• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب نَسْخِ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ}
۲-باب: آیت کریمہ: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ} کے منسوخ ہونے کا بیان​


2315- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ -يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ- عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} كَانَ مَنْ أَرَادَ مِنَّا أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ فَعَلَ، حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا۔
* تخريج: خ/تفسیر البقرۃ ۲۶ (۴۵۰۶)، م/الصوم ۲۵ (۱۱۴۵)، ت/الصوم ۷۵ (۷۹۸)، ن/الصیام ۳۵ (۲۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۳۴)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۲۹ (۱۷۷۵) (صحیح)
۲۳۱۵- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ جب یہ آیت {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} ۱؎ نازل ہوئی تو جو شخص ہم میں سے صیام نہیں رکھنا چاہتا وہ فدیہ ادا کر دیتا پھر اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔
وضاحت ۱؎ : ''اور جو لوگ صیام رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ ایک مسکین کا کھانا فدیہ دے دیں'' (سورۃ البقرۃ:۱۸۳)


2316- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} فَكَانَ مَنْ شَاءَ مِنْهُمْ أَنْ يَفْتَدِيَ بِطَعَامِ مِسْكِينٍ افْتَدَى، وَتَمَّ لَهُ صَوْمُهُ، فَقَالَ: {فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ، وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ}، وَقَالَ: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا، أَوْ عَلَى سَفَرٍ، فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۵) (حسن)
۲۳۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ{وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص ایک مسکین کا کھانا فدیہ دینا چاہتا دے دیتا اور اس کا صیام مکمل ہو جاتا ، پھر اللہ تعالی نے فرمایا: { فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ، وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ} (سورۃ البقرۃ:۱۸۴) ''پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام صیام رکھنا ہی ہے''، پھر فرمایا: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا، أَوْ عَلَى سَفَرٍ، فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ} (سورۃ البقرۃ:۱۸۵) ''تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کا صیام رکھے ، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَنْ قَالَ هِيَ مُثْبَتَةٌ لِلشَّيْخِ وَالْحُبْلَى
۳-باب: بوڑھوں اور حاملہ کے حق میں مذکورہ بالا حکم باقی ہے اس کے قائلین کا بیان​


2317- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ أَنَّ عِكْرِمَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: أُثْبِتَتْ لِلْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۹۶) (صحیح)
۲۳۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس آیت کا حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے حق میں باقی رکھا گیا ہے۔


2318- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} قَالَ: كَانَتْ رُخْصَةً لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ وَالْمَرْأَةِ الْكَبِيرَةِ وَهُمَا يُطِيقَانِ الصِّيَامَ أَنْ يُفْطِرَا وَيُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعُ إِذَا خَافَتَا.
قَالَ أَبودَاود: يَعْنِي عَلَى أَوْلادِهِمَا [أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۶۵) (شاذ)
(اس لئے کہ زیادہ بوڑھوں کے لئے اب بھی فدیہ جائز ہے ، اور حاملہ و مرضعہ کا حکم فدیہ کا نہیں ہے بلکہ بعد میں صیام رکھ لینے کا ہے)
۲۳۱۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے فرمان: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ} زیا دہ بوڑھے مرد و عورت( جو کہ صیام رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں) کے لئے رخصت ہے کہ صیام نہ رکھیں، بلکہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور حاملہ نیز دودھ پلانے والی عورت بچے کے نقصان کا خوف کریں توصیام نہ رکھیں، فدیہ دیں۔
ابوداود کہتے ہیں:یعنی مرضعہ اور حاملہ کو اپنے بچوں کے نقصان کا خوف ہو تو وہ بھی صیام نہ رکھیں اور ہر صیام کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب الشَّهْرِ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ
۴-باب: مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے​


