• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
31- بَاب الرُّخْصَةِ فِي أَخْذِ الْجَعَائِلِ
۳۱-باب: جہاد پر اجرت لینے کی رخصت کا بیان​


2526- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ، وَحَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنِ ابْنِ شُفَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لِلْغَازِي أَجْرُهُ، وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۷۴) (صحیح)
۲۵۲۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جہاد کرنے والے کو اس کے جہاد کا اجر ملے گا اور مجاہد کو تیار کرنے والے کو تیار کرنے اور غزوہ کرنے دونوں کا اجرملے گا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو بِأَجْرِ الْخِدْمَةِ
۳۲-باب: آدمی جہاد میں اپنے ساتھ کسی کو خدمت کے لئے اجرت پر لے جائے​


2527- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ أَنَّ يَعْلَى ابْنَ مُنْيَةَ قَالَ: آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ، لَيْسَ لِي خَادِمٌ، فَالْتَمَسْتُ أَجِيرًا يَكْفِينِي وَأُجْرِي لَهُ سَهْمَهُ، فَوَجَدْتُ رَجُلا، فَلَمَّا دَنَا الرَّحِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَا أَدْرِي مَا السُّهْمَانِ، وَمَا يَبْلُغُ سَهْمِي؟ فَسَمِّ لِي شَيْئًا كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ يَكُنْ، فَسَمَّيْتُ لَهُ ثَلاثَةَ دَنَانِيرَ. فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِيمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِيَ لَهُ سَهْمَهُ، فَذَكَرْتُ الدَّنَانِيرَ، فَجِئْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ، فَقَالَ: < مَا أَجِدُ [لَهُ] فِي غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، إِلا دَنَانِيرَهُ الَّتِي سَمَّى >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۳) (صحیح)
۲۵۲۷- یعلی بن منیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے غزوہ کا اعلان کیا اور میں بہت بوڑھا تھا میرے پاس کوئی خادم نہ تھا، تو میں نے ایک مزدور تلاش کیا جو میری خدمت کرے اور میں اس کے لئے اس کا حصہ جاری کروں، آخر میں نے ایک مزدور پا لیا، تو جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا :میں نہیں جانتا کہ کتنے حصے ہوں گے اور میرے حصہ میں کیا آئے گا ؟ لہٰذا میرے لئے کچھ مقرر کر دیجئے خواہ حصہ ملے یا نہ ملے، لہٰذا میں نے اس کے لئے تین دینار مقرر کر دئے، جب مال غنیمت آیا تو میں نے اس کا حصہ دینا چاہا، پھر خیال آیا کہ اس کے تو تین دینار مقرر ہوئے تھے، میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اس کا معاملہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا: '' میں اس کے لئے اس کے اس غزوہ میں دنیا و آخرت میں کچھ نہیں پاتا سوائے ان تین دینا روں کے جو متعین ہوئے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
33- بَاب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو وَأَبَوَاهُ كَارِهَانِ
۳۳-باب: ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان​


2528- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ: جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَتَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، فَقَالَ: < ارْجِعْ [عَلَيْهِمَا] فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا >۔
* تخريج:ن/الجہاد ۵ (۳۱۰۵)، ق/الجھاد ۱۲(۲۷۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۴۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۰، ۱۹۴، ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۰۴) (صحیح)
۲۵۲۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''اُن کے پاس واپس جائو، اور انہیں ہنسائو جیسا کہ رلایا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علامہ خطابی کہتے ہیں کہ مجاہد اگر رضاکارانہ طورپر جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں ماں باپ کی اجازت ضروری ہے، البتہ اگر جہاد میں شرکت اس کے لئے فرض ہے تو ماں باپ کی مرضی اور اجازت کی ضرورت نہیں، مذکورہ دونوں صورتوں میں ان کی اجازت یاعدم اجازت کا مسئلہ اس وقت اٹھتا ہے جب ماں باپ مسلم ہوں، اگر وہ دونوں کافر ہیں تو اجازت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔


