• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب نَسْخِ مَتَاعِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا [زَوْجُهَا] بِمَا فَرَضَ لَهَا مِنَ الْمِيرَاثِ
۴۲-باب: جس عورت کا شوہر مرجائے اس کو آیتِ میراث کے حکم سے ایک سال کا خرچ دینا منسوخ ہے​


2298- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ} فَنُسِخَ ذَلِكَ بِآيَةِ الْمِيرَاثِ، بِمَا فَرَضَ لَهُنَّ مِنَ الرُّبُعِ وَالثُّمُنِ، وَنُسِخَ أَجَلُ الْحَوْلِ بِأَنْ جُعِلَ أَجَلُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔
* تخريج: ن/الطلاق ۶۹ (۳۵۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۰، ۱۹۱۱۴)، وقد أخرجہ: خ/التفسیر ۴۱ (۴۵۳۱)، الطلاق ۵۰(۵۳۴۴) (حسن)
۲۲۹۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کا فرمان{ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ} ۱؎ میراث کی آیت نازل ہو جانے کے بعد منسوخ ہو گیا کیونکہ اس میں ان کے لئے چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اسی طرح ایک سال تک نہ نکلنے کا حکم چار مہینے دس دن کی عدت کا حکم آجانے کے بعد منسوخ ہو گیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکا لے'' (سورۃ البقرۃ :۲۴۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
۴۳-باب: شوہر کی وفات پر بیوی کے سوگ منانے کا بیان​


2299- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الأَحَادِيثِ الثَّلاثَةِ.
قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا -أَبُو سُفْيَانَ- فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ، خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ، إِلا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا>.
قَالَتْ زَيْنَبُ: وَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَعَلَى الْمِنْبَرِ: < لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ، إِلا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا >.
قَالَتْ زَيْنَبُ: وَسَمِعْتُ أُمِّي -أُمَّ سَلَمَةَ- تَقُولُ: جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا، أَفَنَكْحَلُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا > مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: < لا >، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ >.
قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ؟ فَقَالَتْ زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلا شَيْئًا، حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ، حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ، فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْئٍ إِلا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَائَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ.
قَالَ أَبودَاود: الْحِفْشُ: بَيْتٌ صَغِيرٌ۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۱)، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۶)، ۴۷ (۵۳۳۸)، ۵۰ (۵۳۴۵)، م/الطلاق ۹ (۱۴۸۸)، ن/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۰)، ۵۹ (۳۵۵۷)، ۶۳ (۳۵۶۳)، ۶۷ (۳۵۶۸)، ت/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۶)، ق/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۶، ۱۸۲۵۹)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۳۵ (۱۰۱)، حم (۶/۳۲۵، ۳۲۶)، دي/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰) (صحیح)
۲۲۹۹- حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی ، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صر ف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا:'' کسی عورت کے لئے جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے''۔
زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جس وقت کہ ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا تھا ، انہوں نے (بھی)خوشبو منگا کر لگائی اس کے بعد کہنے لگیں : اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، میں نے ایسا صرف اس بنا پر کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا:'' کسی بھی عورت کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیا دہ منائے ہاں شوہر کی وفات پر سوگ چار مہینے دس دن ہے''۔
زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اپنی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اسے سرمہ لگا دیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''نہیں''، اس نے دو بار یا تین بار پوچھا، آپ ﷺ نے ہر بار فرمایا: ''نہیں'' ، پھر فرمایا: ''تم چار مہینے دس دن صبر نہیں کر سکتی ، حا لانکہ زمانہ جاہلیت میں جب تم میں سے کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو ایک سال پورے ہونے پر اسے مینگنی پھینکنی پڑتی تھی ''۔
حمید راوی کہتے ہیں میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا: مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہائش اختیار کرتی ، پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو استعمال کرسکتی اور نہ ہی کوئی زینت وآ رائش کرسکتی تھی، جب سال پورا ہو جاتا تو اسے گدھا یا کوئی پرندہ یا بکری دی جاتی جسے وہ اپنے بدن سے رگڑتی، وہ جانور کم ہی زندہ رہ پاتا، پھر اس کو مینگنی دی جاتی جسے وہ سر پر گھما کر اپنے پیچھے پھینک دیتی، اس کے بعد وہ عدت سے باہر آتی اور زیب و زینت کرتی اور خوشبو استعمال کرتی۔
ابو داود کہتے ہیں: حفش چھوٹے گھر(تنگ کوٹھری) کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا تَنْتَقِلُ؟
۴۴-باب: کیا شوہر کی موت کے بعدعورت دوسرے گھر منتقل ہو سکتی ہے؟​


