• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ الطَّلاقِ
۳-باب: طلاق کے مکروہ ہونے کا بیان​


2177- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُعَرِّفٌ، عَنْ مُحَارِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا أَحَلَّ اللَّهُ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلاقِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۷۴۱۱، ۱۹۲۸۱) (ضعیف)
(مرسل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے)
۲۱۷۷- محارب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں'' ۔


2178- حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ عَنْ مُحَارِبِ ابْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < أَبْغَضُ الْحَلالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلاقُ >۔
* تخريج: ق/الطلاق ۱ (۲۰۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ''کثیربن عبید'' لین الحدیث ہیں، اس حدیث کا مرسل ہو ناہی صحیح ہے مرسل کے رواۃ عدد میں زیادہ اور اوثق ہیں اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے )
۲۱۷۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا :'' اللہ تعالی کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیا دہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي طَلاقِ السُّنَّةِ
۴-باب: سنت کے مطا بق طلاق کا بیان​


2179- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ > ۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الطلاق (۴۹۰۸)، والطلاق ۲ (۵۲۵۲)، ۳ (۵۲۵۸)، ۴۵ (۵۳۳۳)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، ن/الطلاق ۱ (۳۴۱۹)، ۵ (۳۴۲۹)، ۷۶ (۳۵۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۶)، وقد أخرجہ: ت/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، ق/الطلاق ۲ (۲۰۱۹)، ط/الطلاق ۲۰(۵۲)، حم (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹، ۱۲۴)، دي/الطلاق ۱ (۲۳۰۸) (صحیح)
۲۱۷۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے، پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حیض آجائے، پھر پاک ہوجائے، پھر اس کے بعد اگر چاہے تو رکھے، ورنہ چھونے سے پہلے طلاق دے دے، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں حکم دیا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ اُس طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ کی ہو تاکہ وہ طہر (یا حیض) عدت کے شمار کئے جاسکیں، حیض سمیت تین طہر گزر جائیں تو اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔


2180- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً، بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۴۵ (۵۳۳۲)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۷۷) (صحیح)
۲۱۸۰- نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی ایک عورت کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی ، آگے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت ہے۔


2181- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طْلَحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ ﷺ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ، أَوْ وَهِيَ حَامِلٌ >۔
* تخريج: م/ الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، ت/الطلاق ۱ (۱۱۷۶)، ن/الطلاق ۳ (۳۴۲۶)، ق/الطلاق ۳ (۲۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۶، ۵۸) (صحیح)
۲۱۸۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اسے حکم دو کہ وہ رجوع کرلے پھر جب وہ پاک ہو جائے یا حاملہ ہوتو اسے طلاق دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر حاملہ ہوگی تو اس کی عدت وضع حمل سے ختم ہوگی ورنہ تین حیض سے ختم ہو جائے گی۔


2182- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، ثُمَّ قَالَ: < مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَذَلِكَ الطَّلاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: خ/الأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۹۶) (صحیح)
۲۱۸۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا ، تو رسول اللہ ﷺ غصہ ہوگئے پھر فرمایا: ''اسے حکم دوکہ اس سے رجوع کرلے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر چاہئے کہ وہ پاکی کی حالت میں اسے چھوئے بغیر طلاق دے ، یہی عدت کا طلاق ہے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے''۔


2183- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ: كَمْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ؟ فَقَالَ: وَاحِدَةً۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۱۷۹، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۳) (صحیح)
۲۱۸۳- ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی ؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔


2184- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: أَتَعْرِفُ (عَبْدَاللَّهِ) بْنَ عُمَرَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَهُ فَقَالَ: < مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا فِي قُبُلِ عِدَّتِهَا>، قَالَ: قُلْتُ: فَيَعْتَدُّ بِهَا؟ قَالَ: فَمَهْ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ؟!.
* تخريج: انظر حدیث رقم : ۲۱۷۹، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۳) (صحیح)
۲۱۸۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے ( تو اس کا کیا حکم ہے؟) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :'' اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے''۔
میں نے پوچھا:کیا اس طلاق کا شمار ہوگا؟ انہوں نے کہا:تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہوجائے یا دیوانہ ہوجائے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہوجانے یا دیوانہ ہوجانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ ﷺ کا''مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا''کہنا بے معنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ ابوداود کی اگلی حدیث کے الفاظ ہیں ''وَلَمْ يَرَهَاْ شَيْئًا''۔


