18-دَرَجَةُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۸-باب: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے درجات ومراتب
3133- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوهَانِئٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَا أَبَا سَعِيدٍ! مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" قَالَ: فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ، قَالَ: أَعِدْهَا عَلَيَّ يَارَسُولَ اللَّهِ! فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ" قَالَ: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۱ (۱۸۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۲)، حم (۳/۱۴) (صحیح)
۳۱۳۳- ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ابوسعید! جو شخص راضی ہو گیا اللہ کے رب ۱؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کر لیا ۲؎ اور محمد صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ۳؎ کا اقرار کر لیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہو گئی ۴؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن جنت میں بندے کو سو درجوں کی بلندی تک پہنچانے کے لیے ایک دوسری عبادت بھی ہے (اور درجے بھی کیسے؟) ایک درجہ کا فاصلہ دوسرے درجے سے اتنا ہے جتنا فاصلہ آسمان وزمین کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا: یہ دوسری عبادت کیا ہے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: (یہ دوسری عبادت) اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے''۔
وضاحت ۱ ؎: ''رب'' اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا، بغیر اضافت کے اس کا استعمال اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں، اور اسی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ آدمی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، کیونکہ وہی برتر وبالا مقدس ذات عبادت کی مستحق ہے یہاں رب ماننے کا معنی ومطلب اس رب کے لیے ہر طرح کی عبادت کو خاص کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ کو کائنات کے خالق ومالک ماننے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنے میں مشرکین عرب وغیر عرب کو اعتراض نہ تھا، ان کا اصل مرض یہی تھا کہ وہ اللہ کو رب اور خالق ومالک مانتے ہوئے اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔
وضاحت ۲؎: اسلام کو بطور دین تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اپنی زندگی میں نہ اپنائے۔
وضاحت ۳؎: محمد صلی الله علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوامر ونواہی کو ہر چیز پر مقدم رکھے۔ اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ کے حکم کو بغیر کسی بحث واعتراض کے قبول کرے۔
وضاحت ۴؎: بشرطیکہ اس نے شرک، بدعات کی ان میں آمیزش نہ کی ہو اور بد عملی کا شکار نہ ہوا ہو۔
3134- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُمَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَقَامَ الصَّلاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَمَاتَ لا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ هَاجَرَ، أوْ مَاتَ فِي مَوْلِدِهِ "؛ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا نُخْبِرُ بِهَا النَّاسَ؛ فَيَسْتَبْشِرُوا بِهَا؟ فَقَالَ: " إِنَّ لِلْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ، وَلَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَلاتَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا بَعْدِي، مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۳) (حسن الإسناد)
۳۱۳۴- ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے صلاۃ قائم کی اور زکاۃ دی، اور اللہ کے ساتھ کسی طرح کا شرک کئے بغیر مرا تو چاہے ہجرت کر کے مرا ہو یا (بلا ہجرت کے) اپنے وطن میں مرا ہو، اللہ پر اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اللہ اسے بخش دے، ہم صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ خبر لوگوں کو نہ پہنچا دیں جسے سن کر لوگ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: '' جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجے کے درمیان آسمان وزمین اتنا فاصلہ ہے، اور یہ درجے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے بنائے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں مسلمانوں کو مشکل ومشقت میں ڈال دوں گا اور انہیں سوار کرا کے لے جانے کے لیے سواری نہ پاؤں گا اور میرے بعد میرا ساتھ چھوٹ جانے کی انہیں ناگواری اور تکلیف ہوگی تو میں کسی سریہ (فوجی دستے) کے ساتھ جانے سے بھی نہ چوکتا اور میں تو پسند کرتا اور چاہتا ہوں کہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، اور پھر قتل کیا جاؤں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس طرح میں بلند سے بلند تر جنت کا درجہ ومرتبہ حاصل کر سکوں گا تو تم بھی صرف جنت میں چلے جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ بلند سے بلند درجے حاصل کرنے کی کوشش کرو، گویا مغفرت کے لئے ایمان کافی تو ہے لیکن جنت میں ترقی درجات جہاد پر موقوف ہے۔