• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
224-بَابُ الرَّمْيِ بَعْدَ الْمَسَائِ
۲۲۴-باب: شام ہو جانے کے بعد رمی کرنے کا بیان​


3069- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ أَيَّامَ مِنًى فَيَقُولُ: " لاحَرَجَ "؛ فَسَأَلَهُ رَجُلٌ؛ فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ: لا حَرَجَ؛ فَقَالَ رَجُلٌ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ؟ قَالَ: " لا حَرَجَ "۔
* تخريج: خ/العلم ۲۴ (۸۴)، الحج ۱۲۵ (۱۷۲۳)، ۱۳۰ (۱۷۳۵)، الأیمان ۱۵ (۶۶۶۶)، د/الحج ۷۹ (۱۹۸۳)، ق/الحج ۷۴ (۳۰۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۷)، وقد أخرجہ: م/الحج ۵۷ (۱۳۰۷)، حم (۱/۲۱۶، ۲۵۸، ۲۶۹، ۲۹۱، ۳۰۰، ۳۱۱، ۳۲۸) (صحیح)
۳۰۶۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے ایام میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے (حج کے مسائل) پوچھے جاتے تو آپ فرماتے: کوئی حرج نہیں، ایک شخص نے آپ سے پوچھا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا؟ آپ نے فرمایا: '' کوئی حرج نہیں ''، اور ایک دوسرے شخص نے کہا: شام ہو جانے کے بعد میں نے کنکریاں ماریں؟ آپ نے فرمایا: '' کوئی حرج نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
225-بَابُ رَمْيِ الرُّعَاةِ
۲۲۵-باب: چروا ہوں کی رمی کا بیان​


3070- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِلرُّعَاةِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا۔
* تخريج: د/الحج ۷۸ (۱۹۷۵)، ت/الحج ۱۰۸ (۹۵۵)، ق/الحج ۶۷ (۳۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۰)، ط/الحج ۷۲ (۲۱۸)، حم (۵/۴۵۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۸) (صحیح)
۳۰۷۰- ابو البداح بن عاصم کے والد عاصم بن عدی بن جدا القضاعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چروا ہوں کو ایک دن چھوڑ کر ایک دن رمی کرنے کی رخصت دی ہے، (اس لیے کہ وہ اونٹوں کو ادھر ادھر چرانے لے جانے کی وجہ سے ہر روز منیٰ نہیں پہنچ سکتے تھے)۔


3071- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لِلرُّعَاةِ فِي الْبَيْتُوتَةِ، يَرْمُونَ يَوْمَ النَّحْرِ وَالْيَوْمَيْنِ اللَّذَيْنِ بَعْدَهُ، يَجْمَعُونَهُمَا فِي أَحَدِهِمَا۔
* تخريج: انظرماقبلہ (صحیح)
۳۰۷۱- ابو البداح بن عاصم کے والد عاصم بن عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چروا ہوں کو منیٰ میں رات میں نہ رہنے کی رخصت دی ہے۔ وہ یوم النحر (یعنی دسویں تاریخ کورمی کریں، اور پھر اس کے بعد دونوں دنوں کو کسی ایک دن میں جمع کر لیں)۔
وضاحت ۱؎: یعنی گیارہویں اور بارہویں دونوں کی رمی گیارہویں تاریخ کو کر لیں یا بارہویں تاریخ کو کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
226-بَاب الْمَكَانِ الَّذِي تُرْمَى مِنْهُ جَمْرَةُ الْعَقَبَةِ
۲۲۶-باب: جمرہ عقبہ کی رمی کہاں سے کی جائے؟​


3072 - أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُحَيَّاةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ - يَعْنِي: ابْنَ يَزِيدَ - قَالَ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَ الْجَمْرَةَ مِنْ فَوْقِ الْعَقَبَةِ، قَالَ: فَرَمَى عَبْدُاللَّهِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ قَالَ: مِنْ هَا هُنَا وَالَّذِي لا إِلَهَ غَيْرُهُ رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ۔
* تخريج: خ/الحج ۳۵۰ (۱۷۴۷)، ۳۶ (۱۷۴۸)، ۳۷ (۱۷۴۹)، ۳۸ (۱۷۵۰)، م/الحج ۵۰ (۱۲۹۶)، د/الحج ۷۸ (۱۹۷۴)، ت/الحج ۶۴ (۹۰۱)، ق/الحج ۶۴ (۳۰۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۲)، حم (۱/۴۱۵، ۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۶، ۴۵۶، ۴۵۷، ۴۵۸) (صحیح)
۳۰۷۲- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ جمرہ کو گھاٹی کے اوپر سے کنکریاں مارتے ہیں، تو عبداللہ بن مسعود نے وادی کے نیچے سے کنکریاں ماریں، پھر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اسی جگہ سے اس شخص نے کنکریاں ماریں جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی (یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم نے)۔