2185- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عُرْوَةَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ، قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا؟ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَرَدَّهَا عَلَيَّ وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا، وَقَالَ: < إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ > قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَرَأَ النَّبِيُّ ﷺ : {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ} فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ وَأَنَسُ بْنُ سِيرِينَ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ وَمَنْصُورٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، مَعْنَاهُمْ كُلُّهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ وَنَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ، وَرُوِيَ عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِيِّ عَنِ الْحَسَنِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَالزُّهْرِيِّ ، وَالأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلافِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ۔
* تخريج: م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، ن/الطلاق ۱ (۳۴۲۱)، (ولیس عندہما قولہ ''لَمْ یَرَہَا شَیْئاً'') (تحفۃ الأشراف: ۷۴۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۱، ۸۰، ۸۱، ۱۳۹) (صحیح)
۲۱۸۵- ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عروہ کے غلام عبد الرحمن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو آپ ﷺ نے اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا اور فرمایا : ''جب وہ پاک ہو جائے تو وہ طلاق دے یا اسے روک لے'' ، ابن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں:اور نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی { يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ} ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یونس بن جبیر ، انس بن سیرین ، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، ابوالزبیر اور منصور نے ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے ، سب کا مفہوم یہی ہے کہ ''رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اگر چاہیں تو طلاق دیدیں اور چاہیں تو باقی رکھیں''۔
اسی طرح اسے محمد بن عبدالرحمن نے سالم سے، اور سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے البتہ زہری کی جو روایت سالم اور نافع کے طریق سے ابن عمرسے مروی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرلیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے ، پھراسے حیض آئے اور پھر پاک ہو، پھراگر چاہیں تو طلاق دیں اور اگر چاہیں تورکھے رہیں، اور عطاء خراسانی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابن عمر سے نافع اور زہری کی طرح روایت کی ہے، اور یہ تمام حدیثیں ابوالزبیر کی بیان کردہ روایت کے مخالف ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو تم انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو'' (سورۃ الطلاق: ۱)
وضاحت ۲؎ : یعنی کسی کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے کہ ''اور اُس طلاق کو شمار نہیں کیا''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَابٌ الرَّجُلُ يُرَاجِعُ وَلا يُشْهِدُ
۵-باب: آدمی طلاق سے رجوع کرلے اور گواہ نہ بنائے اس کے حکم کا بیان​


2186- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ سُلَيْمَانَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلاقِهَا وَلا عَلَى رَجْعَتِهَا، فَقَالَ: طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلاقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا، وَلا تَعُدْ۔
* تخريج: ق/الطلاق ۵ (۲۰۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶۰) (صحیح)
۲۱۸۶- مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دے دے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کرلے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لئے کسی کو گواہ نہ بنا ئے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لئے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي سُنَّةِ طَلاقِ الْعَبْدِ
۶-باب: غلام کی طلاق میں سنت کا بیان​


2187- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ مُعَتِّبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ اسْتَفْتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فِي مَمْلُوكٍ كَانَتْ تَحْتَهُ مَمْلُوكَةٌ فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ عُتِقَا بَعْدَ ذَلِكَ: هَلْ يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَخْطُبَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: ن/الطلاق ۱۹ (۳۴۵۷)، ق/الطلاق ۳۲ (۲۰۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۹، ۳۳۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عمر بن معتب'' ضعیف ہیں)
۲۱۸۷- بنی نوفل کے غلام ابو حسن نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس غلام کے بارے میں فتویٰ پوچھا جس کے نکاح میں کوئی لونڈی تھی تو اس نے اسے دو طلاق دے دی اس کے بعد وہ دونوں آزاد کردیئے گئے ، تو کیا غلام کے لئے درست ہے کہ وہ اس لونڈی کو نکاح کا پیغام دے ؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں رسول اللہ ﷺ نے اسی کا فیصلہ دیا ہے۔


