح)
۲۰۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح اس کی مر ضی کے بغیر کر دیا ہے ، نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کہ چاہے تو نکاح باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر لے۔


2097- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
قَالَ أَبو دَاود : لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ النَّاسُ مُرْسَلا مَعْرُوفٌ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۰۰۱، ۱۹۱۰۳) (صحیح)
۲۰۹۷- اس سند سے عکرمہ سے یہ حدیث مر سلا ًمروی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں ہے، اس روایت کا اسی طرح لوگوں کا مر سلاً روایت کرنا ہی معروف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب فِي الثَّيِّبِ
۲۶-باب: ثیبہ(غیرکنواری عورت ) کا بیان​


2098- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالا: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا >، وَهَذَا لَفْظُ الْقَعْنَبِيِّ ۔
* تخريج: م/النکاح ۹ (۱۴۲۱)، ت/النکاح ۱۷ (۱۱۰۸)، ن/النکاح ۳۱ (۳۲۶۲)، ق/النکاح ۱۱ (۱۸۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۷)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۲ (۴)، حم (۱/۲۱۹، ۲۴۳، ۲۷۴، ۳۵۴، ۳۵۵، ۳۶۲)، دي/النکاح ۱۳ (۲۲۳۴) (صحیح)
۲۰۹۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ثیبہ ۱؎ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیا دہ حق دار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے''۔
وضاحت ۱؎ : ایّم سے مراد ثیبہ عورت ہے اس کی تائید صحیح مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے، ترجمۃ الباب سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف بعض لوگوں نے ایّم سے مراد بیوہ عورت لیا ہے۔


2099-حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ: < الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْمِرُهَا أَبُوهَا >.
قَالَ أَبو دَاود: < أَبُوهَا > لَيْسَ بِمَحْفُوظٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۷) (صحیح)
(''تستأمر'' کے لفظ سے صحیح ہے ، اس روایت کا لفظ شاذ ہے)
۲۰۹۹- عبداللہ بن فضل سے بھی اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا: ''ثیبہ اپنے نفس کا اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور کنواری لڑکی سے اس کا باپ پوچھے گا ''۔
ابو داود کہتے ہیں:'' أَبُوْهَا'' کا لفظ محفوظ نہیں ہے۔


2100- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَيْسَ لِلْوَلِيِّ مَعَ الثَّيِّبِ أَمْرٌ، وَالْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ، وَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۰۹۸)، ( تحفۃ الأشراف: ۶۵۱۷) (صحیح)
۲۱۰۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرارہے''۔


2101- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَمُجَمِّعٍ ابْنَيْ يَزِيدَ الأَنْصَارِيَّيْنِ، عَنْ خَنْسَائَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَرَدَّ نِكَاحَهَا۔
* تخريج: خ/النکاح ۴۲ (۵۱۳۸)، الإکراہ ۳ (۶۹۴۵)، الحیل ۱۱ (۶۹۶۹)، ن/النکاح ۳۵ (۳۲۷۰)، ق/النکاح ۱۲ (۱۸۷۳)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۴)، وقد أخرجہ: ط/النکاح ۱۴(۲۵)، حم (۶/۳۲۸)، دي/النکاح ۱۴ (۲۲۳۸) (صحیح)
۲۱۰۱- خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور وہ ثیبہ تھیں تو انہوں نے اسے ناپسند کیا چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب فِي الأَكْفَاءِ
۲۷-باب: میاں بیوی کے کفو ہونے کا بیان​


