• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَنْ قَالَ بِالْقُرْعَةِ إِذَا تَنَازَعُوا فِي الْوَلَدِ
۳۲-باب: ایک لڑ کے کے کئی دعویدار ہوں تو قرعہ ڈالنے کا بیان​


2269- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ ثَلاثَةَ نَفَرٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَوْا عَلِيًّا يَخْتَصِمُونَ إِلَيْهِ فِي وَلَدٍ، وَقَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ لاثْنَيْنِ مِنْهُمَا: طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا، فَغَلَيَا، ثُمَّ قَالَ لاثْنَيْنِ: طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا، فَغَلَيَا، ثُمَّ قَالَ لاثْنَيْنِ: طِيبَا بِالْوَلَدِ لِهَذَا، فَغَلَيَا، فَقَالَ: أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، إِنِّي مُقْرِعٌ بَيْنَكُمْ فَمَنْ قُرِعَ فَلَهُ الْوَلَدُ، وَعَلَيْهِ لِصَاحِبَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَجَعَلَهُ لِمَنْ قُرِعَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى بَدَتْ أَضْرَاسُهُ أَوْ نَوَاجِذُهُ۔
* تخريج: ن/الطلاق ۵۰ (۳۵۱۹)، ق/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۷۳) (صحیح)
۲۲۶۹- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اہل یمن میں سے تین آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکے کے لئے جھگڑتے ہوئے آئے، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو، یہ سن کر وہ دونوں بھڑ ک گئے ، پھر دو سے یہی بات کہی، وہ بھی بھڑک اٹھے، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :''تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا'' ، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا، یہ سن کر رسول اکرم ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظرآنے لگیں۔


2270- حَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِثَلاثَةٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالا: لا، حَتَّى سَأَلَهُمْ جَمِيعًا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ، قَالا: لا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ، قَالَ: فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ۔
* تخريج: ن/الطلاق ۵۰ (۳۵۱۸)، ق/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۳) (صحیح)
۲۲۷۰- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تین آدمی( ایک لڑکے کے لئے جھگڑا لے کر) آئے جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی ، تو آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا:نہیں، اس طرح آپ نے سب سے دریافت کیا ،اور سب نے نفی میں جواب دیا، چنانچہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور جس کا نام نکلا اسی کو لڑکا دے دیا، نیز اس کے ذمہ ( دونوں ساتھیوں کے لئے ) دو تہائی دیت مقرر فرمائی، رسول اللہ ﷺ کے سامنے جب اس کا تذکرہ آیا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔


2271- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، سَمِعَ الشَّعْبِيَّ، عَنِ الْخَلِيلِ أَوِ ابْنِ الْخَلِيلِ قَالَ: أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ مِنْ ثَلاثَةٍ، نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرِ الْيَمَنَ، وَلا النَّبِيَّ ﷺ وَلا قَوْلَهُ: طِيبَا بِالْوَلَدِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''الخلیل'' لین الحدیث ہیں ، ان کے نام میں بھی اختلاف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، کما تقدم)
۲۲۷۱- خلیل یا ابن خلیل کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے تین آدمیوں سے صحبت کے بعد ایک لڑ کا جنا تھا، آگے اسی طرح کی روایت ہے اس میں نہ تو انہوں نے یمن کا ذکر کیا ہے، نہ ہی نبی اکرم ﷺ کا، اور نہ ( علی رضی اللہ عنہ کے) اس قول کا کہ خوشی سے تم دونوں لڑ کے کو اسے(تیسرے کو) دے دو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب فِي وُجُوهِ النِّكَاحِ الَّتِي كَانَ يَتَنَاكَحُ بِهَا أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ
۳۳-باب: زمانہء جاہلیت والوں کے نکاحوں کا بیان​