2529- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أُجَاهِدُ؟ قَالَ: < أَلَكَ أَبَوَانِ؟ > قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: < فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ >.
قَالَ أَبو دَاود: أَبُو الْعَبَّاسِ هَذَا -الشَّاعِرُ- اسْمُهُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ ۔
* تخريج: خ/الجھاد ۱۳۸ (۳۰۰۴)، والأدب ۳ (۵۹۷۲)، م/البر ۱ (۲۵۴۹)، ت/الجھاد ۲ (۱۶۷۱)، ن/الجھاد ۵ (۳۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۵، ۱۷۲، ۱۸۸، ۱۹۳، ۱۹۷، ۲۲۱) (صحیح)
۲۵۲۹- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول ! میں جہاد کروں ؟ آپ ﷺ نے پوچھا: '' کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟'' ،اس نے کہا: ہاں،آپ ﷺ نے فرمایا: '' انہیں دونوں میں جہاد کرو'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں:یہ ابو العباس شا عرہیں جن کا نام سائب بن فر و خ ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو۔


2530- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ دَرَّاجًا أَبَا السَّمْحِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: < هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ؟ > قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: <أَذِنَا لَكَ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وَإِلا فَبِرَّهُمَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۷۶) (صحیح)
۲۵۳۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس یمن سے ہجرت کر کے آیا، آپ نے اس سے فرمایا: ''کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟''، اس نے کہا: ہاں، میرے ماں باپ ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا: ''انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے ؟''، اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: '' ان کے پاس واپس جاؤ اور اجازت لو، اگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان دونوں کی خدمت کرو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي النِّسَاءِ يَغْزُونَ
۳۴-باب: عورتیں جہاد میں جا سکتی ہیں​


2531- حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ مُطَهِّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ، وَنِسْوَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ لِيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۷ (۱۸۱۰)، ت/السیر ۲۲ (۱۵۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۱)، وقد أخرجہ: خ/الجھاد ۶۵ (۲۸۸۰)، والمغازي ۱۸( ۴۰۶۴ مطولاً) (صحیح)
۲۵۳۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو اور انصار کی کچھ عورتوں کو جہاد میں لے جاتے تھے تا کہ وہ مجاہدین کو پانی پلائیں اور زخمیوں کا علاج کریں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حالانکہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جہاد پر نکلنے والی عورتوں کو آپ ﷺ نے واپس لوٹ جانے کا حکم دیا، اس کے دو اسباب بیان کئے جاتے ہیں :
۱- آپ کو دشمنوں کی قوت وضعف کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا اور خطرہ تھا کہ مسلمان دشمن سے مغلوب ہوجائیں گے اس لئے آپ نے انہیں واپس کردیا۔
۲- ممکن ہے یہ عورتیں نوجوان اور نئی عمر کی رہی ہوں جن سے میدان جہاد میں فتنہ کا خوف رہا ہو اس لئے آپ نے انہیں واپس کر دیا ہو، واللہ اعلم ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
35- بَاب فِي الْغَزْوِ مَعَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ
۳۵-باب: ظالم حکمرانوں کے ساتھ جہاد کرنے کا بیان​


2532- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي نُشْبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ثَلاثٌ مِنْ أَصْلِ الإِيمَانِ: الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَلا نُكَفِّرُهُ بِذَنْبٍ، وَلا نُخْرِجُهُ مِنَ الإِسْلامِ بِعَمَلٍ، وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ، لا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ، وَلا عَدْلُ عَادِلٍ، وَالإِيمَانُ بِالأَقْدَارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''یزید بن ابی نشبہ '' مجہول ہیں)
۲۵۳۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' تین باتیں ایمان کی اصل ہیں:
۱- جو لا الہ الا اللہ کہے اس (کے قتل اور ایذاء) سے رک جانا، اور کسی گناہ کے سبب اس کی تکفیر نہ کرنا، نہ اس کے کسی عمل سے اسلام سے اسے خارج کرنا۔
۲- جہاد جاری رہے گا جس دن سے اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑے گا، کسی بھی ظالم کا ظلم، یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں کرسکتا۔
۳- تقدیر پر ایما ن لانا''۔