3073 - أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ الْخَلِيلِ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ وَمَنْصُورٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ رَمَى عَبْدُاللَّهِ الْجَمْرَةَ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، جَعَلَ الْبَيْتَ، عَنْ يَسَارِهِ، وَعَرَفَةَ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَالَ: هَا هُنَا مَقَامِ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ " مَنْصُورٌ " غَيْرَ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۰۷۳- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے خانہ کعبہ کو اپنے بائیں جانب کیا اور عرفہ کو اپنے دائیں جانب اور جمرہ کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: یہی اس ذات کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جس پر سورہ بقرہ نازل کی گئی۔ ٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ابن ابی عدی کے سوا میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث میں منصور کے ہونے کی بات کہی ہو، واللہ اعلم۔


3074 - أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ قَالَ: هَا هُنَا وَالَّذِي لا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۰۷۲ (صحیح)
۳۰۷۴- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کو وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں، پھر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، یہی ہے اس ہستی کے کھڑے ہونے کی جگہ جس پر سورہ بقرہ اتاری گئی۔


3075- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ يَقُولُ: لا تَقُولُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ قُولُوا السُّورَةَ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا الْبَقَرَةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَبْدِاللَّهِ حِينَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَاسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ وَاسْتَعْرَضَهَا - يَعْنِي الْجَمْرَةَ - فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَكَبَّرَ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُنَاسًا يَصْعَدُونَ الْجَبَلَ؟ فَقَالَ: هَا هُنَا وَالَّذِي لا إِلَهَ غَيْرُهُ رَأَيْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ رَمَى۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۰۷۲ (صحیح)
۳۰۷۵- اعمش کہتے ہیں کہ میں نے حجاج کو کہتے سنا کہ'' سورہ بقرہ'' نہ کہو، بلکہ کہو ''وہ سورہ جس میں بقرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ '' میں نے اس بات کا ذکر ابراہیم سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا ہے کہ وہ عبداللہ (بن مسعود) کے ساتھ تھے جس وقت انہوں نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں، وہ وادی کے اندر آئے، اور جمرہ کو اپنے نشانہ پر لیا، اور سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی، تومیں نے کہا: بعض لوگ (کنکریاں مارنے کے لیے) پہاڑ پر چڑھتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، یہی جگہ ہے جہاں سے میں نے اس شخص کو جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورہ بقرہ کہنا درست ہے اور حجاج کا خیال صحیح نہیں ہے۔


3076- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحِيمِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ - وَذَكَرَ آخَرُ- عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى الْجَمْرَةَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۸۳) (صحیح)
۳۰۷۶- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی چٹکی میں آنے والی جیسی کنکریوں سے کی۔


3077- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ۔
* تخريج: م/الحج ۵۲ (۱۲۹۹)، ت/الحج ۶۱ (۸۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۹)، حم (۳/۳۱۳، ۳۱۹، ۳۵۶) (صحیح)
۳۰۷۷- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ چٹکی میں آنے والی جیسی کنکریوں سے جمرئہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
227-بَابُ عَدَدِ الْحَصَى الَّتِي يَرْمِي بِهَا الْجِمَارَ
۲۲۷-باب: جمرئہ عقبہ کی رمی کے لیے کنکریوں کی تعداد کا بیان​


3078- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا - حَصَى الْخَذْفِ - رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۰۵۶ (صحیح)
۳۰۷۸- ابو جعفر محمد بن علی بن حسین باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ کے پاس گئے تومیں نے ان سے کہا: آپ ہمیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حج کا حال بتائیے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس جمرہ کو جو درخت کے قریب ہے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ آپ تکبیر کہہ رہے تھے، کنکریاں اتنی چھوٹی تھیں جو چٹکی میں آ سکیں۔ آپ نے وادی کے اندر سے رمی کی، پھر آپ منحر (قربان گاہ) کی طرف پلٹے اور قربانی کی۔


