• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-تَقْبِيلُ الْمَيِّتِ
۱۱-باب: میت کو بوسہ لینے کا بیان​


1840- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۴۵) (صحیح)
۱۸۴۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے بیچ بوسہ لیا، اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔


1841- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أَبَابَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ۔
* تخريج: حدیث ابن عباس قد أخرجہ: خ/المغازي ۸۳ (۴۴۵۵)، والطب ۲۱ (۵۷۰۹)، ت/الشمائل ۵۳ (۳۷۳)، ق/الجنائز ۷ (۱۴۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۶۰)، حم۶/۵۵، وحدیث عائشۃ قد أخرجہ: خ/المغازي ۸۳ (۴۴۵۵، ۴۴۵۶، ۴۴۵۷)، تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۱۶) (صحیح)
۱۸۴۱- عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ ابو بکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا بوسہ لیا، اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔


1842- أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، قَالَ: قَالَ مَعْمَرٌ وَيُونُسُ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنُحِ حَتَّى نَزَلَ؛ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ؛ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِبُرْدٍ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَبَّلَهُ فَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ، وَاللَّهِ لاَيَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَبَدًا، أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكَ، فَقَدْ مِتَّهَا۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳ (۱۲۴۱)، والمغازي ۸۳ (۴۴۵۲)، ق/الجنائز ۶۵ (۱۶۲۷) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۲)، حم۶/۱۱۷ (صحیح)
۱۸۴۲- ابو سلمہ کہتے ہیں کہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ ابو بکر سُنح ۱؎ میں واقع اپنے مکان سے ایک گھوڑے پر آئے، اور اتر کر (سیدھے) مسجد میں گئے، لوگوں سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ عائشہ رضی الله عنہا کے پاس (ان کے حجرے میں) آئے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا تو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا، پھر وہ آپ پر جھکے اور آپ کا بوسہ لیا، اور رو پڑے، پھر کہا: میرے باپ آپ پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ کبھی آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا، رہی یہ موت جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر لکھ دی تھی تو یہ ہو چکی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یہ عوالی مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں نبی حارث بن خزرج کے لوگ رہتے تھے، ابو بکر رضی الله عنہ نے انہیں میں شادی کی تھی، اور یہ رہائش گاہ ان کی اہلیہ کی تھی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں وہاں جانے کی اجازت دی تھی۔
وضاحت ۲؎: ابو بکر رضی الله عنہ نے یہ جملہ عمر رضی الله عنہ کی تردید میں کہا تھا جو کہہ رہے تھے کہ آپ پھر دنیا میں واپس آئیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-تَسْجِيَةُ الْمَيِّتِ
۱۲-باب: میت کو ڈھانپنے کا بیان​


1843- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ: جِيئَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ، فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْسُجِّيَ بِثَوْبٍ، فَجَعَلْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ؛ فَنَهَانِي قَوْمِي، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ؛ فَلَمَّا رُفِعَ سَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ، فَقَالَ: " مَنْ هَذِهِ؟ "؛ فَقَالُوا: هَذِهِ بِنْتُ عَمْرٍو، أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، قَالَ: " فَلاَ تَبْكِي، أَوْ فَلِمَ تَبْكِي مَا زَالَتِ الْمَلائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳ (۱۲۴۴)، ۳۴ (۱۲۹۳)، والجھاد ۲۰ (۲۸۱۶)، والمغازي ۲۶ (۴۰۸۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲۶ (۲۴۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۳۲)، حم۳/۲۹۸، ۳۰۷ (صحیح)
۱۸۴۳- جابر بن عبد اللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوۂ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا: ''یہ کون ہے؟ '' تو لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا: ''مت روؤ ''، یا فرمایا: '' کیوں روتی ہو؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-فِي الْبُكَائِ عَلَى الْمَيِّتِ
۱۳-باب: میت پر رونے کا بیان​


