• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
34-اللَّعِبُ بَيْنَ يَدَيْ الإِمَامِ يَوْمَ الْعِيدِ
۳۴-باب: عید کے دن حکمراں کے سامنے کھیلنے کودنے کا بیان​


1595- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَائَ السُّودَانُ يَلْعَبُونَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَدَعَانِي، فَكُنْتُ أَطَّلِعُ إِلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِ عَاتِقِهِ، فَمَا زِلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ حَتَّى كُنْتُ أَنَا الَّتِي انْصَرَفْتُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۹۱) خ/ال صلاۃ ۶۹ (۴۵۴)، العیدین ۲ (۹۵۰)، ۲۵ (۹۸۸)، الجھاد ۸۱ (۲۹۰۷)، المناقب ۱۵ (۲۵۳۰) النکاح ۸۲ (۵۱۹۰)، ۱۱۴ (۵۲۳۶)، م/العیدین ۴ (۸۹۲)، حم۶/۵۶، ۸۳، ۸۵، ۱۱۶، ۱۸۶، ۲۳۳، ۲۴۲، ۲۴۷، ۲۷۰ (صحیح)
۱۵۹۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عید کے دن حبشی لوگ آئے وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کھیل کود رہے تھے، آپ نے مجھے بلایا، تو میں انہیں آپ کے کندھے کے اوپر سے دیکھ رہی تھی میں برابر دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں (خود) ہی لوٹ آئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
35-اللَّعِبُ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْعِيدِ وَنَظَرُ النِّسَاءِ إِلَى ذَلِكَ
۳۵-باب: عید کے دن مسجد میں کھیلنے کودنے اور عورتوں کے اسے دیکھنے کا بیان​


1596- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أَسْأَمُ، فَاقْدُرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ الْحَرِيصَةِ عَلَى اللَّهْوِ۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۱۴ (۵۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۱۳)، حم۶/۸۴، ۸۵ (صحیح)
۱۵۹۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مجھے اپنی چادر سے آڑ کئے ہوئے تھے، اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی کہ وہ مسجد میں کھیل رہے تھے، یہاں تک کہ میں خود ہی اکتا گئی، تم خود ہی اندازہ لگا لو کہ ایک کم سن لڑکی کھیل کود (دیکھنے) کی کتنی حریص ہوتی ہے۔


1597- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: دَخَلَ عُمَرُ، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي الْمَسْجِدِ، فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " دَعْهُمْ يَا عُمَرُ! فَإِنَّمَا هُمْ بَنُو أَرْفِدَةَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۹۴)، وقد أخرجہ: خ /الجھاد ۷۹ (۲۹۰۱)، م/العیدین ۴ (۸۹۳)، حم۲/۳۶۸، ۵۴۰ (صحیح)
۱۵۹۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ (مسجد میں) داخل ہوئے، حبشی لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے تو آپ انہیں ڈانٹنے لگے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عمر! انہیں چھوڑو (کھیلنے دو) یہ '' بنو ارفدہ'' ۱؎ ہی تو ہیں''۔
وضاحت ۱؎: بنی ارفدہ حبشیوں کالقب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
36-الرُّخْصَةُ فِي الاسْتِمَاعِ إِلَى الْغِنَائِ وَضَرْبُ الدُّفِّ يَوْمَ الْعِيدِ
۳۶-باب: عید کے دن گانا سننے اور دف بجانے کی رخصت کا بیان​