2319- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو -يَعْنِي ابْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ- عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لا نَكْتُبُ، وَلا نَحْسُبُ، الشَّهْرُ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا > وَخَنَسَ سُلَيْمَانُ أُصْبُعَهُ فِي الثَّالِثَةِ، يَعْنِي تِسْعًا وَعِشْرِينَ، وَثَلاثِينَ۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۳(۱۹۱۳)، م/الصوم ۲ (۱۰۸۰)، ن/الصیام ۸ (۲۱۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۷۵)، وقد أخرجہ: ق/الصیام ۶ (۱۶۵۴)، حم (۲/۱۲۲) (صحیح)
۲۳۱۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: '' ہم ان پڑھ لوگ ہیں نہ ہم لکھنا جانتے ہیں اورنہ حساب و کتاب، مہینہ ایسا ، ایسا اور ایسا ہوتا ہے ،( آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بتایا)''، راوی حدیث سلیمان نے تیسری بار میں اپنی انگلی بند کر لی ، یعنی مہینہ انتیس اور تیس دن کا ہوتا ہے۔


2320- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ فَلا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ [ثَلاثِينَ] > قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا كَانَ شَعْبَانُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ نَظَرَ لَهُ فَإِنْ رُئِيَ فَذَاكَ، وَإِنْ لَمْ يُرَ وَلَمْ يَحُلْ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ وَلا قَتَرَةٌ أَصْبَحَ مُفْطِرًا، فَإِنْ حَالَ دُونَ مَنْظَرِهِ سَحَابٌ أَوْ قَتَرَةٌ أَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفْطِرُ مَعَ النَّاسِ وَلا يَأْخُذُ بِهَذَا الْحِسَابِ ۔
* تخريج: م/الصوم ۲(۱۰۸۰)،(تحفۃ الأشراف: ۷۵۳۶، ۱۹۱۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۵) (صحیح)
(مگرابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کا بیان صحیح نہیں ہے اور نہ ہی یہ مؤلف کے سوا کسی کے یہاں ہے)
۲۳۲۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' مہینہ انتیس دن کا(بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ صیام رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر صیام چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو''۔
راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آجاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن صیام نہ رکھتے اوراگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے ۔
راوی کا یہ بھی بیان ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کے ساتھ ہی صیام رکھنا چھوڑتے تھے، اور اپنے حساب کا خیال نہیں کرتے تھے۔


2321- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنِي أَيُّوبُ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ إِلَى أَهْلِ الْبَصْرَةِ: بَلَغَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، زَادَ: < وَإِنَّ أَحْسَنَ مَا يُقْدَرُ لَهُ [أَنَّا] إِذَا رَأَيْنَا هِلالَ شَعْبَانَ لِكَذَا وَكَذَا فَالصَّوْمُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لِكَذَا وَكَذَا، إِلا أَنْ تَرَوُا الْهِلالَ قَبْلَ ذَلِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۳۶ و ۱۹۱۴۶) (صحیح)
۲۳۲۱- ایوب کہتے ہیں:عمر بن عبد العزیز نے بصرہ والوں کو لکھا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے متعلق معلوم ہوا ہے ۔۔۔، آگے اسی طرح ہے جیسے ابن عمررضی اللہ عنہما کی اوپر والی مرفوع حدیث میں ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے :''اچھا اندازہ یہ ہے کہ جب ہم شعبان کا چاند فلاں فلاں روز دیکھیں تو صیام ان شاء اللہ فلاں فلاں دن کا ہو گا، ہاں اگر چاند اس سے پہلے ہی دیکھ لیں(تو چاند دیکھنے ہی سے صیام رکھیں)''۔


2322- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عِيسَى بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَمَا صُمْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرَ مِمَّا صُمْنَا مَعَهُ ثَلاثِينَ۔
* تخريج: ت/الصوم ۶ (۶۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۴۱، ۳۹۷، ۴۰۵، ۴۰۸، ۴۴۱، ۴۵۰) (صحیح)
۲۳۲۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تیس دن کے صیام کے مقابلے میں انتیس دن کے صیام زیادہ رکھے ہیں۔


2323- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < شَهْرَا عِيدٍ لا يَنْقُصَانِ: رَمَضَانُ، وَذُو الْحِجَّةِ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۲(۱۹۱۲)، م/الصوم ۷ (۱۰۸۹)، ت/الصوم ۸ (۶۹۲)، ق/الصیام ۹ (۱۶۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸، ۴۷، ۵۰) (صحیح)
۲۳۲۳- ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ''عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہو تے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں ایک ہی سال میں انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے، ایک اگر انتیس ہے تو دوسرا تیس کا ہوگا، ایک مفہوم یہ بتایا جاتا ہے کہ ثواب کے اعتبار سے کم نہیں ہوتے اگر انتیس دن کے ہوں تب بھی پورے مہینے کا ثواب ملے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب إِذَا أُغْمِيَ الشَّهْرُ
۶-باب: جب( بادل کی وجہ سے) مہینہ مشتبہ ہو جائے تو کیا کیا جائے؟​


