• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي فَضْلِ مَنْ قَتَلَ كَافِرًا
۱۱-باب: کافر کو قتل کرنے والے کی فضیلت کا بیان​


2495- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ- عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لا يَجْتَمِعُ فِي النَّارِ كَافِرٌ وَقَاتِلُهُ أَبَدًا>۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۶ (۱۸۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۶۳، ۳۶۸، ۳۷۸) (صحیح)
۲۴۹۵- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ' کافر اور اس کو قتل کرنے والا مسلمان دونوں جہنم میں کبھی بھی اکٹھا نہ ہوں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا یہ قتل کرنا اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور وہ سزا سے بچ جائے گا اور اگر اسے سزا ہوئی بھی تو وہ جہنم کے علاوہ کوئی اور سزا ہوگی مثلاً وہ اعراف میں قید کر دیا جائے گا اور جنت میں دخول اوّلی سے محروم کر دیا جائے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي حُرْمَةِ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ
۱۲-باب: جہاد میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر مجاہدین کی بیویوں کی حرمت کا بیان​


2496- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ قَعْنَبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ إِلانُصِبَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقِيلَ لَهُ: [هَذَا] قَدْ خَلَفَكَ فِي أَهْلِكَ فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ >، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < مَاظَنُّكُمْ >.
[قَالَ أَبو دَاود: كَانَ قَعْنَبٌ رَجُلا صَالِحًا، وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى أَرَادَ قَعْنَبًا عَلَى الْقَضَاءِ، فَأَبَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَنَا أُرِيدُ الْحَاجَةَ بِدِرْهَمٍ فَأَسْتَعِينُ عَلَيْهَا بِرَجُلٍ، قَالَ: وَأَيُّنَا لا يَسْتَعِينُ فِي حَاجَتِهِ؟ قَالَ: أَخْرِجُونِي حَتَّى أَنْظُرَ، فَأُخْرِجَ [فَتَوَارَى]، قَالَ سُفْيَانُ: بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَارٍ إِذْ وَقَعَ عَلَيْهِ الْبَيْتُ فَمَاتَ]۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۹ (۱۸۹۷)، ن/الجھاد ۴۷ (۳۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۲، ۳۵۵) (صحیح)
۲۴۹۶- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی مائوں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھر بار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا :اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے ''، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''پھر تم کیا سمجھتے ہو؟'' ۱؎ ۔
ابوداود کہتے ہیں:قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا: کون ہے جو اپنی ضرورت کے لئے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا: تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں(کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں : اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گر پڑا اور وہ مر گئے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نیکیاں لینے والے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے کی اس کی چاہت کا تم کیا اندازہ کرسکتے ہو ؟ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہ جائے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
13- بَاب فِي السَّرِيَّةِ تُخْفِقُ
۱۳-باب: مالِ غنیمت کے بغیر واپس ہونے والے لشکر کی فضیلت کا بیان​


2497- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ وَابْنُ لَهِيعَةَ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ الحُبُلِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُصِيبُونَ غَنِيمَةً إِلا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ مِنَ الآخِرَةِ، وَيَبْقَى لَهُمُ الثُّلُثُ، فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۴ (۱۹۰۶)، ن/الجھاد ۱۵ (۳۱۲۷)، ق/الجھاد ۱۳ (۲۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۹) (صحیح)
۲۴۹۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجاہدین کی کوئی جماعت ایسی نہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتی ہو پھر مال غنیمت حاصل کرتی ہو، مگرآخرت کا دو تہائی ثواب اسے پہلے ہی دنیا میں حاصل ہو جاتا ہے، اور ایک تہائی (آخرت کے لئے) باقی رہتا ہے، اور اگراسے مال غنیمت نہیں ملا تو آخرت میں ان کے لئے مکمل ثواب ہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
14- بَاب فِيْ تَضْعِيْفِ الذِكْرِ فِي سَبِيْلِ اللهِ
۱۴-باب: جہاد میں ذکرِ الٰہی کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے​


2498- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ وَسَعِيدِ ابْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ الصَّلاةَ وَالصِّيَامَ وَالذِّكْرَ تُضَاعَفُ عَلَى النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۸، ۴۴۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''زبان'' ضعیف ہیں)
۲۴۹۸- معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''(دورانِ جہاد) صلاۃ، صوم اور ذکر الٰہی(کا ثواب)جہاد میں خرچ کے ثواب پر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
15- بَابٌ فِي مَنْ مَاْتَ غَاْزِيًا
۱۵-باب: جہاد کرتے ہوئے مر جانے والے کی فضیلت کا بیان​


