• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب فِي الْمَمْلُوكَيْنِ يُعْتَقَانِ مَعًا هَلْ تُخَيَّرُ امْرَأَتُهُ
۲۲-باب: جب میاں بیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو کیا بیوی کو اختیار حاصل ہوگا؟​


2237- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَعْتِقَ مَمْلُوكَيْنِ لَهَا زَوْجٌ، قَالَ: فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَبْدَأَ بِالرَّجُلِ قَبْلَ الْمَرْأَةِ، قَالَ نَصْرٌ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ۔
* تخريج: ن/الطلاق ۲۸ (۳۴۷۶)، ق/العتق ۱۰ (۲۵۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبید اللہ بن عبد الرحمن ''ضعیف ہیں)
۲۲۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے لونڈی غلام کے ایک جوڑے کو آزاد کرنا چاہا تو نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ عورت سے پہلے مرد کو آزاد کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُ الزَّوْجَيْنِ
۲۳-باب: میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے اس کے حکم کا بیان​


2238- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ جَائَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً بَعْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ۔
* تخريج: ت/النکاح ۴۲ (۱۱۴۴)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۲، ۳۲۳) (ضعیف)
(سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، اور یہاں بھی دونوں روایتوں میں اضطراب ظاہر ہے)
۲۲۳۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہوکر آگئی ، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے ساتھ ہی مسلما ن ہوئی ہے تو آپ اسے میرے پاس لوٹا دیجئے۔


2239- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَتَزَوَّجَتْ، فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ وَعَلِمَتْ بِإِسْلامِي، فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ زَوْجِهَا الآخَرِ، وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الأَوَّلِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۷) (ضعیف)
(سابقہ حدیث دیکھئے )
۲۲۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت مسلمان ہو گئی اور اس نے نکاح بھی کر لیا ، اس کے بعد اس کا شوہر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ، اور کہنے لگا : اللہ کے رسول! میں اسلام لے آیا تھا اور اسے میرے اسلام لانے کا علم تھا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دوسرے شوہر سے اسے چھین کر اس کے پہلے شوہر کو لوٹا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب إِلَى مَتَى تُرَدُّ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ إِذَا أَسْلَمَ بَعْدَهَا
۲۴-باب: جب مرد عورت کے بعد اسلام قبول کرے تو کب تک عورت کو اسے لوٹایا جاسکتا ہے؟​


2240- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيّ،ُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ -يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ- (ح) وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بِالنِّكَاحِ الأَوَّلِ، لَمْ يُحْدِثْ شَيْئًا، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فِي حَدِيثِهِ: بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ : بَعْدَ سَنَتَيْنِ۔
* تخريج: ت/النکاح ۴۲ (۱۱۴۳)، ق/النکاح ۶۰ (۲۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۷، ۲۶۱، ۳۵۱) (صحیح)
(لیکن ''مدت'' کا ذکرصحیح نہیں ہے)
۲۲۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔
محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا: دو سال کے بعد۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب فِي مَنْ أَسْلَمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعٍ أَوْ أُخْتَانِ
۲۵-باب: قبول اسلام کے وقت آدمی کے پاس چار سے زائد عورتیں یا دو بہنیں عقد نکاح میں ہوں تو اس کے حکم کا بیان​


2241- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: ابْنِ عُمَيْرَةَ، وَقَالَ وَهْبٌ: الأَسَدِيّ، قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانُ نِسْوَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا >.
(قَالَ أَبو دَاود) وحَدَّثَنَا بِهِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: قَيْسُ ابْنُ الْحَارِثِ، مَكَانَ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: هَذَا هُوَ الصَّوَابُ، يَعْنِي قَيْسَ ابْنَ الْحَارِثِ.
* تخريج: ق/النکاح ۴۰ (۱۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۹) (صحیح)
۲۴۴۱- حارث بن قیس اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے اسلام قبول کیا، میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں تو میں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: '' ان میں سے چار کا انتخاب کر لو(اور باقی کو طلاق دے دو)''۔


2242- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ قَاضِي الْكُوفَةِ، عَنْ عِيسَى ابْنِ الْمُخْتَارِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ، بِمَعْنَاهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۹) (صحیح)
۲۲۴۲- اس سند سے بھی قیس بن حارث رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔


2243- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ: < طَلِّقْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ >۔
* تخريج: ت/النکاح ۳۳ (۱۱۲۹)، ق/النکاح ۳۹ (۱۹۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۲) (حسن)
۲۲۴۳- فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب إِذَا أَسْلَمَ أَحَدُ الأَبَوَيْنِ مَعَ مَنْ يَكُونُ الْوَلَدُ
۲۶-باب: ماں باپ میں سے جب ایک اسلام قبول کرلے تو بچے کس کے ساتھ ہوں گے؟​


2244- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي رَافِعِ بْنِ سِنَانٍ أَنَّهُ أَسْلَمَ، وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ ، فَقَالَتِ: ابْنَتِي وَهِيَ فَطِيمٌ أَوْ شَبَهُهُ، وَقَالَ رَافِعٌ: ابْنَتِي، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : <اقْعُدْ نَاحِيَةً >، وَقَالَ لَهَا: < اقْعُدِي نَاحِيَةً > قَالَ: وَأَقْعَدَ الصَّبِيَّةَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: < ادْعُوَاهَا> فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أُمِّهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < اللَّهُمَّ اهْدِهَا > فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أَبِيهَا، فَأَخَذَهَا۔
* تخريج:ت/الطلاق ۵۲ (۳۴۹۵)، ق/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۴۶، ۴۴۷) (صحیح)
۲۲۴۴- رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا،لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اور آپ کے پاس آکر کہنے لگی : بیٹی میری ہے ( اسے میں اپنے پاس رکھوں گی) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا ، یا چھوٹنے والا تھا ، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے(اسے میں اپنے پاس رکھوں گا) تو رسول اللہ ﷺ نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لئے فرمایا ، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا ، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لئے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی ، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :''اللہ اسے ہدایت دے''، چنانچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہوگئی تو انہوں نے اسے لے لیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ باشعور بچے کو اختیار دیا جائیگا کہ ماں باپ میں سے جس کو چاہے اختیارکر لے ، اور دودھ پیتا بچہ ماں کے تابع ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب فِي اللِّعَانِ
۲۷-باب: لعان کا بیان​


2245- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ الْعَجْلانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَسَائِلَ، وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَائَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ (لَهُ): يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ قُرْآنٌ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا >، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا عُوَيْمِرٌ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ ﷺ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةُ الْمُتَلاعِنَيْنِ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۴۴ (۴۲۳)، تفسیر سورۃ النور ۱ (۴۷۴۵)، ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۴ (۵۲۵۹)، ۲۹ (۵۳۰۸)، ۳۰ (۵۳۰۹)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۴)، الأحکام ۱۸ (۷۱۶۶)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۴)، م/اللعان ۱(۱۴۹۲)، ن/الطلاق ۳۵ (۳۴۹۶)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۱۳(۳۴)، حم (۵/۳۳۰، ۳۳۴، ۳۳۶، ۳۳۷) (صحیح)
۲۲۴۵- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آکر کہنے لگے : عاصم! ذرا بتائو ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی ( اجنبی) شخص کو پالے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دوگے ، یا وہ کیا کرے؟ میرے لئے رسول اللہ ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ( بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اکرم ﷺ کی بات گراں گزری ، جب عاصم رضی اللہ عنہ گھر لوٹے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آکر پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا فرمایا؟ تو عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا:مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں ، میں نے سوال کیا اسے رسول ﷺ نے ناپسند فرمایا۔
عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم میں نبی اکرم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا ، وہ سیدھے آپ کے پاس پہنچ گئے اس وقت آپ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے ،عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ (اجنبی) آدمی کو پالے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر آپ لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے ، یا وہ کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آئو ''، سہل کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان ۱؎ کیا ، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا ، جب وہ (لعان سے) فارغ ہو گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا :اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (گویا) میں نے جھوٹ کہا ہے چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی ۔
ابن شہاب زہری کہتے ہیں:تو یہی ( ان دونوں ) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا ۔
وضاحت ۱؎ : لعان کا مطلب کسی عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے یا یہ بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تواللہ کی اس پر لعنت ہو، اب خاوند کے جواب میں بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے اور میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے خاوند حد قذف سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔


2246- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ-عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ: <أَمْسِكِ الْمَرْأَةَ عِنْدَكَ حَتَّى تَلِدَ >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۹۶)، وقد أخرجہ: (حم ۵/۳۳۵) (حسن)
۲۲۴۶- سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ''بچے کی ولادت تک عورت کو اپنے پاس روکے رکھو''۔


2247- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: حَضَرْتُ لِعَانَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ خَرَجَتْ حَامِلا فَكَانَ الْوَلَدُ يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود ، وانظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۴۷- سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ''پھر وہ عورت حاملہ نکلی چنانچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کرکے پکارا جاتا تھا''۔


2248- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ _يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ _عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي خَبَرِ الْمُتَلاعِنَيْنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الأَلْيَتَيْنِ فَلا أُرَاهُ إِلا قَدْ صَدَقَ، وَإِنْ جَائَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلا أُرَاهُ إِلا كَاذِبًا >، قَالَ: فَجَائَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۴۸- لعان والی حدیث میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس عورت پر نظر رکھو اگر بچہ سیاہ آنکھوں والا، بڑی سرینوں والا ہو تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس (شوہر) نے سچ کہا ہے، اور اگر سرخ رنگ گیرو کی طرح ہو تو میں سمجھتا ہوں کی وہ جھوٹا ہے''، چناچہ اس کا بچہ ناپسندیدہ صفت پر پیدا ہوا ۔


2249- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ [الدِّمَشْقِيُّ] حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَكَانَ يُدْعَى -يَعْنِي الْوَلَدَ لأُمِّهِ-۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۴۹- اس سند سے بھی سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: تو اسے یعنی لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کرکے پکارا جاتا تھا۔


2250- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ [عَمْرِو بْنِ] السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْفِهْرِيِّ وَغَيْرِهِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ سُنَّةٌ قَالَ سَهْلٌ حَضَرْتُ هَذَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَمَضَتِ السُّنَّةُ بَعْدُ فِي الْمُتَلاعِنَيْنِ أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ لايَجْتَمِعَانِ أَبَدًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۵۰- اس سند سے بھی سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: انہوں (عاصم بن عدی) نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول ﷺ نے اسے نافذ فرما دیا، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے ۔
سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت میں موجود تھا ، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہو گیا کہ انہیں جدا کر دیا جائے ، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں۔


2251 - حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: شَهِدْتُ الْمُتَلاعِنَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ تَلاعَنَا وَتَمَّ حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، وَقَالَ الآخَرُونَ إِنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ ﷺ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاعِنَيْنِ فَقَالَ الرَّجُلُ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ عَلَيْهَا.
قَالَ أَبو دَاود: لَمْ يُتَابِعِ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَحَدٌ عَلَى أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلاعِنَيْنِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۵۱- سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا،آپ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کراد ی، یہاں مسدد کی روایت پورئی ہوگئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: ''وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا:اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا''۔
ابو داود کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ:'' آپ ﷺ نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی''۔


2252 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَكَانَتْ حَامِلا فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ أَنْ يَرِثَهَا وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
۲۲۵۲- اس سند سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی سے اس میں ہے کہ: ''وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا ، چنانچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کرکے پکارا جاتا تھا، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالی کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا''۔


2253 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّا لَلَيْلَةُ جُمُعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا فَتَكَلَّمَ بِهِ جَلَدْتُمُوهُ أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ فَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلَهُ فَقَالَ : لَوْ أَنَّ رَجُلا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلا فَتَكَلَّمَ بِهِ جَلَدْتُمُوهُ أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ فَقَالَ: < اللَّهُمَّ افْتَحْ > وَجَعَلَ يَدْعُو فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} هَذِهِ الآيَةَ فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَتَلاعَنَا فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، قَالَ : فَذَهَبَتْ لِتَلْتَعِنَ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ : < مَهْ >، فَأَبَتْ فَفَعَلَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا قَالَ: < لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيئَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا > فَجَائَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا۔
* تخريج: م/اللعان ۱۰ (۱۴۹۵)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۲۱، ۴۴۸) (صحیح)
۲۲۵۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں(ایک دفعہ)جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصارکا ایک شخص مسجد میں آیا ، اور کہنے لگا : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور ( حقیقت حال) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگائو گے، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھُنے، اللہ کی قسم، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے ضرور دریافت کروں گا، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی ( اجنبی) آدمی کو پالے اور حقیقت حال بیان کرے تو ( تہمت کی حد کے طو ر پر) آپ اسے کوڑے لگائیں گے، یا وہ قتل کردے تو اسے قتل کر دیں گے ، یا وہ خاموشی اختیار کرکے اندر ہی غصہ سے جلے بھُنے ، یہ سن کر آپ ﷺ دعا کرنے لگے:'' اے اللہ! معاملے کی وضاحت فرما دے''، چنانچہ لعان کی آیت {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} ۱؎ آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا، اُس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''ٹھہرو''، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا، توجب وہ دونوں جانے لگے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:'' شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے'' چنانچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جو لوگ اپنی بیویوں کوتہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں'' (سورۃ النور:۶)