2102- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هِنْدٍ حَجَمَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْيَافُوخِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < يَا بَنِي بَيَاضَةَ، أَنْكِحُوا أَبَاهِنْدٍ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِ >، وَقَالَ: < وَإِنْ كَانَ فِي شَيْئٍ مِمَّا تَدَاوُونَ بِهِ خَيْرٌ فَالْحِجَامَةُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۹)، وقد أخرجہ: ق/الطب ۲۰ (۳۴۷۶)، حم (۲/۳۴۲، ۴۲۳) (حسن)
۲۱۰۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو ہند نے نبی اکرم ﷺ کی چندیا میں پچھنا لگایا تو آپ نے فرمایا: '' بنی بیاضہ کے لوگو! ابوہند سے تم(اپنی بچیوں کی)شادی کرو اور (ان کی بچیوں سے شادی کرنے کے لئے)تم انہیں نکاح کا پیغام ۱؎ دو''، اور فرمایا: ''تین چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں کسی چیز میں خیر ہے تو وہ پچھنا لگانا ہے''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفو میں اعتبار دین کا ہوگا نہ کہ نسب اور پیشہ وغیرہ کا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب فِي تَزْوِيجِ مَنْ لَمْ يُولَدْ
۲۸-باب: بچے کی پیدا ئش سے پہلے اس کی شادی کرنے کا بیان​


2103- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ (يَزِيدَ بْنِ) مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ -مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ- حَدَّثَتْنِي سَارَةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ، أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ قَالَتْ : خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ (فَوَقَفَ لَهُ وَاسْتَمَعَ مِنْهُ) وَمَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الأَعْرَابَ وَالنَّاسَ وَهُمْ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي، فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ، فَأَقَرَّ لَهُ، وَوَقَفَ عَلَيْهِ، وَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ: إِنِّي حَضَرْتُ جَيْشَ عِثْرَانَ -قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: جَيْشَ غِثْرَانَ- فَقَالَ طَارِقُ بْنُ الْمُرَقَّعِ: مَنْ يُعْطِينِي رُمْحًا بِثَوَابِهِ؟ قُلْتُ: وَمَا ثَوَابُهُ؟ قَالَ: أُزَوِّجُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تَكُونُ لِي، فَأَعْطَيْتُهُ رُمْحِي، ثُمَّ غِبْتُ عَنْهُ، حَتَّى عَلِمْتُ أَنَّهُ قَدْ وُلِدَ لَهُ جَارِيَةٌ وَبَلَغَتْ، ثُمَّ جِئْتُهُ فَقُلْتُ لَهُ: أَهْلِي جَهِّزْهُنَّ إِلَيَّ، فَحَلَفَ أَنْ لا يَفْعَلَ حَتَّى أُصْدِقَهُ صَدَاقًا جَدِيدًا غَيْرَ الَّذِي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَحَلَفْتُ لا أُصْدِقُ غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < وَبِقَرْنِ أَيِّ النِّسَاءِ هِيَ الْيَوْمَ >، قَالَ: قَدْ رَأَتِ الْقَتِيرَ، قَالَ: < أَرَى أَنْ تَتْرُكَهَا >، قَالَ فَرَاعَنِي ذَلِكَ، وَنَظَرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ مِنِّي قَالَ: < لا تَأْثَمُ، وَلا يَأْثَمُ صَاحِبُكَ >.
قَالَ أَبو دَاود: الْقَتِيرُ الشَّيْبُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (۳۳۱۴) (ضعیف)
(اس کی راویہ ''سارہ بنت مقسم '' مجہول ہیں)
۲۱۰۳- سارہ بنت مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے میمونہ بنت کردم رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حج میں اپنے والد کے ساتھ نکلی، میرے والد آپ ﷺ کے قریب پہنچے، آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے تو وہ آپ کے پاس کھڑے ہو گئے، اور آپ کی باتیں سننے لگے، آپ ﷺ کے پاس معلموں کے درّے کی طرح ایک درّہ تھا، میں نے بدوئوں نیز دیگر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا کہ تھپتھپانے سے بچو،تھپتھپانے سے بچو تھپتھپانے سے بچو ۱؎ ۔
میرے والد نے آپ ﷺ سے قریب جا کر آپ کا پیر پکڑ لیا اور آپ کے رسول ہونے کا اقرار کیا، اور آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے اور آپ کی بات کو غو ر سے سنا، پھر کہا کہ میں لشکر عثران (یہ جاہلیت کی جنگ ہے ) میں حاضر تھا، (ابن مثنّی کی روایت میں جیش عثران کے بجائے جیش غثران ہے) تو طارق بن مر قع نے کہا: مجھے اس کے عوض میں نیزہ کون دیتا ہے؟ میں نے پوچھا: اس کا عوض کیا ہو گا؟ کہا: میری جو پہلی بیٹی ہو گی اس کے ساتھ اس کا نکاح کر دوں گا ، چنانچہ میں نے اپنا نیزہ اسے دے دیا اور غائب ہو گیا ، جب مجھے پتہ چلا کہ اس کی بیٹی ہو گئی اور جوان ہو گئی ہے تو میں اس کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ میری بیوی کو میرے ساتھ رخصت کرو تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا، جب تک کہ میں اسے مہر جدید ادا نہ کردوں اس عہد وپیمان کے علاوہ جومیرے اور اس کے درمیان ہوا تھا ،میں نے بھی قسم کھالی کہ جومیں اسے دے چکاہوں اس کے علاوہ کوئی اور مہر نہیں دے سکتا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ''اب وہ کن عورتوں کی عمر میں ہے (یعنی اس کی عمر اس وقت کیا ہے )''، اس نے کہا: وہ بڑھاپے کوپہنچ گئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: '' میری رائے ہے کہ تم اسے جانے دو''، تو آپ ﷺ کی اس بات نے مجھے گھبرادیا میں آپ کی جانب دیکھنے لگا ، آپ ﷺ نے میری جب یہ حالت دیکھی تو فرمایا: ''(گھبراؤ مت) نہ تم گنہگار ہو گے اور نہ ہی تمہارا ساتھی ۲؎ گنہگا رہو گا''۔
ابو داود کہتے ہیں: روایت میں وارد لفظ قتیر کا مطلب بڑھاپا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنے پیروں کوزمین پر تھپتھپانے سے بچو یا تھپتھپانے سے کنایہ درّہ مارنے کی طرف ہے یعنی درّے مارنے سے بچو۔
وضاحت ۲؎ : ساتھی سے مراد طارق بن مرقع ہیں یعنی قسم کھانے کی وجہ سے تم دونوں گنہگار نہیں ہوگے۔