1598- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ تَضْرِبَانِ بِالدُّفِّ، وَتُغَنِّيَانِ وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ - وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى مُتَسَجٍّ ثَوْبَهُ - فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ: " دَعْهُمَا يَاأَبَابَكْرٍ! إِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ، وَهُنَّ أَيَّامُ مِنًى " وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِالْمَدِينَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۰۹) (صحیح)
۱۵۹۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے (گھر میں) داخل ہوئے، ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں، اور گانا گا رہی تھیں ۱؎، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپناچہرہ اپنے کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے، تو آپ نے اپنا چہرہ کھولا، اور فرمایا: ''ابو بکر! انہیں چھوڑو کھیلنے دو، یہ عید کے دن ہیں، اور منیٰ کے دن تھے'' ۲؎ اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان دنوں مدینہ میں تھے۔
وضاحت ۱؎: یہ گانا کوئی فحش گانا نہیں تھا، بلکہ ان کے آباء واجداد کی بہادری کے قصے تھے، فحش گانے کسی بھی صورت میں اور کسی بھی موقع پر جائز نہیں، نیز جائز گانوں میں بھی موسیقی کی آمیزش ہو تو جائز نہیں۔
وضاحت ۲؎: اس جملہ سے اخیر تک راوی کا قول ہے، اور مطلب یہ ہے کہ یہ عیدالأضحی کے بعد حاجیوں کے منی میں قیام کے دن تھے، یعنی یہ تشریق کے ایام تھے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207

20- كِتَاب قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ
۲۰-کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل صلاتوں کے احکام ومسائل


1-بَاب الْحَثِّ عَلَى الصَّلاةِ فِي الْبُيُوتِ وَالْفَضْلِ فِي ذَلِكَ
۱-باب: گھروں میں صلاۃ پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان​


1599- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَائَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ، وَلاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۲۰)، وقد أخرجہ: خ/ال صلاۃ ۵۲ (۴۳۲)، التھجد ۳۷ (۱۱۸۷)، م/المسافرین ۲۹ (۷۷۷)، د/ال صلاۃ ۲۰۵ (۱۰۴۳)، ۳۴۶ (۱۴۴۸)، ت/ال صلاۃ ۲۱۴ (۴۵۱)، ق/الإقامۃ ۱۸۶ (۱۳۷۷)، حم۲/۶، ۱۶، ۱۲۳ (صحیح)
۱۵۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اپنے گھروں میں صلاۃ ۱؎ پڑھو، انہیں قبرستان نہ بناؤ'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: صلاۃ سے مراد نوافل اور سنتیں ہیں۔
وضاحت ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہوتا وہ قبرستان کی طرح ہوتے ہیں، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح ایسے گھر بھی عمل اور عبادت سے محروم ہوتے ہیں۔


1600- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ عُقْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ، حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ، ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً، فَظَنُّوا أَنَّهُ نَائِمٌ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: " مَا زَالَ بِكُمْ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صُنْعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ! فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلاةِ الْمَرْئِ فِي بَيْتِهِ إِلاَّ الصَّلاةَ الْمَكْتُوبَةَ "۔
* تخريج: خ/الأذان ۸۱ (۷۳۱)، الأدب ۷۵ (۶۱۱۳)، الإعتصام ۳ (۷۲۹۰)، م/المسافرین ۲۹ (۷۸۱)، د/ال صلاۃ ۲۰۵ (۱۰۴۴)، ۳۴۶ (۱۴۴۷)، ت/ال صلاۃ ۲۱۴ (۴۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۸)، ط/الجماعۃ ۱ (۴)، حم۵/۱۸۲، ۱۸۳، ۱۸۶، ۱۸۷، دي/ال صلاۃ ۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
۱۶۰۰- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں صلاۃ پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں صلاتیں پڑھ اکرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) صلاۃ وہ ہے جواس کے گھر میں ہو ۱؎ سوائے فرض صلاۃ کے''۔
وضاحت ۱؎: یہ حکم تمام نفلی صلاتوں کو شامل ہے، البتہ اس حکم سے وہ صلاتیں مستثنیٰ ہیں جو شعائر اسلام میں شمار کی جاتی ہیں مثلاً عیدین، استسقاء اور کسوف وخسوف (چاند اور سورج گرہن) کی صلاتیں۔)


1601- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةَ الْمَغْرِبِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ، فَلَمَّا صَلَّى قَامَ نَاسٌ يَتَنَفَّلُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الصَّلاةِ فِي الْبُيُوتِ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۰۴ (۱۳۰۰)، ت/فیہ ۳۰۷ (الجمعۃ ۷۱) (۶۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۷) (صحیح)
۱۶۰۱- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مغرب کی صلاۃ قبیلۂ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پڑھی، جب آپ پڑھ چکے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر سنت پڑھنے لگے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اس (سنت) صلاۃ کو گھروں میں پڑھنے کی پابندی کرو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
2-بَاب قِيَامِ اللَّيْلِ
۲-باب: قیام اللیل (تہجد) کا بیان​


