9-بَاب ذِكْرِ مَا يُسْتَفْتَحُ بِهِ الْقِيَامُ
۹-باب: قیام اللیل کس دعاسے شروع کی جائے؟
1618- أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ بِمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ قِيَامَ اللَّيْلِ، قَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْئٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيُهَلِّلُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " .
* تخريج: د/ال صلاۃ ۱۲۱ (۷۶۶)، ق/الإقامۃ ۱۸۰ (۱۳۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶۶) حم۶/۱۴۳، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم: ۵۵۳۷ (حسن صحیح)
۱۶۱۸- عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات کے قیام کی شروعات کس سے کرتے تھے؟ تو وہ کہنے لگیں، تو نے مجھ سے ایک ایسی چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دس بار ''اللہ اکبر''، دس بار ''الحمدللہ''، دس بار ''سبحان اللہ'' اور دس بار ''لاالٰہ الااللہ'' اور دس بار ''استغفراللہ'' کہتے تھے، اور
''اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ'' (اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھے راہ دکھا، مجھے رزق عطا فرما، اور میری حفاظت فرما، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں قیامت کے روز جگہ کی تنگی سے) کہتے تھے۔
1619- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ وَالأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ الأَسْلَمِيِّ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ حُجْرَةِ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ: "سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" الْهَوِيَّ، ثُمَّ يَقُولُ: " سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ " الْهَوِيَّ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۰۳) وقد أخرجہ: م/ال صلاۃ ۴۳ (۴۸۹)، د/ال صلاۃ ۳۱۲ (۱۳۲۰)، ت/الدعوات ۲۷ (۳۴۱۶)، ق/ الدعاء ۲ (۳۸۷۹)، حم۴/۵۷، ۵۸، ۵۹ (صحیح)
۱۶۱۹- ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کمرے کے پاس رات گزارتا تھا، تو میں آپ کو سنتا جب آپ رات میں اٹھتے، تو دیر تک
''سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ''کہتے، پھر
''سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ'' دیر تک کہتے۔
1620- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَحْوَلِ - يَعْنِي: سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي مُسْلِمٍ - عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ، قَالَ: " اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ حَقٌّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، لَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ "، - ثُمَّ ذَكَرَ قُتَيْبَةُ كَلِمَةً مَعْنَاهَا - "وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ"۔
* تخريج: خ/التھجد ۱ (۱۱۲۰)، الدعوات ۱۰ (۶۳۱۷)، التوحید ۸ (۷۳۸۵)، ۲۴ (۷۴۴۲)، ۳۵ (۷۴۹۹)، م/المسافرین ۲۶ (۷۶۹)، ق/الإقامۃ ۱۸۰ (۱۳۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۲)، حم۱/۲۹۸، ۳۰۸، ۳۵۸، ۳۶۶، دي/ال صلاۃ ۱۶۹ (۱۵۲۷) (صحیح)
۱۶۲۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے توکہتے:
''اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ حَقٌّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، لَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ'' (اے اللہ! تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا روشن کرنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا قائم وبرقرار رکھنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور جوان میں ہیں سب کا بادشاہ ہے، تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں، اور محمد حق ہیں، میں نے تیری ہی فرمانبرداری کی، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تجھی پر ایمان لایا)، پھر قتیبہ نے ایک بات ذکر کی اس کا مفہوم ہے (کہ آپ یہ بھی کہتے:)
''وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لاَإِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ'' (اور تیرے ہی لیے میں نے جھگڑا کیا، تیری ہی طرف میں فیصلہ کے لیے آیا، بخش دے میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود مگر تو ہی، اور نہ ہی کسی میں زور وطاقت ہے سوائے اللہ کے)۔
1621- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، وَهِيَ خَالَتُهُ؛ فَاضْطَجَعَ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ قَلِيلا أَوْ بَعْدَهُ قَلِيلا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِيمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ؛ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا؛ فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي. قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ، حَتَّى جَائَهُ الْمُؤَذِّنُ؛ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۶۸۷ (صحیح)
۱۶۲۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری (وہ ان کی خالہ تھیں) تو وہ تکیہ کے چوڑان میں لیٹے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ دونوں اس کی لمبان میں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سوئے رہے یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیدار ہوئے، چہرہ سے نیند بھگانے کے لئے اپنے ہاتھ سے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے، پھر آپ نے سورہ ''آل عمران'' کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف بڑھے، اور اس سے وضو کیاتو خوب اچھی طرح سے وضو کیا، پھر آپ صلاۃ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے آپ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر اُسے ملنے لگے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر آپ نے وتر پڑھی ۱؎ پھر آپ لیٹے یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ نے پھر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
وضاحت ۱؎: یعنی ایک رکعت وتر پڑھی، اگر تین رکعتیں پڑھی ہوتیں تو پھر یہ کل پندرہ رکعتیں ہو جائیں گی، اور آپ کی تہجد کی صلاۃ کے سلسلے میں یہ کسی کے نزدیک ثابت نہیں ہے، صحیح بخاری کی ایک روایت میں ''تیرہ رکعتوں'' کی صراحت موجود ہے۔