• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- كَيْفَ يَفْعَلُ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ قَائِمًا؟ وَذِكْرُ اخْتِلافِ النَّاقِلِينَ عَنْ عَائِشَةَ فِي ذَلِكَ
۱۸-باب: جب صلاۃ کھڑے ہو کر شروع کرے تو کیسے کرے؟ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والوں کے اختلاف کا بیان​


1647- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ بُدَيْلٍ وَأَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَيْلاً طَوِيلاً، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، د/ال صلاۃ ۱۷۹ (۹۵۵)، وقد أخرجہ: ت/ال صلاۃ ۱۵۹ (۳۷۵)، ق/الإقامۃ ۱۴۰ (۱۲۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۱)، ۱۶۲۰۳)، حم۶/۱۰۰، ۲۲۷، ۲۶۱، ۲۶۲، ۲۶۵ (صحیح)
۱۶۴۷- بدیل اور ایوب دونوں عبد اللہ بن شفیق سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات میں کافی دیر تک صلاۃ پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھتے تو کھڑے کھڑے ہی رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو بیٹھ کر رکوع کرتے۔


1648- أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا، فَإِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ قَائِمًا، رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ قَاعِدًا، رَكَعَ قَاعِدًا۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۲۲)، حم۶/۱۱۲، ۱۱۳، ۱۶۶، ۲۰۴، ۲۲۷، ۲۲۸، ۲۶۲ (صحیح)
۱۶۴۸- ابن سیرین عبد اللہ بن شفیق سے اور عبداللہ بن شقیق ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کبھی کھڑے ہو کر اور کبھی بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر صلاۃ شروع کرتے تو کھڑے کھڑے رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر شروع کرتے تو بیٹھے بیٹھے ہی رکوع کرتے۔


1649- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ وَأَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ، فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَائَتِهِ قَدْرَ مَا يَكُونُ ثَلاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ، فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: خ/تقصیر ال صلاۃ ۲۰ (۱۱۱۹)، التھجد ۱۶ (۱۱۴۸)، م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، د/ال صلاۃ ۱۷۹ (۹۵۴)، ت/ال صلاۃ ۱۵۹ (۳۷۴)، وقد أخرجہ: ق/الإقامۃ ۱۴۰ (۱۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۰۹)، ط/الجماعۃ ۷ (۲۳)، حم۶/۱۷۸ (صحیح)
۱۶۴۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم صلاۃ پڑھتے اور بیٹھے ہوتے، اور قرأت کرتے اور بیٹھے ہوتے، پھر جب آپ کی قرأت میں تیس یا چالیس آیتوں کے بقدرباقی رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے، اور کھڑے ہو کر قرأت کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) ایسے ہی کرتے۔


1650- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى جَالِسًا حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ، يَقْرَأُ فَإِذَا غَبَرَ مِنْ السُّورَةِ ثَلاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ، فَقَرَأَ بِهَا، ثُمَّ رَكَعَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۳۹) (صحیح)
۱۶۵۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی ہو یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہو گئے، تو (جب آپ بوڑھے ہو گئے) تو آپ بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے اور بیٹھ کر قرأت کرتے، پھر جب سورہ میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو ان کی قرأت کھڑے ہو کر کرتے، پھر رکوع کرتے۔


1651- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ إِنْسَانٌ أَرْبَعِينَ آيَةً۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، ق/الإقامۃ ۱۴۰ (۱۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۵۰)، حم ۶/۲۱۷ (صحیح)
۱۶۵۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قرأت کرتے اور بیٹھے ہوتے، تو جب آپ رکوع کرنا چاہتے تو آدمی کے چالیس آیتیں پڑھنے کے بقدر (باقی رہنے پر) کھڑے ہو جاتے۔