2254- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : الْبَيِّنَةُ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلا عَلَى امْرَأَتِهِ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < الْبَيِّنَةُ وَإِلا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ >، فَقَالَ هِلالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبْرِءُ بِهِ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَتْ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {مِنَ الصَّادِقِينَ} فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَجَائَا، فَقَامَ هِلالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ؟ >، ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، وَقَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ > فَجَائَتْ بِهِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لَوْلا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ >.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ حَدِيثُ ابْنِ بَشَّارٍ حَدِيثُ هِلالٍ۔
* تخريج: ت/تفسیر سورۃ النور (۳۱۷۹)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۷)، حم (۱/۲۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۵)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر سورۃ النور ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۲۹ (۵۳۰۸) (صحیح)
۲۲۵۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ ( زنا کی) تہمت لگائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''ثبوت لائو ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے''، تو ہلال نے کہا کہ: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈ نے جائے؟ اس پر بھی نبی اکرم ﷺ یہی فرمائے جارہے تھے کہ: '' گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے''، تو ہلال نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالی ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا، چنانچہ { وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ}کی آیت نازل ہوئی، آپ ﷺ نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے { مِنَ الصَّادِقِينَ} ۱؎ تک پہنچے، پھر آپ ﷺ پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا ، وہ دونوں آئے ، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے، نبی اکرم ﷺ فرما رہے تھے : ''اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میںسے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے؟''پھرعورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ'' اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو'' تو لوگ اس سے کہنے لگے: یہ عذاب کو واجب کردینے والا ہے ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آجائے گی ، لیکن پھر کہنے لگی: ہمیشہ کے لئے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگائوں گی(یہ کہہ کر) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کر دیا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سر مگیں آنکھوں ، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے ''، چنانچہ انہیں صفا ت کا بچہ پیدا ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آگیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا''،یعنی میں اس پر حد جاری کرتا۔
وضاحت ۱؎ : سورة النور: (۹-۶)


2255- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشُّعَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ رَجُلا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلاعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فِيهِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ وَ يَقُولُ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ۔
* تخريج: ن/الطلاق ۴۰ (۳۵۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۳۷۲) (صحیح)
۲۲۵۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پا نچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ(عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔


2256- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَ هِلالُ بْنُ أُمَيَّةَ -وَهُوَ أَحَدُ الثَّلاثَةِ الَّذِينَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ- فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عَشِيًّا فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلا، فَرَأَى بِعَيْنِهِ وَسَمِعَ بِأُذُنِهِ فَلَمْ يَهِجْهُ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَائً فَوَجَدْتُ عِنْدَهُمْ رَجُلا، فَرَأَيْتُ بِعَيْنَيَّ وَسَمِعْتُ بِأُذُنَيَّ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَا جَاءَ بِهِ، وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَنَزَلَتْ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ} الآيَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: <أَبْشِرْ يَا هِلالُ، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا >، قَالَ هِلالٌ: قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَلِكَ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَرْسِلُوا إِلَيْهَا > فَجَائَتْ، فَتَلاهَا عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا، فَقَالَ هِلالٌ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ كَذَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لاعِنُوا بَيْنَهُمَا >، فَقِيلَ لِهِلالٍ: اشْهَدْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قِيلَ لَهُ: يَا هِلالُ، اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لا يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا كَمَا لَمْ يُجَلِّدْنِي عَلَيْهَا، فَشَهِدَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ قِيلَ لَهَا: اشْهَدِي، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قِيلَ لَهَا: اتَّقِي اللَّهَ فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ، فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ لا أَفْضَحُ قَوْمِي، فَشَهِدَتِ الْخَامِسَةَ: أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَهُمَا وَقَضَى أَنْ لا يُدْعَى وَلَدُهَا لأَبٍ، وَلا تُرْمَى وَلا يُرْمَى وَلَدُهَا، وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، وَقَضَى أَنْ لا بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ وَلا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلاقٍ، وَلا مُتَوَفَّى عَنْهَا، وَقَالَ: < إِنْ جَائَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ أُرَيْصِحَ أُثُيْبِجَ حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِهِلالٍ، وَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ، فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ >، فَجَائَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جَمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَوْلا الأَيْمَانُ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ >، قَالَ عِكْرِمَةُ: فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مُضَرَ وَمَا يُدْعَى لأَبٍ۔
* تخريج: وانظر حدیث رقم (۲۲۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۳۸، ۲۴۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عباد بن منصور '' کی اکثر ائمہ نے تضعیف کی ہے اس لئے ان کی اس روایت کے جن بیانات کی متابعت سابقہ حدیث سے ہو جاتی ہے انہیں کو لیا جائیگا اور باقی منفرد بیانات سے قطع نظر کیا جائے گا)
۲۲۵۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (جو کہ ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی اللہ تعالی نے ( ایک غزوہ میں پچھڑ جانے کی وجہ سے سرزنش کے بعد) توبہ قبو ل فرمائی تھی ، وہ) اپنی زمین سے رات کو آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو پایا، اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھا ،اور کانوں سے پوری گفتگو سنی ، لیکن صبح تک اس معاملہ کو دبا کر رکھا، صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول !رات کو میں گھر آیا تو اپنی بیوی کے پاس ایک مرد کو پایا ، اپنی آنکھوں سے( سب کچھ) دیکھا، اور کانوں سے (سب ) سنا ، ان کی ان باتوں کو آپ نے ناپسند کیا اور ان پر ناگواری کا اظہار فرمایا، تو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ} ۱؎ پھر رسول اللہ ﷺ سے جب وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا : ''ہلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالی نے تمہارے لئے کشادگی کا راستہ نکال دیا ہے'' ، ہلا لرضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اپنے پروردگار سے اسی کی امید تھی۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسے بلواؤ''، تو وہ آئی تو آپ نے دونوں پر یہ آیتیں تلاوت فرمائیں، اور نصیحت کی نیز بتایا کہ: ''آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے''۔
ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے اس کے متعلق جو کہا ہے سچ کہا ہے، وہ کہنے لگی: یہ جھوٹے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ان کے درمیان لعان کرائو ''، چنانچہ ہلا ل رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ گواہی دیں تو انہوں نے چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ وہ سچے ہیں، پانچویں کے وقت کہا گیا: ہلا ل ! اللہ سے ڈرو کیوں کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس بار کی گواہی تمہارے لئے عذاب کو واجب کر دے گی ، وہ بولے: اللہ کی قسم! جس طرح اللہ تعالی نے مجھے کوڑوں سے بچایا ہے اسی طرح عذاب سے بھی بچائے گا، چنانچہ پانچویں گواہی بھی دے دی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔
پھرعورت سے گواہی دینے کے لئے کہا گیا ، تو اس نے بھی چار بار گواہی دی کہ وہ جھوٹے ہیں، پانچویں بار اس سے بھی کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا کیوں کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس دفعہ کی گواہی عذاب کو واجب کر دے گی ، یہ سن کر وہ ایک لمحہ کے لئے ہچکچائی پھر بولی: اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہ کر وں گی ، چنانچہ پا نچویں بار بھی گواہی دے دی کہ اگر وہ سچے ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کرادی، اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا لڑکا باپ کی طرف نہ منسوب کیا جائے، اور لڑ کے اور عورت کو تہمت نہ لگائی جائے جو اس پر یا اس کے لڑکے پر اب تہمت لگائے گا تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی، نیز آپ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اسے نان نفقہ او ر رہائش نہیں ملے گی ، کیونکہ ان کی جدائی نہ تو طلاق کی بنا پر ہوئی ہے اور نہ شوہر کے انتقال کی وجہ سے، اور آپ ﷺ نے فرمایا: '' اگر وہ بھورے بالوں والا، پتلی سرین والا ، چو ڑی پیٹھ والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ ہلا ل کا ( نطفہ ) ہے، اور اگر مٹیالے رنگ والا ، گھنگرا لے بالوں والا، مو ٹی پنڈلیوں والا ،اور بھا ری سرین والا جنے تو اس کا جس کے نام کی تہمت لگائی گئی ہے''، چنانچہ اس عورت کا بچہ مٹیالے رنگ کا گھنگرالے بالوں والا ، موٹی پنڈلیوں والا اور بھاری سرین والا پیدا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر قسمیں نہ ہوتیں تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا''۔
عکرمہ کہتے ہیں: یہی بچہ آگے چل کر مضر کا امیر بنا، اسے باپ کی جانب منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو توایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو'' (سورۃ النور:۷،۶)


