• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
61-الصَّلاةُ عَلَى الشُّهَدَائِ
۶۱-باب: شہداء کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1955 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ ابْنَ أَبِي عَمَّارٍ أَخْبَرَهُ عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ: أَنَّ رَجُلا مِنْ الأَعْرَابِ جَائَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُهَاجِرُ مَعَكَ، فَأَوْصَى بِهِ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا، فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ، فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَكَانَ يَرْعَى ظَهْرَهُمْ، فَلَمَّا جَائَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهُ؛ فَجَائَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: " قَسَمْتُهُ لَكَ "، قَالَ: مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى إِلَى هَاهُنَا - وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ - بِسَهْمٍ، فَأَمُوتَ، فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَقَالَ: " إِنْ تَصْدُقِ اللَّهَ يَصْدُقْكَ "؛ فَلَبِثُوا قَلِيلاً، ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ الْعَدُوِّ، فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَيْثُ أَشَارَ، فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَهُوَ هُوَ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ "، ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ؛ فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلاتِهِ: " اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ؛ فَقُتِلَ شَهِيدًا، أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۳۳) (صحیح)
۱۹۵۵- شداد بن ہاد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کے ساتھ ہو گیا، پھر اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی، جب ایک غزوہ ہوا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مالِ غنیمت میں کچھ لونڈیاں ملیں، تو آپ نے انہیں تقسیم کیا، اور اس کا (بھی) حصہ لگایا، چنانچہ اس کا حصہ اپنے ان اصحاب کو دے دیا جن کے سپرد اسے کیا گیا تھا، وہ ان کی سواریاں چراتا تھا، جب وہ آیا تو انہوں نے (اس کا حصہ) اس کے حوالے کیا، اس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ حصہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تمہارے لیے لگایا تھا، تو اس نے اسے لے لیا، (اور) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: '' میں نے تمہارا حصہ دیا ہے''، تو اس نے کہا: میں نے اس (حقیر بدلے) کے لئے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاؤں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا: ''اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا وعدہ سچ کر دکھائے گا''، پھر وہ لوگ تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، پھر دشمنوں سے لڑنے کے لئے اٹھے، تو انھیں (کچھ دیر کے بعد) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا، اور انھیں ایسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انھوں نے اشارہ کیا تھا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: ''کیا یہ وہی شخص ہے؟ '' لوگوں نے جواب دیا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تو (اللہ تعالیٰ) نے (بھی) اپنا وعدہ اسے سچ کر دکھایا'' ۱؎ پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جبّے میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی صلاۃ پڑھی ۲؎ آپ کی صلاۃ میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی: ''اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ؛ فَقُتِلَ شَهِيدًا، أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ'' (اے اللہ! یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہو گیا، میں اس بات پر گواہ ہوں)۔
وضاحت ۱؎: یعنی اس کی مراد پوری کر دی۔
وضاحت ۲؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء پر صلاۃ جنازہ پڑھی جائے۔


1956- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: " إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۷۲ (۱۳۴۴)، والمناقب ۲۵ (۳۵۹۶)، والمغازي ۱۷ (۴۰۴۲)، ۲۷ (۴۰۸۵)، والرقاق ۷ (۶۴۲۶)، ۵۳ (۶۵۹۰)، م/الفضائل ۹ (۲۲۹۶)، د/الجنائز ۷۵ (۳۲۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۶)، حم۴/۱۴۹، ۱۵۳، ۱۵۴ (صحیح)
۱۹۵۶- عقبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (مدینہ سے باہر) نکلے، اور غزوۂ احد کے شہیدوں پر صلاۃ (جنازہ) پڑھی ۱؎ جیسے میت کی صلاۃ جنازہ پڑھتے تھے، پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: '' میں (قیامت میں) تمہارا پیش رو ہوں، اور تم پر گواہ (بھی) ہوں ''۔
وضاحت ۱؎: یہ صلاۃ آپ نے جنگ احد کے آٹھ سال بعد آخری عمر میں پڑھی تھی، اور یہ شہداء احد ہی کے ساتھ خاص تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
62-تَرْكُ الصَّلاةِ عَلَيْهِمْ
۶۲-باب: شہیدوں کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھنے کا بیان​