3079- أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ: قَالَ مُجَاهِدٌ، قَالَ سَعْدٌ: رَجَعْنَا فِي الْحَجَّةِ مَعَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبَعْضُنَا يَقُولُ: رَمَيْتُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَبَعْضُنَا يَقُولُ: رَمَيْتُ بِسِتٍّ؛ فَلَمْ يَعِبْ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۱۷)، حم (۱/۱۶۸) (صحیح الإسناد)
۳۰۷۹- سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حج میں لوٹے۔ تو ہم میں سے کوئی کہتا تھا: ہم نے سات کنکریاں ماریں اور کوئی کہتا تھا: ہم نے چھ ماریں۔ تو ان میں سے کسی نے ایک دوسرے پر نکیر نہیں کی۔


3080 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَامِجْلَزٍ يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجِمَارِ؟ ؛ فَقَالَ: مَا أَدْرِي، رَمَاهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسِتٍّ أَوْ بِسَبْعٍ۔
* تخريج: د/الحج ۷۸ (۱۹۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۴۱)، حم (۱/۳۷۲) (صحیح)
(حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن اگلی حدیث میں سات کنکریاں مارنے کا بیان ہے، اس لیے اس میں موجود شک چھ یا سات کنکری کی بات غریب اور خود ابن عباس اور دوسروں کی احادیث کے خلاف ہے)
۳۰۸۰- ابو مجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کنکریوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے چھ کنکریاں ماریں یا سات۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
228-بَاب التَّكْبِيرِ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ
۲۲۸-باب: ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنے کا بیان​


3081- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَخِيهِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۴)، حم (۱/۲۱۲) (صحیح)
۳۰۸۱- عبداللہ بن عباس اپنے بھائی فضل بن عباس (رضی الله عنہم) سے روایت کرتے ہیں، فضل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، آپ نے اُسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ آپ اللہ اکبر کہہ رہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
229-بَابُ قَطْعِ الْمُحْرِمِ التَّلْبِيَةِ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ
۲۲۹-باب: محرم جب جمرہ عقبہ کی رمی کرچکے توتلبیہ پکارنابندکر دے​


3082 - أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عبَّاسٍ قَالَ: قَالَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا زِلْتُ أَسْمَعُهُ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ؛ فَلَمَّا رَمَى قَطَعَ التَّلْبِيَةَ۔
* تخريج: ق/المناسک ۶۹ (۳۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۶)، حم (۱/۲۱۴) (صحیح)
۳۰۸۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھا تومیں برابر آپ کو لبیک پکارتے ہوئے سن رہا تھا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو جب رمی کر لی تو آپ نے تلبیہ پکارنا بند کر دیا۔


3083- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ الْعَلائِ بْنِ هِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوخَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَامِرٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْفَضْلَ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۰۸۲ (صحیح)
۳۰۸۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ فضل (بن عباس رضی الله عنہما) نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے اونٹ پر سوار تھے اور آپ برابر تلبیہ پکار رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی۔


3084- أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَعْبَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۴۶)، حم (۱/۲۱۴)، دي/المناسک ۶۰ (۱۹۴۳) (صحیح)
۳۰۸۴- فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اور آپ برابر لبیک پکار رہے تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
230-بَابُ الدُّعَائِ بَعْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ
۲۳۰-باب: جمرات کی رمی کے بعد کی دعا کا بیان​


