• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
13-بَاب الْغُزَاةِ وَفْدُ اللَّهِ تَعَالَى
۱۳-باب: غازی اللہ کے وفد (اس کے مقرب) ہیں​


3123- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَفْدُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثَةٌ: الْغَازِي، وَالْحَاجُّ، وَالْمُعْتَمِرُ "۔
* تخريج: وانظرحدیث رقم: ۲۶۲۶ (صحیح)
۳۱۲۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ کے وفد میں تین (طرح کے لوگ شامل) ہیں (ایک) مجاہد (دوسرا) حاجی، (تیسرا) عمرہ کرنے والا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی یہ تینوں اللہ کے مقرب ہیں اور اس کے ایلچی کا درجہ رکھتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا تَكَفَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ
۱۴-باب: اللہ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے کس بات کی ضمانت لیتا ہے​


3124- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَكَفَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ جَاهَدَ فِي سَبِيلِهِ لا يُخْرِجُهُ إِلا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ، وَتَصْدِيقُ كَلِمَتِهِ، بِأَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ، أَوْ غَنِيمَةٍ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۶ (۳۶)، الجہاد ۲ (۲۷۸۷)، فرض الخمس ۸ (۳۱۲۳)، التوحید ۲۸ (۶۴۵۷)، ۳۰ (۷۴۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۳۳)، وقد أخرجہ: م/الإمارۃ ۲۸ (۱۸۷۶)، ق/الجہاد ۱ (۲۷۵۳)، ط/الجہاد ۱ (۲)، حم (۲/۲۳۱، ۳۸۴، ۳۹۹، ۴۹۴)، دي/الجہاد ۲ (۲۴۳۶) (صحیح)
۳۱۲۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ اپنی راہ کے مجاہد کا کفیل وضامن ہے جو خالص جہاد ہی کی نیت سے گھر سے نکلتا ہے، اور اس ایمان ویقین کے ساتھ نکلتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ اسے (شہید کا درجہ دے کر) جنت میں داخل فرمائے گا یا پھر اسے ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس کے اس ٹھکانے پر واپس لائے گا، جہاں سے نکل کر وہ جہاد میں شریک ہوا تھا ''۔


3125- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ مِينَائَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي ذُبَابٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " انْتَدَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يَخْرُجُ فِي سَبِيلِهِ، لايُخْرِجُهُ إِلا الإِيمَانُ بِي وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِي، أَنَّهُ ضَامِنٌ حَتَّى أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ بِأَيِّهِمَا كَانَ، إِمَّا بِقَتْلٍ، أَوْ وَفَاةٍ، أَوْ أَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ، نَالَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۱۱)، حم (۲/۴۹۴، ویأتي عند المؤلف ۵۰۲۵ (صحیح)
۳۱۲۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: '' اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کے راستے میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا محض اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے، اور اس کے راستے میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو) اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی فطری موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر وثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو، اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا ''۔


3126- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ، وَتَوَكَّلَ اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِهِ، بِأَنْ يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يُرْجِعَهُ سَالِمًا بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ "۔
* تخريج: خ/الجہاد ۲ (۲۷۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۵۳) (صحیح)
۳۱۲۶- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال (اور اللہ کو معلوم ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے) دن بھر صیام رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے ذمہ لیا ہے کہ اسے موت دے گا، تو اسے جنت میں داخل کرے گا یا (موت نہیں دے گا تو) صحیح وسالم حالت میں اجر وثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے حاصل ہوا ہے اسے واپس اس کے گھر بھیج دے گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
15-بَاب ثَوَابِ السَّرِيَّةِ الَّتِي تُخْفِقُ
۱۵-باب: خالی ہاتھ لوٹ کر آنے والے غازیوں کے ثواب کا بیان​


3127- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ - وَذَكَرَ آخَرَ - قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ غَازِيَةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُصِيبُونَ غَنِيمَةً إِلا تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أَجْرِهِمْ مِنْ الآخِرَةِ، وَيَبْقَى لَهُمْ الثُّلُثُ، فَإِنْ لَمْ يُصِيبُوا غَنِيمَةً تَمَّ لَهُمْ أَجْرُهُمْ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۴ (۱۹۰۶)، د/الجہاد ۱۳ (۲۴۹۷)، ق/الجہاد (۲۷۸۵)، حم۲/۱۶۲۹ (صحیح)
۳۱۲۷- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''جو لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں، اور مال غنیمت پاتے ہیں، تو وہ اپنی آخرت کے اجر کا دو حصہ پہلے پا لیتے ہیں ۱؎، اور آخرت میں پانے کے لیے صرف ایک تہائی باقی رہ جاتا ہے، اور اگر غنیمت نہیں پاتے ہیں تو ان کا پورا اجر (آخرت میں) محفوظ رہتا ہے ''۔
وضاحت ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جو مجاہد کفار سے جہاد کر کے مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس لوٹ آیا تو سردست اسے دو فائدے دنیا میں حاصل ہو گئے ایک سلامتی دوسرا مال غنیمت اور اللہ کے دشمنوں سے اس نے جہاد کا جو ارادہ کیا تھا اس کے سبب اسے اس کے اجر کا تیسرا حصہ آخرت میں ثواب کی شکل میں ملے گا۔