1957- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ، فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ يَقُولُ: " أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ "؛ فَإِذَا أُشِيرَ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، قَالَ: " أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلائِ "، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسَّلُوا۔
* تخريج: خ/الجنائز ۷۲ (۱۳۴۴)، ۷۳ (۱۳۴۵)، ۷۵ (۱۳۴۶)، ۷۸ (۱۳۴۸)، والمغازي ۲۶ (۴۰۷۹)، د/الجنائز ۳۱ (۳۱۳۸، ۳۱۳۹)، ت/الجنائز ۴۶ (۱۰۳۶)، ق/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۲) (صحیح)
۱۹۵۷- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم غزوۂ احد کے مقتولین میں سے میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے، پھر پوچھتے: '' ان دونوں میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا؟ '' جب لوگ ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے تو آپ اسے قبر میں پہلے رکھتے، اور فرماتے: ''میں ان پر گواہ ہوں ''، آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا، اور نہ ان کی صلاۃ جنازہ پڑھی گئی ۱؎ اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔
وضاحت ۱؎: جو لوگ شہید کی صلاۃ جنازہ پڑھی جانے کے قائل ہیں، وہ اس روایت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان میں کسی پر اس طرح صلاۃ نہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی الله عنہ پر کئی بار پڑھی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
63-بَاب تَرْكِ الصَّلاةِ عَلَى الْمَرْجُومِ
۶۳-باب: رجم کئے ہوئے شخص کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھنے کا بیان​