1652- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ؛ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا- قَالَتْ: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا سَعْدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَاكَ، قُلْتُ: أَخْبِرِينِي عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ وَكَانَ، قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ صَلاةَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ فَيَنَامُ، فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى حَاجَتِهِ، وَإِلَى طَهُورِهِ؛ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَائَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ، فَرُبَّمَا جَائَ بِلالٌ؛ فَآذَنَهُ بِالصَّلاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ، وَرُبَّمَا يُغْفِي، وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لَمْ يُغْفِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلاةِ، فَكَانَتْ تِلْكَ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسَنَّ وَلُحِمَ، فَذَكَرَتْ مِنْ لَحْمِهِ مَا شَائَ اللَّهُ، قَالَتْ: وَكَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَائَ، ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ؛ فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى طَهُورِهِ وَإِلَى حَاجَتِهِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي سِتَّ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَائَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ، وَرُبَّمَا جَائَ بِلالٌ؛ فَآذَنَهُ بِالصَّلاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ، وَرُبَّمَا أَغْفَى، وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَمْ لاَ، حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلاةِ، قَالَتْ: فَمَا زَالَتْ تِلْكَ صَلاةُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۱۶ (۱۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۹۶)، حم۶/۹۱، ۹۷، ۱۶۸، ۲۱۶، ۲۲۷، ۲۳۵، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۱۷۲۳، ۱۷۲۵ (صحیح)
۱۶۵۲- سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں: میں مدینہ آیا تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعد بن ہشام بن عامر ہوں، انہوں نے کہا: اللہ تمہارے باپ پر رحم کرے، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ کے متعلق کچھ بتائیے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایسا ایسا کرتے تھے، میں نے کہا: اچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات میں عشاء کی صلاۃ پڑھتے تھے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف آتے اور سو جاتے، پھر جب آدھی رات ہوتی، تو قضا حاجت کے لیے اٹھتے اور وضو کے پانی کے پاس آتے، اور وضو کرتے، پھر مسجد آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، تو پھر ایسا محسوس ہوتاکہ ان میں قرأت، رکوع اور سجدے سب برابر برابر ہیں، اور ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر آپ اپنے پہلو کے بل لیٹ جاتے، تو کبھی اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ لگے بلال رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آتے، اور آپ کو صلاۃ کی اطلاع دیتے، اور کبھی آپ کی آنکھ لگ جاتی، اور کبھی مجھے شک ہوتاکہ آپ سوئے یا نہیں سوئے یہاں تک کہ وہ آپ کو صلاۃ کی خبر دیتے، تو یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ تھی، یہاں تک کہ آپ عمر دراز ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا، پھر انہوں نے آپ کے جسم پر گوشت چڑھنے کا حال بیان کیا جو اللہ نے چاہا، وہ کہتی ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم لوگوں کو عشاء کی صلاۃ پڑھاتے، پھر اپنے بچھونے کی طرف آتے، تو جب آدھی رات ہو جاتی تو آپ اپنی پاکی اور حاجت کے لئے اٹھ کر جاتے، پھر وضو کرتے، پھر مسجد آتے تو چھ رکعتیں پڑھتے، ایسا محسوس ہوتاکہ آپ ان میں قرأت، رکوع اور سجدے میں برابری رکھتے ہیں، پھر آپ ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، پھر اپنے پہلو کے بل لیٹتے تو کبھی بلال رضی اللہ عنہ آپ کی آنکھ لگنے سے پہلے ہی آکر صلاۃ کی اطلاع دیتے، اور کبھی آنکھ لگ جانے پر آتے، اور کبھی مجھے شک ہوتاکہ آپ کی آنکھ لگی یا نہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو صلاۃ کی خبر دیتے، وہ کہتی ہیں: تو برابر یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ رہی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19-بَاب صَلاةِ الْقَاعِدِ فِي النَّافِلَةِ وَذِكْرِ الاخْتِلافِ عَلَى أَبِي إِسْحَاقَ فِي ذَلِكَ
۱۹-باب: نفل صلاۃ بیٹھ کر پڑھنے کا بیان اور اس سلسلہ میں ابو اسحاق سے روایت کر نے والے راویوں کے اختلاف کا بیان​


1653- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَنِعُ مِنْ وَجْهِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَمَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاتِهِ قَاعِدًا - ثُمَّ ذَكَرَتْ كَلِمَةً مَعْنَاهَا - إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ الإِنْسَانُ وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا. ٭خَالَفَهُ يُونُسُ رَوَاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الأَسْوَدِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۳۲)، حم۶/۱۱۳، ۲۵۰ (صحیح)
(آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)
۱۶۵۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم صیام کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر صلاتیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض صلاۃ کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑ اہی ہو۔
٭یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابو اسحاق سے اور ابو اسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎: یعنی صیام کی حالت میں بوسہ وغیرہ لینے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔


1654- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاتِهِ جَالِسًا إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ.
٭خَالَفَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ وَقَالا: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۴۵)، حم۶/۲۹۷، وانظر مایأتی (صحیح)
(آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)
۱۶۵۴- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر صلاتیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض صلاۃ کے۔
٭شعبہ اور سفیان نے یونس بن شریک کی مخالفت کی ہے، ان دونوں نے اسے ابو اسحاق سے اور ابو اسحاق نے ابوسلمہ سے اور ابو سلمہ نے ام سلمہ سے روایت کی۔


1655- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَاسَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاتِهِ قَاعِدًا، إِلاَّ الْفَرِيضَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ وَإِنْ قَلَّ۔
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۴۰ (۱۲۲۵)، الزھد ۲۸ (۴۲۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۳۶)، حم۶/۳۰۴، ۳۰۵، ۳۱۹، ۳۲۰، ۳۲۱، ۳۲۲ (صحیح)
۱۶۵۵- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی اکثر وبیشتر صلاتیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض صلاۃ کے اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔


1656- أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاتِهِ قَاعِدًا إِلاَّ الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ. ٭خَالَفَهُ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ فَرَوَاهُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۶۵۶- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر صلاتیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض صلاۃ کے، اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔
٭عثمان بن ابی سلیمان نے ابو اسحاق کی مخالفت کی ہے انہوں نے اسے ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مخالفت اس طرح ہے کہ عثمان نے ام سلمہ کی جگہ عائشہ کا ذکر کیا ہے۔


1657- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ حَتَّى كَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلاتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، ت/الشمائل ۳۹ (۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۳۴)، حم ۶/۱۶۹ (صحیح)
۱۶۵۷- ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عثمان بن ابی سلیمان نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابو سلمہ نے انہیں خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ اپنی بیشتر صلاتیں بیٹھ کر پڑھنے لگے تھے۔


1658- أَخْبَرَنَا أَبُو الأَشْعَثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ قَاعِدٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، بَعْدَ مَاحَطَمَهُ النَّاسُ۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۲)، وقد أخرجہ: د/ال صلاۃ ۱۷۹ (۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱۴)، حم۶/۱۷۱، ۲۱۸ (صحیح)
۱۶۵۸- عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اس کے بعد کہ لوگوں نے آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو کمزور کر دیا۔


1659- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَكَانَ يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْرَأُ بِالسُّورَةِ، فَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۳)، ت/ال صلاۃ ۱۵۹ (۳۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۱۲)، ط/الجماعۃ ۷ (۲۱)، حم۶/۲۸۵، دي/ال صلاۃ ۱۰۹ (۱۴۲۵، ۱۴۲۶) (صحیح)
۱۶۵۹- ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نفل پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ اپنی وفات سے ایک سال قبل آپ بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے لگے تھے، آپ سورت پڑھتے تو اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ طویل سے طویل تر ہو جاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20-بَاب فَضْلِ صَلاةِ الْقَائِمِ عَلَى صَلاةِ الْقَاعِدِ
۲۰-باب: کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھنے والے کی صلاۃ کی بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے والے کی صلاۃ پر فضیلت کا بیان​


1660- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي جَالِسًا، فَقُلْتُ: حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ: " إِنَّ صَلاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلاةِ الْقَائِمِ " وَأَنْتَ تُصَلِّي قَاعِدًا؟ قَالَ: " أَجَلْ، وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ "۔
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۵)، د/ال صلاۃ ۱۷۹ (۹۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۷)، حم۲/۱۶۲، ۱۹۲، ۲۰۱، ۲۰۳، دي/ال صلاۃ ۱۰۸ (۱۴۲۴) (صحیح)
۱۶۶۰- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے دیکھا تو میں نے عرض کیا کہ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی صلاۃ کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی صلاۃ کے آدھی ہوتی ہے، اور آپ خود بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہاں لیکن میں تم لوگوں کی طرح نہیں ہوں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: میرا معاملہ تم لوگوں سے جداگانہ ہے، میں خواہ بیٹھ کر پڑھوں یا کھڑے ہو کر میری صلاۃ میں کوئی کمی نہیں رہتی، بیٹھ کر پڑھنے میں بھی مجھے پورا ثواب ملتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21-فَضْلُ صَلاةِ الْقَاعِدِ عَلَى صَلاةِ النَّائِمِ
۲۱-باب: بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے والے کی صلاۃ کی لیٹ کر پڑھنے والے کی صلاۃ پر فضیلت​


