• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي الْخِيَارِ
۱۲-باب: عو رت کو طلاق کا اختیار دینے کا بیان​


2203- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ يَعُدَّ ذَلِكَ شَيْئًا۔
* تخريج: خ/الطلاق ۵ (۵۲۶۲)، م/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، ت/الطلاق ۴ (۱۱۷۹)، ن/النکاح ۲ (۳۲۰۴) والطلاق ۲۷ (۳۴۷۴)، ق/الطلاق ۲۰ (۲۰۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵، ۴۷، ۱۷۱، ۱۷۳، ۱۸۵، ۲۰۲، ۲۰۵، ۲۳۹)، دي/الطلاق ۵ (۲۳۱۵) (صحیح)
۲۲۰۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ ﷺ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے طلاق قرار نہیں دیا، اکثر علماء کی یہی رائے ہے کہ جب شوہر بیوی کو اختیار دے اور وہ شوہر ہی کو اختیار کرلے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور زید بن ثابت اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک طلاق پڑجائے گی، مگر پہلی بات ہی ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب فِي ( أَمْرُكِ بِيَدِكِ )
۱۳-باب: عورت سے یہ کہنا کہ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے​


2204- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لأَيُّوبَ: هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ بِقَوْلِ الْحَسَنِ فِي < أَمْرُكِ بِيَدِكِ > ؟ قَالَ: لا، إِلا شَيْئًا حَدَّثَنَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِنَحْوِهِ، قَالَ أَيُّوبُ: فَقَدِمَ عَلَيْنَا كَثِيرٌ. فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: مَا حَدَّثْتُ بِهَذَا قَطُّ، فَذَكَرْتُهُ لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۳ (۱۱۷۸)، ن/الطلاق ۱۱(۳۴۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۹۲) (ضعیف)
(اس کے راوی ''کثیر'' لین الحدیث ہیں)
۲۲۰۴- حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی ''أَمْرُكِ بِيَدِكِ'' کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا:نہیں، مگروہی روایت ہے جسے ہم سے قتا دہ نے بیان کیا، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابو سلمہ سے ابوسلمہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
ایوب کہتے ہیں: تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا، وہ بولے: میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی ، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے۔


2205- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ فِي <أَمْرُكِ بِيَدِكِ > قَالَ: ثَلاثٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۹۲، ۱۸۵۳۷) (صحیح)
۲۲۰۵- حسن سے''أَمْرُكِ بِيَدِكِ'' کے سلسلہ میں مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہوگی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''أمرك بيدك'' کے معنی ہیں: تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے، یعنی تمہیں اختیار ہے، بعض کے نزدیک اس سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، اور حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہوگی، لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث نمبر (۲۲۰۳) سے معلوم ہوا کہ کچھ واقع نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِي الْبَتَّةِ
۱۴-باب: طلاق بتّہ (یعنی قطعی طلاق) کا بیان​


2206 - حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ (أَبُو ثَوْرٍ) فِي آخَرِينَ قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي عمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ ﷺ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلا وَاحِدَةً؟ > فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
قَالَ أَبو دَاود: أَوَّلُهُ لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ، وَآخِرُهُ لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۲ (۱۱۷۷)، ق / الطلاق ۱۹ (۲۰۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۳)، وقد أخرجہ: دي/ الطلاق ۸ (۲۳۱۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''نافع'' مجہول ہیں ، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے)
۲۲۰۶- نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سُہیمہ کو طلاق بتہ ۱ ؎ ( قطعی طلاق) دے دی ،پھر نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی ؟''، رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھرانہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔
وضاحت ۱ ؎ : البتّہ : بتّ کا اسم مرہ ہے ، البتہ اور بتات کے معنی یقینا اور قطعا کے ہیں، طلاقِ بتہ یا البتّہ ایسی طلاق جو یقینی اورقطعی طور پر پڑچکی ہے ،اورصحیح احادیث کی روشنی میں تین طلاق سنت کے مطابق تین طہر میں دی جائے ، تو اس کے بعد یہ طلاق قطعی اور بتّہ ہوگی، واضح رہے کہ یزید بن رکانہ کی یہ حدیث ضعیف ہے ۔


