• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
{ 9- كِتَاب الْجِهَادِ }
۹-کتاب: جہاد کے احکام و مسائل

1- بَاب مَا جَاءَ فِي الْهِجْرَةِ وَسُكْنَى الْبَدْوِ
۱-باب: ہجرت کا ذکر اور صحراء وبیابان میں رہائش کا بیان​


2477- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ -يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ- عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: < وَيْحَكَ! إِنَّ شَأْنَ الْهِجْرَةِ شَدِيدٌ فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ >، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَهَلْ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا؟ >، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۳۶ (۱۴۵۲)، والھبۃ ۳۵ (۲۶۳۳)، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۲۳)، والأدب ۹۵ (۶۱۶۵)، م/الإمارۃ ۲۰ (۱۸۶۵)، ن/البیعۃ ۱۱ (۴۱۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۳، ۱۵۵۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۴، ۶۴) (صحیح)
۲۴۷۷- ابو سعید خد ری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی ( دیہا تی) نے نبی اکرم ﷺ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ''تمہارے اوپر افسوس ہے! ۱؎ ہجرت کا معاملہ سخت ہے، کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟''، اس نے کہا: ہاں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تم ان کی زکاۃ دیتے ہو؟''، اس نے کہا: ہاں(دیتے ہیں )، آپ ﷺ نے فرمایا:'' پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کر ے گا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث میں '' ویحک '' ( تمہارے اوپر افسوس ہے!)کا لفظ کلمہ ٔ ترحم وتوجع ہے اور اس شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی ایسی تباہی میں پھنس گیا ہو جس کا وہ مستحق نہ ہو ۔
وضاحت ۲؎ : مفہوم یہ ہے کہ تمہاری جیسی نیت ہے اس کے مطابق تمہیں ہجرت کا ثواب ملے گا تم خواہ کہیں بھی رہو، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت ان لوگوں پر واجب ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہوں ۔


2478- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَعُثْمَانُ ابْنَا أَبِي شَيْبَةَ قَالا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا عَنِ الْبَدَاوَةِ فَقَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَبْدُو إِلَى هَذِهِ التِّلاعِ، وَإِنَّهُ أَرَادَ الْبَدَاوَةَ مَرَّةً فَأَرْسَلَ إِلَيَّ نَاقَةً مُحَرَّمَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ فَقَالَ لِي: < يَاعَائِشَةُ! ارْفُقِي؛ فَإِنَّ الرِّفْقَ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْئٍ قَطُّ إِلا زَانَهُ، وَلا نُزِعَ مِنْ شَيْئٍ قَطُّ إِلا شَانَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، ویأتی ہذا الحدیث في الأدب (۴۸۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۵۰)، وقد أخرجہ: م/البر والصلۃ ۲۳ (۲۵۹۴)، حم (۶/۵۸، ۲۲۲) (صحیح)
(اس میں سے صرف قول رسول ﷺ صحیح ہے اور اتنا ہی صحیح مسلم میں ہے، ٹیلوں پرجانے کا واقعہ صحیح نہیں ہے، اور یہ مؤلف کا تفرد ہے)
۲۴۷۸- شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء وبیابان ( میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: ''عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اُسے عیب دار کر دیتی ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي الْهِجْرَةِ هَلِ انْقَطَعَتْ
۲-باب: کیا ہجرت ختم ہو گئی؟​


2479- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ حَرِيزِ [بْنِ عُثْمَانَ]، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ، وَلا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۹۹)، دي / السیر ۷۰ (۲۵۵۵) (صحیح)
۲۴۷۹- معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''ہجرت ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ توبہ کا سلسلہ ختم ہو جائے، اور توبہ ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج پچھم سے نکل آئے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے اگر ممکن ہو تو دارلکفر سے دارالاسلام کی طرف، اور دارالمعاصی سے دارالصلاح کی طرف ہجرت ہمیشہ بہتر ہے، ورنہ فی زمانہ کوئی بھی ملک دوسرے ملک کے شہری کو اپنے یہاں منتقل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔


2480- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُوسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ -فَتْحِ مَكَّةَ-: < لا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۰۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۸) (صحیح)
۲۴۸۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا :'' اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں( کیو ں کہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا ) لیکن جہاد اور( ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو''۔


2481- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو وَعِنْدَهُ الْقَوْمُ حَتَّى جَلَسَ عِنْدَهُ، فَقَالَ: أَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۴ (۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۳۴)، وقد أخرجہ: م/الإیمان ۹ (۴۰)، حم (۲/۱۶۰، ۱۶۳، ۱۹۲، ۱۹۳، ۲۰۵، ۲۱۲، ۲۲۴)، دي/الرقاق ۸ (۲۷۸۵) (صحیح)
۲۴۸۱- عامر شعبی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے یہاں تک کہ وہ بھی آکر آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا : مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑدے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي سُكْنَى الشَّامِ
۳-باب: شام میں رہنے کی فضیلت کا بیان​