2533- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيرٍ، بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَالصَّلاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ، بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ، وَالصَّلاةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۹) (ضعیف)
(مکحول کا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطا ع ہے)
۲۵۳۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جہاد تم پر ہر امیر کے ساتھ واجب ہے خواہ وہ نیک ہو، یا بد اور صلاۃ ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خو اہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ وہ کبائر کا ارتکاب کرئے، اور صلاۃ (جنازہ) واجب ہے ہرمسلمان پر نیک ہو یا بد اگرچہ کبائر کا ارتکاب کرے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
36- بَاب الرَّجُلِ يَتَحَمَّلُ بِمَالِ غَيْرِهِ يَغْزُو
۳۶-باب: دوسرے کی سواری پر جہاد کے ارادے سے سوار ہونے کا بیان​


2534- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ، فَقَالَ: < يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ، إِنَّ مِنْ إِخْوَانِكُمْ قَوْمًا لَيْسَ لَهُمْ مَالٌ وَلا عَشِيرَةٌ، فَلْيَضُمَّ أَحَدُكُمْ إِلَيْهِ الرَّجُلَيْنِ أَوِ الثَّلاثَةِ، فَمَا لأَحَدِنَا مِنْ ظَهْرٍ يَحْمِلُهُ إِلا عُقْبَةٌ كَعُقْبَةِ >، يَعْنِي أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَضَمَمْتُ إِلَيَّ اثْنَيْنِ أَوْ ثَلاثَةً، قَالَ: مَا لِي إِلا عُقْبَةٌ كَعُقْبَةِ أَحَدِهِمْ مِنْ جَمَلِي۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۸) (صحیح)
۲۵۳۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کا ارادہ کیا تو فرمایا :''اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تمہارے بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال ہے نہ کنبہ، تو ہر ایک تم میں سے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو شریک کر لے، تو ہم میں سے بعض کے پاس سواری نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ باری باری سوار ہوں''، تو میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمیوں کو لے لیا، میں بھی صرف باری سے اپنے اونٹ پر سوار ہوتا تھا، جیسے وہ ہوتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
37- بَاب فِي الرَّجُلِ يَغْزُو يَلْتَمِسُ الأَجْرَ وَالْغَنِيمَةَ
۳۷-باب: ثواب اور مال غنیمت کی نیت سے جہاد کرنے کا بیان​


2535- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الإِيَادِيَّ حَدَّثَهُ، قَالَ: نَزَلَ عَلَيَّ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ الأَزْدِيُّ، فَقَالَ لِي: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِنَغْنَمَ عَلَى أَقْدَامِنَا، فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ شَيْئًا، وَعَرَفَ الْجَهْدَ فِي وُجُوهِنَا فَقَامَ فِينَا، فَقَالَ: < اللَّهُمَّ لا تَكِلْهُمْ إِلَيَّ، فَأَضْعُفَ عَنْهُمْ، وَلا تَكِلْهُمْ إِلَى أَنْفُسِهِمْ، فَيَعْجِزُوا عَنْهَا، وَلا تَكِلْهُمْ إِلَى النَّاسِ، فَيَسْتَأْثِرُوا عَلَيْهِمْ >، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، أَوْ قَالَ: عَلَى هَامَتِي، ثُمَّ قَالَ: < يَا ابْنَ حَوَالَةَ! إِذَا رَأَيْتَ الْخِلافَةَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ فَقَدْ دَنَتِ الزَّلازِلُ وَالْبَلابِلُ وَالأُمُورُ الْعِظَامُ وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ يَدِي هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ >.
[قَالَ أَبو دَاود: عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ حِمْصِيٌّ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۴۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۸۸) (صحیح)
۲۵۳۵- ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ میرے پاس اُترے، اور مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپ ﷺ نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا:''اللہ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جائوں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آجائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں'' ، پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا :'' اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آگیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
38- بَاب فِي الرَّجُلِ يَشْرِي نَفْسَهُ
۳۸-باب: آدمی اپنی جان اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالے اس کے ثواب کا بیان​


