• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
44-كَمْ الصَّاعُ؟
۴۴-باب: صاع کتنے مد کا ہوتا ہے ۱؎​


2521- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْقَاسِمُ - وَهُوَ ابْنُ مَالِكٍ - عَنْ الْجُعَيْدِ سَمِعْتُ السَّائِبَ ابْنَ يَزِيدَ، قَالَ: كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا وَثُلُثًا بِمُدِّكُمْ الْيَوْمَ، وَقَدْزِيدَ فِيهِ۔ قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: و حَدَّثَنِيهِ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ .
* تخريج: خ/الکفارات ۵ (۶۷۱۲)، والاعتصام ۱۶ (۷۳۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹۵) (صحیح)
۲۵۲۱- سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا۔
اور ابو عبدالرحمن فرماتے ہیں: اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔
وضاحت ۱؎: امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابو یوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کر لیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گی ہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔


2521/م- أخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُونُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَالْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ " .
* تخريج: د/البیوع ۸ (۳۳۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۰۲)، ویأتی عند المؤلف برقم ۴۵۹۸ (صحیح)
۲۵۲۱/م- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لئے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہوگا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
45-بَاب الْوَقْتِ الَّذِي يُسْتَحَبُّ أَنْ تُؤَدَّى صَدَقَةُ الْفِطْرِ فِيهِ
۴۵-باب: صدقہ فطر کس وقت ادا کرنا مستحب ہے؟​


2522- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى، ح قَالَ: وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ، قَالَ ابْنُ بَزِيعٍ: بِزَكَاةِ الْفِطْرِ۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۰ (۱۵۰۹)، م/الزکاۃ ۵ (۹۸۶)، د/الزکاۃ ۱۸ (۱۶۱۰)، ت/الزکاۃ ۳۶ (۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۵۲)، حم (۲/۱۵، ۱۵۴) (صحیح)
۲۵۲۲- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر صلاۃ کے لئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے (ابن بزیع کی روایت میں ''بصدقة الفطر'' کے بجائے ''بزكاة الفطر'' ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
46-إِخْرَاجُ الزَّكَاةِ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ
۴۶-باب: ایک شہر کی زکاۃ دوسرے شہر میں بھیجنے کا بیان​


2523- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ -وَكَانَ ثِقَةً- عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: < إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؛ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ؛ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْافْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ؛ فَتُوضَعُ فِي فُقَرَائِهِمْ؛ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ؛ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ؛ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حِجَابٌ ".
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۴۳۷ (صحیح)
۲۵۲۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ''تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انہیں اس بات کی گواہی کی دعوت دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ (وقت کی) صلاتیں فرض کی ہیں، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی، اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو ان کے اچھے وعمدہ مال لینے سے بچو، اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
47-بَاب إِذَا أَعْطَاهَا غَنِيًّا وَهُوَ لا يَشْعُرُ
۴۷-باب: لا علمی میں کسی مالدار کو صدقہ دے دینے کا بیان​


2524- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوالزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ الأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " قَالَ رَجُلٌ: لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ! لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ! لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ؛ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، عَلَى زَانِيَةٍ، وَعَلَى سَارِقٍ، وَعَلَى غَنِيٍّ، فَأُتِيَ، فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ تُقُبِّلَتْ، أَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهِ مِنْ زِنَاهَا وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهِ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ أَنْ يَعْتَبِرَ فَيُنْفِقَ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ "۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۴ (۱۴۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۳۵)، وقد أخرجہ: م/الزکاۃ ۲۴ (۱۰۲۲)، حم۲/۳۲۲ (صحیح)
۲۵۲۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک شخص نے کہا: میں ضرور صدقہ دوں گا، تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے چور کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی ۱؎، میں اور بھی صدقہ دوں گا چنانچہ (دوسرے دن بھی) وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے لے جا کر ایک زانیہ عورت کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ تو اس نے پھر کہا: اللہ تیرا شکر ہے زانیہ کے ہاتھ میں چلے جانے پربھی، میں پھر صدقہ دوں گا، چنانچہ (تیسرے دن) پھر وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا، اور ایک مال دار شخص کو تھما آیا، پھر صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک مال دار شخص کو صدقہ کیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے، زانیہ، چور اور مالدار کو دے دینے پربھی۔ تو خواب میں اس کے پاس آ کر کہا گیا: رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول کر لیا گیا ہے، رہی زانیہ تو (صدقہ پاکر) شاید وہ زنا کاری سے باز آ جائے اور رہا چور تو صدقہ پا کر شاید وہ اپنی چوری سے باز آ جائے، اور ہا مالدار آدمی (تو صدقہ پاکر) شاید وہ اس سے سبق سیکھے اور اللہ عزوجل نے اسے جو دولت دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
48-بَاب الصَّدَقَةِ مِنْ غُلُولٍ
۴۸-باب: چوری کے مال میں سے صدقہ دینے کا بیان​