2482- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ ابْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِيَارُ أَهْلِ الأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ، وَيَبْقَى فِي الأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ، تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ، وَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۰۹، ۱۹۸) (حسن)
(لیکن دوسرے طریق اور شاہد سے تقویت پا کر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۳۲۰۳، وتراجع الالبانی: ۴)
۲۴۸۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:'' عنقریب ہجرت کے بعد ہجرت ہو گی تو زمین والوں میں بہتر وہ لوگ ہوں گے جو ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ (شام ) کو لازم پکڑیں گے، اور زمین میں ان کے بدترین لوگ رہ جائیں گے، ان کی سر زمین انہیں باہر پھینک دے گی ۱؎ اور اللہ کی ذات ان سے گھن کرے گی اور آگ انہیں بندروں اور سوروں کے ساتھ اکٹھا کر ے گی'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتے پھریں گے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے قیامت کے دن والا حشر مراد نہیں ہے نیز یہاں آگ سے مراد فتنے کی آگ ہے ۔


2483- حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدٍ -يَعْنِي ابْنَ مَعْدَانَ- عَنِ ابْنِ أَبِي قُتَيْلَةَ، عَنِ ابْنِ حَوَالَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < سَيَصِيرُ الأَمْرُ إِلَى أَنْ تَكُونُوا جُنُودًا مُجَنَّدَةً، جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ، وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ >، قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ، فَقَالَ: <عَلَيْكَ بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ، يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ، وَاسْقُوا مِنْ غُدُرِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، ( تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۰) (صحیح)
۲۴۸۳- عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں''۔
ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پائوں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''اپنے اوپر شام کو لازم کر لو، کیوں کہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شام فتنوں سے محفوظ رہے گا اور وہاں کے رہنے والوں کو اللہ فتنہ کے ذریعہ ہلاک نہیں کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِي دَوَامِ الْجِهَادِ
۴-باب: جہاد کے ہمیشہ رہنے کا بیان​


2484- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۲۹، ۴۳۳، ۴۳۷) (صحیح)
۲۴۸۴- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت کا ایک گروہ ۱؎ ہمیشہ حق کے لئے لڑتا رہے گا اور ان لوگوں پر غالب رہے گا جو ان سے دشمنی کریں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ مسیح الدجال سے قتال کریں گے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام بخاری کہتے ہیں : اس سے مراد اہل علم ہیں، اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں: اس سے مراد اگر '' اہل الحدیث '' نہیں ہیں تو میں نہیں جانتا کہ کون لوگ ہیں ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد امام مہدی اور عیسیٰ وضاحت ہیں، اور ان دونوں کے متبعین ہیں عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اترنے کے بعد دجال کو قتل کریں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
5- بَاب فِي ثَوَابِ الْجِهَادِ
۵-باب: جہاد کے ثواب کا بیان​


2485- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ سُئِلَ: أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْمَلُ إِيمَانًا؟ قَالَ: < رَجُلٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، وَرَجُلٌ يَعْبُدُ اللَّهَ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ قَدْ كُفِيَ النَّاسُ شَرَّهُ >۔
* تخريج: خ/الجھاد ۲ (۲۷۸۶)، والرقاق ۳۴ (۶۴۹۴)، م/الإمارۃ ۳۴ (۱۸۸۸)، ت/فضائل الجھاد ۲۴ (۱۶۶۰)، ن/الجھاد ۷ (۳۱۰۷)، ق/الفتن ۱۳ (۳۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۶، ۳۷، ۵۶، ۸۸) (صحیح)
۲۴۸۵- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا : کون سا مومن سب سے زیادہ کامل ایمان والا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' وہ شخص جواللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کر ے، نیز وہ شخص جو کسی پہا ڑ کی گھاٹی ۱؎ میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں'' ۔
وضاحت ۱؎ : یہ شرط نہیں ہے، اسے بطور مثال ذکر کیا گیا ہے کیونکہ عموماً گھاٹیوں میں تنہائی ہوتی ہے، اس سے گوشہ نشینی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ آدمی بے کار باتوں اور لغو چیزوں سے محفوظ رہتا ہے لیکن یہ فتنہ کے زمانہ کے ساتھ خاص ہے، اور فتنہ نہ ہونے کی صورت میں جمہور کے نزدیک عام لوگوں سے اختلاط اور میل جول ہی زیادہ بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِي النَّهْيِ عَنِ السِّيَاحَةِ
۶-باب: سیاحت کی ممانعت کا بیان​