1958- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَنُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ: أَنَّ رَجُلا مِنْ أَسْلَمَ جَائَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا؛ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبِكَ جُنُونٌ؟ " قَالَ: لاَ، قَالَ: " أَحْصَنْتَ؟ " قَالَ: نَعَمْ؛ فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ فَرَّ، فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ، فَمَاتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱۱ (۵۲۷۰)، والحدود ۲۱ (۶۸۱۴)، ۲۵ (۶۸۲۰) (المحاربین ۷، ۱۱)، م/الحدود ۵ (۱۶۹۱)، د/الحدود ۲۴ (۴۴۳۰)، ت/الحدود ۵ (۱۴۵۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۹)، حم۳/۳۲۳، دي/الحدود ۱۲ (۲۳۶۱) (صحیح)
۱۹۵۸- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلۂ اسلم کے ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے (اپنا منہ) پھیر لیا، اس نے دوبارہ اعتراف کیا تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، اس نے پھر تیسری دفعہ اعتراف کیا، تو آپ نے (پھر) اپنا منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دیں، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تجھے جنون ہے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: ''کیا تو شادی شدہ ہے؟ '' اس نے کہا: ہاں، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کو رجم کر دیا گیا، جب اُسے پتھر لگا تو بھاگ کھڑا ہوا، پھر وہ پکڑا گیا تو پتھروں سے مارا گیا، تو اور مر گیا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کے حق میں اچھی بات کہی، اور اس کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: رجم کئے جانے والے پر صلاۃ جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کی بابت روایات مختلف ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ رجم کے دن نہیں پڑھی دوسرے دن پڑھی، جیسا کہ سنن ابو قرہ میں ہے، نیز امام وقت کو یہ اختیار ہے، جس کے حالات جیسے ہوں اسی کے حساب پڑھے یا نہ پڑھے، ماعز اور غامدیہ رضی الله عنہما نے سچی توبہ کی تھی، تو ان کی صلاۃ جنازہ پڑھی، اور جو بغیر توبہ کے گواہی کی وجہ سے رجم کیا جائے اس پر نہ پڑھنا ہی بہتر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
64- الصَّلاةُ عَلَى الْمَرْجُومِ
۶۴-باب: رجم کئے ہوئے شخص کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1959- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي زَنَيْتُ، وَهِيَ حُبْلَى، فَدَفَعَهَا إِلَى وَلِيِّهَا؛ فَقَالَ: "أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا"؛ فَلَمَّا وَضَعَتْ جَائَ بِهَا، فَأَمَرَ بِهَا؛ فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ رَجَمَهَا، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَتُصَلِّي عَلَيْهَا، وَقَدْ زَنَتْ؟ فَقَالَ: " لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ- ".
* تخريج: م/الحدود ۵ (۱۶۹۶)، د/الحدود ۲۵ (۴۴۴۰، ۴۴۴۱)، ت/الحدود ۹ (۱۴۳۵)، وقد أخرجہ: ق/الحدود ۹ (۲۵۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۸۱)، حم۴/۴۲۰، ۴۲۹، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰، دي/الحدود ۱۷ (۲۳۷۰) (صحیح)
۱۹۵۹- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے، وہ حاملہ تھی، تو آپ نے اسے اس کے ولی کے سپرد کر دیا اور کہا: ''اسے اچھی طرح رکھو، اور جب بچہ جن دے تو میرے پاس لے کر آنا''، چنانچہ جب اس نے بچہ جن دیا تو ولی اسے لے کر آیا، تو آپ نے اسے حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے، پھر آپ نے اسے رجم کیا، پھر اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی، اس پر عمر رضی الله عنہ نے آپ سے عرض کیا: آپ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھ رہے ہیں؟ حالانکہ وہ زنا کر چکی ہے، تو آپ نے فرمایا: ''اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ اہل مدینہ کے ستر لوگوں کے درمیان تقسیم کر دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے، اور اس سے بہتر توبہ اور کیا ہوگی کہ اس نے اللہ تعالیٰ (کی شریعت کے پاس ولحاظ میں) اپنی جان (تک) قربان کر دی''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
65-الصَّلاةُ عَلَى مَنْ يَحِيفُ فِي وَصِيَّتِهِ
۶۵-باب: وصیت میں ظلم کرنے والے کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1960- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ - وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ - عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلا أَعْتَقَ سِتَّةً مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لاَأُصَلِّيَ عَلَيْهِ "، ثُمَّ دَعَا مَمْلُوكِيهِ؛ فَجَزَّأَهُمْ ثَلاَثَةَ أَجْزَائٍ، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۱۲)، وقد أخرجہ: م/الأیمان ۱۱ (۱۶۶۸)، د/العتق ۱۰ (۳۹۵۸)، ت/الأحکام ۲۷ (۱۳۶۴)، ق/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۵)، حم۴/۴۲۶، ۴۳۱، ۴۳۸، ۴۴۰ (صحیح)
۱۹۶۰- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیئے، اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال (واسباب) نہ تھا، یہ بات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ اس سے ناراض ہوئے، اور فرمایا: '' میں نے ارادہ کیا کہ اس کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھوں ''، پھر آپ نے اس کے غلاموں کو بلایا، اور ان کے تین حصّے کیے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور دو کو آزاد کر دیا، اور چار کو رہنے دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
66-الصَّلاةُ عَلَى مَنْ غَلَّ
۶۶-باب: مال غنیمت چرانے والے کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1961- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ بِخَيْبَرَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، إِنَّهُ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "؛ فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ، فَوَجَدْنَا فِيهِ خَرَزًا مِنْ خَرَزِ يَهُودَ مَا يُسَاوِي دِرْهَمَيْنِ۔
* تخريج: د/الجھاد ۱۴۳ (۲۷۱۰)، ق/الجھاد ۳۴ (۲۸۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۷)، ط/الجھاد ۱۳ (۲۳)، حم۴/۱۱۴ و ۵/۱۹۲ (ضعیف)
(اس کے راوی '' ابو عمرہ'' لین الحدیث ہیں، اور موطا میں یہ سند سے ساقط ہیں، کما حررہ ابن عبدالبر)
۱۹۶۱- زید بن خالد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص خیبر میں مر گیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم لوگ اپنے ساتھی کی صلاۃ جنازہ پڑھ لو، اس نے اللہ کی راہ میں چوری کی ہے''، تو (جب) ہم نے اس کے اسباب کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں یہود کے نگینوں میں سے کچھ نگینے ملے، جو دو درہم کے برابر بھی نہیں تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
67-الصَّلاةُ عَلَى مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ
۶۷-باب: مقروض آدمی کی صلاۃ جنازہ کا بیان​