2104- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ أَنَّ خَالَتَهُ أَخْبَرَتْهُ، عَنِ امْرَأَةٍ قَالَتْ: هِيَ مُصَدَّقَةٌ -امْرَأَةُ صِدْقٍ- قَالَتْ : بَيْنَا أَبِي فِي غَزَاةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذْ رَمِضُوا فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ يُعْطِينِي نَعْلَيْهِ وَأُنْكِحُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تُولَدُ لِي؟ فَخَلَعَ أَبِي نَعْلَيْهِ فَأَلْقَاهُمَا إِلَيْهِ، فَوُلِدَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَبَلَغَتْ، وَذَكَرَ نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْقَتِيرِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں ایک مجہول راویہ ہے)
۲۱۰۴- ابراہیم بن میسرہ کی روایت ہے کہ ایک عورت جو نہایت سچی تھی، کہتی ہے: میرے والد زمانہ جاہلیت میں ایک غزوہ میں تھے کہ (تپتی زمین سے) لوگوں کے پیر جلنے لگے ، ایک شخص بولا: کوئی ہے جو مجھے اپنی جوتیاں دے دے؟ اس کے عوض میں پہلی لڑکی جو میرے یہاں ہوگی اس سے اس کا نکاح کر دوں گا، میرے والد نے جوتیاں نکالیں اور اس کے سا منے ڈال دیں ، اس کے یہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی اور پھر وہ بالغ ہو گئی ، پھر اسی جیسا قصہ بیان کیا لیکن اس میں''قَتِيْر'' کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب الصَّدَاقِ
۲۹-باب: مہر کا بیان​