2188- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ بِلا إِخْبَارٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَقِيَتْ لَكَ وَاحِدَةٌ، قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ .
قَالَ أَبو دَاود: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لِمَعْمَرٍ: مَنْ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا لَقَدْ تَحَمَّلَ صَخْرَةً عَظِيمَةً!.
قَالَ أَبو دَاود: أَبُو الْحَسَنِ هَذَا رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ، رَوَى الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ أَحَادِيثَ .
قَالَ أَبودَاود: أَبُو الْحَسَنِ مَعْرُوفٌ، وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۱، ۱۸۹۳۴) (ضعیف)
(عمر بن معتب کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے)
۲۱۸۸- عثمان بن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں علی نے خبر دی ہے آگے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مذکور ہے لیکن عنعنہ کے صیغے کے ساتھ ہے نہ کہ ''أخبرنا''کے صیغے کے ساتھ، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تیرے لئے ایک طلاق باقی رہ گئی ہے ، اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے اسی کا فیصلہ فرمایا ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے پوچھا کہ یہ ابوالحسن کون ہیں؟ انہوں نے ایک بھاری چٹان اٹھالی ہے؟ ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں: ابوالحسن وہی ہیں جن سے زہری نے روایت کی ہے،زہری کہتے ہیں کہ وہ فقہاء میں سے تھے،زہری نے ابوالحسن سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
ابوداود کہتے ہیں:ابوالحسن معروف ہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس جملہ سے اس روایت میں جوکچھ ہے اس کا انکار مقصود ہے۔


2189- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُظَاهِرٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ،عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < طَلاقُ الأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ، وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ >.
قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: حَدَّثَنِي مُظَاهِرٌ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ، إِلا أَنَّهُ قَالَ: < وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ حَدِيثٌ مَجْهُولٌ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۷ (۱۱۸۲)، ق/الطلاق ۳۰ (۲۰۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۵۵)، وقد أخرجہ: دي/الطلاق ۱۷ (۲۳۴۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مظاہر'' ضعیف ہیں)
۲۱۸۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''لونڈی کی طلاق دو ہیں اور اس کے قروء دو حیض ہیں ''۔
ابو عاصم کہتے ہیں:مجھ سے مظاہر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں:مجھ سے قاسم نے انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے،لیکن اس میں ہے کہ اس کی عدت دو حیض ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ مجہول حدیث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي الطَّلاقِ قَبْلَ النِّكَاحِ
۷-باب: نکاح سے پہلے طلاق دینے کا بیان​


2190- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ ابْنُ عَبْدِالصَّمَدِ قَالا: حَدَّثَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا طَلاَقَ إِلا فِيمَا تَمْلِكُ، وَلا عِتْقَ إِلا فِيمَا تَمْلِكُ، وَلابَيْعَ إِلا فِيمَا تَمْلِكُ >، زَادَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: < وَلا وَفَاءَ نَذْرٍ إِلا فِيمَا تَمْلِكُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۶، ۸۸۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۹، ۱۹۰)، ت/الطلاق ۶ (۱۱۸۱)، ق ۱۷ (۲۰۴۷) (حسن)
۲۱۹۰- عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''طلاق صرف انہیں میں ہے جو تمہارے نکاح میں ہوں، اور آزادی صرف انہیں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور بیع بھی صرف انہیں چیزوں میں ہے جوتمہاری ملکیت میں ہوں''۔
ابن صباح کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ (تمہارے ذمہ) صرف اسی نذر کا پورا کرنا ہے جس کے تم مالک ہو۔


2191- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: < مَنْ حَلَفَ عَلَى مَعْصِيَةٍ فَلَا يَمِينَ لَهُ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى قَطِيعَةِ رَحِمٍ فَلا يَمِينَ لَهُ > ۔
* تخريج: ق/ الطلاق ۱۷ (۲۰۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۵) (حسن)
۲۱۹۱- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے:''جس نے گنا ہ کرنے کی قسم کھالی تو اس قسم کا کوئی اعتبارنہیں نیز جس نے رشتہ توڑنے کی قسم کھالی اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں''۔