2486- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِيُّ [أَبُو الْجَمَاهِرِ] حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلاءُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي السِّيَاحَةِ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۱) (حسن)
۲۴۸۶- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میری امت کی سیاحت اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِي فَضْلِ الْقَفْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى
۷-باب: جہاد سے( فارغ ہو کر) لوٹنے کی فضیلت کا بیان​


2487- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنِ ابْنِ شُفَيٍّ، عَنْ شُفَيِّ، [بْنِ مَاتِعٍ]، عَنْ عَبْدِاللَّهِ -هُوَ ابْنُ عَمْرٍو- عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < قَفْلَةٌ كَغَزْوَةٍ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۴) (صحیح)
۲۴۸۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جہاد سے لوٹنا(ثواب میں ) جہاد ہی کی طرح ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جہاد سے لوٹنا ثواب میں جہاد ہی کی طرح اس لئے ہے کہ مجاہد جس وقت جہاد کے لئے نکلا تھا اس وقت اس کے لئے جو تیاری کی اس تیاری سے اسے اور اس کے اہل وعیال کو جو پریشانی لاحق ہوئی اب مجاہد کے لوٹنے سے وہ پریشانی ختم ہوجائے گی اور اپنے اہل وعیال میں واپس آجانے سے اسے جو طاقت وقوت حاصل ہوگی اس سے وہ اس لائق ہوجائے گا کہ دوبارہ جہاد کے لئے نکل سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
8- بَاب فَضْلِ قِتَالِ الرُّومِ عَلَى غَيْرِهِمْ مِنَ الأُمَمِ
۸-باب: دوسری قوموں کے مقابلے میں رومیوں سے لڑنے کی فضیلت کا بیان​


2488- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَلامٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عَبْدِالْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: جَائَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلادٍ، وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ، تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ : جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ؟ فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ >، قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < لأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبد الخبیر''مجہول ہیں)
۲۴۸۸- قیس بن شماس کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی جس کو ام خلاد کہا جاتا تھا وہ نقاب پوش تھی، وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھی، ایک صحابی نے اس سے کہا: تو اپنے بیٹے کو پوچھنے چلی ہے اور نقاب پہنے ہوئی ہے؟ اس نے کہا: اگر میں اپنے لڑکے کی جانب سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیا کو مصیبت نہیں لاحق ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تیرے بیٹے کے لئے دو شہیدوں کا ثواب ہے''، وہ کہنے لگی: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس وجہ سے کہ اس کو اہل کتا ب نے مارا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي رُكُوبِ الْبَحْرِ فِي الْغَزْوِ
۹-باب: جہاد کے لئے سمندر کے سفر کا بیان​


2489- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ بِشْرٍ أَبِي عَبْدِاللَّهِ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا يَرْكَبُ الْبَحْرَ إِلا حَاجٌّ أَوْ مُعْتَمِرٌ أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّ تَحْتَ الْبَحْرِ نَارًا، وَتَحْتَ النَّارِ بَحْرًا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''بشر'' اور''بشیر'' دونوں مجہول ہیں)
۲۴۸۹- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سمندر کا سفر نہ کرے مگر حج کرنے والا، یا عمرہ کرنے والا، یا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا کیوں کہ سمند ر کے نیچے آگ ہے اور اس آگ کے نیچے سمندر ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فَضْلِ الْغَزْوِ فِي الْبَحْرِ
۱۰-باب: سمندر میں جہاد کرنے کی فضیلت کا بیان​


2490- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ [يَعْنِي] ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ عِنْدَهُمْ، فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ: < رَأَيْتُ قَوْمًا مِمَّنْ يَرْكَبُ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ >، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، [قَالَ: < فَإِنَّكِ مِنْهُمْ >] قَالَتْ: ثُمَّ نَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: < أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ >، قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ ابْنُ الصَّامِتِ فَغَزَا فِي الْبَحْرِ فَحَمَلَهَا مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَانْدَقَّتْ عُنُقُهَا فَمَاتَتْ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۳ (۲۷۸۸)، ۸ (۲۷۹۹)، ۶۳ (۲۸۷۷)، ۷۵ (۲۸۹۴)، ۹۳ (۲۹۲۴)، الاستئذان ۴۱ (۶۲۸۲)، والتعبیر ۱۲ (۷۰۰۱)، م/الجہاد ۴۹ (۱۹۱۲)، ت/فضائل الجھاد ۱۵ (۱۶۴۵)، ن/الجھاد ۴۰ (۳۱۷۴)، ق/الجھاد ۱۰ (۲۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۷)، وقد أخرجہ: ط/الجھاد ۱۸(۳۹)، حم (۳/۲۶۴، ۶/۳۶۱، ۴۲۳، ۴۳۵)، دی/ الجہاد ۲۹ (۲۴۶۵) (صحیح)
۲۴۹۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی بہن ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ ﷺ ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا:'' میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر''،میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا:''تو انہیں میں سے ہے''۔
پھر آپ ﷺ سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا : اللہ کے رسول! آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا:'' تو پہلے لوگوں میں سے ہے ''۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے شادی کی، پھر انہوں نے سمندر میں جہاد کیا توانہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے،جب لوٹے تو ایک خچر ان کی سواری کے لئے ان کے قریب لایا گیا، تو اس نے انہیں گر ادیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ انتقال کر گئیں۔