3085- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي تَلِي الْمَنْحَرَ - مَنْحَرَ مِنًى - رَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ تَقَدَّمَ أَمَامَهَا؛ فَوَقَفَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، رَافِعًا يَدَيْهِ، يَدْعُو يُطِيلُ الْوُقُوفَ، ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْحَدِرُ ذَاتَ الشِّمَالِ؛ فَيَقِفُ مُسْتَقْبِلَ الْبَيْتِ، رَافِعًا يَدَيْهِ، يَدْعُو، ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ؛ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَلا يَقِفُ عِنْدَهَا.
٭قَالَ الزُّهْرِيُّ: سَمِعْتُ سَالِمًا يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۴۰ (۱۷۵۱)، ۴۱ (۱۷۵۳) تعلیقًا، ق/الحج ۶۵ (۳۰۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۸۶)، حم (۲/۱۵۲)، دي/المناسک ۶۱ (۱۹۴۴) (صحیح)
۳۰۸۵- زہری کہتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب اس جمرے کو کنکری مارتے جو منیٰ کی قربان گاہ کے قریب ہے، تو اُسے سات کنکریاں مارتے، اور جب جب کنکری مارتے اللہ اکبر کہتے، پھر ذرا آگے بڑھتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا کرتے اور کافی دیر تک کھڑے رہتے، پھر جمرہ ثانیہ کے پاس آتے، اور اسے بھی سات کنکریاں مارتے اور جب جب کنکری مارتے اللہ اکبر کہتے۔ پھر بائیں جانب مڑتے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہو کر دعا کرتے۔ پھر اس جمرے کے پاس آتے، جو عقبہ کے پاس ہے اور اسے سات کنکریاں مارتے اور اس کے پاس (دعا کے لئے) کھڑے نہیں ہوتے۔
٭زہری کہتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے یہ حدیث سنی، وہ اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، اور ابن عمر رضی الله عنہما بھی اسے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
231-بَاب مَا يَحِلُّ لِلْمُحْرِمِ بَعْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ
۲۳۱-باب: جمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد محرم کے لیے کیا کیا چیز حلال ہو جاتی ہے؟​


3086 - أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ؛ فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْئٍ إِلا النِّسَائَ، قِيلَ: وَالطِّيبُ؟ قَالَ: أَمَّا أَنَا؛ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَضَمَّخُ بِالْمِسْكِ، أَفَطِيبٌ هُوَ؟۔
* تخريج: ق/الحج ۷۰ (۳۰۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۷)، حم (۱/۲۳۴، ۳۴۴، ۳۶۹) (صحیح)
۳۰۸۶- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آدمی نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، تو اس کے لیے سبھی چیزیں حلال ہو گئیں سوائے عورت کے، پوچھا گیا: اور خوشبو؟ تو انہوں نے کہا: ہاں خوشبو بھی، میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو مشک ملتے ہوئے دیکھا، کیا وہ خوشبو ہے؟ (اگر خوشبو ہے تو خوشبو بھی حلال ہے)۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207

25-كِتَاب الْجِهَادِ
۲۵-کتاب: جہاد کے احکام، مسائل وفضائل


1-بَاب وُجُوبِ الْجِهَادِ
۱-باب: جہاد کی فرضیت کا بیان​


3087- أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلاَّمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجُوا نَبِيَّهُمْ، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، لَيَهْلِكُنَّ؛ فَنَزَلَتْ: {أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ}؛ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَكُونُ قِتَالٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ نَزَلَتْ فِي الْقِتَالِ۔
* تخريج: ت/تفسیرالحج (۳۱۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۱۸)، حم (۱/۲۱۶) (صحیح)
۳۰۸۷-عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب مکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: انہوں نے اپنے نبی کو نکال دیا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ یہ لوگ ضرور ہلاک ہو جائیں گے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی ''أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواوَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ '' ۱؎ تو میں نے سمجھ لیا کہ اب جنگ ہوگی۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: '' یہ پہلی آیت ہے جو جنگ ۲ ؎ کے بارے میں اتری ہے ''۔
وضاحت ۱؎: جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی مظلوم ہیں۔ بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے (الحج: ۳۹)۔
وضاحت ۲؎: جہاد کی چار قسمیں ہیں: جہادِنفس، جہادِشیطان، جہادِکفار، جہادِمنافقین۔ جہادِنفس یہ ہے کہ انسان دین حق کے سیکھنے، اس پر عمل کرنے، اس کی جانب دوسروں کو دعوت دینے اور اس سلسلہ میں پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرنے کے لئے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ جہادِ شیطان یہ ہے کہ شیطان جن نفسانی خواہشات میں اسے مبتلا کرنا چاہتا ہے، اور دوسرے لوگوں کو ایمان کی بابت جن شکوک وشبہات میں ڈالنا چاہتا ہے ان سے بچنے کے لئے شیطان سے جہاد کرے۔ جہادِ کفار ومنافقین یہ ہے کہ دین حق کی بابت ان کی جانب سے پہنچنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے کے لئے دل، زبان، مال ودولت اور طاقت کے ذریعہ جہاد کرے۔