1661- أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الَّذِي يُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ: " مَنْ صَلَّى قَائِمًا؛ فَهُوَ أَفْضَلُ، وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا؛ فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا؛ فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ " .
* تخريج: خ/تقصیر ال صلاۃ ۱۷ (۱۱۱۵)، ۱۸ (۱۱۱۶)، ۱۹ (۱۱۱۷)، د/ال صلاۃ ۱۷۹ (۹۵۱)، ت/ال صلاۃ ۱۵۸ (۳۷۱)، ق/الإقامۃ ۱۴۱ (۱۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۱)، حم ۴/۴۲۶، ۴۳۳، ۴۳۵، ۴۲ ۴، ۴۴۳ (صحیح)
۱۶۶۱- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: '' جس نے کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھی وہ سب سے افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی صلاۃ کا آدھا ثواب ملے گا، اور جس نے لیٹ کر صلاۃ پڑھی تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے آدھا ملے گا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے تندرست آدمی نہیں بلکہ مریض مراد ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر صلاۃ پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: '' بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے آدھا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
22-بَاب كَيْفَ صَلاةُ الْقَاعِدِ؟
۲۲-باب: بیٹھ کر صلاۃ پڑھنے کی کیفیت کا بیان​


1662- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مُتَرَبِّعًا.
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: لاَ أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ أَبِي دَاوُدَ، وَهُوَ ثِقَةٌ وَلاَأَحْسِبُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ خَطَأً وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۶)، انظر صحیح ابن خزیمۃ ۹۷۸ (صحیح)
۱۶۶۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پالتی مار کر بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے دیکھا۔
٭ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ ابوداود حفری کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابو داود ثقہ ہیں اس کے باوجود میں اس حدیث کو غلط ہی سمجھتا ہوں، واللہ اعلم ۱؎۔
وضاحت ۱؎: علم حدیث کے قواعد کے مطابق اس کے صحیح ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں، امام ابن خزیمہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
23-بَاب كَيْفَ الْقِرَائَةُ بِاللَّيْلِ؟
۲۳-باب: رات میں قرأت کیسی ہو؟​


1663- أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي قَيْسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَةُ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ يَجْهَرُ أَمْ يُسِرُّ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، رُبَّمَا جَهَرَ، وَرُبَّمَا أَسَرَّ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۸۶) وقد أخرجہ: د/ال صلاۃ ۳۴۳ (۱۴۳۶)، ت/ال صلاۃ ۱۲۳ (۴۴۹)، حم۶/۱۴۹ (صحیح)
۱۶۶۳- عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رات میں کس طرح قرأت کرتے تھے، جہری یا سری؟ تو انہوں نے کہا: آپ ہر طرح سے پڑھتے، کبھی جہراً پڑھتے، اور کبھی سرّاً پڑھتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24-فَضْلُ السِّرِّ عَلَى الْجَهْرِ
۲۴-باب: سری قرأت کی جہری قرأت پرفضیلت کا بیان​


1664- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ - يَعْنِي: ابْنَ سُمَيْعٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدٌ - يَعْنِي ابْنَ وَاقِدٍ - عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الَّذِي يَجْهَرُ بِالْقُرْآنِ كَالَّذِي يَجْهَرُ بِالصَّدَقَةِ، وَالَّذِي يُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالَّذِي يُسِرُّ بِالصَّدَقَةِ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۱۵ (۱۳۳۳)، ت/فضائل القرآن ۲۰ (۲۹۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۴۹)، حم۴/۱۵۱، ۱۵۸، ۲۰۱، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۵۶۲ (صحیح)
۱۶۶۴- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو جہر سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلان کر کے صدقہ کرتا ہے، اور جو آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر چپکے سے صدقہ کرتا ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ صرف نفلی صلاۃ ہے، ورنہ مغرب، عشاء، فجر اور جمعہ کی صلاۃ میں جہر کرنا واجب ہے، جس طرح فرض ونفل صدقہ کا معاملہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب تَسْوِيَةِ الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالْقِيَامِ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَالْجُلُوسِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فِي صَلاةِ اللَّيْلِ
۲۵-باب: تہجد میں قیام، رکوع، رکوع کے بعد قیام، سجدہ، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک سب کے برابر ہونے کا بیان​