2105- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا عَنْ صَدَاقِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ : ثِنْتَا عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٌّ فَقُلْتُ: وَمَا نَشٌّ؟ قَالَتْ: نِصْفُ أُوقِيَّةٍ۔
* تخريج: م/النکاح ۱۳ (۱۴۲۶)، ن/النکاح ۶۶ (۳۳۴۹)، ق/النکاح ۱۷ (۱۸۸۶)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۶ /۹۴)، دي/النکاح ۱۸ (۲۲۴۵) (صحیح)
۲۱۰۵- ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ (کی ازواج مطہرات) کے مہر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا ۱؎ ، میں نے کہا : نش کیا ہے ؟ فرمایا : آدھا اوقیہ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بارہ اوقیہ کے (۴۸۰) درہم اورنش کے (۲۰) درہم، کل پانچ سو درہم ہوئے،جو وزن سے تیرہ سو پچھتر گرام (۱۳۷۵) کے مساوی ہے (یعنی ایک کیلو تین سو پچھتر گرام چاندی) ۔
وضاحت ۲؎ : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے بارہ اوقیہ کے کل پانچ سو درہم ہوئے۔


2106- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَالَ: أَلا لا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لَوْكَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ لَكَانَ أَوْلاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ ﷺ ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ وَلا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً۔
* تخريج: ت/النکاح ۲۳ (۱۱۱۴)، ن/النکاح ۶۶ (۳۳۵۱)، ق/النکاح ۱۷ (۱۸۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۱،۴۸)، دي/النکاح ۱۸ (۲۲۴۶) (حسن صحیح)
۲۱۰۶- ابو عجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے -اللہ ان پر رحم کرے- ہمیں خطاب فرمایا اور کہا : خبردار! عورتوں کے مہر بڑھا چڑھا کر مت باندھواس لئے کہ اگر یہ( مہر کی زیا دتی)دنیا میں باعث شر ف اور اللہ کے یہاں تقویٰ اور پر ہیزگاری کا ذریعہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کے زیا دہ حق دار تھے ، آپ نے تو اپنی کسی بھی بیوی اور بیٹی کا بارہ اوقیہ (چار سو اسّی درہم) سے زیا دہ مہر نہیں رکھا۔


2107- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ فَمَاتَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلافٍ، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ.
قَالَ أَبو دَاود: حَسَنَةُ هِيَ أُمُّهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۵۵) (صحیح)
۲۱۰۷- ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ عبیداللہ بن حجش کے نکاح میں تھیں، حبشہ میں ان کا انتقال ہوگیا تو نجاشی (شاہ حبشہ) نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا، اور آپ کی جانب سے انہیں چار ہزار (درہم) مہر دے کر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ انہیں آپ ﷺ کے پاس روانہ کر دیا ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: حسنہ شر حبیل کی والدہ ۲؎ ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سب سے زیادہ انہیں کا مہر تھا، باقی ازاواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر حد سے حد پانچ سو درہم تک تھا، جیسا کہ حدیث نمبر (۲۱۰۵) میں گزرا۔
وضاحت ۲؎ : یہ والد کے بجائے اپنی والدہ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔


2108- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّجَاشِيَّ زَوَّجَ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَى صَدَاقِ أَرْبَعَةِ آلافِ دِرْهَمٍ، وَكَتَبَ بِذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَبِلَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۵۵، ۱۹۴۰۰) (ضعیف)
۲۱۰۸- ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ نجا شی ( شاہ حبشہ ) نے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چار ہزار درہم کے عوض کر دیا اور یہ بات آپ کو لکھ بھیجی تو آپ نے قبول فرمالیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب قِلَّةِ الْمَهْرِ
۳۰-باب: مہر کم رکھنے کا بیان​