2192- حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، زَادَ: < وَلا نَذْرَ إِلا فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان برقم: (۳۲۷۳) (حسن)
۲۱۹۲- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی روایت آئی ہے ، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ'' وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالی کی رضا مقصود ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي الطَّلاقِ عَلَى غَيْظٍٍ
۸-باب: غصہ کی حالت میں طلاق دینے کا بیان​


2193- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ إِيلِيَا قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَدِيِّ بْنِ عَدَيٍّ الْكِنْدِيِّ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَبَعَثَنِي إِلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَكَانَتْ قَدْ حَفِظَتْ مِنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: لا طَلاقَ وَلاعَتَاقَ فِي غِلاقٍ .
قَالَ: أَبُو دَاوُد الْغِلاقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۵۵)، وقد أخرجہ: ق/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۶)، حم (۶/۲۷۶) (حسن)
(اس کے راوی '' محمد بن عبید '' ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواۃ کی متابعت وتقویت سے یہ حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: ۲۰۴۷ ، وصحیح ابی داود: ۶؍ ۳۹۶)
۲۱۹۳- محمد بن عبید بن ابو صالح (جو ایلیا میں رہتے تھے)کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انھوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں ، وہ کہتی ہیں:میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''زبردستی کی صو رت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہوگا''۔
ابو داود کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: ''على غيظ''، ''على غضب''، ''على غلطٍ'' اور حدیث میں ''غلاق'' ''إغلاق'' جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ وغضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی ، اس لئے ''اغلاق'' کا معنی ''زبردستی ''لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي الطَّلاقِ عَلَى الهَزَل
۹-باب: ہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان​


2194- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <ثَلاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلاقُ، وَالرَّجْعَةُ >۔
* تخريج: ت/الطلاق ۹(۱۱۸۴)، ق/الطلاق ۱۳(۲۰۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۵۴) (حسن)
(شواہد اور آثار صحابہ سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ عبدالرحمن بن حبیب کو نسائی نے منکرالحدیث کہا ہے اورحافظ ابن حجرنے لین الحدیث ، ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ۱۸۲۵)
۲۱۹۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہوگا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاثِ
۱۰-باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان​


2195- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ، وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} الآيَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلاثًا، فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ}۔
* تخريج: ن/الطلاق ۵۴ (۳۵۲۹)، ۷۵ (۳۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۳) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۸۲) (حسن صحیح)
۲۱۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ تعالی کا فرمان ہے{ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ، وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} ۱؎ یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حق دار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کردیا گیا اور ارشاد ہوا {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ} (یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے)۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اوران کے لئے حلال نہیں کہ ا للہ تعالی نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں'' (سورۃ البقرۃ:۲۲۸)


2196- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ -أَبُورُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ- أُمَّ رُكَانَةَ، وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَائَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: مَا يُغْنِي عَنِّي إِلا كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ، لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ ﷺ حَمِيَّةٌ، فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَجُلَسَائِهِ: < أَتَرَوْنَ فُلانًا يُشْبِهُ مِنْهُ (كَذَا وَكَذَا، مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ، وَفُلانًا يُشْبِهُ مِنْهُ) كَذَا وَكَذَا؟>، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِعَبْدِ يَزِيدَ < طَلِّقْهَا > فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ: < رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ > قَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: < قَدْ عَلِمْتُ، رَاجِعْهَا >، وَتَلا: {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ (الْبَتَّةَ) فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ أَصَحُّ؛ لأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ، إِنَّ رُكَانَةَ إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ ﷺ وَاحِدَةً۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۵) (عندہ ''داود بن حصین'' مکان ''بعض بنی أبی رافع'' (حسن)
۲۱۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رکانہ اور اس کے بھائیوں کے والدعبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی ، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا، وہ عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئے ، یہ سن کر آپ ﷺ کو غصہ آگیا، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوالیا ، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ: ''کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی ؟''، لوگوں نے کہا: ہاں (ملتی ہے)، نبی اکرم ﷺ نے عبد یزید سے فرمایا:'' اسے طلاق دے دو''، چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی ، پھر فرمایا:'' اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجو ع کر لو'' ، عبد یزید نے کہا: اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کر لو''، اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} (سورۃ الطلاق: ۱) ( اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو) ۔
ابو داود کہتے ہیں: نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت(حدیث نمبر: ۲۲۰۶) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی ، پھر بھی نبی اکرم ﷺ نے اس سے رجوع کرا دیا ،زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ہی شمار کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث حسن ہے، اور مؤلف نے جس حدیث (نمبر: ۲۲۰۶)کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ضعیف ہے، نیز اولاد رکانہ واقعہ کے بیان میں خود مضطرب ہیں، یاد رہے کہ عہد نبوی میں ''تین طلاق '' اور''طلاقہ بتہ '' ہم معنی الفاظ تھے، عہد نبوی وعہد ِصحابہ کے بعد لوگوں نے ''طلاق بتہ''کا یہ معنی بنا دیا کہ جس میں ایک دو، تین طلاق دہندہ کی نیت کے مطابق طے کیا جائیگا (تفصیل کے لے دیکھئے تنویر الآفاق)


