85- بَاب مَسْحِ الأُذُنَيْنِ مَعَ الرَّأْسِ وَمَا يُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى أَنَّهُمَا مِنَ الرَّأْسِ
۸۵-باب: سر کے ساتھ کان کے مسح کا بیان اور کان کے سر کا حصہ ہونے کی دلیل
102- أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَغَرَفَ غَرْفَةً، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَرَفَ غَرْفَةً، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ غَرَفَ غَرْفَةً، فَغَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى، ثُمَّ غَرَفَ غَرْفَةً، فَغَسَلَ يَدَهُ الْيُسْرَى، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ، بَاطِنِهِمَا بِالسَّبَّاحَتَيْنِ، وَظَاهِرِهِمَا بِإِبْهَامَيْهِ، ثُمَّ غَرَفَ غَرْفَةً، فَغَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، ثُمَّ غَرَفَ غَرْفَةً، فَغَسَلَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى .
* تخريج: انظر رقم: ۱۰۱، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۸) (حسن صحیح)
۱۰۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا، تو آپ نے ایک چلو پانی لیا، اور کلی کی، اور ناک میں ڈالا، پھر دوسرا چلو لیا، اور اپنا چہرہ دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا دایاں ہاتھ دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا بایاں ہاتھ دھویا، پھر اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا شہادت کی انگلی سے، اور ان دونوں کے بیرونی حصہ کا انگوٹھے سے مسح کیا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا دایاں پائوں دھویا، پھر ایک اور چلو لیا، اور اپنا بایاں پاؤں دھویا۔
103- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ وَعُتْبَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ؛ عَنْ عَبْدِاللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: <إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ فَتَمَضْمَضَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ فِيهِ، فَإِذَا اسْتَنْثَرَ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ أَنْفِهِ، فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجْتِ الْخَطَايَا مِنْ وَجْهِهِ، حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَشْفَارِ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ يَدَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ يَدَيْهِ، فَإِذَا مَسَحَ بِرَأْسِهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ رَأْسِهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ أُذُنَيْهِ، فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَيْهِ خَرَجَتِ الْخَطَايَا مِنْ رِجْلَيْهِ حَتَّى تَخْرُجَ مِنْ تَحْتِ أَظْفَارِ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ كَانَ مَشْيُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَصَلاتُهُ نَافِلَةً لَهُ >، قَالَ قُتَيْبَةُ: عَنِ الصُّنَابِحِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۶ (۲۸۲)، ط/فیہ ۶ (۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۷۷)، حم۴/۳۴۸، ۳۴۹ (صحیح)
۱۰۳- عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب بندۂ مؤمن وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ ۱؎ نکل جاتے ہیں، جب ناک جھاڑتا ہے تو اس کی ناک کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کی دونوں آنکھ کے پپوٹوں سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ کے ناخنوں کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کانوں سے نکل جاتے ہیں ۲ ؎ پھر جب وہ اپنے دونوں پائوں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پائوں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں پائوں کے ناخن کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر اس کا مسجد تک جانا اور اس کا صلاۃ پڑھنا اس کے لیے نفل ہوتا ہے ''۔ قتیبہ کی روایت میں
''عن الصنابحي أن رسول اللہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال'' کے بجائے
''عن الصنابحي أن النبي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال'' ہے۔
وضاحت ۱؎: اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں نہ کہ کبائر (گناہ کبیرہ) اس لیے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔
وضاحت ۲؎: اس سے مصنف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ دونوں کان سر ہی کا حصہ ہیں کیونکہ سر پر مسح کرنے سے دونوں کانوں سے خطائوں کا نکلنا اسی صورت میں صحیح ہوگا جب وہ سر ہی کا حصہ ہوں، اس باب میں مصنف کو
''الأذنان من الرأس '' والی مشہور روایت ذکر کرنی چاہئے تھی لیکن مصنف نے اس سے صرف نظر کیا کیونکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حماد کو اس روایت کے سلسلہ میں شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا موقوف، نیز اس کی سند بھی قوی نہیں ہے، گرچہ متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن درجہ کو پہنچ گئی ہے، مصنف کا اس روایت سے اعراض کر کے مذکورہ بالا روایت سے استدلال کرنا ان کی دقت نظری کی دلیل ہے۔