2325- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا تَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لا يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ، ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۸۳) (صحیح)
۲۳۲۵- عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ رسول ﷺ ماہ شعبان کی تاریخوں کا جتنا خیال رکھتے کسی اور مہینے کی تاریخوں کا اتنا خیال نہ فرماتے ، پھر رمضان کا چاند دیکھ کر صیام رکھتے، اگر وہ آپ پر مشتبہ ہو جاتا تو تیس دن پورے کرتے، پھر صیام رکھتے۔


2326- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الضَّبِّيُّ، عَنْ مَنْصُورِ [ابْنِ الْمُعْتَمِرِ] عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لا تُقَدِّمُوا الشَّهْرَ حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ أَوْ تُكْمِلُوا الْعِدَّةَ، ثُمَّ صُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ أَوْ تُكْمِلُوا الْعِدَّةَ >.
[قَالَ أَبودَاود: وَرَوَاهُ سُفْيَانُ وَغَيْرُهُ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ، لَمْ يُسَمِّ حُذَيْفَةَ] ۔
* تخريج: ن/الصیام ٔ (۲۱۲۸، ۲۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۶)، وقد أخرجہ: حم(۴/۳۱۴) (صحیح)
۲۳۲۶- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''چاند دیکھے بغیر یا مہینے کی گنتی پوری کئے بغیر پہلے ہی صیام رکھنا شروع نہ کر دو، بلکہ چاند دیکھ کر یا گنتی پوری کر کے صیام رکھو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَنْ قَالَ:فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلاثِينَ
۷-باب: انتیس تاریخ کو بادل ہوں تو پورے تیس صیام رکھنے کا بیان​


2327- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تُقَدِّمُوا الشَّهْرَ بِصِيَامِ يَوْمٍ وَلايَوْمَيْنِ، إِلا أَنْ يَكُونَ شَيْئٌ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، وَلا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ثُمَّ صُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ حَالَ دُونَهُ غَمَامَةٌ فَأَتِمُّوا الْعِدَّةَ ثَلاثِينَ، ثُمَّ أَفْطِرُوا، وَالشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ >.
قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ، وَشُعْبَةُ، وَالْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكٍ، بِمَعْنَاهُ، لَمْ يَقُولُوا: < ثُمَّ أَفْطِرُوا >.
[قَالَ أَبودَاود: وَهُوَ حَاتِمُ بْنُ مُسْلِمٍ ابْنُ أَبِي صَغِيرَةَ، وَأَبُو صَغِيرَةَ: زَوْجُ أُمِّهِ]۔
* تخريج: ت/الصوم ۵ (۶۸۸)، ن/الصیام ۷ (۲۱۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۵)، وقد أخرجہ: ط/الصیام ۱(۳)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۶، ۲۵۸)، دي/الصوم ۱ (۱۷۲۵) (صحیح)
۲۳۲۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی صیام رکھنے شروع نہ کر دو، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے صیام نہ رکھو، پھر صیام رکھتے جائو، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی صیام رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے''۔
ابوداود کہتے ہیں:حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان لوگوں نے ''فَأَتِمُّوْا الْعِدَّةَ ثَلاثِيْنَ''کے بعد ''ثُمَّ أَفْطِرُوْا'' نہیں کہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فِي التَّقَدُّمِ
۸-باب: رمضان کے استقبال کا بیان​