2272- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ النِّكَاحَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَائٍ: فَكَانَ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ، يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ، فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ: كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا، وَلا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِنْ أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ يُسَمَّى نِكَاحَ الاسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ: يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ دُونَ الْعَشَرَةِ، فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ، حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا، فَتَقُولُ لَهُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ، وَقَدْ وَلَدْتُ وَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلانُ، فَتُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ مِنْهُمْ بِاسْمِهِ، فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا، وَنِكَاحٌ رَابِعٌ: يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ [فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ] لا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَائَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا، كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ يَكُنَّ عَلَمًا لِمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ، فَوَضَعَتْ [حَمْلَهَا] جُمِعُوا لَهَا، وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ، فَالْتَاطَهُ، وَدُعِيَ ابْنَهُ، لا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا ﷺ هَدَمَ نِكَاحَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ، إِلا نِكَاحَ أَهْلِ الإِسْلامِ الْيَوْمَ۔
* تخريج: خ/النکاح ۳۶ (۵۱۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۱۱) (صحیح)
۲۲۷۲- محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لئے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔
نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا ،ایسا اس لئے کیا جاتا تھا تا کہ لڑکا نجیب(عمدہ نسب کا)ہو ، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔
نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا ، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی: تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں ! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔
نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی ،یہ بد کار عورتیں ہوتیں ، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا ،جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانۂ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ
۳۴-باب: بچہ صاحبِ فراش کا ہوگا(یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہوگی بچہ اسی کو ملے گا)​


2273- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبِضَهُ فَإِنَّهُ ابْنُهُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، ابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: < الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ [وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ] وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ > .
زَادَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ: < هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ >۔
* تخريج: خ/البیوع ۳ (۲۰۵۳)، ۱۰۰ (۲۲۱۸)، الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، العتق ۸ (۲۷۴۵)، الوصایا ۴ (۲۷۴۵)، المغازي ۵۳ (۴۳۰۳)، الفرائض ۱۸ (۴۷۴۹)، ۲۸ (۶۷۶۵)، الحدود ۲۳ (۶۸۱۷)، الأحکام ۲۹ (۷۱۸۲)، م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، ن/الطلاق ۴۹ (۳۵۱۷)، ق/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۵)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۲۱ (۲۰)، حم (۶/۱۲۹، ۲۷۳)، دي/النکاح ۴۱ (۲۲۸۱) (صحیح)
۲۲۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جائوں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے ،اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے عتبہ کے ساتھ کھلی مشابہت دیکھی(اس کے باوجود)آپ ﷺ نے فرمایا: ''بچہ بستر والے کا ہے ،اور زانی کے لئے سنگساری ہے، اور سودہ ! تم اس سے پردہ کرو''۔
مسدد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں کہ'' آپ نے فرمایا: عبد! یہ تیرا بھائی ہے''۔


2274- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ فُلانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا دَعْوَةَ فِي الإِسْلامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۸، ۲۰۷) (حسن صحیح)
۲۲۷۴- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں ،زمانۂ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لئے سنگساری ہے''۔


2275- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّه عَنْه، عَنْ رَبَاحٍ قَالَ: زَوَّجَنِي أَهْلِي أَمَةً لَهُمْ رُومِيَّةً، فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ عَبْدَاللَّهِ، ثُمَّ وَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلامًا أَسْوَدَ مِثْلِي، فَسَمَّيْتُهُ عُبَيْدَاللَّهِ، ثُمَّ طَبِنَ لَهَا غُلامٌ لأَهْلِي رُومِيٌّ، يُقَالُ لَهُ يُوحَنَّهْ، فَرَاطَنَهَا بِلِسَانِهِ، فَوَلَدَتْ غُلامًا كَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا هَذَا؟ فَقَالَتْ: هَذَا لِيُوحَنَّهْ، فَرَفَعْنَا إِلَى عُثْمَانَ، أَحْسَبُهُ قَالَ مَهْدِيٌّ قَالَ: فَسَأَلَهُمَا فَاعْتَرَفَا، فَقَالَ لَهُمَا: أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ، وَأَحْسَبُهُ قَالَ: فَجَلَدَهَا وَجَلَدَهُ وَكَانَا مَمْلُوكَيْنِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۵۹، ۶۵، ۶۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''رباح کوفی مجہول ہیں)
۲۲۷۵- رباح کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے اپنی ایک رومی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا، میں نے اس سے جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح کالا لڑکا جنا جس کا نام میں نے عبداللہ رکھا، میں نے پھر جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح ایک اور کالے لڑکے کو جنم دیا جس کا نام میں نے عبیدا للہ رکھا، اس کے بعد میرے خاندان کے یوحنا نامی ایک رومی غلام نے اسے پھانس لیا اور اس نے اس سے اپنی زبان میں بات کی چنانچہ گر گٹ جیسا ( سرخ) رنگ کا بچہ اس سے پیدا ہوا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے ؟ کہنے لگی: یہ یوحنا کا بچہ ہے تو ہم نے یہ معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا، توانہوں نے ان سے باز پرس کی تو دونوں نے اعتراف کر لیا، پھر انہوں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم دونوں اس بات پر رضامند ہو کہ میں تمہارا فیصلہ اس طرح کردوں جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا؟ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ''بچہ بستر والے کا ہے''۔
راوی کا خیال ہے کہ پھر ان دونوں کو کوڑے لگائے،(سنگ سار نہیں کیا) کیونکہ وہ دونوں لونڈی و غلام تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ
۳۵-باب: بچے کی پرورش کا زیادہ حق دار کون ہے؟​