2109- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَى عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَعَلَيْهِ رَدْعُ زَعْفَرَانٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < مَهْيَمْ >، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، قَالَ: < مَا أَصْدَقْتَهَا؟ > قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: < أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۳۹)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۱ (۲۰۴۹)، مناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱)، ۵۰ (۳۹۳۷)، النکاح ۷ (۵۰۷۲)، ۴۹ (۵۱۳۸)، ۵۴ (۵۱۵۳)، ۵۶ (۵۱۵۵)، ۶۸ (۵۱۶۷)، الأدب ۶۷ (۶۰۸۲)، الدعوات ۵۳ (۶۳۸۳)، م/النکاح ۱۳ (۱۴۷۲)، ت/النکاح ۱۰ (۱۰۹۴) البر والصلۃ ۲۲ (۱۹۳۳)، ن/النکاح ۷۵ (۳۳۷۵)، ق/النکاح ۲۴ (۱۹۰۷)، ط/النکاح ۲۱(۴۷)، حم (۳/۱۶۵، ۱۹۰، ۲۰۵)، دي/الأطعمۃ ۲۸ (۲۱۰۸)، النکاح ۲۲ (۲۲۵۰) (صحیح)
۲۱۰۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: ’’ یہ کیا ہے؟‘‘، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ! میں نے ایک عورت سے شادی کرلی ہے، پوچھا: ’’ اسے کتنا مہر دیا ہے؟‘‘، جواب دیا: گٹھلی (نواۃ ۱؎ )کے برابر سونا،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۲؎ ‘‘۔
وضاحت ۱؎ : نواۃ پانچ سو درہم کو کہتے ہیں، یعنی پانچ درہم(لگ بھگ پندرہ گرام) کے برابر سونا مہر مقرر کیا اور بعضوں نے کہا ہے کہ نواۃ سے کھجور کی گٹھلی مراد ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات آپ ﷺ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حیثیت دیکھ کر کہی تھی کہ ولیمہ میں کم سے کم ایک بکری ضرور ہو اس سے اس بات پر استدلال درست نہیں کہ ولیمہ میں گوشت ضروری ہے کیونکہ آپ ﷺ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں ستّو اور کھجور ہی پر اکتفا کیا تھا۔


2110- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ جِبْرَائِيلَ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمِ بْنِ رُومَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَعْطَى فِي صَدَاقِ امْرَأَةٍ مِلْئَ كَفَّيْهِ سَوِيقًا أَوْ تَمْرًا فَقَدِ اسْتَحَلَّ >.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، ( تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۵) (ضعیف)
(ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور ابن رومان مجہول ہیں، نیز حدیث کے موقوف ومرفوع ہونے میں اضطراب ہے)


قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ رُومَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا، وَرَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ رُومَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كُنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَسْتَمْتِعُ بِالْقُبْضَةِ مِنَ الطَّعَامِ عَلَى مَعْنَى الْمُتْعَةِ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَلَى مَعْنَى أَبِي عَاصِمٍ۔
* تخريج: م/النکاح ۳ (۱۴۰۵)، ( تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۳) (صحیح)
(جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے)
۲۱۱۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی عورت کو مہر میں مٹھی بھر ستو یا کھجور دیا تو اس نے (اس عورت کو اپنے لئے) حلال کرلیا‘‘۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے عبدالرحمن بن مہدی نے صالح بن رومان سے انہوں نے ابو زبیر سے انہوں نے جابررضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کیا ہے اور اسے ابو عاصم نے صالح بن رومان سے، صالح نے ابو الزبیر سے، ابوالزبیر نے جابررضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک مٹھی اناج دے کر متعہ کرتے تھے ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ابوا لزبیر سے انہوں نے جابر سے ابو عاصم کی روایت کے ہم معنی روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ بات متعہ کی حرمت سے پہلے کی ہے ،جیسا کہ مؤلف کے ذکر کردہ کلام سے ظاہر ہو رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي التَّزْوِيجِ عَلَى الْعَمَلِ يَعْمَلُ
۳۱-باب: کام کے عوض نکاح کرنے کا بیان​