2207- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ ابْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ ، عَنْ رُكَانَةَ ابْنِ عَبْدِ يَزِيدَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۳) (ضعیف)
(دیکھئے حدیث سابق)
۲۲۰۷- اس سند سے بھی رکانہ بن عبد یزید سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔


2208- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ( الْعَتَكِيُّ) حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < مَا أَرَدْتَ؟ > قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: < آللَّهِ > قَالَ: آللَّهِ، قَالَ: < هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ (ثَلاثًا) لأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ، وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۳) (ضعیف)
(اس کے تین رواۃ ضعیف ہیں ، دیکھئے : إرواء الغلیل: ۲۰۶۳)
۲۲۰۸- رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاقِ بتہ دے دی پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا :''تم نے کیا نیت کی تھی؟''، انہوں نے کہا: ایک کی ،آپ ﷺ نے فرمایا: '' کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو؟'' ،انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہوگا''۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خا نہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع (جو ایک مجہول ہے )سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، (دیکھئے حدیث نمبر: ۲۰۹۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب فِي الْوَسْوَسَةِ بِالطَّلاقِ
۱۵-باب: دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان​


2209- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي عَمَّا لَمْ تَتَكَلَّمْ (بِهِ) أَوْ تَعْمَلْ بِهِ، وَبِمَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا >۔
* تخريج: خ/العتق ۶ (۲۵۲۸)، والطلاق ۱۱ (۵۲۶۹)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، م/الإیمان ۵۸ (۱۲۷)، ت/الطلاق ۸ (۱۱۸۳)، ن/الطلاق ۲۲ (۳۴۶۴، ۳۴۶۵)، ق/الطلاق ۱۴ (۲۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۹۳، ۳۹۸، ۴۲۵، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (صحیح)
۲۲۰۹- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''اللہ تعالی نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پرعمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دل میں طلاق کا صرف خیال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لامْرَأَتِهِ:يَا أُخْتِي
۱۶-باب: آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟​


2210 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ (ح) وَحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ وَخَالِدٌ الطَّحَّانُ، الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ أَنَّ رَجُلا قَالَ لامْرَأَتِهِ: يَا (أُخَيَّةُ)، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أُخْتُكَ هِيَ؟ > فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۹۹، ۱۸۸۴۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابوتمیمۃ'' تابعی ہیں اس لئے مرسل ہے )
۲۲۱۰- ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیا یہ تیری بہن ہے؟''، آپ ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگرچہ اس کے کہنے سے وہ اس کی بہن نہیں ہو جائے گی مگر نامناسب بات زبان سے نکالنی مناسب نہیں، گو وہ اس کی دینی بہن ہو یا رشتہ میں بھی بہن کے مرتبہ کی ہو جیسے چچا یا پھوپھی یا خالہ کی بیٹی ۔


2211- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ -يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ رَجُلا يَقُولُ لامْرَأَتِهِ (يَا أُخَيَّةُ) فَنَهَاهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۹۹، ۱۸۸۴۶) (ضعیف)
(اس کی سند میں سخت اضطراب ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)
۲۲۱۱- ابو تمیمہ سے روایت ہے ، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابو عثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلا روایت کیا ہے ،نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اورابو تمیمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلا روایت کیا ہے۔


2212- حَدَّثَنَا( مُحَمَّدُ) بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ إِبْرَاهِيمَ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلا ثَلاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلاً، فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، م/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، ت/تفسیر سورۃ الأنبیاء (۳۱۶۵)، حم (۲/۴۰۳) (صحیح)
۲۲۱۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' ابرا ہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالی کی ذات کے لئے تھے ،پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمارہوں ۲؎ ، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا : بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے ، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پرانہوں نے قیام فرمایا تواس سرکش تک یہ بات پہنچی ،اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بلوایا اورعورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: ''یہ تو میری بہن ہے''، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا'' ،اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔
وضاحت ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ''بڑے بت نے توڑا''، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب فِي الظِّهَارِ
۱۷-باب: ظہارکا بیان ۱؎​