2276- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو -يَعْنِي الأَوْزَاعِيَّ- حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَائً، وَثَدْيِي لَهُ سِقَائً، وَحِجْرِي لَهُ حِوَائً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي، وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۲، ۲۰۳) (حسن)
۲۲۷۶- عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کا گھر رہا، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی ، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی ، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' جب تک تو ( دوسرا) نکاح نہیں کر لیتی اس کی تو ہی زیادہ حق دار ہے''۔


2277- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ [الْحُلْوَانِيُّ] حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ وَأَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلالِ بْنِ أُسَامَةَ أَنَّ أَبَا مَيْمُونَةَ سَلْمَى مَوْلًى مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ رَجُلَ صِدْقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَائَتْهُ امْرَأَةٌ فَارِسِيَّةٌ مَعَهَا ابْنٌ لَهَا فَادَّعَيَاهُ، وَقَدْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ -[وَ]رَطَنَتْ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ-، زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اسْتَهِمَا عَلَيْهِ، وَرَطَنَ لَهَا بِذَلِكَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا فَقَالَ: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لا أَقُولُ هَذَا، إِلا أَنِّي سَمِعْتُ امْرَأَةً جَائَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، وَقَدْ سَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، وَقَدْ نَفَعَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اسْتَهِمَا عَلَيْهِ > فَقَالَ زَوْجُهَا: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < هَذَا أَبُوكَ، وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ > فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۲۱ (۱۳۵۷)، ن/الطلاق ۵۲ (۳۵۲۶)، ق/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۴۷)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۹) (صحیح)
۲۲۷۷- ہلال بن اسا مہ سے روایت ہے کہ ابو میمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابو ہریرہ ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لئے قرعہ اندازی کرو، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے؟۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، وہ کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ ابو عنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لاکر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم دونوں اس کے لئے قرعہ اندازی کرو''، اس کا شوہر بولا: میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہ تیرا باپ ہے، اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے''، چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام شافعی کی یہی دلیل ہے، ان کے نزدیک لڑکے کو اختیار ہو گا کہ وہ جس کوچاہے اختیار کرلے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک کم سن ہے ماں کے ساتھ رہے گا، اور جب خود کھانے، پینے، پہنے اور استنجا کرنے لگے تو باپ کے ساتھ ہو جائے گا، یہ قول زیادہ قوی ہے۔


2278- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ، فَقَدِمَ بِابْنَةِ حَمْزَةَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا آخُذُهَا، أَنَا أَحَقُّ بِهَا، ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي خَالَتُهَا، وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا، ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا، فَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا، أَنَا خَرَجْتُ إِلَيْهَا، وَسَافَرْتُ، وَقَدِمْتُ بِهَا فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَالَ: < وَأَمَّا الْجَارِيَةُ فَأَقْضِي بِهَا لِجَعْفَرٍ، تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا، وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۸، ۱۱۵) (صحیح)
۲۲۷۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکہ گئے توحمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو لے آئے ، جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اسے میں لوں گا ، میں اس کا زیادہ حق دار ہوں، یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے:اس کا زیادہ حق دار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے ، وہ بھی اس کی زیادہ حق دار ہیں اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا: سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا، اور سفر کرکے اسے لے کر آیا ہوں ، اتنے میں نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں کے درجے میں ہے''۔