1602- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنْ الْوَتْرِ؟ فَقَالَ: أَلاَ أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عَائِشَةُ، ائْتِهَا، فَسَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهَا إِلاَّ مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَائَ مَعِي، فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قُلْتُ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ، فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْئُ كَانَ عَامِرًا، قَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ: { يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ }؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلاً، حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَأَمْسَكَ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ! أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ - عَزَّ وَجَلَّ - لِمَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، لاَيَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلاَّ عِنْدَ الثَّامِنَةِ، يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ -عَزَّ وَجَلَّ - وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ! فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ، فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَابُنَيَّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنْ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلاَ أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلاَ قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ، وَلاَ صَامَ شَهْرًا كَامِلاً غَيْرَ رَمَضَانَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي، وَلاَ أَدْرِي مِمَّنْ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلامُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۸ (۷۴۶)، د/ال صلاۃ ۳۱۶ (۱۳۴۲، ۱۳۴۳، ۱۳۴۴، ۱۳۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۰۴)، حم ۶/۵۳، ۹۴، ۱۰۹، ۱۶۳، ۱۶۸، ۲۳۶، ۲۵۸، دي/ال صلاۃ ۱۶۵ (۱۵۱۶) (صحیح)
۱۶۰۲- سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔
سعد نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المومنین! مجھے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورہ ''يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ '' نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتایئے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔
پھر جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب کوئی صلاۃ پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتاکہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے صیام رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تومیں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔
٭ابو عبد الرحمن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتاکہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان میں۔
وضاحت ۲؎: کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، صحیح '' نو رکعتیں'' ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، آٹھ رکعتیں لگاتار پڑھتے، اور آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر نویں رکعت کے لیے اٹھتے۔
وضاحت ۳؎: وتر کی جگہ میں غلطی اس طرح ہوئی ہے کہ اس حدیث میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں کو اس وتر کی رکعت پر مقدم کر دیا گیا جسے آپ آٹھویں کے بعد پڑھتے تھے، صحیح یہ ہے کہ آپ ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
3-بَاب ثَوَابِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا
۳-باب: رمضان میں ایمان کی حالت میں خالص ثواب کی نیت سے قیام کرنے (تہجد پڑھنے) کے ثواب کا بیان​


1603- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۷ (۳۷)، الصوم ۶ (۱۸۹۸)، التراویح ۱ (۲۰۰۹)، م/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، د/ال صلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۷)، وقد أخرجہ: ت/الصوم ۱ (۶۸۳)، ۸۳ (۸۰۸)، ق/الإقامۃ ۱۷۳ (۱۳۲۶)، ط/رمضان ۱ (۲)، حم۲/۲۴۱، ۲۸۱، ۲۸۹، ۴۰۸، ۴۲۳، ۴۷۳، ۴۸۶، ۵۰۳، ۲۹، دي/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۲۲۰۱، ۲۲۰۲، ۲۲۰۳ (صحیح)
۱۶۰۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے گناہ جو پہلے ہو چکے ہوں بخش دیے جائیں گے''۔


1604- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَائَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَحُمَيْدُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۷۷، ۱۵۲۴۸)، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم: ۵۰۲۸، ۵۰۲۹ (صحیح)
۱۶۰۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
4-بَاب قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
۴-باب: ماہِ رمضان میں قیام اللیل (تہجد) کا بیان​