2499- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، يَرُدُّ إِلَى مَكْحُولٍ، إِلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ الأَشْعَرِيِّ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الأَشْعَرِيَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ فَصَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَاتَ أَوْ قُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ، أَوْ وَقَصَهُ فَرَسُهُ أَوْ بَعِيرُهُ أَوْ لَدَغَتْهُ هَامَّةٌ أَوْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ [أَوْ] بِأَيِّ حَتْفٍ شَاءَ اللَّهُ فَإِنَّهُ شَهِيدٌ، وَإِنَّ لَهُ الْجَنَّةَ>۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۵) (ضعیف)
(اس کے رواۃ ''بقیہ'' اور''ابن ثوبان '' دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: الضعيفة 5361، وأحكام الجنائز 51، وتراجع الألباني 182)
۲۴۹۹- ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:'' جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا پھر وہ مرگیا، یا مار ڈالا گیا تو وہ شہید ہے، یا اس کے گھو ڑے یا اونٹ نے اسے روند دیا، یا کسی سانپ اور بچھو نے ڈنک مار دیا، یا اپنے بستر پہ، یا موت کے کسی بھی سبب سے جسے اللہ نے چاہا مر گیا، تو وہ شہید ہے، اور اس کے لئے جنت ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
16- بَاب فِي فَضْلِ الرِّبَاطِ
۱۶-باب: سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کی فضیلت کا بیان​


2500- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلُّ الْمَيِّتِ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ، إِلا الْمُرَابِطَ فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ >۔
* تخريج: ت/فضائل الجھاد ۲ (۱۶۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۲)، وقد أخرجہ: (حم ۶/۲۰، ۲۲) (صحیح)
۲۵۰۰- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کر دیا جاتا ہے، سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے، اس کا عمل اس کے لئے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کر دیا جائے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
17- بَابٌ فِي فَضْلِ الْحَرْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى
۱۷-باب: اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کی فضیلت کا بیان​


2501- حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ -يَعْنِي ابْنَ سَلامٍ- عَنْ زَيْدٍ -يَعْنِي ابْنَ سَلامٍ- أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي السَّلُولِيُّ [أَبُو كَبْشَةَ] أَنَّهُ حَدَّثَهُ سَهْلُ بْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَأَطْنَبُوا السَّيْرَ حَتَّى كَانَتْ عَشِيَّةً، فَحَضَرْتُ الصَّلاةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَارِسٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي انْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ حَتَّى طَلَعْتُ جَبَلَ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ آبَائِهِمْ بِظُعُنِهِمْ وَنَعَمِهِمْ وَشَائِهِمُ اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَيْنٍ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَالَ: < تِلْكَ غَنِيمَةُ الْمُسْلِمِينَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ >، ثُمَّ قَالَ: < مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ؟ >، قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: <فَارْكَبْ > فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ [لَهُ] رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < اسْتَقْبِلْ هَذَا الشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِي أَعْلاهُ وَلانُغَرَّنَّ مِنْ قِبَلِكَ اللَّيْلَةَ > فَلَمَّا أَصْبَحْنَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى مُصَلاهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ: < هَلْ أَحْسَسْتُمْ فَارِسَكُمْ؟ >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَحْسَسْنَاهُ، فَثُوِّبَ بِالصَّلاةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى صَلاتَهُ وَسَلَّمَ قَالَ: < أَبْشِرُوا فَقَدْجَائَكُمْ فَارِسُكُمْ >، فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلالِ الشَّجَرِ فِي الشِّعْبِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَيْثُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اطَّلَعْتُ الشِّعْبَيْنِ [كِلَيْهِمَا] فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < هَلْ نَزَلْتَ اللَّيْلَةَ؟> قَالَ: لا، إِلا مُصَلِّيًا أَوْ قَاضِيًا حَاجَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < قَدْ أَوْجَبْتَ فَلا عَلَيْكَ أَنْ لا تَعْمَلَ بَعْدَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۵۰)، وقد أخرجہ: ن/الکبری/ السیر (۸۸۷۰) (صحیح)
۲۵۰۱- سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے دن چلے اور بہت ہی تیزی کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ شام ہو گئی، میں صلاۃ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اتنے میں ایک سوار نے آکر کہا : اللہ کے رسول! میں آپ لوگوں کے آگے گیا، یہاں تک کہ فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ سب کے سب اپنی عورتوں، چوپایوں اور بکریوں کے ساتھ بھاری تعداد میں مقام حنین میں جمع ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: ''ان شاءاللہ یہ سب کل ہم مسلمانوں کا مال غنیمت ہوں گے''، پھر فرمایا: ''رات میں ہماری پہرہ داری کون کرے گا؟''، انس بن ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ! میں کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تو سوار ہو جائو''، چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس گھاٹی میں جاؤ یہاں تک کہ اس کی بلندی پہ پہنچ جائو اور ایسا نہ ہو کہ ہم تمہاری وجہ سے آج کی رات دھوکہ کھا جائیں''، جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر آئے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر فرمایا: ''تم نے اپنے سوار کو دیکھا؟''، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اسے نہیں دیکھا، پھر صلاۃ کے لئے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ صلاۃ پڑھنے لگے لیکن دورانِ صلاۃ کنکھیوں سے گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ صلاۃ پڑھ چکے اور سلام پھیرا تو فرمایا: ''خوش ہو جائو! تمہارا سوار آگیا''، ہم درختوں کے درمیان سے گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے، یکایک وہی سوار رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور سلام کیا اور کہنے لگا: میں گھاٹی کے بالائی حصہ پہ چلا گیا تھا جہاں رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا تو جب صبح کی تو میں نے دونوں گھاٹیوں پر چڑھ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں دکھائی پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''کیا تم آج رات گھوڑے سے اتر ے تھے ؟''، انہوں نے کہا: نہیں، البتہ صلاۃ پڑھنے کے لئے یا قضاء حاجت کے لئے اترا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''تم نے اپنے لئے جنت کو واجب کر لیا، اب اگر اس کے بعد تم عمل نہ کرو تو تمہیں کچھ نقصان نہ ہوگا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تمہارے لئے تمہارا یہی عمل جنت میں داخل ہونے کے لئے کافی ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
18- بَاب كَرَاهِيَةِ تَرْكِ الْغَزْوِ
۱۸-باب: جہاد نہ کرنے کی مذمت کا بیان​