2328- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ، وَسَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَلاءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لِرَجُلٍ: < هَلْ صُمْتَ مِنْ شَهْرِ شَعْبَانَ شَيْئًا؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمًا > وَقَالَ أَحَدُهُمَا: < يَوْمَيْنِ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۶۲(۱۹۸۳تعلیقًا)، م/الصوم ۳۷ (۱۱۶۱)، (عندالجمیع: ''من سرر شعبان'')، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۴۴، ۱۰۸۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۳۲، ۴۳۴، ۴۴۲، ۴۴۳، ۴۴۶)، دي/الصوم ۳۵ (۱۱۸۳) (صحیح)
۲۳۲۸- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے پوچھا: ''کیا تم نے شعبان کے کچھ صیام رکھے ہیں ۱؎ ؟''، جواب دیا: نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: '' جب( رمضان کے) صیام رکھ چکو تو ایک صیام اور رکھ لیا کرو''، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: '' دو صیام رکھ لیا کرو''۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف کے سوا ہر ایک کے یہاں ''شهر'' (مہینہ) کی بجائے ''سرر'' (آخرماہ) کا لفظ ہے ، بلکہ خود مؤلف کے بعض نسخوں میں بھی یہی لفظ ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ : ''اُس آدمی کی عادت تھی کہ ہر مہینہ کے اخیر میں صیام رکھا کرتا تھا، مگر رمضان سے ایک دو دن برائے استقبالِ رمضان صیام کی ممانعت '' سن کر اس نے اپنے معمول والا یہ صیام نہیں رکھا، تو آپ ﷺ نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے ایسا فرمایا، یعنی : رمضان سے ایک دو دن قبل صیام رکھنے کا اگر کسی کا معمول ہو تو وہ رکھ سکتا ہے ، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معمول کی عبادت اگر کسی سبب سے چھوٹ جائے تو اس کی قضا کرلینی چاہئے۔


2329- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْعَلاءِ الزُّبَيْدِيُّ مِنْ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِي الأَزْهَرِ -الْمُغِيرَةِ بْنِ فَرْوَةَ- قَالَ: قَامَ مُعَاوِيَةُ فِي النَّاسِ بِدَيْرِ مِسْحَلٍ الَّذِي عَلَى بَابِ حِمْصَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّا قَدْ رَأَيْنَا الْهِلالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَأَنَا مُتَقَدِّمٌ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَفْعَلَهُ فَلْيَفْعَلْهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ مَالِكُ بْنُ هُبَيْرَةَ السَّبَئِيُّ، فَقَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ، أَشَيْئٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَمْ شَيْئٌ مِنْ رَأْيِكَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < صُومُوا الشَّهْرَ وَسِرَّهُ >.
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۴۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مغیرہ بن فروہ'' لین الحدیث ہیں)
۲۳۲۹- ابو ازہرمغیرہ بن فر وہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیر مسحل پر( جو کہ حمص کے دروازے پر واقع ہے )، کھڑے ہوکر لوگوں سے کہا: لوگو! ہم نے چاند فلاں فلاں دن دیکھ لیا ہے اور میں سب سے پہلے صیام رکھ رہا ہوں، جو شخص صیام رکھنا چاہے رکھ لے ، مالک بن ہبیرہ سبئی نے کھڑے ہو کران سے کہا: معاویہ! یہ بات آپ نے رسول ﷺ سے سن کر کہی ہے، یا آپ کی اپنی را ئے ہے؟ جواب دیا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: '' رمضان کے مہینے کے صیام رکھو اور آخر شعبان کے''۔


2330- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: قَالَ الْوَلِيدُ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو -يَعْنِي الأَوْزَاعِيَّ- يَقُولُ: سِرُّهُ أَوَّلُهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۶۶) (شاذ مقطوع) (کیونکہ صحیح معنی : اواخرماہ ہے)
۲۳۳۰- سلیمان بن عبد الرحمن نے اس حدیث کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ ولید کہتے ہیں:میں نے ابو عمرو یعنی اوزاعی کو کہتے سنا ہے کہ سرہ کے معنی اوائل ماہ کے ہیں۔
2331- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: كَانَ سَعِيدٌ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ- يَقُولُ: سِرُّهُ أَوَّلُهُ.
[قَالَ أَبودَاود: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: سِرُّهُ وَسَطُهُ، وَقَالُوا: آخِرُهُ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۹۶۶، ۱۸۶۹۳) (شاذ)
۲۳۳۱- ابو مسہر کہتے ہیں :سعید یعنی ابن عبد العزیز کہتے ہیں'' سِرُّهُ '' کے معنی ''أَوَّلُهُ '' کے ہیں۔
ابوداود کہتے ہیں:''سِرُّهُ'' کے معنی کچھ لوگ''وَسَطُهُ'' کے بتاتے ہیں اور کچھ لوگ '' آخِرُهُ ''کے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب إِذَا رُئِيَ الْهِلالُ فِي بَلَدٍ قَبْلَ الآخَرِينَ بِلَيْلَةٍ
۹-باب: اگرکسی شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آجائے تو کیا کرے؟​