1844- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُضِرَتْ بِنْتٌ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَغِيرَةٌ، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَمَّهَا إِلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَقَضَتْ وَهِيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَبَكَتْ أُمُّ أَيْمَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أُمَّ أَيْمَنَ! أَتَبْكِينَ وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكِ؟ " فَقَالَتْ: مَالِي لاَ أَبْكِي وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَسْتُ أَبْكِي وَلَكِنَّهَا رَحْمَةٌ " ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ بِخَيْرٍ عَلَى كُلِّ حَالٍ، تُنْزَعُ نَفْسُهُ مِنْ بَيْنِ جَنْبَيْهِ وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ - عَزَّوَجَلَّ- "۔
* تخريج: ت/الشمائل ۴۴ (۳۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۵۶)، حم۱/۲۶۸، ۲۷۳، ۲۹۷ (صحیح)
۱۸۴۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک چھوٹی بچی کے مرنے کا وقت آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے (اپنی گود میں) لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہی مر گئی، ام ایمن رضی الله عنہا رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''ام ایمن! تم رو رہی ہو جبکہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تمہارے پاس موجود ہیں؟ '' تو انہوں نے کہا: میں کیوں نہ روؤں جبکہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم (خود) رو رہے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں رو نہیں رہا ہوں، البتہ یہ اللہ کی رحمت ہے''، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن ہر حال میں اچھا ہے، اس کی دونوں پسلیوں کے بیچ سے اس کی جان نکالی جاتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتا رہتا ہے''۔


1845- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بَكَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ فَقَالَتْ: يَا أَبَتَاهُ! مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، يَاأَبَتَاهُ! إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ! يَا أَبَتَاهُ! جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷)، وقد أخرجہ: خ/المغازي ۸۳ (۴۴۶۲)، ق/الجنائز ۶۵ (۱۶۳۰)، حم۳/۱۹۷ (صحیح)
۱۸۴۵- انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی الله عنہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر رونے لگیں، اور کہنے لگیں: ہائے ابا جان! آپ اپنے رب سے کس قدر قریب ہو گئے، ہائے ابا جان! مرنے کی خبر ہم جبریل علیہ السلام کو دے رہے ہیں، ہائے ابا جان! آپ کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔


1846- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَكْشِفُ عَنْ وَجْهِهِ وَأَبْكِي، وَالنَّاسُ يَنْهَوْنِي وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَنْهَانِي، وَجَعَلَتْ عَمَّتِي تَبْكِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَبْكِيهِ مَا زَالَتِ الْمَلائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳ (۱۲۴۴)، المغازي ۲۶ (۴۰۸۰)، م/فضائل الصحابۃ ۲۶ (۲۴۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۴)، حم۳/۲۹۸ (صحیح)
۱۸۴۶- جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوۂ احد کے دن قتل کر دیئے گئے، میں ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانے اور رونے لگا، لوگ مجھے روک رہے تھے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نہیں روک رہے تھے، میری پھوپھی (بھی) ان پر رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم ان پر مت روؤ، فرشتے ان پر برابر اپنے پروں سے سایہ کیے رہے یہاں تک کہ تم لوگوں نے اٹھایا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ان احادیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہو رہا ہے، رہیں وہ روایتیں جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ اس رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-النَّهْيُ عَنْ الْبُكَائِ عَلَى الْمَيِّتِ
۱۴-باب: میت پر رونا منع ہے​