2502- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا وُهَيْبٌ -[قَالَ عَبْدَةُ:] يَعْنِي ابْنَ الْوَرْدِ- أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِالْغَزْوِ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۷ (۱۹۱۰)، ن/الجھاد ۲ (۳۰۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۷۴) (صحیح)
۲۵۰۲- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص مر گیا اور اس نے نہ جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کی نیت کی تو وہ نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم پر مرا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن مبارک کہتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے عہد کے لئے خاص تھی اور کچھ لوگوں نے اسے عام مانا ہے مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص ان منافقین کے مشابہ ہے جو جہاد سے پیچھے رہتے ہیں۔


2503- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَقَرَأْتُهُ عَلَى يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ الْجُرْجُسِيِّ، قَالا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ -أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ- عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ لَمْ يَغْزُ أَوْ يُجَهِّزْ غَازِيًا أَوْ يَخْلُفْ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ أَصَابَهُ اللَّهُ بِقَارِعَةٍ > قَالَ يَزِيدُ ابْنُ عَبْدِ رَبِّهِ فِي حَدِيثِهِ: قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔
* تخريج: ق/الجھاد ۵ (۲۷۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۹۷)، وقد أخرجہ: دي/الجھاد ۲۶ (۲۴۶۲) (حسن)
۲۵۰۳- ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جس نے جہاد نہیں کیا یا کسی جہاد کرنے والے کے لئے سامان جہاد فراہم نہیں کیا یا کسی مجاہد کے اہل و عیال کی بھلائی کے ساتھ خبر گیری نہ کی تو اللہ اسے کسی سخت مصیبت سے دو چار کرے گا''، یزید بن عبداللہ کی روایت میں ''قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ''( قیامت سے پہلے) کا اضافہ ہے۔


2504- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ >۔
* تخريج: ن/الجھاد ۱ (۳۰۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۲۴، ۱۵۳، ۲۵۱)، دي/الجھاد ۳۸ (۲۴۷۵) (صحیح)
۲۵۰۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' مشرکوں سے اپنے اموال، اپنی جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
19- بَاب فِي نَسْخِ نَفِيرِ الْعَامَّةِ بِالْخَاصَّةِ
۱۹-باب: جہاد کے لئے سارے آدمیوں کا نکلنا منسوخ ہے صرف مخصوص جماعت جہاد کرے گی​


2505- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: {إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا} وَ{مَاكَانَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ} إِلَى قَوْلِهِ: {يَعْمَلُونَ} نَسَخَتْهَا الآيَةُ الَّتِي تَلِيهَا: {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً}۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۸) (حسن)
۲۵۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:{إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا} ۱؎ اور {مَا كَانَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ ۔۔۔ ۔يَعْمَلُونَ}۲؎ کو بعد والی آیت {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً}۳؎ نے منسوخ کر دیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : ''اگر تم جہاد کے لئے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا'' (سورۃ التوبہ: ۳۹)
وضاحت ۲؎ : ''مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردوپیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں'' (سورۃ التوبہ :۱۰) ۔
وضاحت ۳؎ : ''مناسب نہیں کہ مسلمان سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں'' (سورۃ التوبہ: ۱۲۲ )


