• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
184-كَيْفَ يُقَصِّرُ؟
۱۸۴-باب: بال کس طرح کترے؟​


2992- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَخَذْتُ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ كَانَ مَعِي، بَعْدَ مَا طَافَ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ.
قَالَ قَيْسٌ: وَالنَّاسُ يُنْكِرُونَ هَذَا عَلَى مُعَاوِيَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۳)، حم (۴/۹۲) (شاذ)
۲۹۹۲- معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ذی الحجہ کے پہلے دہے میں بیت اللہ کے طواف اور صفا ومروہ کی سعی کر چکنے کے بعد میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بال کے کناروں کو اپنے پاس موجود ایک تیر کے پھل سے کاٹے۔
قیس بن سعد کہتے ہیں: لوگ معاویہ پراس حدیث کی وجہ سے نکیر کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ معاویہ رضی الله عنہ کا وہم ہے، صحیح بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع میں متمتع نہیں تھے، بلکہ قارن تھے، آپ نے مروہ پر نہیں، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں حلق کروایا تھا معاویہ والا واقعہ غالباً عمرئہ جعرانہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
185-مَا يَفْعَلُ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَأَهْدَى؟
۱۸۵-باب: حج کا احرام باندھنے والے کے پاس ہدی ہو تو وہ کیا کرے؟​


2993- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ يَحْيَى - وَهُوَ ابْنُ آدَمَ - عَنْ سُفْيَانَ - وَهُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ - قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا نُرَى إِلا الْحَجَّ، قَالَتْ: فَلَمَّا أَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ: "مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ؛ فَلْيُقِمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ"۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۹۱۴۲، ۲۹۵۱، ۲۶۵۱ (صحیح)
۲۹۹۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا تو جب آپ نے بیت اللہ کا طواف کر لیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کر لی تو آپ نے فرمایا: جس کے پاس ہدی ہو وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
186-مَا يَفْعَلُ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى
۱۸۶-باب: عمرہ کا احرام باندھنے والے کے پاس ہدی ہو تو وہ کیا کرے؟​


2994- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَأَهْدَى؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ يُهْدِ؛ فَلْيَحْلِلْ، وَمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ؛ فَأَهْدَى؛ فَلا يَحِلَّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةِ؛ فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ " قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكُنْتُ مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۴۹)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۲)، والمغازی۷۷ (۴۳۹۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/الحج ۲۳ (۱۷۷۸)، حم (۶/۳۷، ۱۱۹) (صحیح)
(لیست عندخ/وکنت ممن أہل بالعمرۃ)
۲۹۹۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، تو ہم میں سے بعض نے حج کا احرام باندھا اور بعض نے عمرہ کا، اور ساتھ ہدی بھی لائے۔ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور ہدی ساتھ نہیں لایا ہے، تو وہ احرام کھول ڈالے، اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے، اور ساتھ ہدی لے کر آیا ہے تو وہ احرام نہ کھولے، اور جس نے حج کا تلبیہ پکارا ہے تو وہ اپنا حج پورا کرے''، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تومیں ان لوگوں میں سے تھی جن ہوں نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا۔


2995- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ؛ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُقِمْ عَلَى إِحْرَامِهِ" قَالَتْ: وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ هَدْيٌ فَأَقَامَ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَأَحْلَلْتُ، فَلَبِسْتُ ثِيَابِي وَتَطَيَّبْتُ مِنْ طِيبِي، ثُمَّ جَلَسْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ فَقَالَ: اسْتَأْخِرِي عَنِّي، فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ؟۔
* تخريج: م/الحج ۲۹ (۱۲۳۶)، ق/الحج ۴۱ (۲۹۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۹)، حم (۶/۳۵۰، ۳۵۱) (صحیح)
۲۹۹۵- اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں: ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے آئے، جب مکہ کے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ حلال ہو جائے (یعنی احرام کھول دے) اور جس کے ساتھ ہدی ہو وہ اپنے احرام پر علی حالہ باقی رہے''، زبیر رضی الله عنہ کے ساتھ ہدی تھی تو وہ اپنے احرام پر باقی رہے اور میرے پاس ہدی نہ تھی تو میں نے احرام کھول دیا، اپنے کپڑے پہن لئے اور اپنی خوشبو میں سے، خوشبو لگائی، پھر (جا کر) زبیر کے پاس بیٹھی، تو وہ کہنے لگے: مجھ سے پرے ہٹ۔ تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ ڈر رہے ہیں کہ میں آپ پر کود پڑوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
187-الْخُطْبَةُ قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ
۱۸۷-باب: یوم الترویۃ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے خطبہ کا بیان​