2213- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ (الْمَعْنَى) قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: الْبَيَاضِيُّ قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنِ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي، حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْئٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، قَالُوا: لا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: < أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ؟ > قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لأَمْرِ اللَّهِ فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: < حَرِّرْ رَقَبَةً >، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا، وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، قَالَ: < فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ >، قَالَ، وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلا مِنَ الصِّيَامِ؟ قَالَ: < فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا >، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ، مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ: <فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا >، فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ، وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ السَّعَةَ، وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي، أَوْ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ.
زَادَ ابْنُ الْعَلاءِ: قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ، بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۲۰ (۱۱۹۸)، ق/الطلاق ۲۵ (۲۰۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷، ۵/۴۳۶)، دي/الطلاق ۹ (۲۳۱۹) (حسن صحیح)
(ملاحظہ ہو الإرواء : ۲۰۹۱) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۱۳)
۲۴۱۳- سلمہ بن صخربیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا ، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لئے اس سے ظہار کر لیا۔
ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچا نک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظرا ٓگیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا ،پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا ، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا تو میں خود ہی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ ﷺ کو پوری بات بتائی، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سلمہ! تم نے ایسا کیا؟‘‘، میں نے جواب دیا : ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لئے تیار ہوں ،تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سُجھائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ایک گردن آزاد کرو‘‘، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو دو مہینے کا مسلسل صیام رکھو‘‘، میں نے کہا: میں تو صیام ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ‘‘، میں نے جواب دیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا‘‘، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی ،آپ ﷺ نے مجھے یا میرے لئے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ظہار یہ ے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے ’’أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ‘‘یعنی تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے،زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، شریعت اسلامیہ میں ایسا کہنے والا گنہگار ہوگا اور اس پر کفارہ لازم ہوگا، جب تک کفارہ ادانہ کردے وہ بیوی کے قریب نہیں جاسکتا۔


2214- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَتْ: ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَشْكُو إِلَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُجَادِلُنِي فِيهِ، وَيَقُولُ: < اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ > فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا} إِلَى الْفَرْضِ، فَقَالَ: < يُعْتِقُ رَقَبَةً > قَالَتْ: لا يَجِدُ، قَالَ: < فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ > قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ، قَالَ: < فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا > قَالَتْ: مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْئٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، قُلْتُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: < قَدْ أَحْسَنْتِ، اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا، وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ > قَالَ: وَالْعَرَقُ سِتُّونَ صَاعًا.
قَالَ أَبو دَاود فِي هَذَا: إِنَّهَا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْتَأْمِرَهُ.
(قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَخُو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ) ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱۰) (حسن)
۲۲۱۴- خو یلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ ﷺ مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ اللہ سے ڈر، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے‘‘ ، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا} (سورۃ المجادلۃ: ۱) ’’ اللہ تعالی نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی‘‘، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ ایک گردن آزاد کریں‘‘، کہنے لگیں: ان کے پاس نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں‘‘ ، کہنے لگیں : اللہ کے رسول! وہ بو ڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں‘‘، کہنے لگیں: ان کے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں۔
کہتی ہیں: اسی وقت آپ ﷺ کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آگئی ، میں نے کہا: اللہ کے رسول( آپ یہ دے دیجئے) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد بھائی (یعنی شوہر ) کے پاس لوٹ جاؤ‘‘۔
راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی۔
ابو داود کہتے ہیں: کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں۔


2215- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى (أَبُو الأَصْبَغِ الْحَرَّانِيّ)، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: وَالْعَرَقُ: مِكْتَلٌ يَسَعُ ثَلاثِينَ صَاعًا.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۵) (حسن)
(سابقہ حدیث دیکھئے )
۲۲۱۵- اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ عرق ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آ تی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔


2216- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: يَعْنِي بِالْعَرَقِ زِنْبِيلا يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸۶) (صحیح)
۲۲۱۶- ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ عرق سے مراد ایسی زنبیل ہے جس میں پندرہ صاع کھجوریں آجائیں۔