2279- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى بِهَذَا الْخَبَرِ، وَلَيْسَ بِتَمَامِهِ، قَالَ: وَقَضَى بِهَا لِجَعْفَرٍ، وَقَالَ: < إِنَّ خَالَتَهَا عِنْدَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۷۳، ۱۰۲۲۳) (صحیح)
(یہ روایت خود تو مرسل ہے، اس لئے پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح مانی گئی ہے)
۲۲۷۹- عبد الرحمن بن ابی لیلی سے یہی حدیث مروی ہے لیکن پوری نہیں ہے اس میں ہے کہ:'' آپ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ لڑکی جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے گی، کیونکہ ان کے نکاح میں اس کی خالہ ہے''۔


2280- حَدَّثَنَا عَبَّادُ ابْنُ مُوسَى أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئٍ وَهُبَيْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ تَبِعَتْنَا بِنْتُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمُّ، يَا عَمُّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ، فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ: دُونَكِ بِنْتَ عَمِّكِ، فَحَمَلَتْهَا، فَقَصَّ الْخَبَرَ، قَالَ: وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي، وَخَالَتُهَا تَحْتِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ ﷺ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: < الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۸، ۱۰۸، ۱۱۵) (صحیح)
۲۲۸۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مکہ سے نکلے تو ہمارے پیچھے پیچھے حمزہ کی لڑکی چچا چچا پکارتی آگئی ،علی رضی اللہ عنہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئے اور ( فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) کہا: اپنے چچا کی لڑکی کو لو، انہوں نے اسے اٹھا لیا، راوی نے پھر پو را قصہ بیان کیا اور کہا کہ: جعفررضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا :'' خالہ ماں کے درجے میں ہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب فِي عِدَّةِ الْمُطَلَّقَةِ
۳۶-باب: مطلقہ عورت کی عدت کا بیان​


2281- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّهَا طُلِّقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ طُلِّقَتْ أَسْمَاءُ بِالْعِدَّةِ لِلطَّلاقِ، فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۷۸) (حسن)
۲۲۸۱- اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں انہیں طلاق دے دی گئی، اس وقت مطلقہ کی کوئی عدت نہیں تھی تو اللہ تعالی نے طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا چنانچہ یہی پہلی خاتون ہیں جن کے متعلق مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب فِي نَسْخِ مَا اسْتَثْنَى بِهِ مِنْ عِدَّةِ الْمُطَلَّقَاتِ
۳۷-باب: مطلقہ کی عدت والی آیت کے حکم سے مستثنٰی عورتوں کا بیان​


2282- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ}، وَقَالَ: {وَاللائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ} فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: { وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا}۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۱۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۳) (حسن)
۲۲۸۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : { وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ} ۱؎ اور فرمایا:{ وَاللائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ} ۲؎ تو یہ عورتیں پہلی آیت کے حکم سے نکال لی گئیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا: { وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا} ۳؎ اس آیت میں مذکور عورتوں کو بھی پہلی آیت کے حکم سے نکال دیا گیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر تک روکے رکھیں'' (سورۃ البقرۃ:۲۲۸)
وضاحت ۲؎ : ''اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے نا امید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے'' (سورۃ ا لطلاق:۴)
وضاحت ۳؎ : ''اگر تم انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو انہیں کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں'' (سورۃ الاحزاب:۴۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب فِي الْمُرَاجَعَةِ
۳۸-باب: رجعت (طلاق واپس لے لینے) کا بیان​


2283 - حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا۔
* تخريج: ن/الطلاق ۷۶ (۳۵۹۰)، ق/الطلاق ۱ (۲۰۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۳)، وقد أخرجہ: دي/الطلاق ۲ (۲۳۱۰) (صحیح)
۲۲۸۳- عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب فِي نَفَقَةِ الْمَبْتُوتَةِ
۳۹-باب: تین طلاق دی ہوئی عورت کے نفقہ کا بیان​