1962- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا" قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُوَ عَلَيَّ، قَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِالْوَفَائِ؟ قَالَ: بِالْوَفَائِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ۔
* تخريج: ت/الجنائز ۶۹ (۱۰۶۹)، ق/الکفالۃ ۹ (۲۴۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۰۳)، حم۵/۳۰۱، ۳۰۲، ۳۱۱، دي/البیوع ۵۳ (۲۶۳۵) (صحیح)
۱۹۶۲- ابو قتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس انصار کا ایک شخص لایا گیا تاکہ آپ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھ دیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم لوگ اپنے ساتھی کی صلاۃ جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھتا) کیونکہ اس پر قرض ہے''، ابو قتادہ رضی الله عنہ نے کہا: یہ میرے ذمہ ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: ''تم اس کی ادائیگی کرو گے؟ '' تو انہوں نے کہا: ہاں میں اس کی ادائیگی کروں گا، تب آپ نے اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی۔


1963- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ - يَعْنِي ابْنَ الأَكْوَعِ - قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! صَلِّ عَلَيْهَا، قَالَ: " هَلْ تَرَكَ عَلَيْهِ دَيْنًا "، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " هَلْ تَرَكَ مِنْ شَيْئٍ؟ " قَالُوا: لاَ، قَالَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ "، قَالَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ أَبُو قَتَادَةَ: صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ .
* تخريج: خ/الحوالۃ ۳ (۲۲۸۹)، والکفالۃ ۳ (۲۲۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۴۷)، حم۴/۴۷ (صحیح)
۱۹۶۳- سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے نبی! اس کی صلاۃ جنازہ پڑھ دیجیے، آپ نے پوچھا: ''کیا اس نے اپنے اوپر کچھ قرض چھوڑا ہے؟ '' لوگوں نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: ''کیا اس نے اس کی ادائیگی کے لئے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ '' لوگوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنے ساتھی کی صلاۃ جنازہ پڑھ لو''، تو ابو قتادہ نامی ایک انصاری نے عرض کیا: آپ اس کی صلاۃ (جنازہ) پڑھ دیجئے، اس کا قرض میرے ذمہ ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی صلاۃ (جنازہ) پڑھی۔


1964- أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ الْقُوْمَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يُصَلِّي عَلَى رَجُلٍ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأُتِيَ بِمَيْتٍ فَسَأَلَ: " أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، عَلَيْهِ دِينَارَانِ، قَالَ: "صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، مَنْ تَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ، وَمَنْ تَرَكَ مَالاً فَلِوَرَثَتِهِ ".
* تخريج: د/الخراج ۱۵ (۲۹۵۴)، البیوع ۹ (۳۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۸)، حم۳/۲۹۶ (صحیح)
۱۹۶۴- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مقروض آدمی کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھتے تھے، چنانچہ ایک جنازہ آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے پوچھا: '' کیا اس پر قرض ہے؟ '' لوگوں نے جواب دیا: ہاں، اس پر دو دینار (کا قرض) ہے، آپ نے فرمایا: ''تم لوگ اپنے ساتھی پر صلاۃ جنازہ پڑھ لو''، ابو قتادہ رضی الله عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں دینار میرے ذمہ ہیں، تو آپ نے اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو فتح ونصرت عطا کی، تو آپ نے فرمایا: ''میں ہر مومن پر اس کی جان سے زیادہ حق رکھتا ہوں، جو قرض چھوڑ کر مرے (اس کی ادائیگی) مجھ پر ہے، اور جو مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے''۔