2300- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عَجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عَجْرَةَ أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ -وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ- أَخْبَرَتْهَا أَنَّهَا جَائَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ فَإِنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، فَإِنِّي لَمْ يَتْرُكْنِي فِي مَسْكَنٍ يَمْلِكُهُ وَلا نَفَقَةٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < نَعَمْ>، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، أَوْ فِي الْمَسْجِدِ دَعَانِي، أَوْ أَمَرَ بِي فَدُعِيتُ لَهُ، فَقَالَ: < كَيْفَ قُلْتِ؟> فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَتْ: فَقَالَ: < امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ >، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ۔
* تخريج: ت/الطلاق ۲۳ (۱۲۰۴)، ن/الطلاق ۶۰ (۳۵۵۸)، ق/الطلاق ۳۱ (۲۰۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴۵)، وقد أخرجہ: ط/الطلاق ۳۱ (۸۷)، حم (۶/۳۷۰، ۴۲۰)، دي/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۳) (صحیح)
۲۳۰۰- زینب بنت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا ( ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہ سکتی ہیں؟ کیونکہ ان کے شوہر جب اپنے فرار ہوجانے والے غلاموں کا پیچھا کرتے ہوئے طرف القدوم نامی مقام پر پہنچے اور ان سے جاملے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کردیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا :کیا میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤں؟ کیونکہ انہوں نے مجھے جس مکان میں چھوڑا تھا وہ ان کی ملکیت میں نہ تھا اور نہ ہی خر چ کے لئے کچھ تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہاں( وہاں چلی جائو)''۔
فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ( یہ سن کر) میں نکل پڑی لیکن حجرے یا مسجد تک ہی پہنچ پائی تھی کہ آپ ﷺ نے مجھے بلا لیا ، یا بلانے کے لئے آپ ﷺ نے کسی سے کہا، (میں آئی) تو پوچھا:''تم نے کیسے کہا؟''، میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے اپنے شوہر کے متعلق ذکر کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: '' اپنے اسی گھر میں رہو یہاں تک کہ قرآن کی بتائی ہوئی مدت (عدت) پوری ہوجائے ''۔
فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:پھر میں نے عدت کے چار مہینے دس دن اسی گھر میں پورے کئے، جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مجھے بلوایا اور اس مسئلہ سے متعلق مجھ سے دریافت کیا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے اسی کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَنْ رَأَى التَّحَوُّلَ
۴۵-باب: عدت میں نقل مکانی کو جائز کہنے والوں کا بیان​


2301- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ [مُحَمَّدٍ] الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ: قَالَ عَطَائٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَسَخَتْ هَذِهِ الآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَائَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {غَيْرَ إِخْرَاجٍ} قَالَ عَطَائٌ: إِنْ شَائَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَائَتْ خَرَجَتْ؛ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: { فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ} قَالَ عَطَائٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى، تَعْتَدُّ حَيْثُ شَائَتْ۔
* تخريج: خ/التفسیر ۴۱ (۴۵۳۱)، الطلاق ۵۰ (۵۳۴۴)، ن/ الکبری/ الطلاق (۵۷۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۰۰) (صحیح)
۲۳۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : { غَيْرَ إِخْرَاجٍ } ۱؎ والی آیت جس میں عورت کو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارنے کا حکم ہے منسوخ کر دی گئی ہے ،اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے ، عطاء کہتے ہیں:اگر چاہے تو شوہر کے گھر و الوں کے پاس عدت گزارے اور شوہر کی وصیت سے فائدہ اٹھا کر وہیں سکونت اختیار کرے، اور اگر چاہے تو اللہ کے فرمان {فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ} ( اگر وہ خود نکل جائیں تو ان کے کئے ہوئے کا تم پر کوئی گناہ نہیں) کے مطابق نکل جائے، عطاء کہتے ہیں کہ پھر جب میراث کا حکم آگیا ، تو شوہر کے مکان میں رہائش کا حکم منسوخ ہو گیا اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔
وضاحت ۱؎ : سورة البقرة: (۲۴۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب فِيمَا تَجْتَنِبُهُ الْمُعْتَدَّةُ فِي عِدَّتِهَا
۴۶-باب: عدت گزارنے والی عورت کو جن چیزوں سے بچنا چاہئے ان کا بیان​