2996- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ مُوسَى بْنِ طَارِقٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعِرَّانَةِ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ عَلَى الْحَجِّ؛ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْعَرْجِ ثَوَّبَ بِالصُّبْحِ، ثُمَّ اسْتَوَى لِيُكَبِّرَ فَسَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ؛ فَوَقَفَ عَلَى التَّكْبِيرِ؛ فَقَالَ: " هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَائِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ؛ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ؛ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا؛ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ؟ قَالَ: لا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَائَةَ أَقْرَؤُهَا عَلَى النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ؛ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ؛ فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ؛ فَأَفَضْنَا؛ فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ، وَعَنْ مَنَاسِكِهِمْ؛ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا؛ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ كَيْفَ يَنْفِرُونَ؟ وَكَيْفَ يَرْمُونَ؟ ؛ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَائَةٌ عَلَى النَّاسِ حَتَّى خَتَمَهَا".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: ابْنُ خُثَيْمٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَإِنَّمَا أَخْرَجْتُ هَذَا لِئَلاَّ يُجْعَلَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَمَا كَتَبْنَاهُ إِلا عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، لَمْ يَتْرُكْ حَدِيثَ ابْنِ خُثَيْمٍ، وَلا عَبْدِالرَّحْمَنِ، إِلا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ: ابْنُ خُثَيْمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَكَأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ خُلِقَ لِلْحَدِيثِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۷)، دي/المناسک ۷۱ (۱۹۵۶) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی '' عبداللہ بن عثمان بن خثیم '' کو علی بن المدینی نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، مگر حافظ نے ''صدوق'' کہا ہے)
۲۹۹۶- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جس وقت جعرانہ کے عمرہ سے لوٹے تو ابوبکر رضی الله عنہ کو (امیر مقرر کر کے) حج پر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ آئے۔ پھر جب وہ عرج ۱؎ میں تھے اور صبح کی صلاۃ کی اقامت کہی گئی اور وہ اللہ اکبر کہنے کے لئے کھڑے ہوئے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے آپ نے ایک اونٹ کی آواز سنی تو اللہ اکبر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے: ـیہ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی جدعاء کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا خود بھی حج کے لیے آنے کا ارادہ بن گیا ہو تو ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آ رہے ہوں (آپ ہوئے) تو ہم آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھیں گے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس اونٹنی پر علی رضی الله عنہ سوار ہیں۔ تو ابوبکر رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا: آپ (امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں) یا قاصد بن کے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے مقامات حج میں سورہ برأۃ پڑھ کر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجا ہے۔ پھر ہم مکہ آئے تو ترویہ سے ایک دن پہلے (یعنی ساتویں تاریخ کو) ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اور انہیں ان کے حج کے ارکان بتائے۔ جب وہ (اپنے بیان سے) فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کوسورئہ برأت پڑھ کر سنائی، یہاں تک کہ پوری سورت ختم ہو گئی، پھر ہم ان کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب عرفہ کا دن آیا تو ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے انہوں نے خطبہ دیا اور انہیں حج کے احکام سکھائے۔ یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو گئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورہ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ پھر جب یوم النحر یعنی دسویں تاریخ آئی تو ہم نے طواف افاضہ کیا، اور جب ابوبکر رضی الله عنہ لوٹ کر آئے تو لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں طواف افاضہ کرو، قربانی کرنے اور حج کے دیگر ارکان ادا کرنے کے طریقے سکھائے اور جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورہ برأت پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ پوری سورت انہوں نے ختم کی، پھر جب کوچ کا پہلا دن آیا ۲؎ تو ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کیسے کوچ کریں اور کیسے رمی کریں۔ پھر انہیں حج کے (باقی احکام) سکھلائے جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورہ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: ابن خثیم (یعنی عبداللہ بن عثمان) حدیث میں قوی نہیں ہیں، اور میں نے اس کی تخریج اس لیے کی تاکہ اسے '' ابن جریج عن ابی الزبیر ''نہ بنا لیا جائے ۳؎ میں نے اسے صرف اسحاق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھا ہے، اور یحییٰ ابن سعید القطان نے ابن خیثم کی حدیث کو نہیں چھوڑا ہے، اور نہ ہی عبدالرحمن کی حدیث کو۔ البتہ علی بن مدینی نے کہا ہے کہ ابن خیثم منکرالحدیث ہیں اور گویا علی بن مدینی حدیث ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔
وضاحت ۱؎: ایک مقام کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی بارہویں تاریخ ہوئی جسے نفر اوّل کہا جاتا ہے اور نفر آخر تیرہویں ذی الحجہ ہے۔
وضاحت ۳؎: یعنی میں نے اس حدیث کی تخریج اس سند کے ساتھ جس میں ابن جریج اور ابو زبیر کے درمیان ابن خیثم ہیں اس سند سے نہیں کی ہے جس میں ابن جریج بن ابی الزبیر جیسا کہ بعض محدثین نے کی ہے تاکہ یہ ابن جریج کے طریق سے منقطع ہو کیونکہ وہ ابوالزبیر سے ارسال کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
188-الْمُتَمَتِّعُ مَتَى يُهِلُّ بِالْحَجِّ؟
۱۸۸-باب: تمتع کرنے والا حج کا احرام کب باندھے؟​