2491- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، وَسَاقَ [هَذَا] الْحَدِيثَ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَمَاتَتْ بِنْتُ مِلْحَانَ بِقُبْرُصَ]۔
* تخريج: خ/الجھاد ۳ (۲۷۸۸)، الاستئذان ۴۱ (۶۲۸۲)، التعبیر ۱۲ (۷۰۰۱)، م/الجہاد ۴۹ (۱۹۱۲)، ت/الجھاد ۱۵ (۱۶۴۵)، ن/الجھاد ۴۰ (۳۱۷۳)، ق/الجھاد ۱۸ (۳۹)، ( تحفۃ الأشراف: ۱۹۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۴۰) (صحیح)
۲۴۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبا جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے، یہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں، ایک روز آپ ﷺ ان کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ ﷺ کے سر کی جوئیں نکالنے لگیں، ۱؎ اور آگے راوی نے یہی حدیث بیان کی۔
ابو داود کہتے ہیں: بنت ملحان کا انتقال قبرص میں ہوا۔
وضاحت ۱؎ : ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا یا تو آپ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں یا آپ کے والد یا دادا کی خالہ تھیں۔


2492- حدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ ابْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُخْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ الرُّمَيْصَاءِ قَالَتْ: نَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَاسْتَيْقَظَ، وَكَانَتْ تَغْسِلُ رَأْسَهَا، فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَضْحَكُ مِنْ رَأْسِي؟ قَالَ: <لا> وَسَاقَ هَذَا الْخَبَرَ: يَزِيدُ، وَيَنْقُصُ.
[قَالَ أَبو دَاود: الرُّمَيْصَاءُ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ].
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۲۴۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۷) (صحیح)
۲۴۹۲- ام حرام رمیصاء ۱؎ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سوئے پھر بیدار ہوئے، اور وہ اپنا سر دھو رہی تھیں تو آپ ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، انہوں نے کہا : اللہ کے رسول! کیا آپ میرے بال دیکھ کر ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں''، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کی۔
ابوداود کہتے ہیں:رمیصاء ام سلیم کی رضاعی بہن تھیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام سلیم رضی اللہ عنہا امّ حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں، سند میں اخت امّ سلیم سے مراد ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا ہی ہیں، ام حرام رضی اللہ عنہا کو رمیصاء کہا جاتا تھا، اور امّ سلیم رضی اللہ عنہا کو غمیصاء ۔
وضاحت ۲؎ : ابوداود کا یہ قول صحیح نہیں ہے، وہ رضاعی نہیں بلکہ نسبی اور حقیقی بہن تھیں۔


2493- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الْعَيْشِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الْجَوْبَرِيُّ الدِّمَشْقِيُّ، الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيِّ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ أُمِّ حَرَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: < الْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ الَّذِي يُصِيبُهُ الْقَيْئُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ، وَالْغَرِقُ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۰۹) (حسن)
۲۴۹۳- ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' (جہاد یا حج کے لئے) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آ ئے تو اس کے لئے ایک شہید کا ثواب ہے، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لئے دوشہیدوں کا ثواب ہے''۔


2494- حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ عَتِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ [يَعْنِي ابْنَ سَمَاعَةَ]، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < ثَلاثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: رَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسَلامٍ فَهُوَ ضَامِنٌ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ > .
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۵) (صحیح)
۲۴۹۴- ابو امامہ با ہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : '' تین قسم کے افراد ایسے ہیں جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے : ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلے، اللہ اس کا ضامن ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کر ے گا، یا اجر اورغنیمت کے ساتھ واپس لوٹائے گا، دوسرا وہ شخص جو مسجد کی طرف چلا، اللہ اس کا ضا من ہے یا اسے وفات دے کر جنت میں داخل کرے گا، یا اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا ئے گا، تیسرا وہ شخص جو اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہوا، اللہ اس کا بھی ضامن ہے''۔
 
Top