2302- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ابْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ الْقُهِسْتَانِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ -يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ- عَنْ هِشَامٍ -وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْجَرَّاحِ- عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : < لا تُحِدُّ الْمَرْأَةُ فَوْقَ ثَلاثٍ، إِلا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلا تَكْتَحِلُ، وَلا تَمَسُّ طِيبًا إِلا أَدْنَى طُهْرَتِهَا إِذَا طَهُرَتْ مِنْ مَحِيضِهَا بِنُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ >، قَالَ يَعْقُوبُ، مَكَانَ عَصْبٍ: إِلا مَغْسُولا، وَزَادَ يَعْقُوبُ: وَلاتَخْتَضِبُ۔
* تخريج: خ/الحیض ۱۲ (۳۱۳)، الجنائز ۳۰ (۱۲۷۸)، الطلاق ۴۷ (۵۳۳۹)، ۴۹ (۵۳۴۲)، م/الطلاق ۹ (۹۳۸)، ن/الطلاق ۶۴ (۳۵۶۴)، ۶۵ (۳۵۶۶)، ق/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۵)، دي/الطلاق ۱۳ (۲۳۳۲) (صحیح)
۲۳۰۲- ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سو گ نہ منائے سوائے شوہر کے، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی (اس عرصہ میں) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے، نہ سرمہ لگائے، اور نہ خوشبو استعمال کرے ، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو ( حیض کے مقام پر) استعمال کرے ''۔
راوی یعقوب نے: ''سفید سیاہ دھاری دار کپڑے'' کے بجائے: ''دھلے ہوئے کپڑے ''کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے۔


2303- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ وَمَالِكُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ الْمِسْمَعِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَيْسَ فِي تَمَامِ حَدِيثِهِمَا، قَالَ الْمِسْمَعِيُّ : قَالَ يَزِيدُ: وَلا أَعْلَمُهُ إِلا قَالَ فِيهِ: < وَلا تَخْتَضِبُ > وَزَادَ فِيهِ هَارُونُ: < وَلاتَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلا ثَوْبَ عَصْبٍ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۳۴) (صحیح)
۲۳۰۳- ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے، لیکن ان دونوں راویوں کی حدیثوں میں پوری مشابہت نہیں ہے ، مسمعی کا بیان ہے کہ یزید کہتے ہیں میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ اس میں ہے کہ'' خضاب نہ لگائے ''اور ہارون نے اس میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ: '' رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے سوائے سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے''۔


2304- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي بُدَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: <الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لا تَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ مِنَ الثِّيَابِ وَلاالْمُمَشَّقَةَ وَلا الْحُلِيَّ، وَلا تَخْتَضِبُ، وَلا تَكْتَحِلُ >۔
* تخريج: ن/الطلاق ۶۴ (۳۵۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۰۲) (صحیح)
۲۳۰۴- ام المومنین ا م سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس عورت کا شوہر انتقال کر جائے وہ نہ زرد اور گیروے رنگ کا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے، نہ خضاب ( مہندی وغیرہ) لگائے، اور نہ سر مہ لگائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ تمام کام بنائو سنگار کے ہیں، اس لئے عدت میں ان سے پرہیز ضروری ہے۔