1847- أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ أَنَّ عَتِيكَ بْنَ الْحَارِثِ - وَهُوَ جَدُّ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَبُوأُمِّهِ - أَخْبَرَهُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ [عَلَيْهِ]؛ فَصَاحَ بِهِ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: "قَدْ غُلِبْنَا عَلَيْكَ أَبَاالرَّبِيعِ! " فَصِحْنَ النِّسَائُ وَبَكَيْنَ؛ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَعْهُنَّ، فَإِذَا وَجَبَ فَلا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ"، قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَارَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: "الْمَوْتُ"، قَالَتْ ابْنَتُهُ: إِنْ كُنْتُ لأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا قَدْ كُنْتَ قَضَيْتَ جِهَازَكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَيْهِ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟ " قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ -: الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْهَدَمِ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرَقِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ "۔
* تخريج: د/الجنائز ۱۵ (۳۱۱۱)، ق/الجھاد ۱۷ (۲۸۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۷۳)، ط/الجنائز ۱۲ (۳۶)، حم۵/۴۴۶، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد ۴۸ (بأرقام: ۳۱۹۶، ۳۱۹۷) (صحیح)
۱۸۴۷- جابر بن عتیک انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عبداللہ بن ثابت رضی الله عنہ کی عیادت (بیمار پرسی) کرنے آئے تو دیکھا کہ بیماری ان پر غالب آ گئی ہے، تو آپ نے انہیں زور سے پکارا (لیکن) انہوں نے (کوئی) جواب نہیں دیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ''إِنَّاللّٰہِ وَإِنَّا إلِیْہِ رَاجِعُوْنَ'' پڑھا، اور فرمایا: '' اے ابو ربیع! ۱؎ ہم تم پر مغلوب ہو گئے '' (یہ سن کر) عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں، ابن عتیک انہیں چپ کرانے لگے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''انہیں چھوڑ دو لیکن جب واجب ہو جائے تو ہرگز کوئی رونے والی نہ روئے''۔ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! (یہ) واجب ہونا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''مر جانا''، ان کی بیٹی نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا: مجھے امید تھی کہ آپ شہید ہوں گے (کیونکہ) آپ نے اپنا سامانِ جہاد تیار کر لیا تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''یقینا اللہ تعالیٰ ان کی نیت کے حساب سے انہیں اجر وثواب دے گا، تم لوگ شہادت سے کیا سمجھتے ہو؟ '' لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارے جانے کے علاوہ شہادت (کی) سات (قسمیں) ہیں، طاعون سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، عمارت سے دب کر مرنے والا شہید ہے، نمونیہ میں مرنے والا شہید ہے، جل کر مرنے والا شہید ہے، اور جو عورت جننے کے وقت یا جننے کے بعد مر جائے وہ شہید ہے''۔
وضاحت ۱؎: عبد اللہ بن ثابت کی کنیت ہے مطلب یہ ہے کہ تقدیر ہمارے ارادے پر غالب آ گئی۔


1848- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا أَتَى نَعْيُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صِئْرِ الْبَابِ؛ فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ نِسَائَ جَعْفَرٍ يَبْكِينَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْطَلِقْ فَانْهَهُنَّ "؛ فَانْطَلَقَ، ثُمَّ جَائَ، فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْتَهِينَ؛ فَقَالَ: "انْطَلِقْ فَانْهَهُنَّ"، فَانْطَلَقَ، ثُمَّ جَائَ، فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ فَأَبَيْنَ أَنْ يَنْتَهِينَ، قَالَ: " فَانْطَلِقْ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَ الأَبْعَدِ، إِنَّكَ وَاللَّهِ مَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ .
* تخريج: خ/الجنائز ۴۰ (۱۲۹۹)، ۴۵ (۱۳۰۵)، والمغازی ۴۴ (۴۷۶۳)، م/الجنائز ۱۰ (۹۳۵)، د/الجنائز ۲۵ (۳۱۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳۲)، حم۶/۵۸، ۲۷۷ (صحیح)
۱۸۴۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ (رضی الله عنہم) کے مرنے کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیٹھے (اور) آپ (کے چہرے) پر حزن وملال نمایاں تھا، میں دروازے کے شگاف سے دیکھ رہی تھی (اتنے میں) ایک شخص آیا اور کہنے لگا: جعفر (کے گھر) کی عورتیں رو رہی ہیں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہا: ''جاؤ انہیں منع کرو''، چنانچہ وہ گیا (اور) پھر (لوٹ کر) آیا اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مانیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' انہیں منع کرو'' (پھر) وہ گیا (اور پھر لوٹ کر آیا، اور کہنے لگا: میں نے انہیں روکا (لیکن) وہ نہیں مان رہی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جاؤ ان کے منہ میں مٹی ڈال دو''، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس شخص کی ناک خاک آلود کرے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے، تو اللہ کی قسم! نہ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو پریشان کرنا چھوڑ رہا ہے، اور نہ تو یہی کر سکتا ہے (کہ انہیں سختی سے روک دے) ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مطلب یہ ہے کہ تو بار بار شکایات کر کے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو پریشان کرنے سے بھی باز نہیں آتا ہے، اور نہ یہی کرتا ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کر عورتوں کو رونے سے منع کر دے۔


