10- بَاب نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِيقَاتِ الثَّلاثِ
۱۰-باب: تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان
2195- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ، وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} الآيَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلاثًا، فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ}۔
* تخريج: ن/الطلاق ۵۴ (۳۵۲۹)، ۷۵ (۳۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۳) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۸۲) (حسن صحیح)
۲۱۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ تعالی کا فرمان ہے
{ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ، وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} ۱؎ یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حق دار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کردیا گیا اور ارشاد ہوا
{الطَّلاقُ مَرَّتَانِ} (یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے)۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اوران کے لئے حلال نہیں کہ ا للہ تعالی نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں'' (سورۃ البقرۃ:۲۲۸)
2196- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ -أَبُورُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ- أُمَّ رُكَانَةَ، وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَائَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: مَا يُغْنِي عَنِّي إِلا كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ، لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ ﷺ حَمِيَّةٌ، فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَجُلَسَائِهِ: < أَتَرَوْنَ فُلانًا يُشْبِهُ مِنْهُ (كَذَا وَكَذَا، مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ، وَفُلانًا يُشْبِهُ مِنْهُ) كَذَا وَكَذَا؟>، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِعَبْدِ يَزِيدَ < طَلِّقْهَا > فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ: < رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ > قَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: < قَدْ عَلِمْتُ، رَاجِعْهَا >، وَتَلا: {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ}.
قَالَ أَبو دَاود: وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ (الْبَتَّةَ) فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ أَصَحُّ؛ لأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ، إِنَّ رُكَانَةَ إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ ﷺ وَاحِدَةً۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶۵) (عندہ ''داود بن حصین'' مکان ''بعض بنی أبی رافع'' (حسن)
۲۱۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رکانہ اور اس کے بھائیوں کے والدعبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی ، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا، وہ عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئے ، یہ سن کر آپ ﷺ کو غصہ آگیا، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوالیا ، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ: ''کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی ؟''، لوگوں نے کہا: ہاں (ملتی ہے)، نبی اکرم ﷺ نے عبد یزید سے فرمایا:'' اسے طلاق دے دو''، چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی ، پھر فرمایا:'' اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجو ع کر لو'' ، عبد یزید نے کہا: اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کر لو''، اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی
{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} (سورۃ الطلاق: ۱) ( اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو) ۔
ابو داود کہتے ہیں: نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت(حدیث نمبر: ۲۲۰۶) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی ، پھر بھی نبی اکرم ﷺ نے اس سے رجوع کرا دیا ،زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ہی شمار کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث حسن ہے، اور مؤلف نے جس حدیث (نمبر: ۲۲۰۶)کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ضعیف ہے، نیز اولاد رکانہ واقعہ کے بیان میں خود مضطرب ہیں، یاد رہے کہ عہد نبوی میں ''تین طلاق '' اور''طلاقہ بتہ '' ہم معنی الفاظ تھے، عہد نبوی وعہد ِصحابہ کے بعد لوگوں نے ''طلاق بتہ''کا یہ معنی بنا دیا کہ جس میں ایک دو، تین طلاق دہندہ کی نیت کے مطابق طے کیا جائیگا (تفصیل کے لے دیکھئے تنویر الآفاق)
2197- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ} فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الأَعْرَجُ وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ وَابْنُ جُرَيْجٍ جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ ابْنِ خَالِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، كُلُّهُمْ قَالُوا فِي الطَّلاقِ الثَّلاثِ: أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذَا قَالَ <أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاثًا > بِفَمٍ وَاحِدٍ فَهِيَ وَاحِدَةٌ، وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ، هَذَا قَوْلُهُ، لَمْ يَذْكُرِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَجَعَلَهُ قَوْلَ عِكْرِمَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داودٔ (تحفۃ الأشراف: ۶۴۰۱)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ التفسیر (۱۱۶۰۲) (صحیح)
۲۱۹۷- مجاہد کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما خا موش رہے ،یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے ، پھر انہوں نے کہا:تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہوپھر آکر کہتے ہو: اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے
{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} ۱؎ اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لئے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لئے بائنہ ہوگئی ، اللہ تعالی نے فرمایا ہے
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ } (فِيْ قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ) ۲؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو حمیدا عرج وغیرہ نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
اور اسے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
اور ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ،اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
نیز اسے اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمہارے لئے بائنہ ہو گئی جیسے اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انہوں نے ایوب سے ایوب نے عبداللہ بن کثیرسے روایت کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں: اور حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے( یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی ) تو وہ ایک شمار ہو گی۔
اور اسے اسما عیل بن ابرا ہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انھوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے ، وہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں دو۔
2198- قَالَ أَبو دَاود: وَصَارَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ (بْنِ عَوْفٍ) وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ وَعَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلُوا عَنِ الْبِكْرِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا ثَلاثًا، فَكُلُّهُمْ قَالُوا: لاتَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الْقِصَّةَ حِينَ جَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُمَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالا: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، ثُمَّ سَاقَ هَذَا الْخَبَرَ.
(قَالَ أَبو دَاود: وَقَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ هُوَ أَنَّ الطَّلاقَ الثَّلاثَ تَبِينُ مِنْ زَوْجِهَا، مَدْخُولا بِهَا وَغَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا، لا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ، هَذَا مِثْلُ خَبَرِ الصَّرْفِ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ، يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ)۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۴)، وقد أخرجہ: خ/المغازی ۱۰ (۳۹۹۱ تعلیقًا) (صحیح)
۲۱۹۸- ابوداود کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے با کرہ ( کنواری) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لئے اس وقت تک حلا ل نہیں ہو سکتی ، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس وا قعہ میں مو جود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر ، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے ، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس جائو میں انہیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں ، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لئے بائنہ ہو جائے گی ، چاہے وہ اس کا دخول ہوچکا ہو، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو، اور وہ اس کے لئے اس وقت تک حلال نہ ہو گی ، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے اس کی مثال صَرْف والی حدیث کی طرح ہے ۱؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کر لیا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس طرح وہ نقدی کو نقدی سے بیچنے کے متعلق کہتے تھے کہ اس میں ربا صرف ادھار کی صورت میں ہے نقد کی صورت میں نہیں پھر انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے اس سے بھی انہوں نے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔
2199- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ رَجُلا يُقَالُ لَهُ أَبُو الصَّهْبَائِ كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ (قَدْ) تَتَابَعُوا فِيهَا قَالَ : أَجِيزُهُنَّ عَلَيْهِمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۶۳) (ضعیف)
(اس سند میں ''غیر واحد'' مبہم رواۃ ہیں ،مگر اس میں
''غیرمدخول بہا'' کا لفظ ہی منکرہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں)
۲۱۹۹- طائوس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابو صہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا ، تو رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو ر خلافت میں اسے ایک طلاق ما نا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا ، تو اسے رسول اللہ ﷺ ا ور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو ر خلا فت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا ، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مگر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے ۔
2200- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَائِ قَالَ لابْنِ عَبَّاسٍ: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَثَلاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ۔
* تخريج: م/الطلاق ۲ (۱۴۷۲)، ن/الطلاق ۸ (۳۴۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱۴) (صحیح)
۲۲۰۰- طائوس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ائمہ حدیث اورعلما ظاہر کا اسی پر عمل ہے۔