2305- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ الضَّحَّاكِ يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ حَكِيمٍ بِنْتُ أَسِيدٍ، عَنْ أُمِّهَا أَنَّ زَوْجَهَا تُوُفِّيَ وَكَانَتْ تَشْتَكِي عَيْنَيْهَا فَتَكْتَحِلُ بِالْجِلاءِ، قَالَ أَحْمَدُ: الصَّوَابُ بِكُحْلِ الْجِلاءِ، فَأَرْسَلَتْ مَوْلاةً لَهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَسَأَلَتْهَا عَنْ كُحْلِ الْجِلاءِ، فَقَالَتْ: لا تَكْتَحِلِي بِهِ إِلا مِنْ أَمْرٍ لا بُدَّ [مِنْهُ] يَشْتَدُّ عَلَيْكِ فَتَكْتَحِلِينَ بِاللَّيْلِ وَتَمْسَحِينَهُ بِالنَّهَارِ، ثُمَّ قَالَتْ عِنْدَ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوسَلَمَةَ، وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبْرًا، فَقَالَ: < مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ؟ > فَقُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ صَبْرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ، قَالَ: < إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ، فَلا تَجْعَلِيهِ إِلا بِاللَّيْلِ وَتَنْزَعِينَهُ بِالنَّهَارِ، وَلا تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ وَلا بِالْحِنَّاءِ، فَإِنَّهُ خِضَابٌ >، قَالَتْ: قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْئٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ >۔
* تخريج: ن/الطلاق ۶۶ (۳۵۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مغیرہ بن الضحا ک'' لین الحدیث ہیں ، اور ام حکیم اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں)
۲۳۰۵- ام حکیم بنت اسید اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی تھی تو وہ جلاء(سرمہ) لگا لیتیں تو اپنی ایک لونڈی کو انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ وہ جلاء کے سرمہ کے متعلق ان سے پوچھے، انہوں نے کہا: اس کا سرمہ نہ لگاؤ جب تک ایسی سخت ضرورت پیش نہ آجائے جس کے بغیر چارہ نہ ہو اس صورت میں تم اسے رات میں لگاؤ، اور دن میں پونچھ لیا کرو، پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت یہ بھی بتایا کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، اور میں نے اپنی آنکھ میں ایلوا لگا رکھا تھا، آپ ﷺ نے پوچھا : ''ام سلمہ یہ کیا ہے؟''، میں نے جواب دیا : اللہ کے رسول! یہ ایلوا ہے اور اس میں خوشبو نہیں ہے، فرمایا: ''یہ چہرے میں حسن پیدا کرتا ہے لہٰذا اسے رات ہی میں لگائو، اور دن میں ہٹا دو، اور خوشبو لگا کر کنگھی نہ کر و، اور نہ مہندی لگا کر، کیونکہ وہ خضاب ہے''، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کنگھی کس چیز سے کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' بیری کے پتوں کو اپنے سر پر لپیٹ کر''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47 - بَاب فِي عِدَّةِ الْحَامِلِ
۴۷-باب: حاملہ کی عدت کا بیان​