1965- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تُوُفِّيَ الْمُؤْمِنُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ سَأَلَ: " هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَائٍ؟ " فَإِنْ قَالُوا: نَعَمْ، صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِنْ قَالُوا: لاَ، قَالَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ "؛ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ - عَزَّوَجَلَّ - عَلَى رَسُولِهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالاَ فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ "۔
* تخريج: وقد أخرجہ: خ/الکفالۃ ۵ (۲۲۹۸)، والنفقات ۱۵ (۲۳۹۸)، م/الفرائض ۴ (۱۶۱۹)، ت/الجنائز ۶۹ (۱۰۷۰)، ق/الصدقات ۱۳ (۲۴۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۵۷، ۱۵۳۱۵)، حم۲/۲۹۰، ۴۵۳ (صحیح)
۱۹۶۵- ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن مرتا اور اس پر قرض ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پوچھتے: ''کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ چھوڑا ہے؟ '' اگر لوگ کہتے: ہاں، تو آپ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھتے، اور اگر کہتے: نہیں، تو آپ کہتے: ''تم اپنے ساتھی پر صلاۃ (جنازہ) پڑھ لو''۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم پر فتح ونصرت کا دروازہ کھولا، تو آپ نے فرمایا: ''میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں، تو جو وفات پا جائے اور اس پر قرض ہو، تو (اس کی ادائیگی) مجھ پر ہے، اور اگر کوئی مال چھوڑ کر گیا تو وہ اس کے وارثوں کاہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
68-تَرْكُ الصَّلاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ
۶۸-باب: خودکشی کرنے والے کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھنے کا بیان​


1966 - أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ ابْنِ سَمُرَةَ: أَنَّ رَجُلاً قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا أَنَا فَلاَ أُصَلِّي عَلَيْهِ "۔
* تخريج: م/الجنائز ۳۶ (۹۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۵۷)، وقد أخرجہ: د/الجنائز ۵۱ (۳۱۸۵) مطولاً، ت/الجنائز ۶۸ (۱۰۶۸)، ق/الجنائز ۳۱ (۱۵۲۶)، حم۵/۸۷، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۹۶، ۹۷، ۱۰۰، ۱۰۷ (صحیح)
۱۹۶۶- ابن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے تیر کی انی سے خود کشی کر لی، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''رہا میں تو میں اس کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھ سکتا''۔