2284- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ -مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَتَسَخَّطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْئٍ، فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا: < لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ >، وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي، اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ، وَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي >، قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لا مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ >، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: <انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ > فَنَكَحْتُهُ، فَجَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ خَيْرًا [كَثِيرًا] وَاغْتَبَطْتُ [بِهِ]۔
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، ن/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، الطلاق ۷۳ (۳۵۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۸)، وقد أخرجہ: ت/النکاح ۳۷ (۱۱۳۵)، ق/النکاح ۱۰ (۱۸۶۹) الطلاق ۴ (۲۰۲۴)، ۹ (۲۰۳۲)، ۱۰ (۲۰۳۵)، ط/الطلاق ۲۳ (۶۷)، حم (۶/ ۴۱۲، ۴۱۳، ۴۱۴ ، ۴۱۵)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۳) (صحیح)
۲۲۸۴- ابو سلمہ بن عبدالرحمن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابو عمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺ نے فاطمہ سے فرمایا: ''اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے ''، پھر آپ ﷺ نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ ایک ایسی عورت ہے کہ اس کے پاس میرے صحابہ کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے، لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذارو کیونکہ وہ نا بینا ہیں، پردے کی دقت نہ ہوگی، تم اپنے کپڑے اتار سکو گی، اور جب عدت مکمل ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا''۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب عدت گزر گئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم رضی اللہ عنہما کے پیغام کا ذکر کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ''رہے ابو جہم تو وہ کندھے سے لاٹھی ہی نہیں اتارتے (یعنی بہت زدو کوب کرنے والے شخص ہیں) اور جہاں تک معاویہ کا سوال ہے تو وہ کنگال ہیں، ان کے پاس مال نہیں ہے ۲؎ ، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کرلو''، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں آئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کرلو، چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کرلیا تو اللہ تعالی نے اس میں اس قدر بھلائی رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔
وضاحت ۱؎ : بعض روایتوں میں ہے''انہیں تین طلاق دی'' اور بعض میں ہے ''انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی'' اور بعض میں ہے ''انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی'' ان روایات میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ انہیں اس سے پہلے دوطلاق دے چکے تھے اور اس بار تیسری طلاق دی، تو جس نے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین طلاق میں سے آخری طلاق دی یا وہ طلاق دی جو باقی رہ گئی تھی تو وہ اصل صورت حال کے مطابق ہے اور جس نے روایت کی ہے کہ طلاق بتہ دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ ایسی طلاق دی جس سے وہ مبتوتہ ہوگی اور جس نے روایت کی ہے کہ تین طلاق دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ تین میں جو کمی رہ گئی تھی اسے پورا کردیا۔
وضاحت ۲؎ : صلاح ومشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا درست ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔


2285- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ حَدَّثَتْهُ أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا ثَلاثًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ فِيهِ، وَأَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَنَفَرًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ أَتَوُا النَّبِيَّ ﷺ ، فَقَالُوا: يَانَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا، وَإِنَّهُ تَرَكَ لَهَا نَفَقَةً يَسِيرَةً، فَقَالَ: < لا نَفَقَةَ لَهَا > وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۳۸) (صحیح)
۲۲۸۵- یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے مجھ سے بیان کیا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور بنی مخزوم کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! ابو حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی ہیں، اور اسے معمولی نفقہ(خرچ)دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' اس کے لئے نفقہ نہیں ہے'' ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، یہ مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ تین طلاق دی ہوئی عورت کے لئے نہ نفقہ ہے، اور نہ سکنی (رہائش)، نفقہ وسکنی رجعی طلاق میں ہے، اس امید میں کہ شاید شوہر کے دل کے اندر رجوع کی بات پیدا ہو جائے، اور رجوع کرلے۔


2286- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو ابْنَ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلاثًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَخَبَرَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَال: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ وَلا مَسْكَنٌ >، قَالَ فِيهِ: وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ لا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۲۸۴، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
۲۲۸۶- ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں ،پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:'' نہ تو اس کے لئے نفقہ ہے اور نہ رہائش ''، نیز نبی اکرم ﷺ نے اسے یہ خبر بھیجی کہ تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مجھ سے پوچھے بغیر شادی نہ کرلینا۔


2287- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، قَالَ فِيهِ: < وَلا تُفَوِّتِينِي بِنَفْسِكِ >.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الشَّعْبِيُّ وَالْبَهِيُّ وَعَطَائٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَاصِمٍ، وَأَبُو بَكْرِ ابْنِ أَبِي الْجَهْمِ، كُلُّهُمْ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلاثًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
۲۲۸۷- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں قبیلہ بنی مخروم کے ایک شخص کے نکاح میں تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے مثل حدیث بیان کی اس میں''وَلا تُفَوِّتِينِي بِنَفْسِكِ''ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:اسی طرح اسے شعبی اوربہی نے اور عطاء نے بواسطہ عبدالرحمن بن عاصم اور ابو بکر بن جہم اورسبھوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ'' انہیں ان کے شوہر نے تین طلاق دی'' (نہ کہ طلاق بتہ)۔