2506- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ عَبْدِالْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ الْحَنَفِيِّ، حَدَّثَنِي نَجْدَةُ بْنُ نُفَيْعٍ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا} قَالَ: فَأُمْسِكَ عَنْهُمُ الْمَطَرُ، وَكَانَ عَذَابَهُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۲۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ''نجدۃ'' مجہول ہیں)
۲۵۰۶- نجدہ بن نفیع کہتے ہیں کہ میں نے آیت کریمہ {إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا} ۱؎ کے سلسلہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا: عذاب یہی تھا کہ بارش ان سے روک لی گئی ( اور وہ مبتلائے قحط ہوگئے)۔
وضاحت ۱؎ : ''اگر تم جہاد کے لئے نہیں نکلو گے تو اللہ تمہیں عذاب دے گا'' (سورۃ التوبہ: ۳۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
20- بَاب فِي الرُّخْصَةِ فِي الْقُعُودِ مِنَ الْعُذْرِ
۲۰-باب: عذر کی بناپر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان​


2507- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ ابْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَى فَخِذِي، فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَيْئٍ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَقَالَ: <اكْتُبْ>، فَكَتَبْتُ فِي كَتِفٍ: {لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَكَانَ رَجُلا أَعْمَى، لَمَّا سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ بِمَنْ لا يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَلَمَّا قَضَى كَلامَهُ غَشِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ السَّكِينَةُ فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا فِي [الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الأُولَى]، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: < اقْرَأْ يَا زَيْدُ > فَقَرَأْتُ: {لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} الآيَةَ كُلَّهَا، قَالَ زَيْدٌ: فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ وَحْدَهَا فَأَلْحَقْتُهَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ فِي كَتِفٍ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۴، ۱۹۰، ۱۹۱) (حسن صحیح)
۲۵۰۷- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ ﷺ کی ران میر ی ران پر پڑگئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ ﷺ سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : '' لکھو''، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر {لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} ۱؎ آخر آیت تک لکھ لیا، عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ( ایک نابینا شخص تھے) نے جب مجاہدین کی فضیلت سنی تو کھڑے ہوکر کہا :اللہ کے رسول! مو منوں میں سے جو جہاد کی طاقت نہیں رکھتا اس کا کیا حال ہے؟ جب انہوں نے اپنی بات پوری کر لی تو رسول اللہ ﷺ کو پھر سکینت نے ڈھانپ لیا (وحی اترنے لگی)، آپ ﷺ کی ران میری ران پر پڑی تو میں نے اس کا بھاری پن پھر دوسری بار محسوس کیا جس طرح پہلی بار محسوس کیا تھا، آپ ﷺ سے وحی کی جب کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: ''زید! پڑھو''، تو میں نے{لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} پوری آیت پڑھی، تو رسول اللہ ﷺ نے : {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} کا اضافہ فرمایا، زید کہتے ہیں:تو{غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ} کو اللہ نے الگ سے نازل کیا، میں نے اس کو اس کے ساتھ شامل کر دیا، اللہ کی قسم ! گویا میں شانہ کے دراز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اسے شامل کیا تھا۔
وضاحت ۱؎ : ''اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں '' (سورۃ النساء: ۹۵)


2508- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسِ [بْنِ مَالِكٍ]، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَقَدْ تَرَكْتُمْ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا وَلاأَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ وَلا قَطَعْتُمْ مِنْ وَادٍ إِلا وَهُمْ مَعَكُمْ فِيهِ >، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَكُونُونَ مَعَنَا وَهُمْ بِالْمَدِينَةِ؟ فَقَالَ: < حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ >۔
* تخريج: خ/الجہاد ۳۵ (۲۸۳۹ تعلیقًا)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰)، وقد أخرجہ: حم(۳/۱۶۰، ۲۱۴) (صحیح)
۲۵۰۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آئے کہ تم کوئی قدم نہیں چلے یا کچھ خرچ نہیں کیا یا کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ تمہارے ساتھ رہے''، صحابہ نے عرض کیا :اللہ کے رسول! وہ ہمارے ہمراہ کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ مدینہ میں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''انہیں عذر نے روک رکھا ہے''۔
 
Top