2217- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِتَمْرٍ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْ خَمْسَةِ عَشَرَ صَاعًا، قَالَ: < تَصَدَّقْ بِهَذَا>، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كُلْهُ أَنْتَ وَأَهْلُكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۹۰) (حسن)
۲۲۱۷- سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ ﷺ کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں صدقہ کر دو‘‘، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اور تمہارے گھروالے ہی انہیں کھا لو‘‘۔


2218- قَالَ أَبو دَاود: قَرَأْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ وَزِيرٍ الْمِصْرِيِّ (قُلْتُ لَهُ): حَدَّثَكُمْ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَائٌ، عَنْ أَوْسٍ، أَخِي عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَعْطَاهُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا.
قَالَ أَبو دَاود: وَعَطَائٌ لَمْ يُدْرِكْ أَوْسًا، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَدِيمُ الْمَوْتِ، وَالْحَدِيثُ مُرْسَلٌ (وَإِنَّمَا رَوَوْهُ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَطَائٍ، أَنَّ أَوْسًا)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳) (صحیح)
(دیگر شواہد اورمتابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ منقطع ہے)
۲۲۱۸- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں پندرہ صاع جو دی تا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں۔
ابو داود کہتے ہیں: عطانے اوس کو نہیں پایا ہے اور وہ بدری صحابی ہیں ان کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا ، لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے، اور لوگوں نے اسے اوزاعی سے اوزاعی نے عطاء سے روایت کیا اس میں ’’عَنْ أَوْسٍ‘‘ کے بجائے ’’أَوْسًا‘‘ ہے۔


2219- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَنَّ جَمِيلَةَ كَانَتْ تَحْتَ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ ، وَكَانَ رَجُلا بِهِ لَمَمٌ، فَكَانَ إِذَا اشْتَدَّ لَمَمُهُ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ كَفَّارَةَ الظِّهَارِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
۲۲۱۹- ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ جمیلہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، اور وہ عورتوں کے دیوانے تھے جب ان کی دیوانگی بڑھ جاتی تو وہ اپنی عورت سے ظہار کر لیتے ، اللہ تعالی نے انہیں کے متعلق ظہار کے کفارے کا حکم نازل فرمایا۔


2220- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
۲۲۲۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔


2221- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ رَجُلا ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: < مَاحَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ > قَالَ: رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ: < فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ >۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، ن/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷)، ق/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
(دیگرشواہد اورمتابعات سے تقویت پاکر روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے)
۲۲۲۱- عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ ، اس نے کہا: چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ پھرتم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کردو‘‘۔


2222- حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ رَجُلا ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ فَرَأَى بَرِيقَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
(سابقہ روایت دیکھئے)
۲۲۲۲- عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا ، پھر اس نے چاندنی میں اس کی پنڈلی کی چمک دیکھی ، تو اس سے صحبت کر بیٹھا ،پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا۔


2223- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ابْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ السَّاقَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۳- اس سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا اسی طرح روایت ہے ، لیکن اس میں پنڈلی کا ذکر نہیں ہے۔


2224- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ أَنَّ عَبْدَالْعَزِيزِ بْنَ الْمُخْتَارِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنِي مُحَدِّثٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِنَحْوِ حَدِيثِ سُفْيَانَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۴- اس سند سے بھی عکرمہ سے سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۲۲۱)کی طرح روایت ہے۔


2225- قَالَ أَبو دَاود: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عِيسَى يُحَدِّثُ بِهِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ (قَالَ عَنْ عِكْرِمَةَ).
(قَالَ أَبو دَاود) كَتَبَ إِلَيَّ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۵- ابوداود کہتے ہیں:میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں:ہم سے معتمرنے بیان کیا وہ کہتے ہیں : میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسی نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن أبانی سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب فِي الْخُلْعِ
۱۸-باب: خلع کا بیان​


2226- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ >۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۱(۱۱۸۷)، ق/الطلاق ۲۱ (۲۰۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۷۷، ۲۸۳)، دي/الطلاق ۶ (۲۳۱۶) (صحیح)
۲۲۲۶- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ''۔