2288- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ نَفَقَةً وَلا سُكْنَى۔
* تخريج: م/الطلاق ۶(۱۴۸۰)، ت/الطلاق ۵ (۱۱۸۰)، ن/الطلاق ۷۲ (۳۵۸۱)، ق/الطلاق ۱۰ (۲۰۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۵)، وقد أخرجہ: دی/الطلاق ۱۰ (۳۲۲۰) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۹۱) (صحیح)
۲۲۸۸- فا طمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے نہ تو انہیں نفقہ دلایا، اور نہ ہی رہائش دلائی۔


2289- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَأَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى، فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا، قَالَ عُرْوَةُ: وَأَنْكَرَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، كُلُّهُمْ عَنِ الزُّهْرِيِّ.
قَالَ أَبودَاود: وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَاسْمُ أَبِي حَمْزَةَ دِينَارٌ، وَهُوَ مَوْلَى زِيَادٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
۲۲۸۹- ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ وہ ابوحفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے سے گھر نکلنے کے متعلق آپ ﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا ۱؎ ۔
مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا، عروہ کہتے ہیں: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی بات کا انکار کیا ۔
وضاحت ۱؎ : مطلقہ کا عدت گزارنے کے لئے گھر سے نکل کر کسی اور جگہ رہنا درست نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی سخت ضرورت لاحق ہوجائے مثلا کرائے کا مکان ہو، اور کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو، یا مکان گر پڑے، یا مالک مکان جبرا نکال دے، یا علاج ومعالجہ کی ضرورت ہو، یا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو۔


2290- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، قَالَ: أَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَى فَاطِمَةَ فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَمَّرَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ -يَعْنِي عَلَى بَعْضِ الْيَمَنِ- فَخَرَجَ مَعَهُ زَوْجُهَا، فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ لَهَا، وَأَمَرَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالْحَارِثَ ابْنَ هِشَامٍ أَنْ يُنْفِقَا عَلَيْهَا، فَقَالا: وَاللَّهِ مَا لَهَا نَفَقَةٌ إِلا أَنْ تَكُونَ حَامِلا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: < لا نَفَقَةَ لَكِ إِلا أَنْ تَكُونِي حَامِلا > وَاسْتَأْذَنَتْهُ فِي الانْتِقَالِ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ> وَكَانَ أَعْمَى، تَضَعُ ثِيَابَهَا عِنْدَهُ وَلا يُبْصِرُهَا، فَلَمْ تَزَلْ هُنَاكَ حَتَّى مَضَتْ عِدَّتُهَا، فَأَنْكَحَهَا النَّبِيُّ ﷺ أُسَامَةَ، فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: لَمْ نَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلا مِنِ امْرَأَةٍ، فَسَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ حِينَ بَلَغَهَا ذَلِكَ: بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} حَتَّى: {لاتَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} قَالَتْ: فَأَيُّ أَمْرٍ يُحْدِثُ بَعْدَ الثَّلاثِ؟
قَالَ أَبودَاود: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَأَمَّا الزُّبَيْدِيُّ فَرَوَى الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا: حَدِيثَ عُبَيْدِاللَّهِ بِمَعْنَى مَعْمَرٍ، وَحَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ بِمَعْنَى عُقَيْلٍ، وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ حَدَّثَهُ بِمَعْنًى دَلَّ عَلَى خَبَرِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ حِينَ قَالَ: فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ۔
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، ن/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، الطلاق ۷۳ (۳۵۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱۴) (صحیح)
۲۲۹۰- عبیدا للہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ مروان نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو بلوایا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور نبی اکرم ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی، اورعیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لئے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے: اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حق دار ہو سکتی ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ( اور آپ سے دریافت کیا) آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے لئے نفقہ صرف اس صورت میں ہے کہ تم حاملہ ہو''، پھر فاطمہ نے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی، پھر فاطمہ نے کہا : اللہ کے رسول ! میں کہاں جائوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر رہو ، وہ نابینا ہیں، سو وہ ان کے پاس کپڑے بھی اتارتی تھیں تو وہ اسے دیکھ نہیں پاتے تھے ''، چنانچہ وہ وہیں رہیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہوگئی پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح اسامہ رضی اللہ عنہ سے کردیا۔
توقبیصہ ۱؎ مروان کے پاس واپس آئے اور انہیں اس کی خبردی تو مروان نے کہا :ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت کے منہ سے سنی ہے ہم تو اسی مضبوط اور صحیح بات کو اپنائیں گے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے، فا طمہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوا تو کہنے لگیں:میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی، اللہ کا فرمان ہے{ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} {لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} ۲؎ تک '' یعنی خاوند کا دل مائل ہو جائے اور رجوع کرلے'' فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تین طلاق کے بعد کیا نئی بات ہو گی؟ ۳؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے یونس نے زہری سے روایت کیا ہے، رہے زبیدی تو انہوں نے دونوں حدیثوں کو ملا کر ایک ساتھ روایت کیا ہے یعنی عبید اللہ کی حدیث کو معمر کی حدیث کے ہم معنی اور ابو سلمہ کی حدیث کو عقیل کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے ۔
اور اسے محمد بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ قبیصہ بن ذویب نے ان سے اس معنی کی حدیث بیان کی ہے جس میں عبید اللہ بن عبد اللہ کی حدیث پر دلالت ہے جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ قبیصہ مروان کے پاس لوٹے اور انہیں اس واقعہ کی خبر دی۔
وضاحت ۱؎ : جیسا کہ آگے اس کی تصریح آر ہی ہے۔
وضاحت ۲؎ : انہیں ان کی عدت میں یعنی طہر کے شروع میں طلاق دو، اور مدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے، اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔
وضاحت ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے نہ نکلنا یانہ نکالنا صرف پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ
۴۰-باب: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا پر نکیر کرنے والوں کا بیان​