2525- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الذَّارِعُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: وَأَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ - وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ - قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، - وَاللَّفْظُ لِبِشْرٍ- عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لا يَقْبَلُ صَلاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلاصَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ "۔
* تخريج: انظررقم ۱۳۹ (صحیح)
۲۵۲۵- ابو الملیح کے والد اسامۃ بن عمیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: '' اللہ عزوجل بغیر پاکی کے کوئی صلاۃ قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی حرام مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے''۔


2526- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: < مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ - وَلا يَقْبَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلاالطَّيِّبَ - إِلا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ عَزَّ وَجَلَّ بِيَمِينِهِ وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً، فَتَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنْ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ >۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۸ (۱۴۱۰)، التوحید ۲۳ (۷۴۳۰) تعلیقا، م/الزکاۃ ۱۹ (۱۰۱۴)، ت/الزکاۃ ۲۸ (۶۶۱)، ق/الزکاۃ ۲۸ (۱۸۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷۹)، ط/الصدقۃ۱ (۱) (مرسلاً)، حم ۲/۲۶۸، ۳۳۱، ۳۸۱، ۴۱۸، ۴۱۹، ۴۳۱، ۴۷۱، ۵۳۸، ۵۴۱، دی/الزکاۃ۳۵ (۱۷۱۷) (صحیح)
۲۵۲۶- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص بھی اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے (اور اللہ پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے) تو رحمن عزوجل اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے گو وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ رحمن کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا اونٹنی کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
49-جُهْدُ الْمُقِلِّ
۴۹-باب: کم مال والے کا اپنی محنت کی کمائی سے صدقہ کرنے کے ثواب کا بیان​


2527- أَخْبَرَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْحَكَمِ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ: ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيٍّ الأَزْدِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ الْخَثْعَمِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ لا شَكَّ فِيهِ، وَجِهَادٌ لاغُلُولَ فِيهِ، وَحَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ " قِيلَ: فَأَيُّ الصَّلاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " طُولُ الْقُنُوتِ " قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " جُهْدُ الْمُقِلِّ " قِيلَ: فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " مَنْ هَجَرَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ " قِيلَ: فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِينَ بِمَالِهِ وَنَفْسِهِ " قِيلَ: فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ؟ قَالَ: " مَنْ أُهَرِيقَ دَمُهُ وَعُقِرَ جَوَادُهُ "۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۳۱۴ (۱۳۲۵)، ۳۴۷ (۱۴۴۹)، حم۳/۴۱۲، دی/ال صلاۃ ۱۳۵ (۱۴۳۱)، ویأتی عند المؤلف برقم۴۹۸۹ (صحیح)
۲۵۲۷- عبداللہ بن حبشی خثعمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سے کام افضل ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''ایسا ایمان جس میں شبہ نہ ہو، جہاد جس میں خیانت نہ ہو، اور حج مبرور''، پوچھا گیا: کون سی صلاۃ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''لمبے قیام والی صلاۃ ''، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''وہ صدقہ جو کم مال والا اپنی محنت کی کمائی سے دے''، پوچھا گیا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ایسی ہجرت جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے''، پوچھا گیا: کون سا جہاد افضل ہے، آپ نے فرمایا: ''اس شخص کا جہاد جو مشرکین سے اپنی جان ومال کے ساتھ جہاد کرے''، پوچھا گیا: کون سا قتل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''جس میں آدمی کا خون بہا دیا گیا ہو، اور اس کا گھوڑا ہلاک کر دیا گیا ہو''۔


2528-أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ وَالْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: < سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ >، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ: < كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ، تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا، وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ، فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۵۷)، حم (۲/۳۷۹) (حسن)
۲۵۲۸- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ''، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ''ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کر دیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کر دیا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر وقیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دوہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔


2529-أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلانَ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: <سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفٍ>، قَالُوا: يَارَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ؟ قَالَ: <رَجُلٌ لَهُ دِرْهَمَانِ؛ فَأَخَذَ أَحَدَهُمَا؛ فَتَصَدَّقَ بِهِ، وَرَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ؛ فَأَخَذَ مِنْ عُرْضِ مَالِهِ مِائَةَ أَلْفٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۲۸) (حسن)
۲۵۲۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایک درہم ایک لاکھ درہم سے آگے نکل گیا ''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ''ایک شخص کے پاس دو درہم ہیں، اس نے ان دونوں میں سے ایک لیا اور اسے صدقہ کر دیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جس کے پاس بہت زیادہ مال ہے، اس نے اپنے مال (خزانے) کے ایک کنارے سے ایک لاکھ درہم نکالے، اور انہیں صدقہ میں دے دے''۔


