17- بَاب فِي الظِّهَارِ
۱۷-باب: ظہارکا بیان ۱؎
2213- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ (الْمَعْنَى) قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: الْبَيَاضِيُّ قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنِ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي، حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْئٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، قَالُوا: لا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: < أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ؟ > قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لأَمْرِ اللَّهِ فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: < حَرِّرْ رَقَبَةً >، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا، وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، قَالَ: < فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ >، قَالَ، وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلا مِنَ الصِّيَامِ؟ قَالَ: < فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا >، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ، مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ: <فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا >، فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ، وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ السَّعَةَ، وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي، أَوْ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ.
زَادَ ابْنُ الْعَلاءِ: قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ، بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۲۰ (۱۱۹۸)، ق/الطلاق ۲۵ (۲۰۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷، ۵/۴۳۶)، دي/الطلاق ۹ (۲۳۱۹) (حسن صحیح)
(ملاحظہ ہو الإرواء : ۲۰۹۱) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۱۳)
۲۴۱۳- سلمہ بن صخربیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا ، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لئے اس سے ظہار کر لیا۔
ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچا نک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظرا ٓگیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا ،پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا ، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا تو میں خود ہی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ ﷺ کو پوری بات بتائی، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سلمہ! تم نے ایسا کیا؟‘‘، میں نے جواب دیا : ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لئے تیار ہوں ،تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سُجھائے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ایک گردن آزاد کرو‘‘، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو دو مہینے کا مسلسل صیام رکھو‘‘، میں نے کہا: میں تو صیام ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ‘‘، میں نے جواب دیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا‘‘، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آکر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی ،آپ ﷺ نے مجھے یا میرے لئے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ظہار یہ ے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے
’’أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّيْ‘‘یعنی تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے،زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، شریعت اسلامیہ میں ایسا کہنے والا گنہگار ہوگا اور اس پر کفارہ لازم ہوگا، جب تک کفارہ ادانہ کردے وہ بیوی کے قریب نہیں جاسکتا۔
2214- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَتْ: ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَشْكُو إِلَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُجَادِلُنِي فِيهِ، وَيَقُولُ: < اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ > فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: {قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا} إِلَى الْفَرْضِ، فَقَالَ: < يُعْتِقُ رَقَبَةً > قَالَتْ: لا يَجِدُ، قَالَ: < فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ > قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ، قَالَ: < فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا > قَالَتْ: مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْئٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، قُلْتُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: < قَدْ أَحْسَنْتِ، اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا، وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ > قَالَ: وَالْعَرَقُ سِتُّونَ صَاعًا.
قَالَ أَبو دَاود فِي هَذَا: إِنَّهَا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْتَأْمِرَهُ.
(قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَخُو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ) ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱۰) (حسن)
۲۲۱۴- خو یلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ ﷺ مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ اللہ سے ڈر، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے‘‘ ، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی:
{قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا} (سورۃ المجادلۃ: ۱) ’’ اللہ تعالی نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی‘‘، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ ایک گردن آزاد کریں‘‘، کہنے لگیں: ان کے پاس نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں‘‘ ، کہنے لگیں : اللہ کے رسول! وہ بو ڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں‘‘، کہنے لگیں: ان کے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں۔
کہتی ہیں: اسی وقت آپ ﷺ کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آگئی ، میں نے کہا: اللہ کے رسول( آپ یہ دے دیجئے) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد بھائی (یعنی شوہر ) کے پاس لوٹ جاؤ‘‘۔
راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی۔
ابو داود کہتے ہیں: کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں۔
2215- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى (أَبُو الأَصْبَغِ الْحَرَّانِيّ)، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: وَالْعَرَقُ: مِكْتَلٌ يَسَعُ ثَلاثِينَ صَاعًا.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۲۵) (حسن)
(سابقہ حدیث دیکھئے )
۲۲۱۵- اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ عرق ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آ تی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔
2216- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: يَعْنِي بِالْعَرَقِ زِنْبِيلا يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸۶) (صحیح)
۲۲۱۶- ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ عرق سے مراد ایسی زنبیل ہے جس میں پندرہ صاع کھجوریں آجائیں۔
2217- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِتَمْرٍ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْ خَمْسَةِ عَشَرَ صَاعًا، قَالَ: < تَصَدَّقْ بِهَذَا>، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كُلْهُ أَنْتَ وَأَهْلُكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۹۰) (حسن)
۲۲۱۷- سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ ﷺ کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’انہیں صدقہ کر دو‘‘، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اور تمہارے گھروالے ہی انہیں کھا لو‘‘۔
2218- قَالَ أَبو دَاود: قَرَأْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ وَزِيرٍ الْمِصْرِيِّ (قُلْتُ لَهُ): حَدَّثَكُمْ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَائٌ، عَنْ أَوْسٍ، أَخِي عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَعْطَاهُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا.