2257- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلْمُتَلاعِنَيْنِ: < حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاسَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَالِي، قَالَ: <لا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَلِكَ أَبْعَدُ لَكَ >۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۲)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، ن/الطلاق ۴۴ (۳۵۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۱)، وقد أخرجہ: ت/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۲)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶)، حم (۲/۱۲)، (۴۵۸۷)، دي/النکاح ۳۹ (۲۲۷۷) (صحیح)
۲۲۵۷- سعید بن جبیر کہتے ہیں:میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا : ''تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے ، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں''، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تمہارا کوئی مال نہیں ، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرم گاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں''۔


2258 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلانِ، وَقَالَ: < اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ > يُرَدِّدُهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۲ (۵۳۲۱)، ۵۲ (۵۳۴۹)، م/اللعان ۱(۱۴۹۳)، ن/الطلاق ۴۳ (۳۵۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۵۷، ۲/۴، ۳۷) (صحیح)
۲۲۵۸- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو کہا کہ ایک شخص اپنی عورت کو تہمت لگائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بنو عجلان کے دونوں بھائی بہنوں ۱؎ کو ( اس صورت میں ) جدا کرا دیا تھا اور فرمایا تھا :'' اللہ تعالی جانتا ہے کہ تم میں ایک ضرورجھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں کوئی توبہ کرنے والا ہے؟''، آپ ﷺ نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو آپ نے ان کے درمیان علحیدگی کرا دی۔
وضاحت ۱؎ : مراد عویمر اور ان کی بیوی ہیں، اور دونوں کوتغلیبا اخوین کہا گیا ہے، اور ان دونوں پر ''اخوة'' کا اطلاق {إنما المؤمنون اخوة}کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔


2259- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلا لاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ.
[قَالَ أَبودَاود: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مَالِكٌ قَوْلُهُ (وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ).
وقَالَ يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي حَدِيثِ اللِّعَانِ: وَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا]۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۵ (۵۳۵۱)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، م/اللعان ۱(۱۴۹۴)، ت/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، ق/الطلاق ۲۲ ۲۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۰)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۱۳ (۳۵)، حم (۲/۷، ۳۸، ۶۴، ۷۱)، دی/ النکاح ۳۹ (۲۲۷۸) (صحیح)
۲۲۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان علحیدگی کرا دی، اوربچے کو عورت سے ملا دیا ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں:جس کی روایت میں مالک منفرد ہیں وہ ''وَأَلْحَقَ الوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ'' کا جملہ ہے، اور یونس نے زہری سے انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے : اس نے اس کے حمل کا انکار کیا تو اس (عورت) کا بیٹا اسی (عورت) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے نسب اور وراثت میں ماں سے ملادیا لہٰذا وہ ماں ہی کی طرف منسوب کیاجائے گا اور ماں اور بیٹا دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے برخلاف باپ کے نہ تو اس کی طرف وہ منسوب ہوگا اور نہ وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب إِذَا شَكَّ فِي الْوَلَدِ
۲۸-باب: جب بچے کے متعلق شک ہو تو کیا حکم ہے؟​