1605- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَصَلَّى بِصَلاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ وَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: " قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ "، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ۔
* تخريج: خ/الأذان ۸۰ (۷۲۹)، الجمعۃ ۲۹ (۹۲۴)، التھجد ۵ (۱۱۲۹)، التراویح ۱ (۲۰۱۱)، م/المسافرین ۲۵ (۷۶۱)، د/ال صلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۹۴)، ط/رمضان ۱ (۱)، حم۶/۱۶۹، ۱۷۷ (صحیح)
۱۶۰۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں صلاۃ پڑھی، آپ کی صلاۃ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی صلاۃ پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی صلاۃ پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: '' تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے''، یہ رمضان کا واقعہ تھا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لیے تراویح کی صلاۃ جماعت سے پڑھنے میں اب کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں، تو دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے ان راتوں میں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں اور وتر کی رکعتوں کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعت تک پڑھنا ثابت ہے، یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں ہے۔


1606- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، فَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ قَالَ: " إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ قِيَامَ لَيْلَةٍ "، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا، وَلَمْ يَقُمْ حَتَّى بَقِيَ ثَلاثٌ مِنْ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَجَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَائَهُ حَتَّى تَخَوَّفْنَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلاحُ، قُلْتُ: وَمَا الْفَلاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۳۶۵ (صحیح)
۱۶۰۶- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں صیام رکھے، تو آپ ہمارے ساتھ (تراویح کے لیے) کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ مہینے کی سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا، پھر پچیسویں رات کو قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہماری اس رات کے باقی حصہ میں بھی اسی طرح نفلی صلاۃ پڑھاتے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا''، پھر آپ نے ہمیں صلاۃ نہیں پڑھائی، اور نہ آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ مہینے کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ستائیسویں رات میں ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اپنے اہل وعیال کو بھی جمع کیا یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ کہنے لگے: سحری ہے۔


1607- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ يَقُولُ: قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَيْلَةَ ثَلاثٍ وَعِشْرِينَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لا نُدْرِكَ الْفَلاحَ، وَكَانُوا يُسَمُّونَهُ السُّحُورَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۴۲)، حم۴/۲۷۲ (صحیح)
۱۶۰۷- نعیم بن زیاد ابو طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بشیر رضی اللہ عنہم کو حمص میں منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں تیئسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچّیسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا، پھر ستائیسویں رات کو ہم نے آپ کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم فلاح نہیں پا سکیں گے، وہ لوگ سحری کو فلاح کا نام دیتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
5-بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ
۵-باب: قیام اللیل (تہجد) کی ترغیب کا بیان​


1608 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا نَامَ أَحَدُكُمْ عَقَدَ الشَّيْطَانُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ عُقَدٍ، يَضْرِبُ عَلَى كُلِّ عُقْدَةٍ لَيْلاً طَوِيلاً - أَيْ: ارْقُدْ - فَإِنْ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ، انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ تَوَضَّأَ، انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ أُخْرَى، فَإِنْ صَلَّى، انْحَلَّتْ الْعُقَدُ كُلُّهَا، فَيُصْبِحُ طَيِّبَ النَّفْسِ نَشِيطًا، وَإِلاَّ أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلانَ "۔
* تخريج: وقد أخرجہ: خ/التھجد ۱۲ (۱۱۴۲)، بدء الخلق ۱۱ (۳۲۶۹)، ط/المسافرین ۲۸ (۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۸۷)، د/ال صلاۃ ۳۰۷ (۱۳۰۶)، ق/الإقامۃ ۱۷۴ (۱۳۲۹)، ط/ صلاۃ السفر ۲۵ (۹۵)، حم۲/۲۴۳، ۲۵۳ (صحیح)
۱۶۰۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے، اور ہر گرہ پر تھپکی دے کر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، پس سوئے رہ، تو اگر وہ بیدار ہو جاتا ہے، اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ وضو بھی کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر اس نے صلاۃ پڑھی تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں، اور وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاس بشاس اور خوش دل ہوتا ہے، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ بد دل اور سست ہوتا ہے''۔


1609- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: "ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ"۔
* تخريج: خ/التھجد ۱۳ (۱۱۴۴)، بدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۰)، م/المسافرین ۲۸ (۷۷۴)، ق/الإقامۃ ۱۷۴ (۱۳۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۹۷)، حم۱/۳۷۵، ۴۲۷ (صحیح)
۱۶۰۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات بھر سوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: ''یہ ایسا آدمی ہے جس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: بعض لوگوں نے کہا کہ کان میں شیطان کا پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر صلاۃ نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لئے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔


1610- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ فُلانًا نَامَ عَنْ الصَّلاةِ الْبَارِحَةَ حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: " ذَاكَ شَيْطَانٌ بَالَ فِي أُذُنَيْهِ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۶۰۹ (صحیح)
۱۶۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فلاں شخص کل کی رات صلاۃ سے سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: '' اس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے''۔


1611- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "رَحِمَ اللَّهُ رَجُلا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّى، ثُمَّ أَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَائَ، وَرَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، ثُمَّ أَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَصَلَّى. فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَائَ"۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۰۷ (۱۳۰۸)، ۳۴۸ (۱۴۵۰)، ق/الإقامۃ ۱۷۵ (۱۳۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۶۰)، حم۲/۲۵۰، ۴۳۶ (حسن صحیح)
۱۶۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور صلاۃ پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ (بھی) صلاۃ پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ پانی کے چھینٹے مارنے سے وہ جاگ جائے گا، اور صلاۃ پڑھے گا تو وہ بھی اس کی مستحق ہوگی۔


1612 - أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ حَدَّثَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ، فَقَالَ: " أَلاَ تُصَلُّونَ؟ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِذَا شَائَ أَنْ يَبْعَثَهَا بَعَثَهَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَيَقُولُ: " وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْئٍ جَدَلا "۔
* تخريج: خ/التھجد ۵ (۱۱۲۷)، تفسیر الکھف ۱ (۴۷۲۴)، الاعتصام ۱۸ (۷۳۴۷)، التوحید ۳۱ (۷۴۶۵)، م/المسافرین ۲۸ (۷۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۰)، حم۱/۱۱۲ (صحیح)
۱۶۱۲- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ''کیا تم صلاۃ نہیں پڑھو گے؟ '' تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی الله علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کوسنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: ''وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْئٍ جَدَلا'' (انسان بہت حجتی ہے)۔


1613 - أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى فَاطِمَةَ مِنْ اللَّيْلِ، فَأَيْقَظَنَا لِلصَّلاةِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ، فَصَلَّى هَوِيًّا مِنْ اللَّيْلِ، فَلَمْ يَسْمَعْ لَنَا حِسًّا، فَرَجَعَ إِلَيْنَا فَأَيْقَظَنَا، فَقَالَ: " قُومَا فَصَلِّيَا "، قَالَ: فَجَلَسْتُ وَأَنَا أَعْرُكُ عَيْنِي وَأَقُولُ: إِنَّا - وَاللَّهِ - مَا نُصَلِّي إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ، فَإِنْ شَائَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، قَالَ: فَوَلَّى رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ - وَيَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ -: " مَا نُصَلِّي إِلاَّ مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا، وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْئٍ جَدَلاً " .
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۶۱۲ (صحیح)
۱۶۱۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات میں میرے اور فاطمہ کے پاس آئے، اور آپ نے ہمیں صلاۃ کے لیے بیدار کیا، پھر آپ اپنے گھر لوٹ گئے، اور جا کر دیر رات تک صلاۃ پڑھتے رہے، جب آپ نے ہماری کوئی آہٹ نہیں سنی تو آپ دوبارہ ہمارے پاس آئے، اور ہمیں بیدار کیا، اور فرمایا: ''تم دونوں اٹھو، اور صلاۃ پڑھو''، تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں اپنی آنکھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ''قسم اللہ کی، ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تو بیدار کر دے گا'' تو یہ سُنا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پیٹھ پھیر کر جانے لگے، آپ اپنے ہاتھ سے اپنی ران پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: ''ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے، ۱؎ انسان بہت ہی حجتی ہے''۔
وضاحت ۱؎: یہ علی رضی اللہ عنہ کی بات تھی جسے آپ بطور تعجب دہرا رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
6-فَضْلِ صَلاةِ اللَّيْلِ
۶-باب: صلاۃ اللیل (تہجد) کی فضیلت کا بیان​