1665- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً؛ فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ؛ فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ فَمَضَى؛ فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَتَيْنِ فَمَضَى؛ فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى؛ فَافْتَتَحَ النِّسَائَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلاً، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ "؛ فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ؛ فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "؛ فَكَانَ قِيَامُهُ قَرِيبًا مِنْ رُكُوعِهِ، ثُمَّ سَجَدَ؛ فَجَعَلَ يَقُولُ: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى "، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ رُكُوعِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۰۰۹ (صحیح)
۱۶۶۵- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات صلاۃ پڑھی تو آپ نے سورۃ بقرہ شروع کر دی، میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ بڑھ گئے تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ دو سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ اس سے بھی آگے بڑھ گئے، تومیں نے اپنے جی میں کہا: آپ ایک ہی رکعت میں پوری سورۃ پڑھ ڈالیں گے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور سورہ ٔ نساء شروع کر دی، اور اسے پڑھ چکنے کے بعد سورہ ٔ آل عمران شروع کر دی، اور پوری پڑھ ڈالی، آپ نے یہ پوری قرأت آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کرکی، اس طرح کہ جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) کا ذکر ہوتا تو آپ اس کی پاکی بیان کرتے، اور جب کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے، اور جب کسی پناہ کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور ''سبحان ربي العظيم'' (پاک ہے میرا رب جو عظیم ہے) کہا، آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر تھا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھا یا، اور ''سمع الله لمن حمده'' کہا، آپ کا قیام تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سجدہ میں ''سبحان ربي الأعلى'' (پاک ہے میرا رب جو اعلی ہے) پڑھ رہے تھے، اور آپ کا سجدہ تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا۔


1666- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ - ثِقَةٌ - قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلائُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَرَكَعَ، فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: "سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ" مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ جَلَسَ يَقُولُ: " رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي " مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى " مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، فَمَا صَلَّى إِلاَّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، حَتَّى جَائَ بِلالٌ إِلَى الْغَدَاةِ .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي مُرْسَلٌ، وَطَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ لاَ أَعْلَمُهُ سَمِعَ مِنْ حُذَيْفَةَ شَيْئًا، وَغَيْرُ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ۔
* تخريج: انظر الأرقام: ۱۰۰۹، ۱۰۱۰، ۱۰۷۰، ۱۱۴۶ (صحیح)
۱۶۶۶- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں صلاۃ پڑھی، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ'' کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور '' رَبِّ اغْفِرْلِي، رَبِّ اغْفِرْلِي'' کہتے رہے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى'' کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی صلاۃ کے لیے بلانے آگئے۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع) ہے، میں نہیں جانتاکہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا: عن طلحۃ، عن رجل، عن حذیفۃ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26-بَاب كَيْفَ صَلاةُ اللَّيْلِ؟
۲۶-باب: تہجد کی صلاۃ کیسے پڑھی جائے؟​


1667- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا الأَزْدِيَّ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى "۔
٭قال أبو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي خَطَأٌ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۰۲ (۱۲۹۵)، ت/ال صلاۃ ۳۰۱ (الجمعۃ ۶۵) (۵۹۷)، ق/الإقامۃ ۱۷۲ (۱۳۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۴۹)، حم۲/۲۶، ۵۱، دي/ال صلاۃ ۱۵۴ (۱۴۹۹) (صحیح)
۱۶۶۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' رات اور دن کی صلاۃ دو دو رکعت ہے '' ۱؎۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: میرے خیال میں اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل دن ہویا رات دو دو کر کے پڑھنا زیادہ بہترہے۔
وضاحت ۲؎: اس سے ان کی مراد ''والنہار'' کی زیادتی میں غلطی ہے، کچھ لوگوں نے اس زیادتی کو ضعیف قرار دیا ہے کیوں کہ یہ زیادتی علی البارقی الازدی کے طریق سے مروی ہے، اور یہ ابن معین کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کے رواۃ ثقہ ہیں اور مسلم نے علی البارقی سے حجت پکڑی ہے، اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، علامہ البانی نے بھی سلسلۃ الصحیحۃ میں اس کی تصحیح کی ہے۔


