33- بَاب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو وَأَبَوَاهُ كَارِهَانِ
۳۳-باب: ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان
2528- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: < ارْجِعْ [عَلَيْهِمَا] فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا >۔
* تخريج:ن/الجہاد ۵ (۳۱۰۵)، ق/الجھاد ۱۲(۲۷۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۰، ۱۹۴، ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۰۴) (صحیح)
۲۵۲۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اُن کے پاس واپس جائو، اور انہیں ہنسائو جیسا کہ رلایا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علامہ خطابی کہتے ہیں کہ مجاہد اگر رضاکارانہ طورپر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، البتہ اگر جہاد میں شرکت اس کے لئے فرض ہے تو ماں باپ کی مرضی اور اجازت کی ضرورت نہیں، مذکورہ دونوں صورتوں میں ان کی اجازت یاعدم اجازت کا مسئلہ اس وقت اٹھتا ہے جب ماں باپ مسلم ہوں، اگر وہ دونوں کافر ہیں تو اجازت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔
2529- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُجَاهِدُ؟ قَالَ: < أَلَكَ أَبَوَانِ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ >.
قَالَ أَبو دَاود: أَبُو الْعَبَّاسِ هَذَا -الشَّاعِرُ- اسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۳۸ (۳۰۰۴)، والأدب ۳ (۵۹۷۲)، م/البر ۱ (۲۵۴۹)، ت/الجھاد ۲ (۱۶۷۱)، ن/الجھاد ۵ (۳۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۵، ۱۷۲، ۱۸۸، ۱۹۳، ۱۹۷، ۲۲۱) (صحیح)
۲۵۲۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول ! میں جہاد کروں ؟ آپ ﷺ نے پوچھا: '' کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟'' ،اس نے کہا: ہاں،آپ ﷺ نے فرمایا: '' انہیں دونوں میں جہاد کرو'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ ابو العباس شا عرہیں جن کا نام سائب بن فر و خ ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو۔
2530- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: < هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ؟ > قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: <أَذِنَا لَكَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وَإِلا فَبِرَّهُمَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۷۶) (صحیح)
۲۵۳۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا، آپ نے اس سے فرمایا: ''کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟''، اس نے کہا: ہاں، میرے ماں باپ ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا: ''انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے ؟''، اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو''۔