2997- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِلُّوا، وَاجْعَلُوهَا عُمْرَةً "؛ فَضَاقَتْ بِذَلِكَ صُدُورُنَا، وَكَبُرَ عَلَيْنَا؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَحِلُّوا، فَلَوْلا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُونَ"؛ فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَائَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۴۵)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۶)، د/الحج ۲۳ (۱۷۸۸)، وحم (۳/۲۹۲، ۳۶۴، ۳۰۲) (صحیح)
۲۹۹۷- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ (مکہ) آئے تو ذی الحجہ کی چار تاریخیں گزر چکی تھیں، تونبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''احرام کھول ڈالو اور اسے عمرہ بنا لو''، اس سے ہمارے سینے تنگ ہو گئے، اور ہمیں یہ بات شاق گزری۔ اس کی خبر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: '' لوگو! حلال ہو جاؤ (احرام کھول دو) اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو تم لوگ کر رہے ہو''، تو ہم نے احرام کھول دئے، یہاں تک کہ ہم نے اپنی عورتوں سے صحبت کی، اور وہ سارے کام کئے جو غیر محرم کرتا ہے یہاں تک کہ یوم ترویہ یعنی آٹھویں تاریخ آئی، تو ہم مکہ کی طرف پشت کر کے حج کا تلبیہ پکارنے لگے (اور منیٰ کی طرف چل پڑے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
189-مَا ذُكِرَ فِي مِنًى
۱۸۹-باب: منیٰ کا بیان​


2998- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَدَلَ إِلَيَّ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا أَنْزَلَكَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ ؛ فَقُلْتُ أَنْزَلَنِي ظِلُّهَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كُنْتَ بَيْنَ الأَخْشَبَيْنِ مِنْ مِنًى - وَنَفَخَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ - فَإِنَّ هُنَاكَ وَادِيًا يُقَالُ لَهُ السُّرَّبَةُ وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ: يُقَالُ لَهُ: السُّرَرُ بِهِ سَرْحَةٌ سُرَّ تَحْتَهَا سَبْعُونَ نَبِيًّا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۶۷) ط/الحج ۸۱ (۲۴۹)، حم (۲/۱۳۸) (ضعیف)
(اس کے رواۃ '' محمد بن عمران '' اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)
۲۹۹۸- عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما میری طرف مُڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا: تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: مجھے اس کے سایہ نے (کچھ دیر آرام کرنے کے لئے) اتارا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جب تم منیٰ کے دو پہاڑوں کے بیچ ہو، آپ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو وہاں ایک وادی ہے جسے ''سربہ'' کہا جاتا ہے، اور حارث کی روایت میں ہے اسے'' سرربہ ''کہا جاتا ہے تو وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستّر انبیاء کے نال کاٹے گئے ہیں۔


2999 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُوَيْدٌ، قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ عَبْدِالْوَارِثِ - ثِقَةٌ - قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الأَعْرَجُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى؛ فَفَتَحَ اللَّهُ أَسْمَاعَنَا، حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَسْمَعُ مَا يَقُولُ: وَنَحْنُ فِي مَنَازِلِنَا؛ فَطَفِقَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ مَنَاسِكَهُمْ حَتَّى بَلَغَ الْجِمَارَ؛ فَقَالَ بِحَصَى الْخَذْفِ، وَأَمَرَ الْمُهَاجِرِينَ أَنْ يَنْزِلُوا فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، وَأَمَرَ الأَنْصَارَ أَنْ يَنْزِلُوا فِي مُؤَخَّرِ الْمَسْجِدِ۔
* تخريج: د/الحج ۷۴ (۱۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۴)، حم (۴/۶۱)، دي/المناسک ۵۹ (۱۹۴۱) (صحیح)
۲۹۹۹- عبدالرحمن بن معاذ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں خطبہ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے کان کھول دیے یہاں تک کہ آپ جو کچھ فرما رہے تھے ہم اپنی قیام گا ہوں میں (بیٹھے) سن رہے تھے۔ تونبی اکرم صلی الله علیہ وسلم لوگوں کو حج کے طریقے سکھانے لگے یہاں تک کہ آپ جمروں کے پاس پہنچے تو انگلیوں سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں اور مہاجرین کو حکم دیا کہ مسجد کے آگے کے حصے میں ٹھہریں اور انصار کو حکم دیا کہ مسجد کے پچھلے حصہ میں قیام پذیر ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
190-أَيْنَ يُصَلِّي الإِمَامُ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟
۱۹۰-باب: یوم الترویہ کو امام ظہر کہاں پڑھے؟​