1668- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ طَاوُسٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ، فَوَاحِدَةٌ "۔
* تخريج: خ/ال صلاۃ ۸۴ (۴۷۳)، الوتر ۱ (۹۹۰، ۹۹۱، ۹۹۳)، التھجد ۱۰ (۱۱۳۷)، م/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، د/ال صلاۃ ۳۱۴ (۱۳۲۶)، ت/ال صلاۃ ۲۰۷ (۴۳۷)، ق/الإقامۃ ۱۷۱ (۱۳۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۹۹)، ط/ صلاۃ اللیل ۳ (۱۳)، حم۲/۳۰، ۱۱۳، ۱۴۱ (صحیح)
۱۶۶۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: '' دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: تاکہ سب وتر یعنی طاق ہو جائیں۔


1669- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ صَدَقَةَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۰) (صحیح)
۱۶۶۹- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، اور جب تجھے صبح ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر یعنی طاق کر لو''۔


1670- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يُسْأَلُ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: " مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِرَكْعَةٍ "۔
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۷۱ (۱۳۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۸۵)، حم۳/۱۰، ۷۵ (صحیح)
۱۶۷۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو میں نے منبر پر فرماتے سنا: آپ سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا جارہا تھا تو آپ نے فرمایا: '' وہ دو دو رکعت ہے، لیکن جب تمھیں صبح ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت سے وتر کر لو''۔


1671- أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُمْ: أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، قَالَ: " مَثْنَى مَثْنَى، فَإِنْ خَشِيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ، فَلْيُوتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۴۶) (صحیح)
۱۶۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: '' دو دو رکعت ہے، لیکن اگر تم میں سے کوئی صبح ہو جانے کا خطرہ محسوس کرے، تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لے''۔


1672- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: ت/ال صلاۃ ۲۰۷ (۴۳۷)، ق/الإقامۃ ۱۷۱ (۱۳۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۸۸)، حم ۲/۱۱۹ (صحیح)
۱۶۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، اور جب تمھیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو''۔


1673- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَيْفَ صَلاةُ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ: " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: خ/التہجد ۱۰ (۱۱۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۴۳) (صحیح)
۱۶۷۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: رات کی صلاۃ کیسے پڑھی جائے؟ تو آپ نے فرمایا: '' رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، پس جب تمھیں صبح ہو جانے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو''۔


1674- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَجُلا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: م/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۰)، حم۲/۱۳۴ (صحیح)
۱۶۷۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، اور جب تمھیں صبح کا ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو''۔


1675- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ وَحُمَيْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ حَدَّثَاهُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ صَلاةُ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صَلاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ، فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۶۷۴ (صحیح)
۱۶۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا: اللہ کے رسول! رات کی صلاۃ کیسے پڑھی جائے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے، اور جب تمھیں صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27-بَاب الأَمْرِ بِالْوِتْرِ
۲۷-باب: وتر پڑھنے کے حکم کا بیان​


1676- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، -وَهُوَ ابْنُ ضَمْرَةَ - عَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، قَالَ: أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ: " يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ! أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۳۶ (۱۴۱۶)، ت/ال صلاۃ ۲۱۶ (الوتر ۲) (۴۵۳، ۴۵۴)، ق/الإقامۃ ۱۱۴ (۱۱۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۵)، حم۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۰، ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۴۸، دي/ال صلاۃ ۲۰۸ (۱۶۲۰) (صحیح)
(سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، مگر متابعات اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تراجع الالبانی ۴۸۲)
۱۶۷۶- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وتر پڑھی، پھر فرمایا: ''اے اہل قرآن! وتر پڑھو ۱؎ کیونکہ اللہ تعالیٰ وترہے، اور وتر کو محبوب رکھتا ہے'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو اہل قرآن کہا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے بلکہ یہاں اہل قرآن کا مطلب شریعت اسلامیہ کے پیروکار ہیں، اور شریعت قرآن وحدیث دونوں کے مجموعہ کا نام ہے نہ کہ حدیث کے بغیر صرف قرآن کا۔
وضاحت ۲؎: طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وتر سے مراد قیام اللیل ہے، کیونکہ وتر کا اطلاق قیام اللیل پر بھی ہوتا ہے


1677- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
* تخريج: ت/ال صلاۃ ۲۱۶ (الوتر ۲) (۵۵۴)، ق/الإقامۃ ۱۱۴، حم۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۸، دي/ال صلاۃ ۲۰۸ (۱۶۲۰) (صحیح)
(دیکھئے پچھلی حدیث پر کلام)
۱۶۷۷- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وتر فرض صلاۃ کی طرح کوئی حتمی وواجبی چیز نہیں ہے، البتہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ وتر واجب نہیں جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے۔
 
Top