3088- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبِي، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَأَصْحَابًا لَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا كُنَّا فِي عِزٍّ، وَنَحْنُ مُشْرِكُونَ فَلَمَّا آمَنَّا صِرْنَا أَذِلَّةً؟ فَقَالَ: "إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ، فَلا تُقَاتِلُوا"، فَلَمَّا حَوَّلَنَا اللَّهُ إِلَى الْمَدِينَةِ أَمَرَنَا بِالْقِتَالِ؛ فَكَفُّوا؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ}۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۷۱) (صحیح الإسناد)
۳۰۸۸-عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ اور ان کے کچھ دوست نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس جب آپ مکہ میں تشریف فرما تھے آئے، اور انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب ہم مشرک تھے عزت سے تھے، اور جب سے ایمان لے آئے ذلیل وحقیر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: '' مجھے عفو ودرگزر کا حکم ملا ہوا ہے۔ تو (جب تک لڑائی کا حکم نہ مل جائے) لڑائی نہ کرو''، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدینہ بھیج دیا، اور ہمیں جنگ کا حکم دے دیا۔ تو لوگ (ب جائے اس کے کہ خوش ہوتے) باز رہے (ہچکچائے، ڈرے) تب اللہ تعالیٰ نے آیت: {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ۔۔۔ } ۱ ؎ اخیر تک نازل فرمائی۔
وضاحت ۱؎: کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور صلاتیں پڑھتے رہو، اور زکاۃ ادا کرتے رہو۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالی کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے: اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا (النسآئ: ۷۷)۔


3089- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْمَرًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: نَعَمْ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ - قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي " قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا۔
* تخريج: م/المساجد (۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۱، ۱۳۳۴۲)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد ۱۲۲ (۲۹۷۷)، والتعبیر ۱۱ (۶۹۹۸)، ۲۲ (۷۰۱۳)، والاعتصام۱ (۷۲۷۳)، حم (۲/۲۶۸) (صحیح)
۳۰۸۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے جامع کلمات ۱؎ دے کر بھیجا گیا ہے اور میری مدد رُعب ۲؎ سے کی گئی ہے۔ اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھے دی گئیں، اور میرے ہاتھوں میں تھما دی گئیں ''، ابو ہریرۃ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (اس دنیا سے) رخصت ہو گئے لیکن تم ان خزانوں کو نکال کر خرچ کر رہے ہو۳ ؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی قرآن وحدیث جن کے الفاظ مختصر ہیں مگر معانی بہت، جوامع الکلم میں صفت کی اضافت موصوف کی طرف ہے، اس سے مراد الکلم الجامعۃ ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی ایسے دبدبہ ودھاک سے کی گئی ہے جس سے بلا کسی عادی سبب کے دشمنوں کے دلوں میں خوف طاری ہو جاتا ہے۔
وضاحت ۳؎: خزانوں سے مراد روم وایران اور مصر وشام وغیرہ کی فتوحات اور وہاں کی دولت پر مسلمانوں کا تصرف ہے۔


3090-أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ نِزَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۴۶)، حم (۲/۲۵۰، ۴۴۲) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۰۹۰- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔


3091- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَنْتَثِلُونَهَا.
* تخريج: م/المساجد (۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۵۶) (صحیح)
۳۰۹۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا میں جامع کلمات دیکر بھیجا گیا ہوں ۱؎ اور میری مدد رعب ودبدبہ سے کی گئی ہے، مجھے سوتے میں زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں (اور پیش کرتے ہوئے) میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں۔ ابو ہریرۃ رضی الله عنہ (اس کی وضاحت کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (اس دنیا سے) چلے گئے اور تم ان (خزانوں) سے فیض اٹھا رہے ہو۔ (انہیں نکال رہے اور خرچ کر رہے ہو)
وضاحت ۱؎: یعنی مختصر فصیح وبلیغ کلمے جن میں الفاظ تو تھوڑے ہوں لیکن مفہوم ومعانی سے بھرے ہوئے ہوں۔


3092- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ "۔
* تخريج: م/الإیمان۸ (۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۴۴)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد۱۰۲ (۲۹۴۶)، حم (۲/۳۱۴، ۴۲۳، ۴۳۹، ۴۷۵، ۴۸۲، ۵۰۲) (صحیح)
۳۰۹۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک کہ لوگ لا الٰہ الا للہ کہنے نہ لگ جائیں۔ تو جس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان ومال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے ۱؎، اور اس کا (آخری) حساب اللہ کے ذمہ ہے ۲؎ ''۔
وضاحت ۱؎: ایسی صورت میں اس کی گردن ماری بھی جا سکتی ہے اور اس کا مال ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔
وضاحت ۲؎: کس نے دکھانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور کون سچے دل سے اسلام لایا ہے، یہ اللہ ہی فیصلہ کرے گا، یہاں صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا۔