3000 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلامٍ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى، فَقُلْتُ: أَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: بِالأَبْطَحِ۔
* تخريج: خ/الحج ۸۳ (۱۶۵۳، ۱۶۵۴)، ۱۴۶ (۱۷۶۳)، م/الحج ۵۸ (۱۳۰۹)، د/الحج ۵۹ (۱۹۱۲)، ت/الحج ۱۱۶ (۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۸)، حم (۳/۱۰۰)، دی/المناسک ۴۶ (۱۹۱۴) (صحیح)
۳۰۰۰- عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا، میں نے کہا: آپ مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی ایسی چیز بتائیے جو آپ کو یاد ہو، آپ نے ترویہ کے دن ظہر کہاں پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: منیٰ میں۔ پھر میں نے پوچھا: کوچ کے دن ۱؎ عصر کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: ابطح ۲؎ میں۔
وضاحت ۱؎: کوچ کے دن سے مراد یوم نفر آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ ہے۔
وضاحت ۲؎: مکہ کے قریب ایک وادی ہے جسے محصب بھی کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
191-الْغُدُوُّ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ
۱۹۱-باب: منیٰ سے عرفہ کی جانب روانگی کا بیان​


3001 - أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: غَدَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ؛ فَمِنَّا الْمُلَبِّي، وَمِنَّا الْمُكَبِّرُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۶۶)، وقد أخرجہ: م/الحج ۴۶ (۱۲۸۴)، د/الحج ۲۸ (۱۸۱۶) (صحیح)
۳۰۰۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفہ کی طرف چلے۔ توہم میں سے بعض لوگ تلبیہ پکار رہے تھے، اور بعض تکبیر کہہ رہے تھے۔


3002- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: غَدَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَرَفَاتٍ، فَمِنَّا الْمُلَبِّي وَمِنَّا الْمُكَبِّرُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۰۰۲- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ عرفات کی طرف چلے، ہم میں سے کچھ لوگ تلبیہ پکار رہے تھے، اور کچھ تکبیر کہہ رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
192-التَّكْبِيرُ فِي الْمَسِيرِ إِلَى عَرَفَةَ
۱۹۲-باب: عرفہ جاتے ہوئے تکبیر کہنے کا بیان​


3003 - أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُلائِيُّ -يَعْنِي: أَبَا نُعَيْمٍ الْفَضْلَ بْنَ دُكَيْنٍ- قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ - وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ -: مَاكُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِي التَّلْبِيَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ قَالَ: كَانَ الْمُلَبِّي يُلَبِّي؛ فَلا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ؛ فَلا يُنْكَرُ عَلَيْهِ۔
* تخريج: خ/العیدین ۱۲ (۹۷۰)، الحج ۸۶ (۱۶۵۹)، م/الحج۴۶ (۱۲۸۵)، ق/الحج ۵۳ (۳۰۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۲)، ط/الحج ۱۳ (۴۳)، حم (۳/۱۱۰، ۲۴۰)، دي/المناسک ۴۸ (۱۹۱۹) (صحیح)
۳۰۰۳- محمد بن ابی بکر ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا اور ہم منیٰ سے عرفات جا رہے تھے کہ آج کے دن آپ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ (منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے) کس طرح تلبیہ پکارتے تھے، تو انہوں نے کہا: تلبیہ پکارنے والا تلبیہ پکارتا تو اس پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی تھی، اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تھا، تو اس پر بھی کوئی نکیر نہیں کی جاتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
193-التَّلْبِيَةُ فِيهِ
۱۹۳-باب: عرفات جاتے ہوئے تلبیہ پکارنے کا بیان​


3004 - أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ - وَهُوَ الثَّقَفِيُّ - قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ غَدَاةَ عَرَفَةَ: مَا تَقُولُ فِي التَّلْبِيَةِ فِي هَذَا الْيَوْمِ؟ قَالَ: سِرْتُ هَذَا الْمَسِيرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، وَكَانَ مِنْهُمْ الْمُهِلُّ، وَمِنْهُمْ الْمُكَبِّرُ؛ فَلا يُنْكِرُ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَلَى صَاحِبِهِ۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۰۰۴- محمد بن ابی بکر ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عرفہ کی صبح انس رضی الله عنہ سے پوچھا: آج کے دن تلبیہ پُکارنے کے سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے یہ مسافت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ طے کی ہے، ان میں سے بعض لوگ تلبیہ پکارتے تھے، اور بعض تکبیر پکارتے تھے تو ان میں سے کوئی اپنے ساتھی پر نکیر نہیں کرتا تھا۔
 
Top