2306 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَهُوَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ -رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ- فَقَالَ لَهَا: مَالِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً لَعَلَّكِ تَرْتَجِينَ النِّكَاحَ؟ إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَتْ سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلا أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لا يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۰ (۳۹۹۱ تعلیقًا)، الطلاق ۳۹ (۵۳۲۰)، م/الطلاق ۸ (۱۴۸۴)، ن/الطلاق ۵۶ (۳۵۱۸، ۳۵۱۹)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳۲) (صحیح)
۲۳۰۶- ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھ سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان کی حدیث معلوم کریں، نیز معلوم کریں کہ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے کیا ارشاد فرمایا؟ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو لکھا، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ انہیں سبیعہ نے بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں (وہ بنی عامر بن لوی کے ایک فرد، اور بدری صحا بی ہیں) حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب وہ حاملہ تھیں تو ان کا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد انہوں نے بچہ جنا ، جب نفاس سے پاک ہوگئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لئے بنائو سنگار کیا تو بنی عبدالدار کا ایک شخص ابو سنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: میں تمہیں بنی سنوری ہوئی دیکھ رہا ہوں، شاید نکاح کرنا چاہتی ہو، اللہ کی قسم ! تم چار مہینے دس دن ( کی عدت) گزارے بغیر نکاح نہیں کر سکتی ۔
سبیعہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: جب انہوں نے مجھ سے اس طرح کی گفتگو کی تو میں شام کے وقت پہن اوڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا ،آپ ﷺ نے مجھے مسئلہ بتایا اور فرمایا کہ بچہ جننے کے بعد ہی میں حلال ہوگئی اور آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں۔
ابن شہاب کہتے ہیں: میرے خیال میں بچہ جننے کے بعد عورت کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں گرچہ وہ حالت نفاس ہی میں ہو البتہ پاک ہونے تک شوہر صحبت نہیں کرے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پہلے یہ آیت اتری تھی : {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} یہ آیت سورہ بقرہ (آیت: ۲۳۴) کی ہے، اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں داخل تھیں ، پھر سورہ طلاق والی آیت نمبر (۴) {وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} نازل ہوئی تو حاملہ کی عدت وضع حمل(بچہ کی پیدائش) قرار پائی، اور غیر حاملہ کی چار مہینہ دس دن، پہلی آیت کے موافق برقرار رہی ، اکثر علماء کا یہی مذہب ہے، اور بعض علماء کے نزدیک چونکہ دونوں آیتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں میں سے جو مدت لمبی ''أبعد الأجلين '' ہو اسے اختیار کرے۔


2307 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، قَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ ابْنُ الْعَلاءِ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: مَنْ شَاءَ لاعَنْتُهُ لأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الأَرْبَعَةِ الأَشْهُرِ وَعَشْرًا۔
* تخريج: خ/ تفسیرسورۃ الطلاق ۲ (۴۹۰۹)، ن/الطلاق ۵۶ (۳۵۵۲)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۷۸) (صحیح)
۲۳۰۷- عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو بھی چاہے مجھ سے اس بات پر لعان ۱؎ کر لے کہ چھوٹی سورہ نساء (سورہ طلاق) چار مہینے دس دن والے حکم کے بعد نازل ہوئی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مراد مباہلہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : جو کہ سورہ بقرہ میں ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ کہ'' عام متوفی عنہا زوجہا کے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم سورہ بقرہ میں ہے ''، اور ''حاملہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت صرف وضع حمل تک ہے '' کا تذکرہ سورہ طلاق کے اندرہے جو کہ سورہ بقرہ کے بعد اتری ہے اس لئے یہ حکم خاص اس حکم عام کو خاص کرنے والا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48 - بَاب فِي عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ
۴۸-باب: ام ولد کی عدت کا بیان​


2308- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصِ قَالَ: لا تُلَبِّسُوا عَلَيْنَا سُنَّةً، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: سُنَّةَ نَبِيِّنَا ﷺ ، عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، يَعْنِي أُمَّ الْوَلَدِ۔
* تخريج: ق/الطلاق ۳۳ (۲۰۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۰۳) (صحیح)
۲۳۰۸- عمرو بن العا ص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (ہمارے نبی ﷺ کی )سنت کو ہم پر گڈمڈ نہ کرو،(سنت یہ ہے کہ) جس کا شوہر فوت ہو جائے اس کی یعنی ام ولد ۱؎ کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
وضاحت ۱؎ : ام ولد: ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک سے بچہ جنا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب الْمَبْتُوتَةِ لا يَرْجِعُ إِلَيْهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
۴۹-باب: تین طلاق کے بعد عورت دوسرے شخص سے نکاح کئے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں آسکتی​