2291- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ مَعَ الأَسْوَدِ، فَقَالَ: أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه، قَالَ: مَا كُنَّا لِنَدَعَ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا ﷺ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لا نَدْرِي أَحَفِظَتْ [ذَلِكَ] أَمْ لا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۵، ۱۸۰۲۵) (صحیح موقوف)
۲۲۹۱- ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے کہا: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے، پتا نہیں اسے یہ ( اصل بات) یاد بھی ہے یا بھول گئی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کتاب اللہ سے مراد سورہ طلاق کی آیت { لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا}، اور سنت سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس میں ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا کہ مطلقہ ثلاثہ کو نفقہ اور سکنی ملے گا، لیکن یہ روایت محفوظ نہیں ہے۔


2292 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَشَدَّ الْعَيْبِ -يَعْنِي حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ- وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ، فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۴۱ (۵۳۲۶)تعلیقاً، ق/الطلاق ۸ (۲۰۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۱۸) (حسن)
۲۲۹۲- عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں: چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے انہیں(مکان بدلنے کی) رخصت دی تھی۔


2293- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ قِيلَ لِعَائِشَةَ: أَلَمْ تَرَيْ إِلَى قَوْلِ فَاطِمَةَ؟ قَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لاخَيْرَ لَهَا فِي ذَلِكَ ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۰) (صحیح)
۲۲۹۳- عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے فاطمہ (بنت قیس) رضی اللہ عنہا کے بیان پر اظہار خیال کرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے کہا اس میں اس کے لئے کوئی فائدہ نہیں ۔


2294- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ يَسَارٍ، فِي خُرُوجِ فَاطِمَةَ قَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ سُوءِ الْخُلُقِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۳) (ضعیف)
(یہ روایت مرسل ہے ، سلیمان بن یسار تابعی ہیں)
۲۲۹۴- سلیمان بن یسار سے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلنے کا قصہ مروی ہے وہ کہتے ہیں: یہ بد خلقی کی بنا پر ہوا تھا ۔