1849- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: م/الجنائز ۹ (۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۶)، حم۱/۲۶، ۳۶، ۴۷، ۵۰، ۵۱، ۵۴ (صحیح)
۱۸۴۹- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ''۔


1850- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ صُبَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ يَقُولُ: ذُكِرَ عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: "الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَائِ الْحَيِّ" فَقَالَ عِمْرَانُ: " قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۴۳)، حم۴/۴۳۷ (صحیح)
۱۸۵۰- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ کے پاس ذکر کیا گیا کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، تو انھوں نے کہا: اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔


1851- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: ت/الجنائز ۲۴ (۱۰۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۲۷)، حم۱/۴۲ (صحیح)
۱۸۵۱- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-النِّيَاحَةُ عَلَى الْمَيِّتِ
۱۵-باب: میت پر نوحہ کرنے کا بیان​


1852- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ قَيْسٍ، أَنَّ قَيْسَ بْنَ عَاصِمٍ قَالَ: لاَ تَنُوحُوا عَلَيَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُنَحْ عَلَيْهِ . مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۱)، حم۵/۶۱ (صحیح الإسناد)
۱۸۵۲- قیس بن عاصم رضی الله عنہ نے کہا: تم میرے اوپر نوحہ مت کرنا ۱؎ کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا۔ یہ لمبی حدیث سے مختصر ہے۔
وضاحت ۱؎: میت پر اس کے اوصاف بیان کر کے چلا چلا کر رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔


1853- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَى النِّسَائِ حِينَ بَايَعَهُنَّ أَنْ لا يَنُحْنَ؛ فَقُلْنَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ نِسَائً أَسْعَدْنَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، أَفَنُسْعِدُهُنَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لاَ إِسْعَادَ فِي الإِسْلامِ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵)، حم۳/۱۹۷ (صحیح)
۱۸۵۳- انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جس وقت عورتوں سے بیعت لی تو ان سے یہ بھی عہد لیا کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی، تو عورتوں نے کہا: اللہ کے رسول! کچھ عورتوں نے زمانہ جاہلیت میں (نوحہ کرنے میں) ہماری مدد کی ہے، تو کیا ہم ان کی مدد کریں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسلام میں (نوحہ پر) کوئی مدد نہیں ''۔


1854- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۳ (۱۲۹۲)، م/الجنائز ۹ (۹۲۷)، ق/الجنائز ۵۴ (۱۵۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۳۶)، حم۱/۲۶، ۳۶، ۵۰، ۵۱ (صحیح)
۱۸۵۴- عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ''میت کو اس کی قبر میں اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے''۔


1855- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ - هُوَ ابْنُ زَاذَانَ - عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِنِيَاحَةِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَرَأَيْتَ رَجُلا مَاتَ بِخُرَاسَانَ وَنَاحَ أَهْلُهُ عَلَيْهِ هَاهُنَا أَكَانَ يُعَذَّبُ بِنِيَاحَةِ أَهْلِهِ؟ قَالَ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَذَبْتَ أَنْتَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۰) (صحیح)
(اس سند میں ''ہشیم '' اور '' حسن بصری'' مدلس ہیں، مگر پچھلی سند (۱۸۵۰) سے یہ روایت صحیح ہے)
۱۸۵۵- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، اس پر ایک شخص نے ان سے کہا: مجھے بتائیے کہ ایک شخص خراسان میں مرے، اور اس کے گھر والے یہاں اس پر نوحہ کریں تو اس پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا، (یہ بات عقل میں آنے والی نہیں)؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سچ فرمایا، اور تو جھوٹا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہی جواب ہے اس شخص کا جو حدیث کے ہوتے ہوئے عقل اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے۔