2536- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < عَجِبَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ رَجُلٍ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَانْهَزَمَ -يَعْنِي أَصْحَابَهُ- فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ، فَرَجَعَ حَتَّى أُهَرِيقَ دَمُهُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لِمَلائِكَتِهِ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدِي، وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدِي، حَتَّى أُهَرِيقَ دَمُهُ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۱۶) (حسن)
۲۵۳۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہمارا رب اس شخص سے خوش ہوتا ہے ۱؎ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، پھراس کے ساتھی شکست کھا کر (میدان سے ) بھاگ گئے اور وہ گناہ کے ڈر سے واپس آگیا (اور لڑا) یہاں تک کہ وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو میرے ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے ڈر سے لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا گیا''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اللہ تعالی کے لئے صفت تعجب کی صراحت ہے، دوسری حدیث میں ضحک (ہنسنے) کی صفت کا تذکرہ ہے، یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، ذات باری تعالی اور اس کی صفات کی کنہ وکیفیت کی جستجو میں پڑے بغیر تمام ثابت صفات باری تعالی پر ایمان لانا چاہئے، اور کسی مخلوق کی ذات وصفات سے اس کی تشبیہ وتمثیل وتکییف جائز نہیں ہے۔
{ليس كمثله شيء وهو السميع البصير} ''اللہ کے ہم مثل کوئی چیز نہیں اور وہ ذات باری سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا ہے)''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
39- بَاب فِيمَنْ يُسْلِمُ وَيُقْتَلُ مَكَانَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۳۹-باب: اسلام لا کر اسی جگہ اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والے شخص کا بیان​


2537- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنْ عَمْرَو بْنَ أُقَيْشٍ كَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَكَرِهَ أَنْ يُسْلِمَ حَتَّى يَأْخُذَهُ، فَجَاءَ يَوْمُ أُحُدٍ، فَقَالَ: أَيْنَ بَنُو عَمِّي؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ، قَالَ: أَيْنَ فُلانٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ، قَالَ: فَأَيْنَ فُلانٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ، فَلَبِسَ لأْمَتَهُ، وَرَكِبَ فَرَسَهُ، ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَالُوا: إِلَيْكَ عَنَّا يَا عَمْرُو، قَالَ: إِنِّي قَدْ آمَنْتُ، فَقَاتَلَ حَتَّى جُرِحَ، فَحُمِلَ إِلَى أَهْلِهِ جَرِيحًا، فَجَائَهُ سَعْدُ ابْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ لأُخْتِهِ: سَلِيهِ حَمِيَّةً لِقَوْمِكَ، أَوْ غَضَبًا لَهُمْ، أَمْ غَضَبًا لِلَّهِ؟ فَقَالَ: بَلْ غَضَبًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، فَمَاتَ، فَدَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَا صَلَّى لِلَّهِ صَلاةً۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۷) (حسن)
۲۵۳۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمرو بن اقیش رضی اللہ عنہ کا جاہلیت میں کچھ سو د (وصول کرنا) رہ گیا تھا انہوں نے اسے بغیر وصول کئے اسلام قبول کرنا اچھا نہ سمجھا، چنانچہ(جب وصول کر چکے تو) وہ احد کے دن آئے اور پوچھا: میرے چچازاد بھائی کہاں ہیںــ؟ لوگوں نے کہا: احد میں ہیں، کہا: فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا: احد میں، کہا: فلاں کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا: احد میں، پھر انہوں نے اپنی زرہ پہنی اور گھوڑے پر سوار ہوئے، پھر ان کی جانب چلے، جب مسلمانوں نے انہیں دیکھا تو کہا: عمرو ہم سے دور رہو، انہوں نے کہا: میں ایمان لا چکا ہوں، پھر وہ لڑے یہاں تک کہ زخمی ہو گئے اور اپنے خاندان میں زخم خوردہ اٹھا کر لائے گئے، اُن کے پاس سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آئے اور ان کی بہن سے کہا: اپنے بھائی سے پوچھو: اپنی قوم کی غیرت یا ان کی خاطر غصہ سے لڑے یا اللہ کے واسطہ غضب ناک ہو کر، انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کے واسطہ غضب ناک ہو کر لڑا، پھران کا انتقال ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئے، حالانکہ انہوں نے اللہ کے لئے ایک صلاۃ بھی نہیں پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
40- بَاب فِي الرَّجُلِ يَمُوتُ بِسِلاحِهِ
۴۰-باب: اپنے ہی ہتھیار سے زخمی ہو کر مر جانے والے شخص کا بیان​