2111- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ جَائَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ، فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلاً، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْئٍ تُصْدِقُهَا إِيَّاهُ > فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلا إِزَارِي هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّكَ إِنْ أَعْطَيْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ (وَ) لا إِزَارَ لَكَ، فَالْتَمِسْ شَيْئًا >، قَالَ: لا أَجِدُ شَيْئًا، قَالَ: < فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ >، فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < (فَهَلْ) مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئٌ؟ > قَالَ: نَعَمْ سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا، لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: < قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ > ۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۹ (۲۳۱۰)، وفضائل القرآن ۲۱ (۵۰۲۹)، ۲۲ (۵۰۳۰)، والنکاح ۱۴(۵۰۸۷)، ۳۲ (۵۱۲۱)، ۳۵ (۵۱۲۶)، ۳۷ (۵۱۳۲)، ۴۰ (۵۱۳۵)، ۴۴ (۵۱۴۱)، ۵۰ (۵۱۴۹)، ۵۱ (۵۱۵۰)، واللباس ۴۹(۷۱۱۷)، ت/النکاح ۲۳ (۱۱۱۴)، ن/النکاح ۶۹ (۳۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۴۲)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۱۳(۱۴۲۵)، ق/النکاح ۱۷(۱۸۸۹)، ط/النکاح ۳ (۸)، حم (۵/۳۳۶)، دي/النکاح ۱۹ (۲۲۴۷) (صحیح)
۲۱۱۱- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول!میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کر دیا ہے ، پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی( اور آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگرآپ کو حاجت نہیں تو اس سے میرا نکاح کرا دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تمہارے پاس اسے مہر میں ادا کرنے کے لئے کچھ ہے ؟'' وہ بولا: میرے اس تہبند کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اگر تم اپنا ازار اسے ( مہر میں) دے دو گے تو تمہارے پاس تو ازار بھی نہیں رہے گا، لہٰذا کوئی اور چیز تلاش کرو''، وہ بولا : اور تو کچھ بھی نہیں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تلاش کرو چاہے لو ہے کی انگو ٹھی ہی کیوں نہ ہو''،تو اس نے تلاش کیا لیکن اسے کچھ نہ ملا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا:'' کیا تجھے کچھ قرآن یا د ہے ؟''، کہنے لگا: ہاں فلاں فلاں سورتیں یا د ہیں ، ان کا نام لے کر اس نے بتایا تو آپ ﷺ نے اس سے کہا: ''جو کچھ تجھے قرآن یاد ہے اسی کے ( یا د کرا نے کے) بدلے میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کر دیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مہر میں مال کی کوئی تحدید نہیں، خواہ قلیل ہویا کثیر اس طرح محنت مزدوری یا تعلیم قرآن پر بھی نکاح درست ہے، جمہور علما کی یہی رائے ہے، اور بعض نے دس درہم کی تحدید کی ہے، ان کے نزدیک اس سے کم میں مہر درست نہیں، لیکن ان کے دلائل اس قابل نہیں کہ ان صحیح احادیث کا معارضہ کرسکیں۔


2112- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي أَبِي حَفْصُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْبَاهِلِيِّ عَنْ عِسْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ، لَمْ يَذْكُرِ الإِزَارَ وَالْخَاتَمَ، فَقَالَ: < مَا تَحْفَظُ مِنَ الْقُرْآنِ؟ > قَالَ: سُورَةَ الْبَقَرَةِ أَوِ الَّتِي تَلِيهَا، قَالَ: < فَقُمْ فَعَلِّمْهَا عِشْرِينَ آيَةً، وَهِيَ امْرَأَتُكَ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۴)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ النکاح (۵۵۰۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عسل '' ضعیف ہیں)
۲۱۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی واقعہ کی طرح مر وی ہے لیکن اس میں تہبند اور انگوٹھی کا ذکر نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تجھے قرآن میں سے کیا یاد ہے ؟''، جواب دیا : سو رہ بقرہ یا اس کے بعد والی سورت تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''جاؤ اسے بیس آیتیں سکھا دو اور وہ تمہاری بیوی ہے ''۔