2332- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ ابْنَةَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، فَاسْتَهَلَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْنَا الْهِلالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرَ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلالَ؟ قُلْتُ: رَأَيْتُهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلا نَزَالُ نَصُومُهُ حَتَّى نُكْمِلَ الثَّلاثِينَ أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَفَلا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: م/الصیام ۵ (۱۰۸۷)، ت/الصیام ۹ (۶۹۳)، ن/الصیام ۵ (۲۱۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰۶) (صحیح)
۲۳۳۲- کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا ، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آگیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں ، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور صیام رکھا ہے، معاویہ نے بھی صیام رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:لیکن ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے لہٰذا ہم چاند نظر آنے تک صیام رکھتے رہیں گے ، یا تیس صیام پورے کریں گے ، تو میں نے کہا کہ کیا معاویہ کی رؤیت اور ان کا صیام کافی نہیں ہے؟ کہنے لگے: نہیں ، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے۔


2333- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ : فِي رَجُلٍ كَانَ بِمِصْرٍ مِنَ الأَمْصَارِ فَصَامَ يَوْمَ الاثْنَيْنِ، وَشَهِدَ رَجُلانِ أَنَّهُمَا رَأَيَا الْهِلاَلَ لَيْلَةَ الأَحَدِ، فَقَالَ: لايَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ الرَّجُلُ وَلا أَهْلُ مِصْرِهِ، إِلا أَنْ يَعْلَمُوا أَنَّ أَهْلَ مِصْرٍ مِنْ أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ قَدْصَامُوا يَوْمَ الأَحَدِ فَيَقْضُونَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۹۲) (صحیح)
۲۳۳۳- حسن بصری سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی شہر میں ہو اور اس نے دوشنبہ (پیر) کے دن کا صیام رکھ لیا ہو اور دو آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے اتوار کی رات چاند دیکھا ہے (اور اتوار کو صیام رکھا ہے) تو انہوں نے کہا : وہ شخص اور اس شہر کے باشندے اس دن کا صیام قضاء نہیں کریں گے ، ہاں اگر معلوم ہو جائے کہ مسلم آبادی والے کسی شہر کے باشندوں نے سنیچر کا صیام رکھا ہے تو انہیں بھی ایک صیام کی قضاء کرنی پڑے گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ فتوی اُس حدیث کے خلاف ہے جس میں ہے کہ : اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کی گواہی پر ایک صیام رکھنے کا حکم صادرفرمایا اور دو آمیوں کی گواہی پر عید کرنے کا حکم دیا ، یعنی: بات سچی گواہی پر منحصرہے نہ کہ جم غفیر کے عمل پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب كَرَاهِيَةِ صَوْمِ يَوْمِ الشَّكِّ
۱۰-باب: شک کے دن کے صیام کی کراہت کا بیان​


2334- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ صِلَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، فَأَتَى بِشَاةٍ، فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ عَمَّارٌ: مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَاالْقَاسِمِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۱(۱۹۰۶ تعلیقاً)، ت/الصوم ۳ (۶۸۶)، ن/الصیام ۲۰ (۲۱۹۰)، ق/الصیام ۳ (۱۶۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۴)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۱(۱۷۲۴) (صحیح)
۲۳۳۴- صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم اس دن میں جس دن کا صیام مشکوک ہے عمار رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ان کے پاس ایک (بھنی ہوئی) بکری لائی گئی، تو لوگوں میں سے ایک آدمی ( کھانے سے احتراز کرتے ہو ے) الگ ہٹ گیا اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے(شک والے) دن کا صیام رکھا اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِيمَنْ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
۱۱-باب: شعبان کے صیام رکھتے ہوئے ماہ رمضان میں داخل ہونے کا بیان​