2197- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ} فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الأَعْرَجُ وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ وَابْنُ جُرَيْجٍ جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ ابْنِ خَالِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، كُلُّهُمْ قَالُوا فِي الطَّلاقِ الثَّلاثِ: أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذَا قَالَ <أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاثًا > بِفَمٍ وَاحِدٍ فَهِيَ وَاحِدَةٌ، وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ، هَذَا قَوْلُهُ، لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَجَعَلَهُ قَوْلَ عِكْرِمَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داودٔ (تحفۃ الأشراف: ۶۴۰۱)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ التفسیر (۱۱۶۰۲) (صحیح)
۲۱۹۷- مجاہد کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما خا موش رہے ،یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے ، پھر انہوں نے کہا:تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہوپھر آکر کہتے ہو: اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے { وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} ۱؎ اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لئے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لئے بائنہ ہوگئی ، اللہ تعالی نے فرمایا ہے {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ } (فِيْ قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ) ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو حمیدا عرج وغیرہ نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
اور اسے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
اور ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ،اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
نیز اسے اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمہارے لئے بائنہ ہو گئی جیسے اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انہوں نے ایوب سے ایوب نے عبداللہ بن کثیرسے روایت کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اور حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے( یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی ) تو وہ ایک شمار ہو گی۔
اور اسے اسما عیل بن ابرا ہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انھوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے ، وہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں دو۔


2198- قَالَ أَبو دَاود: وَصَارَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ (بْنِ عَوْفٍ) وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ وَعَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلُوا عَنِ الْبِكْرِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا ثَلاثًا، فَكُلُّهُمْ قَالُوا: لاتَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الْقِصَّةَ حِينَ جَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُمَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالا: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، ثُمَّ سَاقَ هَذَا الْخَبَرَ.
(قَالَ أَبو دَاود: وَقَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ هُوَ أَنَّ الطَّلاقَ الثَّلاثَ تَبِينُ مِنْ زَوْجِهَا، مَدْخُولا بِهَا وَغَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا، لا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ، هَذَا مِثْلُ خَبَرِ الصَّرْفِ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ، يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۴)، وقد أخرجہ: خ/المغازی ۱۰ (۳۹۹۱ تعلیقًا) (صحیح)
۲۱۹۸- ابوداود کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے با کرہ ( کنواری) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لئے اس وقت تک حلا ل نہیں ہو سکتی ، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس وا قعہ میں مو جود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر ، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے ، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس جائو میں انہیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں ، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لئے بائنہ ہو جائے گی ، چاہے وہ اس کا دخول ہوچکا ہو، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو، اور وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہو گی ، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے اس کی مثال صَرْف والی حدیث کی طرح ہے ۱؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کر لیا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس طرح وہ نقدی کو نقدی سے بیچنے کے متعلق کہتے تھے کہ اس میں ربا صرف ادھار کی صورت میں ہے نقد کی صورت میں نہیں پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے اس سے بھی انہوں نے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔


2199- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ رَجُلا يُقَالُ لَهُ أَبُو الصَّهْبَائِ كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ (قَدْ) تَتَابَعُوا فِيهَا قَالَ : أَجِيزُهُنَّ عَلَيْهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۳) (ضعیف)
(اس سند میں ''غیر واحد'' مبہم رواۃ ہیں ،مگر اس میں ''غیرمدخول بہا'' کا لفظ ہی منکرہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں)
۲۱۹۹- طائوس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابو صہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا ، تو رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو ر خلافت میں اسے ایک طلاق ما نا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا ، تو اسے رسول اللہ ﷺ ا ور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو ر خلا فت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا ، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مگر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے ۔


2200- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَائِ قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَثَلاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ۔
* تخريج: م/الطلاق ۲ (۱۴۷۲)، ن/الطلاق ۸ (۳۴۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱۴) (صحیح)
۲۲۰۰- طائوس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ائمہ حدیث اورعلما ظاہر کا اسی پر عمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِيمَا عُنِيَ بِهِ الطَّلاقُ وَالنِّيَّاتُ
۱۱-باب: اشارہ کنایہ سے طلاق دینے کا بیان اور یہ کہ احکام کا دارومدار نیتوں پر ہے​


2201- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى: فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ >۔
* تخريج: خ/بدء الوحي ۱ (۱)، الایمان ۴۱ (۵۴)، العتق ۶ (۲۵۲۹)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۸)، النکاح ۵ (۵۰۷۰)، النذور ۲۳ (۶۶۸۹)، الحیل ۱ (۶۹۵۳)، م/الإمارۃ ۴۵ (۱۹۰۷)، ت/فضائل الجھاد ۱۶ (۱۶۴۷)، ن/الطھارۃ ۶۰ (۷۵)، الطلاق ۲۴ (۳۴۶۷)، الأیمان والنذور ۱۹ (۳۸۲۵)، ق/الزھد ۲۶ (۴۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵، ۴۳) (صحیح)
۲۲۰۱- علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی تو اسی کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے مانی جائے گی ، اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لئے مانی جائے گی جس کے لئے اس نے ہجرت کی''۔


2202- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالا أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ (أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ -وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ-) قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فَسَاقَ قِصَّتَهُ فِي تَبُوكَ قَالَ: حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَأْتِي فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: لا، بَلِ اعْتَزِلْهَا فَلا تَقْرَبَنَّهَا، فَقُلْتُ لامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِي هَذَا الأَمْرِ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۲۶ (۲۷۵۷)، والجھاد ۱۰۳ (۲۹۴۷)، ۱۹۸ (۳۰۸۸)، وتفسیر سورۃ البراء ۃ ۱۴ (۴۶۷۳)، ۱۷ (۴۶۷۷)، ۱۸ (۴۶۷۷)، ۱۹ (۴۶۷۸)، والاستئذان ۲۱ (۶۲۵۵)، والأیمان والنذور ۲۴ (۶۶۹۱)، والأحکام ۵۳ (۷۲۲۵)، م/التوبۃ ۹ (۲۷۶۹)، ن/المساجد ۳۸ (۷۳۲)، والطلاق ۱۸ (۳۴۵۳)، والأیمان والنذور ۳۶(۳۸۵۴)، ۳۷ (۳۸۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۱)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر سورۃ التوبۃ (۳۱۰۱)، حم (۳/۴۵۵، ۴۵۷، ۴۵۹، ۶/۳۸۸)، دي/الصلاۃ ۱۸۴ (۱۵۶۱) (صحیح)
۲۲۰۲- عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ ﷺ کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا: کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا: تم اپنے میکے چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اللہ تعالی اس معاملہ کا فیصلہ نہ فرما دے وہیں رہنا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی انہو ں نے اپنے اس قول سے طلاق کی نیت نہیں کی تو اس سے طلاق نہیں مراد لی گئی، اگر وہ طلاق کی نیت کرتے تو طلاق واقع ہوجاتی، کنائی الفاظ سے اسی وقت طلاق واقع ہوتی ہے جب اس کی نیت کی ہو۔
 
Top