187-الْخُطْبَةُ قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ
۱۸۷-باب: یوم الترویۃ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے خطبہ کا بیان
2996- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ مُوسَى بْنِ طَارِقٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعِرَّانَةِ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ عَلَى الْحَجِّ؛ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْعَرْجِ ثَوَّبَ بِالصُّبْحِ، ثُمَّ اسْتَوَى لِيُكَبِّرَ فَسَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ؛ فَوَقَفَ عَلَى التَّكْبِيرِ؛ فَقَالَ: " هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَائِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ؛ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ؛ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا؛ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ؟ قَالَ: لا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَائَةَ أَقْرَؤُهَا عَلَى النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ؛ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ؛ فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ، حَتَّى خَتَمَهَا، ثُمَّ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ؛ فَأَفَضْنَا؛ فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ، وَعَنْ مَنَاسِكِهِمْ؛ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَائَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا؛ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَدَّثَهُمْ كَيْفَ يَنْفِرُونَ؟ وَكَيْفَ يَرْمُونَ؟ ؛ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَائَةٌ عَلَى النَّاسِ حَتَّى خَتَمَهَا".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: ابْنُ خُثَيْمٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَإِنَّمَا أَخْرَجْتُ هَذَا لِئَلاَّ يُجْعَلَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَمَا كَتَبْنَاهُ إِلا عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، لَمْ يَتْرُكْ حَدِيثَ ابْنِ خُثَيْمٍ، وَلا عَبْدِالرَّحْمَنِ، إِلا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ: ابْنُ خُثَيْمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَكَأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ خُلِقَ لِلْحَدِيثِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۷)، دي/المناسک ۷۱ (۱۹۵۶) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی '' عبداللہ بن عثمان بن خثیم '' کو علی بن المدینی نے منکر الحدیث قرار دیا ہے، مگر حافظ نے ''صدوق'' کہا ہے)
۲۹۹۶- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جس وقت جعرانہ کے عمرہ سے لوٹے تو ابوبکر رضی الله عنہ کو (امیر مقرر کر کے) حج پر بھیجا تو ہم بھی ان کے ساتھ آئے۔ پھر جب وہ عرج ۱؎ میں تھے اور صبح کی صلاۃ کی اقامت کہی گئی اور وہ اللہ اکبر کہنے کے لئے کھڑے ہوئے تو اپنی پیٹھ کے پیچھے آپ نے ایک اونٹ کی آواز سنی تو اللہ اکبر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے: ـیہ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اونٹنی جدعاء کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا خود بھی حج کے لیے آنے کا ارادہ بن گیا ہو تو ہو سکتا ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آ رہے ہوں (آپ ہوئے) تو ہم آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھیں گے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس اونٹنی پر علی رضی الله عنہ سوار ہیں۔ تو ابوبکر رضی الله عنہ نے ان سے پوچھا: آپ (امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں) یا قاصد بن کے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے مقامات حج میں سورہ برأۃ پڑھ کر لوگوں کو سنانے کے لیے بھیجا ہے۔ پھر ہم مکہ آئے تو ترویہ سے ایک دن پہلے (یعنی ساتویں تاریخ کو) ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ اور انہیں ان کے حج کے ارکان بتائے۔ جب وہ (اپنے بیان سے) فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کوسورئہ برأت پڑھ کر سنائی، یہاں تک کہ پوری سورت ختم ہو گئی، پھر ہم ان کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب عرفہ کا دن آیا تو ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے انہوں نے خطبہ دیا اور انہیں حج کے احکام سکھائے۔ یہاں تک کہ جب وہ فارغ ہو گئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورہ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ پھر جب یوم النحر یعنی دسویں تاریخ آئی تو ہم نے طواف افاضہ کیا، اور جب ابوبکر رضی الله عنہ لوٹ کر آئے تو لوگوں سے خطاب کیا، اور انہیں طواف افاضہ کرو، قربانی کرنے اور حج کے دیگر ارکان ادا کرنے کے طریقے سکھائے اور جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو سورہ برأت پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ پوری سورت انہوں نے ختم کی، پھر جب کوچ کا پہلا دن آیا ۲؎ تو ابوبکر رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کیسے کوچ کریں اور کیسے رمی کریں۔ پھر انہیں حج کے (باقی احکام) سکھلائے جب وہ فارغ ہوئے تو علی رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سورہ برأت لوگوں کو پڑھ کر سنائی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: ابن خثیم (یعنی عبداللہ بن عثمان) حدیث میں قوی نہیں ہیں، اور میں نے اس کی تخریج اس لیے کی تاکہ اسے '' ابن جریج عن ابی الزبیر ''نہ بنا لیا جائے ۳؎ میں نے اسے صرف اسحاق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھا ہے، اور یحییٰ ابن سعید القطان نے ابن خیثم کی حدیث کو نہیں چھوڑا ہے، اور نہ ہی عبدالرحمن کی حدیث کو۔ البتہ علی بن مدینی نے کہا ہے کہ ابن خیثم منکرالحدیث ہیں اور گویا علی بن مدینی حدیث ہی کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔
وضاحت ۱؎: ایک مقام کا نام ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی بارہویں تاریخ ہوئی جسے نفر اوّل کہا جاتا ہے اور نفر آخر تیرہویں ذی الحجہ ہے۔
وضاحت ۳؎: یعنی میں نے اس حدیث کی تخریج اس سند کے ساتھ جس میں ابن جریج اور ابو زبیر کے درمیان ابن خیثم ہیں اس سند سے نہیں کی ہے جس میں ابن جریج بن ابی الزبیر جیسا کہ بعض محدثین نے کی ہے تاکہ یہ ابن جریج کے طریق سے منقطع ہو کیونکہ وہ ابوالزبیر سے ارسال کرتے ہیں۔