2260- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي جَائَتْ بِوَلَدٍ أَسْوَدَ، فَقَالَ: < هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < مَا أَلْوَانُهَا؟ > قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: <فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟ > قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: < فَأَنَّى تُرَاهُ؟ > قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: < وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ > ۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، ت/الولاء ۴ (۲۱۲۹)، ن/الطلاق ۴۶ (۳۵۸۰)، ق/النکاح ۵۸ (۲۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۹)، وقد أخرجہ: خ/الطلاق ۲۶ (۵۳۰۵)، الحدود ۴۱ (۶۸۴۷)، الاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، حم (۲/۲۳۴، ۲۳۹، ۴۰۹) (صحیح)
۲۲۶۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟''، اس نے جواب دیا: ہاں، پوچھا: ''کون سے رنگ کے ہیں؟ ''، جواب دیا: سرخ ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا: ''کیا کوئی خاکستری بھی ہے ؟''، جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: '' پھر یہ کہاں سے آگیا؟''، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہاں بھی ہوسکتا ہے (تمہارے لڑکے میں بھی) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس وقت کسی رگ میں سے جس میں کالا پن زیادہ تھا نطفہ میں سواد (کالا رنگ) زیادہ مل گیا ہو، اور اس کی وجہ سے لڑکا کا لا اور سیاہ رنگ ہو تو اس قسم کے اختلاف سے اس کے نسب سے متعلق دل میں شبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔


2261- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: وَهُوَ حِينَئِذٍ يُعَرِّضُ بِأَنْ يَنْفِيَهُ ۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، ن/الطلاق ۴۶ (۳۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۳، ۲۷۹) (صحیح)
۲۲۶۱- اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ یہ کہہ کر اس کا مقصد اپنے سے بچہ کی نفی کرنی تھی۔


2262- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أُنْكِرُهُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ۔
* تخريج: خ/الاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۱۱) (صحیح)
۲۲۶۲- اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا لڑ کا جنا ہے اور میں اس کا انکار کرتا ہوں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب التَّغْلِيظِ فِي الانْتِفَاءِ
۲۹-باب: بچے کے نسب سے انکار پر وارد وعید کا بیان​


2263- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو -يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ- عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلاعِنَيْنِ: < أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْئٍ وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُئُوسِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ >۔
* تخريج: ن/الطلاق ۴۷ (۳۵۱۱)، ق/الفرائض ۱۳ (۲۷۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۷۲)، وقد أخرجہ: دي/ النکاح ۴۲ (۲۲۸۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبد اللہ بن یونس '' مجہول ہیں)
۲۲۶۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کر دیا جوحقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی ،اسے اللہ تعالی جنت میں ہر گز داخل نہ کرے گا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے، اسے اللہ تعالی کا دیدار نصیب نہ ہو گا، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حاصل یہ ہے کہ نہ عورت کو چاہئے کہ حرام کا بچہ کسی غیر سے جن کر اس کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کرے اور نہ مرد کو چاہئے کہ دیدہ و دانستہ اپنے بچے کا انکار کرے اور عورت پر زنا کی تہمت لگائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب فِي ادِّعَاءِ وَلَدِ الزِّنَا
۳۰-باب: ولدالزنا کے مدعی ہونے کا بیان​


2264- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ سَلْمٍ -يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزَّيَّادِ- حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لامُسَاعَاةَ فِي الإِسْلامِ، مَنْ سَاعَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَدْ لَحِقَ بِعَصَبَتِهِ، وَمَنِ ادَّعَى وَلَدًا مِنْ غَيْرِ رِشْدَةٍ فَلايَرِثُ وَلايُورَثُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۶۲) (ضعیف)
(اس کے سند میں ایک مبہم راوی ہے)
۲۲۶۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسلام میں اجرت پر بدکاری اور زنا نہیں ہے، جس نے زمانہ جاہلیت میں بدکاری اور زنا سے کمائی کی، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اپنے عصبہ (مالک) سے مل جائے گا اور جس نے بغیر نکاح یا ملک کے کسی بچے کا دعوی کیا تو نہ تو(بچہ) اس کا وارث ہو گا اور نہ وہ بچے کا''۔