1614- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ - هُوَ ابْنُ عَوْفٍ - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلاةُ اللَّيْلِ"۔
* تخريج: م/الصیام ۳۸ (۱۱۶۳)، د/الصیام ۵۵ (۲۴۲۹)، ت/الصل ا۲۰۸ (۴۳۸) الصوم ۴۰ (۷۴۰)، ق/الصیام ۴۳ (۱۷۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۹۲)، حم۲/۳۰۳، ۳۲۹، ۳۴۲، ۳۴۴، ۵۳۵، دي/ال صلاۃ ۱۶۶ (۱۵۱۷)، الصوم ۴۵ (۱۷۹۸، ۱۷۹۹) (صحیح)
۱۶۱۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''رمضان کے مہینے کے بعد سب سے افضل صیام اللہ کے مہینے محرم کے صیام ہیں ۱؎، اور فرض صلاۃ کے بعد سب سے افضل صلاۃ قیام اللیل (تہجد) ہے ''۔
وضاحت ۱؎: اللہ کی طرف اس مہینے کی نسبت شرف وفضل کی علامت کے طور پرہے، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ تراکیب ہیں، محرم حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اسی مہینے سے ہجری سن کا آغاز ہوتا ہے۔


1615- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ ابْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ أَنَّهُ سَمِعَ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَفْضَلُ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ قِيَامُ اللَّيْلِ، وَأَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ الْمُحَرَّمُ " أَرْسَلَهُ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح بما قبلہ)
(یہ مرسل ہے لیکن پچھلی روایت متصل ہے)
۱۶۱۵- حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' فرض صلاۃ کے بعد سب سے افضل صلاۃ قیام اللیل (تہجد) ہے، اور رمضان کے بعد سب سے افضل صیام محرم کے صیام ہیں''۔
شعبہ بن حجاج نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
7-فَضْلُ صَلاةِ اللَّيْلِ فِي السَّفَرِ
۷-باب: سفر میں قیام اللیل (تہجد) پڑھنے کی فضیلت کا بیان​


1616- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ، رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: "ثَلاثَةٌ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ - عَزَّوَجَلَّ -: رَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ، وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ، فَمَنَعُوهُ، فَتَخَلَّفَهُمْ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ؛ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لاَ يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلاَّ اللَّهُ - عَزَّوَجَلَّ - وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ، حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُئُوسَهُمْ، فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ؛ فَلَقُوا الْعَدُوَّ؛ فَانْهَزَمُوا؛ فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَهُ"۔
* تخريج: ت/صفۃ الجنۃ ۲۵ (۲۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۱۳)، حم۵/۱۵۳، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۵۷۱ (کلھم بسیاق فیہ زیادۃ) (ضعیف)
(اس کے راوی '' زیدبن ظبیان'' لین الحدیث ہیں)
۱۶۱۶- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین شخص سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے: ایک وہ شخص جو کسی قوم کے پاس آیا، اور اس نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا، آپ سی قرابت کا واسطہ دے کر نہیں مانگا، تو انہوں نے اسے نہیں دیا، پھر انہی میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے سے آیا، اور چھپا کر چپکے سے اسے دیا، اور اس کے اس صدقہ دینے کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس شخص کے جس کو اس نے دیا ہے کوئی نہیں جانتا، اور دوسرا آدمی وہ ہے جس کے ساتھ کے لوگ رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب نیند انہیں بھلی معلوم ہو نے لگی تو وہ اترے اور سو رہے، لیکن وہ خود کھڑا ہو کر اللہ کے سامنے عاجزی کرتا رہا، اور اس کی آیتیں تلاوت کرتا رہا، اور تیسرا وہ شخص ہے جو ایک لشکر میں تھا، دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی، تو وہ ہار گئے (جس کی وجہ سے بھاگنے لگے) لیکن وہ سینہ سپر رہا یہاں تک کہ وہ مارا جائے، یا اللہ اسے فتح دے ''۔
 
Top