2227- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ هَذِهِ > فَقَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ قَالَ: < مَا شَأْنُكِ؟ > قَالَتْ: لا أَنَا وَلا ثَابِتُ ابْنُ قَيْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ > وَذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ، وَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ: < خُذْ مِنْهَا > فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ (هِيَ) فِي أَهْلِهَا۔
* تخريج: ن/الطلاق ۳۴ (۳۴۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۹۲)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۱۱(۳۱)، حم (۶/۴۳۴)، دي/الطلاق ۷ (۲۳۱۷) (صحیح)
۲۲۲۷- حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، ایک بار کیا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ فجر پڑھنے کے لئے نکلے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے پر پایا، آپ ﷺ نے پوچھا: ''کون ہے؟''، بولیں: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا بات ہے؟''، وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس کے متعلق بولیں کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا، پھر جب ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں جنہیں اللہ نے چاہا ذکر کی ہیں''، حبیبہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے (مہر وغیرہ) دیا تھا وہ سب میرے پاس ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے ثابت بن قیس سے کہا: ''اس (مال) میں سے لے لو''، تو انہوں نے اس میں سے لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھی رہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہی اسلام میں پہلا خلع تھا ،خلع سے نکاح منسوخ ہوجاتا ہے، خلع کی عدت ایک حیض ہے، بعض علماء کے نزدیک خلع سے ایک طلاق پڑجاتی ہے، اس لئے ان لوگوں کے نزدیک اس کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے ، یعنی تین حیض ہے ، پہلا قول راجح ہے۔


2228- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُوعَمْرٍو السَّدُوسِيُّ الْمَدِينِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ كَانَتْ عِنْدَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ فَضَرَبَهَا فَكَسَرَ بَعْضَهَا، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ الصُّبْحِ (فَاشْتَكَتْهُ إِلَيْهِ) فَدَعَا النَّبِيُّ ﷺ ثَابِتًا فَقَالَ: < خُذْ بَعْضَ مَالِهَا وَفَارِقْهَا > فَقَالَ: وَيَصْلُحُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < نَعَمْ > قَالَ: (فَإِنِّي) أَصْدَقْتُهَا حَدِيقَتَيْنِ وَهُمَا بِيَدِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < خُذْهُمَا وَفَارِقْهَا > فَفَعَلَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰۳) (صحیح)
۲۲۲۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان کو ان کے شوہر نے اتنا مارا کہ کوئی عضو ٹوٹ گیا، وہ فجر کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور آپ سے ان کی شکایت کی تو نبی اکرم ﷺ نے ثابت کو بلوایا، اور کہا کہ تم اس سے کچھ مال لے کر اس سے الگ ہو جائو ، ثابت نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ایسا کرنا درست ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں'' ، وہ بولے ، میں نے اسے دو باغ مہر میں دیئے ہیں یہ ابھی بھی اس کے پاس موجود ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''انہیں لے لو اور اس سے جدا ہو جائو ''، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔


2229- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ عِدَّتَهَا حَيْضَةً.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلا۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۰ (۱۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸۲) (صحیح)
۲۲۲۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع کر لیا تونبی اکرم ﷺ نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے عمرو بن مسلم سے عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے مر سلا ًروایت کیا ۔


2230- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۹۵) (صحیح)
۲۲۳۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ خلع کرا نے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب فِي الْمَمْلُوكَةِ تُعْتَقُ وَهِيَ تَحْتَ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ
۱۹-باب: آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان​


2231 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ مُغِيثًا كَانَ عَبْدًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْفَعْ (لِي) إِلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يَا بَرِيرَةُ اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّهُ زَوْجُكِ وَأَبُو وَلَدِكِ > فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! (أَ) تَأْمُرُنِي بِذَلِكَ ؟ قَالَ: < لا، إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ > فَكَانَ دُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى خَدِّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْعَبَّاسِ: <أَلا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَبُغْضِهَا إِيَّاهُ >۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۲)، ۱۶ (۵۲۸۳)، ن/ آداب القضاء ۲۷ (۵۴۱۹) ق/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۸)، وقد أخرجہ: ت/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، حم (۱/۲۱۵)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۸) (صحیح)
۲۲۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس سے میری سفارش کر دیجئے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''بر یرہ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے'' ، کہنے لگیں : اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں'' ، مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ''کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفرت سے تعجب نہیں ہو رہا ہے؟''۔