2113- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، نَحْوَ خَبَرِ سَهْلٍ قَالَ : وَكَانَ مَكْحُولٌ يَقُولُ: لَيْسَ ذَلِكَ لأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۷۸) (ضعیف)
(یہ روایت مر سل ہے ، مکحول صحابی نہیں تابعی ہیں)
۲۱۱۳- مکحول سے بھی سہل کی روایت کی طرح مروی ہے،مکحول کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لئے یہ درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِيمَنْ تَزَوَّجَ وَلَمْ يُسَمِّ صَدَاقًا حَتَّى مَاتَ
۳۲-باب: ایک شخص نے نکاح کیا مہر مقرر نہیں کی اور مرگیا اس کے حکم کا بیان​


2114- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ فِي رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً فَمَاتَ عَنْهَا وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا (الصَّدَاقَ) فَقَالَ: لَهَا الصَّدَاقُ كَامِلاً، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، فَقَالَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى بِهِ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ۔
* تخريج: ت/النکاح ۴۴(۱۱۴۵)، ن/النکاح ۶۸(۳۳۵۸)، والطلاق ۵۷(۳۵۵۴)، ق/النکاح ۱۸ (۱۸۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۸۰، ۴/۲۸۰)، دي/النکاح ۴۷ (۲۲۹۲) (صحیح)
۲۱۱۴- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں مروی ہے جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور پھر اس سے ہم بستری کرنے سے پہلے اور اس کا مہر متعین کرنے سے پہلے وہ انتقال کر گیا توانہوں نے کہا: اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور اس پر عدت لازم ہوگی اور اسے میراث سے حصہ ملے گا۔
اس پر معقل بن سنا ن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ نے بروع بنت واشق کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ فرمایا۔


2115- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، وَسَاقَ عُثْمَانُ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۱) (صحیح)
۲۱۱۵- اس سند سے بھی عبد اللہ سے مروی ہے،عثمان نے اسی کے مثل روایت بیان کی۔


2116- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلاسٍ، وَأَبِي حَسَّانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ أُتِيَ فِي رَجُلٍ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ شَهْرًا -أَوْ قَالَ مَرَّاتٍ- قَالَ : فَإِنِّي أَقُولُ فِيهَا: إِنَّ لَهَا صَدَاقًا كَصَدَاقِ نِسَائِهَا لاوَكْسَ وَلا شَطَطَ، وَإِنَّ لَهَا الْمِيرَاثَ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، فَإِنْ يَكُ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَانِ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ بَرِيئَانِ، فَقَامَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ فِيهِمُ الْجَرَّاحُ وَأَبُو سِنَانٍ فَقَالُوا: يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! نَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَاهَا فِينَا فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ، وَإِنَّ زَوْجَهَا هِلالُ بْنُ مُرَّةَ الأَشْجَعِيُّ كَمَا قَضَيْتَ، قَالَ: فَفَرِحَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَرَحًا شَدِيدًا حِينَ وَافَقَ قَضَاؤُهُ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۳۲۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۳۰، ۴۳۱، ۴۴۷، ۴۴۸) (صحیح)
۲۱۱۶- عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کا یہی مسئلہ پیش کیا گیا،راوی کا بیان ہے کہ لوگوں کی اس سلسلہ میں مہینہ بھر یا کہا کئی بار آپ کے پاس آمد و رفت رہی، انہوں نے کہا : اس سلسلے میں میرا فیصلہ یہی ہے کہ بلا کم و کاست اسے اپنی قوم کی عورتوں کی طرح مہر ملے گا، وہ میراث کی حق دار ہو گی اور اس پر عدت بھی ہوگی ، اگر میرا فیصلہ درست ہے تو اللہ تعالی کی جانب سے ہے، اگر غلط ہے تو میری جانب سے اور شیطان کی طرف سے ہے ، اللہ اور اللہ کے رسول اس سے بر ی ہیں ، چنانچہ قبیلہ اشجع کے کچھ لوگ جن میں جراح و ابوسنان بھی تھے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ابن مسعود !ہم گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں بروع بنت واشق - جن کے شوہر ہلال بن مرّہ اشجعی ہیں- کے سلسلہ میں ایسا ہی فیصلہ کیا تھا جوآپ نے کیا ہے ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو جب ان کا فیصلہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے موافق ہو گیا تو بڑی خوشی ہوئی۔