2265- حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ (ح) وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ -وَهُوَ أَشْبَعُ- عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو ابْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ، فَقَضَى : أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ، وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ [شَيْئٌ]، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لايَلْحَقُ بِهِ وَلا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ كَانَ أَوْ أَمَةٍ ۔
* تخريج: ق/الفرائض ۱۴ (۲۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۱۸۱، ۲۱۹)، دي/الفرائض ۴۵ (۳۱۵۴) (حسن)
۲۲۶۵- عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعوی کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملا یا جاتا ہے اس نے ( اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہوگا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے ( اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعوی کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے۔


2266- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: وَهُوَ وَلَدُ زِنَا لأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً، وَذَلِكَ فِيمَا اسْتُلْحِقَ [فِي] أَوَّلِ الإِسْلامِ، فَمَا اقْتُسِمَ مِنْ مَالٍ قَبْلَ الإِسْلامِ فَقَدْ مَضَى۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۱۲) (حسن)
۲۲۶۶- اس سند سے بھی محمد بن راشد سے اسی مفہوم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ ولدالزنا ہے اور اپنی ماں کے خاندان سے ملے گا چاہے وہ آزاد ہوں یا غلام، یہ شروع اسلام میں پیش آمدہ معاملہ کا حکم ہے، رہا جو مال قبل از اسلام تقسیم ہو چکا اس سے کچھ سروکار نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي الْقَافَةِ
۳۱-باب: قیافہ جاننے والوں کا بیان​


2267- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، الْمَعْنَى، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ -قَالَ مُسَدَّدٌ وَابْنُ السَّرْحِ: يَوْمًا مَسْرُورًا، وَقَالَ عُثْمَانُ: تُعْرَفُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ- فَقَالَ: < أَيْ عَائِشَةُ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ رَأَى زَيْدًا وَأُسَامَةَ قَدْ غَطَّيَا رُئُوسَهُمَا بِقَطِيفَةٍ وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ >.
قَالَ أَبودَاود: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ: وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۵)، وفضائل الصحابۃ ۱۷ (۳۷۳۱)، والفرائض ۳۱ (۶۷۷۰)، م/الرضاع ۱۱ (۱۴۵۹)، ت/الولاء ۵ (۲۱۲۹)، ن/الطلاق ۵۱ (۳۵۲۳، ۳۵۲۴)، ق/الأحکام ۲۱ (۲۳۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۲، ۲۲۶) (صحیح)
۲۲۶۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس(مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے (اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ۱؎ محسوس کی جارہی تھیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' عائشہ ! کیا تونے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھا نکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوے تھے تو کہا کہ یہ پائوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں''۔
ابو داود کہتے ہیں: اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے۔
وضاحت ۱؎ : خوشی کی وجہ یہ تھی کہ لوگ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں ایسی باتیں کہتے تھے جنہیں سن کر رسول اللہ ﷺ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی، زید گورے چٹے آدمی تھے اور اسامہ کا رنگ کالا تھا اس لئے لوگ شک کرتے تھے کہ اسامہ زید کے بیٹے ہیں یا کسی اور کے جب اس قیافہ شناس مجزز مدلجی نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ان دونوں کے پیر ملتے جلتے ہیں تو آپ کواس سے بے حد خوشی ہوئی۔


2268- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ [قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا] تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ.
قَالَ أَبودَاود: وَ[أَسَارِيرُ وَجْهِهِ] لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ.
قَالَ أَبودَاود: أَسَارِيرُ وَجْهِهِ: هُوَ تَدْلِيسٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، إِنَّمَا سَمِعَ الأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِهِ، قَالَ: وَالأَسَارِيرُ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ.
قَالَ أَبودَاود: وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ يَقُولُ: كَانَ أُسَامَةُ [أَسْوَدَ] شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ، وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۱) (صحیح)
۲۲۶۸- اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ ﷺ میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔
ابو داود کہتے ہیں :''أَسَارِيْرُ وَجْهِهِ''کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے،ابو داود کہتے ہیں : ''أَسَارِيْرُ وَجْهِهِ'' ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے ''أَسَاْرِيْرُ وَجْهِهِ'' کے بجائے ''الأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِهِ'' کے الفاظ سنے ہیں اور '' أَسَاْرِيْرُ' ' کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ۱؎ اور زیدرضی اللہ عنہ رو ئی کی طرح سفید۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔
 
Top