قَالَ أَبو دَاود: وَعَطَائٌ لَمْ يُدْرِكْ أَوْسًا، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَدِيمُ الْمَوْتِ، وَالْحَدِيثُ مُرْسَلٌ (وَإِنَّمَا رَوَوْهُ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَطَائٍ، أَنَّ أَوْسًا)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳) (صحیح)
(دیگر شواہد اورمتابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ منقطع ہے)
۲۲۱۸- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں پندرہ صاع جو دی تا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں۔
ابو داود کہتے ہیں: عطانے اوس کو نہیں پایا ہے اور وہ بدری صحابی ہیں ان کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا ، لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے، اور لوگوں نے اسے اوزاعی سے اوزاعی نے عطاء سے روایت کیا اس میں
’’عَنْ أَوْسٍ‘‘ کے بجائے
’’أَوْسًا‘‘ ہے۔
2219- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَنَّ جَمِيلَةَ كَانَتْ تَحْتَ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ ، وَكَانَ رَجُلا بِهِ لَمَمٌ، فَكَانَ إِذَا اشْتَدَّ لَمَمُهُ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ كَفَّارَةَ الظِّهَارِ.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
۲۲۱۹- ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ جمیلہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ، اور وہ عورتوں کے دیوانے تھے جب ان کی دیوانگی بڑھ جاتی تو وہ اپنی عورت سے ظہار کر لیتے ، اللہ تعالی نے انہیں کے متعلق ظہار کے کفارے کا حکم نازل فرمایا۔
2220- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
۲۲۲۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
2221- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ رَجُلا ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: < مَاحَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟ > قَالَ: رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ: < فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ >۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، ن/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷)، ق/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
(دیگرشواہد اورمتابعات سے تقویت پاکر روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے)
۲۲۲۱- عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟‘‘ ، اس نے کہا: چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ پھرتم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کردو‘‘۔
2222- حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ رَجُلا ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ فَرَأَى بَرِيقَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
(سابقہ روایت دیکھئے)
۲۲۲۲- عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا ، پھر اس نے چاندنی میں اس کی پنڈلی کی چمک دیکھی ، تو اس سے صحبت کر بیٹھا ،پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
2223- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ابْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ السَّاقَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۳- اس سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا اسی طرح روایت ہے ، لیکن اس میں پنڈلی کا ذکر نہیں ہے۔
2224- حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ أَنَّ عَبْدَالْعَزِيزِ بْنَ الْمُخْتَارِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنِي مُحَدِّثٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِنَحْوِ حَدِيثِ سُفْيَانَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۴- اس سند سے بھی عکرمہ سے سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۲۲۱)کی طرح روایت ہے۔
2225- قَالَ أَبو دَاود: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عِيسَى يُحَدِّثُ بِهِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ (قَالَ عَنْ عِكْرِمَةَ).
(قَالَ أَبو دَاود) كَتَبَ إِلَيَّ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِمَعْنَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۲۲۲۵- ابوداود کہتے ہیں:میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں:ہم سے معتمرنے بیان کیا وہ کہتے ہیں : میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسی نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن أبانی سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