1856- أخْبَرَنَا مَحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إنَّ المِيِّتَ لَيَعَذَّبُ بِبِكَائِ أهْلِهِ عَلَيْهِ "؛ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: وَهِلَ، إنَّمَا مَرَّالنَّبِيُّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبَرٍ فَقَالِ: "إنَّ صَاحِبَ هَذَا القَبْرِ لَيَعَذَّبُ، وَإنَّ أهْلَهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ " ثُمَّ قَرَأتْ { وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخْرى }.
* تخريج: خ/المغازي ۸ (۳۹۷۸)، م/الجنائز ۹ (۹۳۱)، د/الجنائز ۲۹ (۳۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲۴، ۱۶۸۱۸)، حم۲/۳۸ و ۶/۳۹، ۵۷، ۹۵، ۲۰۹ (صحیح)
۱۸۵۶- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے''، اسے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: انہیں (ابن عمر کو) غلط فہمی ہو ئی ہے (اصل واقعہ یوں ہے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تو کہا: اس قبر والے کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: { وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أخْرى } (کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) (فاطر: ۱۸)۔


1857- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَائِ الْحَيِّ عَلَيْهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنْ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا؛ فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۲ (۱۲۸۹)، م/الجنائز ۹ (۹۳۲)، ت/الجنائز ۲۵ (۱۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴۸)، ط/الجنائز ۱۲ (۳۷)، حم۶/۱۰۷، ۲۵۵ (صحیح)
۱۸۵۷- عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے سنا جب ان کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے، تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن کی مغفرت کرے، سنو! انہوں نے جھوٹ اور غلط نہیں کہا ہے، بلکہ وہ بھول گئے انہیں غلط فہمی ہو ئی ہے (اصل بات یہ ہے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک یہودیہ عورت (کی قبر) کے پاس سے گزرے جس پر (اس کے گھر والے) رو رہے تھے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے''۔


1858- أَخْبَرَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالْجَبَّارِ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: قَصَّهُ لَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبَعْضِ بُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۲ (۱۲۸۶) مطولاً، م/الجنائز ۹ (۹۲۹) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۷۶، ۱۶۲۲۷)، حم۱/۴۱، ۴۲ (صحیح)
۱۸۵۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب کو اس پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بڑھا دیتا ہے''۔