2530- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْحُسَيْنِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِالصَّدَقَةِ، فَمَا يَجِدُ أَحَدُنَا شَيْئًا يَتَصَدَّقُ بِهِ حَتَّى يَنْطَلِقَ إِلَى السُّوقِ، فَيَحْمِلَ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَجِيئَ بِالْمُدِّ فَيُعْطِيَهُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي لأَعْرِفُ الْيَوْمَ رَجُلا لَهُ مِائَةُ أَلْفٍ مَا كَانَ لَهُ يَوْمَئِذٍ دِرْهَمٌ۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۰ (۱۴۱۵)، الإجارۃ ۱۳ (۲۲۷۳)، تفسیر التوبۃ ۱۱ (۴۶۶۹)، م/الزکاۃ ۲۱ (۱۰۱۸)، ق/الزھد ۱۲ (۴۱۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۱)، حم (۵/۲۷۳) (صحیح)
۲۵۳۰- ابو مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں ـکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تھے، اور ہم میں بعض ایسے ہوتے تھے جن کے پاس صدقہ کرنے کے لئے کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ وہ بازار جاتا اور اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتا، اور ایک مد لے کر آتا اور اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دے دیتا۔ میں آج ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کے پاس ایک لاکھ درہم ہے، اور اس وقت اس کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا۔


2531- أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: لَمَّا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ فَتَصَدَّقَ أَبُوعَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَائَ إِنْسَانٌ بِشَيْئٍ أَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الآخَرُ إِلا رِيَائً، فَنَزَلَتْ { الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لايَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ }۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۵۳۱- ابو مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا تو ابو عقیل رضی الله عنہ نے آدھا صاع صدقہ دیا، اور ایک اور شخص اس سے زیادہ لے کر آیا، تو منافقین اس (پہلے شخص) کے صدقہ کے بارے میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ایسے صدقے سے بے نیاز ہے، اور اس دوسرے نے محض دکھاوے کے لئے دیا ہے، تو (اس موقع پر) آیت کریمہ: ''الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ'' (التوبہ: ۷۹) (جو لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مومنین پر اور ان لوگوں پر جو صرف اپنی محنت ومزدوری سے حاصل کر کے صدقہ دیتے ہیں طعن زنی کرتے ہیں) نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
50-الْيَدُ الْعُلْيَا
۵۰-باب: اوپر والے ہاتھ (یعنی دینے والے) کی فضیلت کا بیان​


2532- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، وَعُرْوَةُ، سَمِعَا حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى"۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۰ (۱۴۷۲)، والوصایا ۹ (۲۷۵۰)، الخمس۱۹ (۳۱۴۳)، الرقاق ۱۱ (۶۴۴۱)، م/الزکاۃ ۳۲ (۱۰۳۵)، ت/صفۃ القیامۃ ۲۹ (۲۴۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۶)، حم (۳/۴۰۲، ۴۳۴)، دی/الزکاۃ۲۲ (۱۶۹۳)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۲۶۰۳، ۲۶۰۴ (صحیح)
۲۵۳۲- حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: ''یہ مال سرسبز وشیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص وطمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
51-بَاب أَيَّتُهُمَا الْيَدُ الْعُلْيَا؟
۵۱-باب: اوپر والا ہاتھ کون سا ہے؟​


2533- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ - عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ؛ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ النَّاسَ، وَهُوَ يَقُولُ: " يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ، وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ، وَأَخَاكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ > مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۸۸) (صحیح)
۲۵۳۳- طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے ہیں آپ فرما رہے ہیں: دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت ونگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
52-الْيَدُ السُّفْلَى
۵۲-باب: نیچے والے ہاتھ یعنی صدقہ قبول کرنے والے کا بیان​


2534- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ- وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنْ الْمَسْأَلَةِ- < الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالْيَدُ السُّفْلَى السَّائِلَةُ "۔
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۸ (۱۴۲۹)، م/الزکاۃ ۳۲ (۱۰۳۳)، د/الزکاۃ ۲۸ (۱۶۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۷)، ط/الصدقۃ ۲ (۸)، حم (۲/۹۷)، دي/الزکاۃ۲۲ (۱۶۹۲) (صحیح)
۲۵۳۴- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا (اس وقت آپ صدقہ وخیرات اور مانگنے سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے): اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
53-الصَّدَقَةُ عَنْ ظَهْرِ غِنًى
۵۳-باب: مالداری اور دل کی بے نیازی کے ساتھ صدقہ دینے کا بیان​


2535- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: < خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ >۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۴۴)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۱۸ (۱۴۲۶)، النفقات ۲ (۵۳۵۵)، م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۲) (بحذف وزیادۃ)، ت/الزکاۃ ۳۸ (۶۸۰) (مثل مسلم)، حم (۲/۲۳۰، ۲۴۳، ۲۷۸، ۲۸۸، ۳۱۹، ۳۶۲، ۳۹۴، ۴۳۴، ۴۷۵، ۴۷۶، ۴۸۰، ۵۰۱، ۵۲۴) (حسن صحیح)
۲۵۳۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''بہتر صدقہ وہ ہے جو مالداری کی برقراری اور دل کی بے نیازی کے ساتھ ہو، اور ۱؎ اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی کفالت ونگرانی تمہارے ذمہ ہے۔
وضاحت ۱؎: ایسا نہ ہو کہ سارا مال صدقہ کر دے اور خود محتاج ہو جائے۔
 
Top