2335- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا تُقَدِّمُوا صَوْمَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلايَوْمَيْنِ، إِلا أَنْ يَكُونَ صَوْمٌ يَصُومُهُ رَجُلٌ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الصَّوْمَ >۔
* تخريج: خ/الصوم ۱۴(۱۹۱۴)، م/الصیام ۳ (۱۰۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۲۲)، وقد أخرجہ: ت/الصوم ۲ (۶۸۵)، ن/الصیام ۳۱ (۲۱۷۱)، ۳۸ (۲۱۸۹)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۰)، حم (۲/۲۳۴، ۳۴۷، ۴۰۸، ۴۳۸، ۴۷۷، ۴۹۷، ۵۱۳، ۵۲۱)، دي/الصوم ۴ (۱۷۳۱) (صحیح)
۲۳۳۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے صیام نہ رکھو، ہاں اگر کوئی آدمی پہلے سے صیام رکھتا آرہا ہے تو وہ ان دنوں کا صیام رکھے ''۔


2336- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ تَوْبَةَ الْعَنْبَرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنَ السَّنَةِ شَهْرًا تَامًّا إِلا شَعْبَانَ يَصِلُهُ بِرَمَضَانَ۔
* تخريج: ن/الصیام ۱۹ (۲۱۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۳۸)، وقد أخرجہ: ت/الصوم ۳۷ (۷۳۶)، ق/الصیام ۴ (۱۶۴۸)، حم (۶/۳۰۰، ۳۱۱)، دي/الصوم ۳۳ (۱۷۸۰) (صحیح)
۲۳۳۶- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سال میں کسی مہینے کے مکمل صیام نہ رکھتے سوائے شعبان کے اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور یہ صرف نبی اکرم ﷺ کے لئے خاص تھا، کیونکہ آپ ﷺ نے امت کو نصف شعبان کے بعد صیام سے منع فرمایا ہے، تاکہ رمضان کے لئے قوت حاصل ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ ذَلِكَ
۱۲-باب: اواخر شعبان کے صیام کی کراہت کا بیان​


2337- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَدِمَ عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ الْمَدِينَةَ، فَمَالَ إِلَى مَجْلِسِ الْعَلاءِ فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاتَصُومُوا > فَقَالَ الْعَلاءُ: اللَّهُمَّ إِنَّ أَبِي حَدَّثَنِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ.
[قَالَ أَبودَاود: رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ وَشِبْلُ بْنُ الْعَلاءِ وَأَبُو عُمَيْسٍ وَزُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْعَلاءِ.
قَالَ أَبودَاود: وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لا يُحَدِّثُ بِهِ، قُلْتُ لأَحْمَدَ: لِمَ؟ قَالَ: لأَنَّهُ كَانَ عِنْدَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ وَقَالَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ خِلافَهُ.
قَالَ أَبودَاود: وَلَيْسَ هَذَا عِنْدِي خِلافُهُ وَلَمْ يَجِئْ بِهِ غَيْرُ الْعَلاءِ عَنْ أَبِيهِ]۔
* تخريج: ت/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، ق/الصیام ۵ (۱۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: دي/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
۲۳۳۷- عبد العزیز بن محمد کہتے ہیں کہ عباد بن کثیر مدینہ آئے تو علاء کی مجلس کی طرف مڑے اور(جاکر) ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کیا پھرکہنے لگے:اے اللہ! یہ شخص اپنے والد سے اور وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب نصف شعبان ہوجائے تو صیام نہ رکھو''،علاء نے کہا: اے اللہ! میرے والد نے یہ حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مجھ سے بیان کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:اسے ثوری ، شبل بن علاء ، ابو عمیس اور زہیر بن محمد نے علاء سے روایت کیا، نیز ابو داود نے کہا: عبدالرحمن (ابن مہدی) اس حدیث کو بیان نہیں کرتے تھے ، میں نے احمد سے کہا: ایسا کیوں ہے؟وہ بولے: کیونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کو( صیام رکھ کر) رمضان سے ملا دیتے تھے، نیز انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ سے اس کے برخلاف مروی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں: میرے نزدیک یہ اس کے خلاف نہیں ہے ۱؎ اسے علاء کے علاوہ کسی اور نے ان کے والد سے روایت نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ وہ بات آپ ﷺ کے لئے خاص تھی ، اوریہ بات عام امت کے لئے ہے۔
 
Top