2309- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ [يَعْنِي ثَلاثًا] فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَدَخَلَ بِهَا، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا، أَتَحِلُّ لِزَوْجِهَا الأَوَّلِ؟ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لاتَحِلُّ لِلأَوَّلِ حَتَّى تَذُوقَ عُسَيْلَةَ الآخَرِ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا >۔
* تخريج: ن/الطلاق ۹ (۳۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۵۸)، وقد أخرجہ: خ/الشہادات ۳ (۲۶۳۹)، والطلاق ۴ (۵۲۶۰)، والساعۃ ۳۷ (۵۷۹۲)، واللباس ۶ (۵۸۲۵)، والأدب ۶۸ (۶۰۸۴)، م/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، ت/النکاح ۲۷ (۱۱۱۸)، ن/النکاح ۴۳ (۳۲۸۵)، ق/النکاح ۳۲ (۱۹۳۲)، حم (۶/۳۴، ۳۷، ۱۹۲، ۲۲۶، ۲۲۹)، دي/الطلاق ۴ (۲۳۱۳) (صحیح)
۲۳۰۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلا ل ہو جائے گی؟ ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''وہ پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہم بستری اور صحبت کے بعد طلاق واقع ہونے کی صورت میں نکاح جدید سے وہ پہلے شوہر کی بیوی بن سکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب فِي تَعْظِيمِ الزِّنَا
۵۰-باب: زنا بہت بڑا گناہ ہے​


2310- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: < أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ >، قَالَ: فَقُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: < أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ >، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: < أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ >، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى تَصْدِيقَ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ} الآيَةَ۔
* تخريج: خ/ تفسیر سورۃ البقرۃ ۳ (۴۴۷۷)، والأدب ۲۰ (۴۷۶۱)، والحدود ۲۰ (۶۸۱۱)، والدیات ۲ (۶۸۶۱)، والتوحید ۴۰ (۷۵۲۰)، ۴۶ (۷۵۳۲)، م/الایمان ۳۷ (۸۶)، ت/تفسیر سورۃ الفرقان (۳۱۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۰، ۴۷۱، ۴۲۴، ۴۳۴، ۴۶۲) (صحیح)
۲۳۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''( سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائو حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے''، میں نے پوچھا اس کے بعد کو ن ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :'' تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا''، میں نے کہا پھر اس کے بعد؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو''، نیز کہا: نبی اکرم ﷺ کے قول کی تصدیق کے طو ر پر یہ آیت نازل ہوئی{وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ...} الخ (سورۃ الفرقان:۶۸) ''جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے اور ناحق اس نفس کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ زنا کرتے ہیں''۔


2311- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: جَائَتْ مِسْكِينَةٌ لِبَعْضِ الأَنْصَارِ فَقَالَتْ: إِنَّ سَيِّدِي يُكْرِهُنِي عَلَى الْبِغَاءِ، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: {وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۳۳) (صحیح)
۲۳۱۱- ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ ایک انصاری شخص کی مسکینہ لونڈی آکر کہنے لگی کہ میرا مالک مجھے بد کاری کے لئے مجبور کرتا ہے ، تو یہ آیت نازل ہوئی{وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ} (سورۃالنور:۳۳) ''تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو''۔


2312- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، {وَمَنْ يُكْرِهُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ} قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ: غَفُورٌ لَهُنَّ الْمُكْرَهَاتِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۸۹) (صحیح)
۲۳۱۲- سیلمان تیمی سے روایت ہے کہ آیت کریمہ:{وَمَنْ يُكْرِهُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ}(النور:۳۳) (اور جو انہیں مجبور کر ے تو اللہ تعالی مجبو ر کرنے کی صورت میں بخشنے ولا رحم کرنے والا ہے) کے متعلق سعید بن ابو الحسن نے کہا :اس کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں زنا کے لئے مجبو ر کیا گیا، اللہ تعالی ان کو بخش دے گا ۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{ 8- كِتَاب الصَّوْمِ }
۸-کتاب: صیام کے احکام ومسائل