2295- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَسُلَيْمَانَ ابْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَتَّةَ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فَقَالَتْ لَهُ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدِ الْمَرْأَةَ إِلَى بَيْتِهَا، فَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: إِنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ غَلَبَنِي، وَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ: أَوَ مَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لا يَضُرُّكَ أَنْ لاتَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنْ كَانَ بِكِ الشَّرُّ فَحَسْبُكِ مَا كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ۔
* تخريج: خ/الطلاق (۵۳۲۱)، م/الطلاق ۶ (۱۴۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۷، ۱۷۵۶۰، ۱۸۰۲۲، ۱۸۰۳۵)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۲۲ (۶۳) (صحیح)
۲۲۹۵- یحییٰ بن سعیدقاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان دونوں کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمن بن حکم کی بیٹی کو تین طلاق دے دی تو عبدالرحمن نے انہیں اس گھر سے منتقل کرلیا تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت مدینہ کے امیر مروان بن حکم کو کہلا بھیجا کہ اللہ کا خوف کھائو اور عورت کو اس کے گھر واپس بھیج دو، بروایت سلیمان: مروان نے کہا: عبدالرحمن مجھ پر غالب آگئے یعنی انہوں نے میری بات نہیں مانی، اور بروایت قاسم : کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا قصہ معلوم نہیں؟ تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: فاطمہ والی حدیث نہ بیان کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے، تو مروان نے کہا: اگر آپ نزدیک وہاں برائی کا اندیشہ تھا تو سمجھ لو یہاں ان دونوں(عمر ہ اور ان کے شوہر یحییٰ) کے درمیان بھی اسی برائی کا اندیشہ ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عائشہ رضی اللہ عنہا نے مروان سے یہ بات اس واسطے کہی کہ فاطمہ کی حدیث میں بغیر سبب کے مطلقہ کو اس کے گھر سے باہر منتقل کرنے کے جواز کی دلیل نہیں ہے، فاطمہ کی منتقلی کی وجہ یہ تھی کہ ان کا مکان ان کے لئے وحشت ناک بن گیا تھا، یا یہ کہ ان کی زبان درازی سے ان کے سسرالی رشتہ کے لوگ محفوظ نہ تھے، اس پر مروان نے کہا کہ اگر آپ کے نزدیک فاطمہ کے گھر سے منتقل ہونے کا سبب اس کے اورا س کے سسرالی رشتہ داروں کے مابین واقع اختلافات ہیں تو یہ چیز یہاں اس واقعہ میں موجود ہے، مروان نے فاطمہ کی حدیث کو ابتداء میں رد کر دیا تھا ، پھر گھر سے منتقلی طلاق والے گھر سے نکلنے کے جواز کے سبب کی موجودگی سے مشروط کردیا۔


2296- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ [عَبْدِاللَّهِ بْنِ] يُونُسَں حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدُفِعْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقُلْتُ: فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ طُلِّقَتْ فَخَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا، فَقَالَ سَعِيدٌ: تِلْكَ امْرَأَةٌ فَتَنَتِ النَّاسَ؛ إِنَّهَا كَانَتْ لَسِنَةً فَوُضِعَتْ عَلَى يَدَيِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۱) (صحیح)
(لیکن ابن المسیب کا یہ بیان خلاف واقعہ ، یعنی ، فاطمہ کی منتقلی تین طلاق کے سبب تھی)
۲۲۹۶- میمون بن مہران کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو سعید بن مسیب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو طلاق دی گئی تو وہ اپنے گھر سے چلی گئی ( ایسا کیوں ہوا؟) تو سعید نے جواب دیا: اس عورت نے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ وہ زبان دراز تھی لہٰذا اسے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس رکھا گیا جو نابینا تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب فِي الْمَبْتُوتَةِ تَخْرُجُ بِالنَّهَارِ
۴۱-باب: تین طلاق دی ہوئی عورت دن میں باہر نکل سکتی ہے​


2297- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي ثَلاثًا، فَخَرَجَتْ تَجُدُّ نَخْلا لَهَا فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَنَهَاهَا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا: < اخْرُجِي فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ [أَنْ] تَصَدَّقِي مِنْهُ أَوْ تَفْعَلِي خَيْرًا >۔
* تخريج: م/الطلاق ۷ (۱۴۸۱)، ن/الطلاق ۷۱ (۳۵۸۰)، ق/الطلاق ۹ (۲۰۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۱)، دي/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۴) (صحیح)
۲۲۹۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چنانچہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا: '' جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو، ہو سکتا ہے تم اس میں سے صد قہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو '' ۔
 
Top