2538- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ أَحْمَدُ: كَذَا قَالَ هُوَ، يَعْنِي ابْنَ وَهْبٍ، وَعَنْبَسَةُ، يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ، جَمِيعًا عَنْ يُونُسَ، قَالَ أَحْمَدُ: وَالصَّوَابُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالا شَدِيدًا، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ: رَجُلٌ مَاتَ بِسِلاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا >، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ فَحَدَّثَنِي عَنْ أَبِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا، فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ >۔
* تخريج: م/الجھاد ۴۳ (۱۸۰۲)، ن/الجھاد ۲۹ (۳۱۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۷، ۵۲) (صحیح)
۲۵۳۸- سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ خیبر ہوئی تو میرے بھائی بڑی شدت سے لڑے، ان کی تلوار اچٹ کر ان کو لگ گئی جس نے ان کا خاتمہ کر دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے سلسلے میں باتیں کی اور ان کی شہادت کے بارے میں انہیں شک ہوا تو کہا کہ ایک آدمی جو اپنے ہتھیار سے مر گیا ہو (وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے ؟)، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''وہ اللہ کے راستہ میں کوشش کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے ''۔
ابن شہا ب زہری کہتے ہیں: پھر میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے پوچھا تو انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے اسی کے مثل بیان کیا، مگر اتنا کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' لوگوں نے جھوٹ کہا، وہ جہاد کرتے ہوئے مجاہد ہو کر مرا ہے، اسے دوہرا اجر ملے گا''۔


2539- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سَلامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَغَرْنَا عَلَى حَيٍّ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَطَلَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلا مِنْهُمْ، فَضَرَبَهُ فَأَخْطَأَهُ، وَأَصَابَ نَفْسَهُ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَخُوكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ > فَابْتَدَرَهُ النَّاسُ فَوَجَدُوهُ قَدْ مَاتَ، فَلَفَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِثِيَابِهِ وَدِمَائِهِ وَصَلَّى عَلَيْهِ وَدَفَنَهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَشَهِيدٌ هُوَ؟ قَالَ: < نَعَمْ وَأَنَا لَهُ شَهِيدٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۷۷) (ضعیف)
اس کے راوی ''سلام ابی سلام'' مجہول ہیں)
۲۵۳۹- ابو سلام ایک صحابی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے جہینہ کے ایک قبیلہ پر شبخون مارا تو ایک مسلمان نے ایک آدمی کو مارنے کا قصد کیا، اس نے اسے تلوار سے مارا لیکن تلوار نے خطا کی اور اچٹ کر اسی کو لگ گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''مسلمانوں کی جماعت! اپنے مسلمان بھائی کی خبر لو''، لوگ تیز ی سے اس کی طرف دوڑے، تو اسے مردہ پایا؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کے کپڑوں اور زخموں میں لپیٹا، اس پر صلاۃِ جنازہ پڑھی اور اسے دفن کردیا، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول !کیا وہ شہید ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں اور میں اس کا گواہ ہوں''۔
 
Top