2117- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ الذُّهْلِيُّ (وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى) وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَصْبَغِ الْجَزَرِيُّ عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ خَالِدِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِرَجُلٍ: < أَتَرْضَى أَنْ أُزَوِّجَكَ فُلانَةَ؟ >، قَالَ: نَعَمْ، وَقَالَ لِلْمَرْأَةِ : < أَتَرْضَيْنَ أَنْ أُزَوِّجَكِ فُلانًا؟ > قَالَتْ : نَعَمْ، فَزَوَّجَ أَحَدَهُمَا صَاحِبَهُ، فَدَخَلَ بِهَا الرَّجُلُ وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ يُعْطِهَا شَيْئًا، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ، وَكَانَ مَنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ لَهُ سَهْمٌ بِخَيْبَرَ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ زَوَّجَنِي فُلانَةَ، وَلَمْ أَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا وَلَمْ أُعْطِهَا شَيْئًا، وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي أَعْطَيْتُهَا مِنْ صَدَاقِهَا سَهْمِي بِخَيْبَرَ، فَأَخَذَتْ سَهْمًا، فَبَاعَتْهُ بِمِائَةِ أَلْفٍ.
قَالَ أَبو دَاود: وَزَادَ عُمَرُ (بْنُ الْخَطَّابِ وَحَدِيثُهُ أَتَمُّ) فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ >، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ (لِلرَّجُلِ ) ثُمَّ سَاقَ مَعْنَاهُ.
(قَالَ أَبو دَاود: يُخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا الْحَدِيثُ مُلْزَقًا، لأَنَّ الأَمْرَ عَلَى غَيْرِ هَذَا)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ( تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۲) (صحیح)
۲۱۱۷- عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا:''کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ میں تمہارا نکاح فلاں عورت سے کردوں؟''، اس نے جواب دیا: ہاں، پھرعورت سے کہا: ''کیا تم اس بات سے راضی ہوکہ فلاں مرد سے تمہارا نکاح کردوں؟''، اس نے بھی جواب دیا: ہاں، چنانچہ آپ ﷺ نے ان دونوں کا نکاح کر دیا ، اور آدمی نے اس سے صحبت کر لی لیکن نہ تو اس نے مہر متعین کیا اور نہ ہی اسے کوئی چیز دی ، یہ شخص غزوہ حدیبیہ میں شریک تھا اور اسی بنا پر اسے خیبر سے حصہ ملتا تھا ، جب اس کی وفات کا وقت ہوا تو کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ نے فلاں عورت سے میرا نکاح کرایا تھا ، لیکن میں نے نہ تو اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اسے کچھ دیا، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ اس کے مہر میں دے دیا، چنانچہ اس عورت نے وہ حصہ لے کر ایک لا کھ میں فروخت کیا۔
ابو داود کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حدیث کے شروع میں ان الفاظ کا اضافہ کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو''، اور ان کی حدیث سب سے زیادہ کامل ہے اور اس میں ''إن رسول الله ﷺ قال للرجل'' کے بجائے ''قال رسول الله ﷺ للرجل''ہے پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔
ابو داود کہتے ہیں:اندیشہ ہے کہ یہ حدیث الحاقی ہو کیونکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ درحقیقت مرض الموت میں اس شخص نے مہر سے زائد کی بابت ایسا کہا تھا۔
 
Top