2232- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُسَمَّى مُغِيثًا، فَخَيَّرَهَا -يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ - وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۱، ۳۶۱) (صحیح)
۲۲۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیثرضی اللہ عنہ تھا، تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں ( مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور ( نہ رہنے کی صورت میں ) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔


2233- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ، قَالَتْ: كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا۔
* تخريج: م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، ت/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، والبیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، والوصایا ا۷ (۲۱۲۴)، والولاء ۱ (۲۱۲۵)، ن/الزکاۃ ۹۹ (۲۶۱۵)، والطلاق ۲۹ (۳۴۷۷)، ۳۰ (۳۴۸۰)، ۳۱ (۳۴۸۳، ۳۴۸۴)، والبیوع ۷۸ (۴۶۴۶، ۷۴۶۴)، ق/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۴)، والأحکام ۳ (۲۳۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۷۰)، وقد أخرجہ: خ/العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، والھبۃ ۷ (۲۵۸۷)، والنکاح ۱۸ (۵۰۹۷)، والطلاق ۱۴ (۵۲۷۹)، ۱۷ (۵۲۸۴)، والأطعمۃ ۳۱ (۵۰۳۰)، والأیمان ۸ (۶۷۱۷)، والفرائض ۲۲ (۶۷۵۱)، ۲۳ (۶۷۵۴)، ط/الطلاق ۱۰(۲۵)، حم (۶/۴۶، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۷۲، ۱۷۵، ۱۷۸، ۱۹۱،۲۰۷)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۷) (صحیح)
(لیکن ''اگروہ آزاد ہوتا تو... '' کا جملہ عروۃ کا اپنا قول ہے)
۲۲۳۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو (آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے(بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔


2234- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَالْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ بَرِيرَةَ خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا۔
* تخريج: م/ العتق ۲ (۱۵۰۴)، الزکاۃ ۵۲ (۱۰۷۵)، ن/الکبری/ الفرائض (۶۴۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۰) (صحیح)
۲۲۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ کو اختیار دیا اس کا شوہر غلام تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَنْ قَالَ كَانَ حُرًّا
۲۰-باب: بریرہ کا شوہر آزاد تھا اس کے قائلین کی دلیل​


2235- حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ حُرًّا حِينَ أُعْتِقَتْ، وَأَنَّهَا خُيِّرَتْ، فَقَالَتْ: مَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ مَعَهُ وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۹۷) (صحیح)
(لیکن ''کان حرا'' کا لفظ اسودکا اضافہ ہے ، اور یہ منکر ہے ، امام بخاری نے خود اس کو منقطع اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بیان کو صحیح قرار دیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ بریر ہ کے شوہر غلام تھے)
۲۲۳۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد ہوئی اس وقت اس کا شوہر آزاد ۱؎ تھا، اسے اختیار دیا گیا ، تو اس نے کہا کہ اگر مجھے اتنا اتنا مال بھی مل جائے تب بھی میں اس کے ساتھ رہنا پسند نہ کروں گی۔
وضاحت ۱؎ : صحیح یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے جیسا کہ متعدد صحیح روایتیں اوپر گزریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب حَتَّى مَتَى يَكُونُ لَهَا الْخِيَارُ
۲۱-باب: آزاد ہونے کے بعد لونڈی کو کب تک اختیار ہے؟​


2236 - حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ- عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، وَعَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ بَرِيرَةَ أُعْتِقَتْ وَهِيَ عِنْدَ مُغِيثٍ -عَبْدٍ لآلِ أَبِي أَحْمَدَ- فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ لَهَا: < إِنْ قَرُبَكِ فَلا خِيَارَ لَكِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۸۴، ۱۹۲۶۰) (حسن)
۲۲۳۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بر یرہ رضی اللہ عنہا آزاد کی گئی اس وقت وہ آل ابو احمد کے غلام مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دیا اور اس سے کہا: ''اگر اس نے تجھ سے صحبت کر لی تو پھر تجھے اختیار حاصل نہیں رہے گا''۔
 
Top