1859- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مَنْصُورٍ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: لَمَّا هَلَكَتْ أُمُّ أَبَانَ حَضَرْتُ مَعَ النَّاسِ؛ فَجَلَسْتُ بَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، فَبَكَيْنَ النِّسَائُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَلاَ تَنْهَى هَؤُلاَئِ عَنْ الْبُكَائِ؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ كَانَ عُمَرُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَائِ، رَأَى رَكْبًا تَحْتَ شَجَرَةٍ؛ فَقَالَ: انْظُرْ، مَنْ الرَّكْبُ؟ فَذَهَبْتُ؛ فَإِذَا صُهَيْبٌ وَأَهْلُهُ؛ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! هَذَا صُهَيْبٌ وَأَهْلُهُ؛ فَقَالَ: عَلَيَّ بِصُهَيْبٍ؛ فَلَمَّا دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ أُصِيبَ عُمَرُ؛ فَجَلَسَ صُهَيْبٌ يَبْكِي عِنْدَهُ يَقُولُ: وَا أُخَيَّاهُ! وَا أُخَيَّاهُ! فَقَالَ عُمَرُ: يَاصُهَيْبُ! لاَ تَبْكِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ" قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: أَمَا وَاللَّهِ مَاتُحَدِّثُونَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ كَاذِبَيْنِ مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ، وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْقُرْآنِ لَمَا يَشْفِيكُمْ: {أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۸۵۹- ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ جب ام ابان مر گئیں تو میں (بھی) لوگوں کے ساتھ (تعزیت میں) آیا، اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم کے بیچ میں بیٹھ گیا، عورتیں رونے لگیں تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: کیا تم انہیں رونے سے روکو گے نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ''میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے''، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: عمر رضی الله عنہ بھی ایسا ہی کہتے تھے، (ایک بار) میں عمر رضی الله عنہ کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ ہم بیداء پہنچے، تو انہوں نے ایک درخت کے نیچے کچھ سواروں کو دیکھا تو (مجھ سے) کہا: دیکھو (یہ) سوار کون ہیں؟ چنانچہ میں گیا تومیں نے دیکھا کہ وہ صہیب رضی الله عنہ اور ان کے گھر والے ہیں، لوٹ کر ان کے پاس آیا، اور ان سے کہا: امیر المومنین! وہ صہیب رضی الله عنہ اور ان کے گھر والے ہیں، تو انہوں نے کہا: صہیب رضی الله عنہ کو میرے پاس لاؤ، پھر جب ہم مدینہ آئے تو عمر رضی الله عنہ زخمی کر دئیے گئے، صہیب رضی الله عنہ ان کے پاس روتے ہوئے بیٹھے (اور) وہ کہہ رہے تھے: ہائے میرے بھائی! ہائے میرے بھائی! تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: صہیب! روؤ مت، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ''میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے'' (ابن عباس) کہتے ہیں: میں نے اس بات کا ذکر عائشہ رضی الله عنہا سے کیا تو انہوں نے کہا: سنو! اللہ کی قسم! تم یہ حدیث نہ جھوٹوں سے روایت کر رہے ہو، اور نہ ایسوں سے جنہیں جھٹلایا گیا ہو، البتہ سننے (میں) غلط فہمی ہوئی ہے، اور قرآن میں (ایسی بات موجود ہے) جس سے تمہیں تسکین ہو: { أَلاَّ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى } (کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) البتہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (یوں) فرمایا تھا: ''اللہ کافر کا عذاب اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے بڑھا دیتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب الرُّخْصَةِ فِي الْبُكَائِ عَلَى الْمَيِّتِ
۱۶-باب: میت پر رونے کی رخصت کا بیان​


1860- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ -، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الأَزْرَقِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَاهُرَيْرَةَ قَالَ: مَاتَ مَيِّتٌ مِنْ آلِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَاجْتَمَعَ النِّسَائُ يَبْكِينَ عَلَيْهِ؛ فَقَامَ عُمَرُ يَنْهَاهُنَّ وَيَطْرُدُهُنَّ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُنَّ يَا عُمَرُ! فَإِنَّ الْعَيْنَ دَامِعَةٌ، وَالْقَلْبَ مُصَابٌ، وَالْعَهْدَ قَرِيبٌ "۔
* تخريج: ق/الجنائز ۵۳ (۱۵۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۷۵)، حم۲/۱۱۰، ۲۷۳، ۴۰۸ (ضعیف)
(اس کے راوی ''سلمہ'' لین الحدیث ہیں)
۱۸۶۰- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے خاندان میں کسی کا انتقال ہو گیا تو عورتیں اکٹھا ہوئیں (اور) میت پر رونے لگیں، تو عمر رضی الله عنہ کھڑے ہو کر انہیں روکنے اور بھگانے لگے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عمر! انہیں چھوڑ دو کیونکہ آنکھوں میں آنسو ہے، دل غم میں ڈوبا ہوا ہے، اور موت کا وقت قریب ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ
۱۷-باب: جاہلیت کی چیخ پکار اور رونا دھونا منع ہے​