1967- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ؛ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا؛ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ - ثُمَّ انْقَطَعَ عَلَيَّ شَيْئٌ، خَالِدٌ يَقُولُ: - كَانَتْ حَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا "۔
* تخريج: خ/الطب ۵۶ (۵۷۷۸)، م/الإیمان ۴۷ (۱۰۹)، وقد أخرجہ: د/الطب ۱۱ (۳۸۷۲)، ت/الطب ۷ (۱۰۴۴)، ق/الطب ۱۱ (۱۰۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹۴)، حم۲/۲۵۴، ۲۷۸، ۴۸۸، دي/الدیات ۱۰ (۲۴۰۷) (صحیح)
۱۹۶۷- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص اپنے آپ کوکسی پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے، تو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش اپنے آپ کو اوپر سے نیچے گراتا رہے گا، اور جو زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالے تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں رہے گا اسے وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں پیتا رہے گا، اور جو شخص کسی دھاردار چیز سے اپنے آپ کو مار ڈالے (راوی کہتے ہیں: پھر کوئی چیز میرے سننے سے رہ گئی ۱؎، خالد کہہ رہے تھے:) تو اس کا لوہا اس کے ہاتھ میں ہو گا اُسے وہ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں برابر بھونکا کرے گا''۔
وضاحت ۱؎: یہ متن حدیث کا حصہ نہیں ہے بلکہ خالد سے روایت کرنے والے راوی کا کلام ہے یعنی خالد کہہ رہے تھے کہ'' من قتل نفسہ بحدیدۃ'' کے بعد کوئی لفظ رہ گیا ہے جسے میں سن نہیں سکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
69-الصَّلاةُ عَلَى الْمُنَافِقِينَ
۶۹-باب: منافق کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1968- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! تُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ؟ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، كَذَا وَكَذَا، أُعَدِّدُ عَلَيْهِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ "؛ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ: "إِنِّي قَدْ خُيِّرْتُ، فَاخْتَرْتُ، فَلَوْ عَلِمْتُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا"؛ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَمْكُثْ إِلاَّ يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ الآيَتَانِ مِنْ بَرَائَةَ: { وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ }، فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ۔
* تخريج: خ/الجنائز ۸۴ (۱۳۶۶)، وتفسیر التوبۃ ۱۲ (۴۶۷۱)، ت/الجنائز/تفسیر التوبۃ (۳۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۰۹)، حم۱/۱۶ (صحیح)
۱۹۶۸- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن أبی ابن سلول (منافقوں کا سردار) مر گیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بلائے گئے، تاکہ آپ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھیں، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (صلاۃ پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابن أبی پر صلاۃ جنازہ پڑھیں گے؟ حالانکہ فلاں دن وہ ایسا ایسا کہہ رہا تھا، میں اس کی تمام باتیں آپ پر گنانے لگا، تو آپ مسکرائے، اور فرمایا: ''اے عمر! ان باتوں کو جانے دو''۔ جب میں نے کافی اصرار کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے اختیار ہے (صلاۃ پڑھوں یا نہ پڑھوں) تو میں نے پڑھنا پسند کیا، اگر میں یہ جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت چاہنے پر اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس سے زیادہ مغفرت کرتا '' ۱؎ چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی، پھر لوٹے اور ابھی ذرا سادم ہی لیا تھا کہ سورہ برأت کی دونوں آیتیں نازل ہوئی ں: { وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ } (جب یہ مر جائیں تو تم ان میں سے کسی پر کبھی بھی صلاۃ جنازہ نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پہ کھڑے ہو، اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے، اور گنہگار ہو کر مرے ہیں)، بعد میں مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف اپنی اس دن کی اس جرأت پر حیرت ہوئی، اور اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں کہ یہ جرأت میں نے کیوں کی۔
وضاحت ۱؎: یعنی ستر بار سے زیادہ اس کی مغفرت کے لئے دعا کرتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
70-الصَّلاةُ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي الْمَسْجِدِ
۷۰-باب: مسجد میں صلاۃ جنازہ پڑھنے کا بیان​


1969- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَائَ إِلاَّ فِي الْمَسْجِدِ۔
* تخريج: م/الجنائز ۳۴ (۹۷۳) مطولاً، وقد أخرجہ: د/الجنائز ۵۴ (۳۱۸۹)، ت/الجنائز ۴۴ (۱۰۳۳)، ق/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۷۵)، ط/الجنائز ۸ (۲۲)، حم۶/۷۸، ۱۳۳، ۱۶۹ (صحیح)
۱۹۶۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی الله عنہ کی صلاۃ جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے مسجد میں جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ آپ کا معمول مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا۔


1970- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِالْوَاحِدِ ابْنِ حَمْزَةَ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَائَ إِلاَّ فِي جَوْفِ الْمَسْجِدِ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۹۷۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی صلاۃ جنازہ مسجد کے صحن ہی میں پڑھی تھی۔
وضاحت ۱؎: بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام سہل، سہیل اور صفوان تھے اور ان کی ماں کا نام رعد تھا، بیضاء ان کا وصفی نام ہے، اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔
 
Top