3093-أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ: قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ! كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ " قَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَاللَّهِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا؛ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ [ وَ ] عَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۳۰۹۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر رضی الله عنہ خلیفہ بنا دیئے گئے، اور عربوں میں سے جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے ۱؎، تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کے قائل نہ ہو جائیں، تو جس نے ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہہ لیا، اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان ومال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے''، (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ''کے قائل ہیں) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو صلاۃ اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی صلاۃ پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، (جس طرح صلاۃ بدن کا حق ہے) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر کہتے ہیں:) قسم اللہ کی اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی الله عنہ کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے، اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔
وضاحت ۱؎: یعنی دین حق سے مرتد ہو گیا، اور زکاۃ جو اس پر واجب تھی اس کی ادائیگی کا منکر ہو بیٹھا۔


3094- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُغِيرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، ح وَأَنْبَأَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ، إِلا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ " قَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ؛ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۴ ۳۰۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم انتقال فرما گئے اور ابوبکر رضی الله عنہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور عربوں میں جن کو کافر ہونا تھا وہ کافر ہو گئے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کے قائل نہ ہو جائیں تو جس نے ''لاَ إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کہہ لیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو ہم (مسلمانوں) سے محفوظ کر لیا (اب اس کی جان ومال کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں) سوائے اس کے کہ وہ خود ہی (اپنی غلط روی سے) اس کا حق فراہم کر دے اور اس کا (آخری) حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (اور یہ زکاۃ نہ دینے والے ''لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ ''کے قائل ہیں) تو ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: قسم اللہ کی، میں ہر اس شخص سے لڑوں گا جو صلاۃ اور زکاۃ میں فرق کرے گا، (یعنی صلاۃ پڑھے گا اور زکاۃ دینے سے انکار کرے گا) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے (جس طرح صلاۃ بدن کا) قسم اللہ کی، اگر لوگوں نے مجھے بکری کا سال بھر سے چھوٹا بچہ بھی دینے سے روکا جسے وہ زکاۃ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو اس روکنے پر بھی میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ (عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں:) قسم اللہ کی، اس معاملے کو تو میں نے ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی الله عنہ کو قتال کے لیے شرح صدر بخشا ہے اور میں نے سمجھ لیا کہ حق یہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ احمد کے ہیں۔


3095- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، وَذَكَرَ آخَرَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا جَمَعَ أَبُو بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ؛ فَقَالَ عُمَرُ: يَاأَبَابَكْرٍ! كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؛ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلا بِحَقِّهَا "، قَالَ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِقِتَالِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۴۴۵ (صحیح)
۳۰۹۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ابوبکر رضی الله عنہ نے (لوگوں کو) ان (منکرین زکاۃ ومرتدین دین) سے جنگ کے لیے اکٹھا کیا۔ تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرما چکے ہیں: '' مجھے تو لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کے قائل نہ ہو جائیں، اور جب انہوں نے یہ کلمہ کہہ لیا تو اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچا لیا۔ مگر اس کے حق کے بدلے (جان ومال پر جو حقوق لگا دیئے گئے ہیں اگر ان کی پاسداری نہ کرے گا تو سزا کا حق دار ہوگا۔ مثلاً قصاص وحدود ضمانت وغیرہ میں) ابوبکر رضی الله عنہ نے فرمایا: میں تو ہر اس شخص سے لڑوں گا جو صلاۃ اور زکاۃ (دونوں فریضوں) میں فرق کرے گا۔ اور قسم اللہ کی اگر انہوں نے مجھے بکری کا ایک چھوٹا بچہ بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں نے اچھی طرح جان لیا کہ ان (منحرفین) سے جنگ کے معاملہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کو پورے طور پر شرح صدر حاصل ہے۔ (تبھی وہ اتنے مستحکم اور فیصلہ کن انداز میں بات کر رہے ہیں) اور مجھے یقین آ گیا کہ وہ حق پر ہیں۔