1861- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ الأَعْمَشِ، ح أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ، وَدَعَا بِدُعَائِ الْجَاهِلِيَّةِ "، وَاللَّفْظُ لِعَلِيٍّ، وَقَالَ الْحَسَنُ: بِدَعْوَى۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۵ (۱۲۹۴)، ۳۸ (۱۲۹۷)، ۳۹ (۱۲۹۸)، والمناقب ۸ (۳۵۱۹)، م/الإیمان ۴۴ (۱۰۳)، وقد أخرجہ: ت/الجنائز ۲۲ (۹۹۹)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۶۹)، حم۱/۴۳۲، ۴۴۲، ۴۵۶ (صحیح)
۱۸۶۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ شخص ہم میں سے نہیں ۱؎ جو منہ پیٹے، گریباں پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے (یعنی نوحہ کرے) ''۔
یہ الفاظ علی بن خشرم کے ہیں، اور حسن کی روایت بدعاء الجاہلیۃ کی جگہ بدعوی الجاہلیۃ ہے۔
وضاحت ۱ ؎: یعنی ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-السَّلَقُ
۱۸-باب: میت پر رونا چلانا اور واویلا کرنا منع ہے​


1862- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ الأَحْدَبِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى أَبِي مُوسَى، فَبَكَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَبْرَأُ إِلَيْكُمْ كَمَا بَرِئَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ، وَلاَ خَرَقَ، وَلاَ سَلَقَ "۔
* تخريج: م/الإیمان ۴۴ (۱۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۰۴)، د/الجنائز ۲۹ (۳۱۳۰)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۶)، حم۴/۳۹۶، ۴۰۴، ۴۰۵، ۴۱۶ (صحیح)
۱۸۶۲- صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری پر بے ہوشی طاری ہو گئی، لوگ ان پر رونے لگے، تو انہوں نے کہا: میں تم سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہم سے یہ کہہ کر برأت کا اظہار کیا تھا کہ جو سر منڈائے ۱؎ کپڑے پھاڑے، واویلا کرے ہم میں سے نہیں۔
وضاحت ۱؎: یعنی مصیبت کے موقع پر سر منڈائے جیسے ہندو منڈواتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-ضَرْبُ الْخُدُودِ
۱۹-باب: نوحہ میں منہ پیٹنا اور گالوں پر مارنا منع ہے​


1863- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ، وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۵ (۱۲۹۴)، المناقب ۸ (۳۵۱۹)، ت/الجنائز ۲۲ (۹۹۹)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۹)، حم۱/۳۸۶، ۴۴۲ (صحیح)
۱۸۶۳- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو گال پیٹے، گریباں پھاڑے، اور جاہلیت کی پکار پکارے ہم میں سے نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-الْحَلْقُ
۲۰-باب: مصیبت میں سر منڈانا منع ہے​


1864- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعُمَيْسٍ، عَنْ أَبِي صَخْرَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ وَأَبِي بُرْدَةَ، قَالاَ: لَمَّا ثَقُلَ أَبُومُوسَى أَقْبَلَتْ امْرَأَتُهُ تَصِيحُ، قَالاَ: فَأَفَاقَ، فَقَالَ: أَلَمْ أُخْبِرْكِ أَنِّي بَرِيئٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالاَ: وَكَانَ يُحَدِّثُهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَنَا بَرِيئٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَخَرَقَ وَسَلَقَ "۔
* تخريج: م/الإیمان ۴۴ (۱۰۴)، ق/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۰) (صحیح)
۱۸۶۴- عبدالرحمن بن یزید اور ابو بردہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابو موسیٰ اشعری (کی بیماری) سخت ہوئی، تو ان کی عورت چلاتی ہوئی آئی۔ (ان کی بیماری میں کچھ) افاقہ ہوا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تجھے نہ بتاؤں کہ میں ان چیزوں سے بری ہوں جن سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بری تھے، ان دونوں نے ان کی بیوی سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''میں اس شخص سے بری ہوں جو سر منڈائے، کپڑے پھاڑے اور واویلا کرے''۔
 
Top