1- بَاب مَبْدَأ فَرْضِ الصِّيَامِ
۱-باب: صیام فرض ہونے کی ابتدا​


2313- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَبُّوَيْهِ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ} فَكَانَ النَّاسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا صَلَّوُا الْعَتَمَةَ حَرُمَ عَلَيْهِمُ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ وَالنِّسَاءُ وَصَامُوا إِلَى الْقَابِلَةِ، فَاخْتَانَ رَجُلٌ نَفْسَهُ، فَجَامَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَلَمْ يُفْطِرْ، فَأَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَجْعَلَ ذَلِكَ يُسْرًا لِمَنْ بَقِيَ وَرُخْصَةً وَمَنْفَعَةً، فَقَالَ سُبْحَانَهُ: {عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ} الآيَةَ، وَكَانَ هَذَا مِمَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهِ النَّاسَ وَرَخَّصَ لَهُمْ وَيَسَّرَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵۴) (حسن صحیح)
۲۳۱۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہ آیت کریمہ{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ} ۱؎ نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اورعورتوں سے جماع کرنا حرام ہو جاتا، اور وہ آئندہ رات تک صیام سے رہتے، ایک شخص نے اپنے نفس سے خیانت کی، اس نے اپنی بیوی سے صحبت کرلی حالانکہ وہ عشاء پڑھ چکا تھا، اور اس نے صیام نہیں توڑا تو اللہ تعالی نے باقی لوگوں کو آسانی اور رخصت دینی اور انہیں فائدہ پہنچانا چاہا تو فرمایا:{عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ} ۲؎ یہی وہ چیز تھی جس کا فائدہ اللہ نے لوگوں کو دیا اور جس کی انہیں رخصت اور آسانی دی۔
وضاحت ۱؎ :'' اے ایمان والو! تم پرصیام اسی طرح فرض کردئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کردئے گئے تھے'' (سورۃ البقرۃ:۱۸۳)
وضاحت ۲؎ : ''اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے'' (سورۃ البقرۃ: ۱۸۷)


2314- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُوأَحْمَدَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ إِذَا صَامَ فَنَامَ لَمْ يَأْكُلْ إِلَى مِثْلِهَا، وَإِنَّ صِرْمَةَ بْنَ قَيْسٍ الأَنْصَارِيَّ أَتَى امْرَأَتَهُ وَكَانَ صَائِمًا فَقَالَ: عِنْدَكِ شَيْئٌ؟ قَالَتْ: لا، لَعَلِّي أَذْهَبُ فَأَطْلُبُ لَكَ شَيْئًا، فَذَهَبَتْ وَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، فَجَائَتْ فَقَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ، فَلَمْ يَنْتَصِفِ النَّهَارُ حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهِ، وَكَانَ يَعْمَلُ يَوْمَهُ فِي أَرْضِهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَتْ: {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ} قَرَأَ إِلَى قَوْلِهِ: {مِنَ الْفَجْرِ}۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۵ (۱۹۱۵)، ت/تفسیرالبقرۃ ۳ (۲۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۱)، وقد أخرجہ: ن/الصیام ۱۷(۲۱۷۰)، حم (۴/۲۹۵)، دي/الصیام ۷ (۱۷۳۵) (صحیح)
۲۳۱۴- برا ء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( ابتداء اسلام میں) آدمی جب صیام رکھتا تھا تو سونے کے بعد آئندہ رات تک کھانا نہیں کھاتا تھا ، صرمۃ بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ صیام کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا: کیا تیرے پاس کچھ ( کھانا) ہے؟ وہ بولی: کچھ نہیں ہے لیکن جاتی ہوں ہو سکتا ہے ڈھونڈنے سے کچھ مل جائے، تو وہ چلی گئی لیکن حرمہ کو نیند آگئی وہ آئی تو ( دیکھ کر)کہنے لگی کہ اب تو تم( کھانے سے) محروم رہ گئے دوپہر کا وقت ہوا بھی نہیں کہ (بھوک کے مارے) ان پرغشی طاری ہوگئی اور وہ دن بھر اپنے زمین میں کام کرتے تھے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو یہ آیت {أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ} ۱؎ نازل ہوئی، اور آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول {مِنَ الْفَجْرِ} تک پوری آیت پڑھی۔
وضاحت ۱؎ : ''صیام کی رات میں تمہارے لئے اپنی عورتوں سے جماع حلال کردیا گیا ہے'' (سورۃ البقرۃ:۱۸۳)
 
Top