3096- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو الْعَوَّامِ الْقَطَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتْ الْعَرَبُ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا بَكْرٍ! كَيْفَ تُقَاتِلُ الْعَرَبَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا مِمَّا كَانُوا يُعْطُونَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهِ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَلَمَّا رَأَيْتُ رَأْيَ أَبِي بَكْرٍ قَدْ شُرِحَ عَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: عِمْرَانُ الْقَطَّانُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَهَذَا الْحَدِيثُ خَطَأٌ، وَالَّذِي قَبْلَهُ الصَّوَابُ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۷۹)، ویأتي عند المؤلف: ۳۹۷۴ (حسن صحیح)
۳۰۹۶- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم رحلت فرما گئے، تو عرب (دین اسلام سے) مرتد ہو گئے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر! آپ عربوں سے کیسے لڑائی لڑیں گے۔ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ لوگ گواہی دینے لگیں کہ کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور صلاۃ قائم کرنے لگیں، اور زکاۃ دینے لگیں، قسم اللہ کی، اگر انہوں نے ایک بکری کا چھوٹا بچہ دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو (زکاۃ میں) دیا کرتے تھے تو میں اس کی خاطر بھی ان سے لڑائی لڑوں گا۔ عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: جب میں نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے دیکھی کہ انہیں اس پر شرح صدر حاصل ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ حق پر ہیں ''۔ ٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: عمران بن قطان حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس سے پہلے والی حدیث صحیح ودرست ہے، زہری کی حدیث کا سلسلہ '' عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ '' ہے۔


3097- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، ح و أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي نَفْسَهُ وَمَالَهُ، إِلا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ "۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۰۲ (۲۹۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۵۲)، و یأتي عند المؤلف: ۳۰۹۷ (صحیح)
۳۰۹۷-ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم ملا ہے کہ جب تک لوگ ''لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ '' کے قائل نہ ہو جائیں میں ان سے لڑوں تو جس نے اسے کہہ لیا (قبول کر لیا) تو اس نے مجھ سے اپنی جان ومال محفوظ کر لیا۔ اب ان پر صرف اسی وقت ہاتھ ڈالا جا سکے گا جب اس کا حق (وقت ونوبت) آ جائے ۱؎۔ اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کرے گا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: مثلاً حد وقصاص وضمان میں تو اس پر حد جاری کی جائے گی، قصاص لیا جائے گا اور اس سے مال دلایا جائے گا۔
وضاحت ۲ ؎: کہ وہ ایمان خلوص دل سے لایا تھا یا صرف دکھاوے کے لیے۔


3098- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ"۔
* تخريج: د/الجہاد۱۸ (۲۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: حم (۳/۱۲۴، ۱۵۳، ۲۵۱)، دي/الجہاد۳۸ (۲۴۷۵)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۳۱۹۴ (صحیح)
۳۰۹۸- انس رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنے ہاتھوں، اور اپنی زبانوں کے ذریعہ '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مال اور ہاتھ سے جہاد کا مطلب بالکل واضح ہے، زبان سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے جہاد کے فضائل بیان کئے جائیں، اور لوگوں کو اس پر ابھارنے کے ساتھ انہیں اس کی رغبت دلائی جائے۔ اور کفار کو اسلام کی زبان سے دعوت دی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
2-التَّشْدِيدُ فِي تَرْكِ الْجِهَادِ
۲-باب: جہاد چھوڑ دینے پر وارد وعید کا بیان​


3099- أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وُهَيْبٌ - يَعْنِي ابْنَ الْوَرْدِ - قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ، وَلَمْ يُحَدِّثْ نَفْسَهُ بِغَزْوٍ، مَاتَ عَلَى شُعْبَةِ نِفَاقٍ ".
* تخريج: م/الإمارۃ (۹۱۰)، د/الجہاد ۱۸ (۲۵۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۶۷)، حم (۲/۳۷۴) (صحیح)
۳۰۹۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو شخص مر گیا، اور اس نے جہاد نہیں کیا، اور نہ ہی جہاد کے بارے میں اس نے اپنے دل میں سوچا وارادہ کیا ۱؎، تو وہ ایک طرح سے نفاق پر مرا ۲؎ ''۔
وضاحت ۱؎: دل میں سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں مجاہد بننے کی تمنا کرے، اور ارادہ کا مطلب یہ ہے کہ جہاد سے متعلق ساز وسامان کے حصول کی کوشش اور اس کے لئے تیاری کرے۔
وضاحت ۲؎: گویا وہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے مشابہ ہو گیا۔
 
Top