3128-أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيمَا يَحْكِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: " أَيُّمَا عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي خَرَجَ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ابْتِغَائَ مَرْضَاتِي، ضَمِنْتُ لَهُ أَنْ أَرْجِعَهُ إِنْ أَرْجَعْتُهُ بِمَا أَصَابَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، وَإِنْ قَبَضْتُهُ غَفَرْتُ لَهُ وَرَحِمْتُهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۸۸)، حم (۲/۱۱۷) (صحیح)
۳۱۲۸- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک حدیث قدسی میں اپنے رب سے نقل فرماتے ہیں: ''اللہ تعالی نے فرمایا: میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ میری رضا چاہتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا تو میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اگر میں اس کو لوٹاؤں گا (یعنی زندہ واپس گھر بھیجوں گا) تو لوٹاؤں گا اجر وثواب اور غنیمت دے کر اور اگر اس کی روح قبض کر لوں گا تو اس کو بخش دوں گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازوں گا ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
16-مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۶-باب: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی مثال​


3129- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ - كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْخَاشِعِ الرَّاكِعِ السَّاجِدِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۰۸)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد۲ (۲۷۸۷) إلی قولہ: ''القائم''، م/الإمارۃ ۲۹ (۱۸۷۸)، ت/فضائل الجہاد ۱ (۱۶۱۹) (کلاہما فی سیاق الحدیث الآتی) ما: الجہاد ۱ (۱)، حم (۲/۴۲۴، ۴۳۸، ۴۵۹، ۴۶۵) (صحیح)
۳۱۲۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے (اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس کے راستے میں (واقعی) جہاد کرنے والا کون ہے)۔ اس کی مثال مسلسل صیام رکھنے والے، صلاتیں پڑھنے والے، اللہ سے ڈرنے والے، رکوع اور سجدہ کرنے والے کی سی ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی جتنے وقت تک مجاہد جہاد میں مشغول رہے اتنا ہی وقت تک صلاۃ پڑھنے والا، اللہ سے ڈر نے والا، رکوع اور سجدہ کرنے والا جس ثواب عظیم کا مستحق ہے اسی ثواب عظیم کا مستحق وہ مجاہد بھی ہے جس خالص نیت سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
17-مَا يَعْدِلُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۷-باب: جہاد فی سبیل اللہ کے برابر کیا چیز ہے؟ (کوئی نہیں)​


3130- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حُصَيْنٍ أَنَّ ذَكْوَانَ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يَعْدِلُ الْجِهَادَ "، قَالَ: "لاأَجِدُهُ، هَلْ تَسْتَطِيعُ إِذَا خَرَجَ الْمُجَاهِدُ تَدْخُلُ مَسْجِدًا؛ فَتَقُومُ لاتَفْتُرُ، وَتَصُومُ لاتُفْطِرُ"، قَالَ: مَنْ يَسْتَطِيعُ ذَلِكَ؟۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱ (۲۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۴۲)، م/الإمارۃ ۲۹ (۱۸۷۸)، ت/فضائل الجہاد ۱ (۱۶۱۹)، حم (۲/۳۴۴، ۴۲۴) (صحیح)
۳۱۳۰- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، پھر اس نے کہا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو جہاد کے برابر ہو (یعنی وہی درجہ رکھتا ہو) آپ نے فرمایا: ''میں نہیں پاتا کہ تو وہ کر سکے گا، جب مجاہد جہاد کے لیے (گھر سے) نکلے تو تم مسجد میں داخل ہو جاؤ، اور کھڑے ہو کر صلاتیں پڑھنی شروع کرو (اور پڑھتے ہی رہو) پڑھنے میں کوتاہی نہ کرو، اور صیام رکھو (رکھتے جاؤ) افطار نہ کرو''، اس نے کہا یہ کون کر سکتا ہے؟ ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی کوئی نہیں کر سکتا ہے، معلوم ہوا کہ مجاہد جس درجہ پر فائز ہے اس تک کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی۔


3131- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ سَأَلَ نَبِيَّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّ الْعَمَلِ خَيْرٌ؟ قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: خ/العتق ۲ (۲۵۱۸)، م/الإیمان ۳۵ (۸۴)، ق/العتق ۴ (۲۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۰۴)، حم (۵/۱۵۰، ۱۶۳، ۱۷۱، دي/الرقاق ۲۸ (۲۷۸۰) (صحیح)
۳۱۳۱- ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ''۔


3132- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ " قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: " الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ " قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: " حَجٌّ مَبْرُورٌ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۶۲۵ (صحیح)
۳۱۳۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ پر ایمان لانا''، اس نے کہا: پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ''، اس نے کہا: پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا: '' ایسا حج جو اللہ کے نزدیک قبول ہو جائے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
18-دَرَجَةُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۸-باب: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے درجات ومراتب​


3133- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوهَانِئٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَا أَبَا سَعِيدٍ! مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" قَالَ: فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ، قَالَ: أَعِدْهَا عَلَيَّ يَارَسُولَ اللَّهِ! فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ" قَالَ: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۱ (۱۸۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۲)، حم (۳/۱۴) (صحیح)
۳۱۳۳- ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ابوسعید! جو شخص راضی ہو گیا اللہ کے رب ۱؎ ہونے پر اور اسلام کو بطور دین قبول کر لیا ۲؎ اور محمد صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ۳؎ کا اقرار کر لیا، تو جنت اس کے لیے واجب ہو گئی ۴؎، (راوی کہتے ہیں) یہ کلمات ابوسعید کو بہت بھلے لگے۔ (چنانچہ) عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کلمات کو آپ مجھے ذرا دوبارہ سنا دیجئے، تو آپ نے دہرا دیا۔ پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن جنت میں بندے کو سو درجوں کی بلندی تک پہنچانے کے لیے ایک دوسری عبادت بھی ہے (اور درجے بھی کیسے؟) ایک درجہ کا فاصلہ دوسرے درجے سے اتنا ہے جتنا فاصلہ آسمان وزمین کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا: یہ دوسری عبادت کیا ہے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: (یہ دوسری عبادت) اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے''۔
وضاحت ۱ ؎: ''رب'' اللہ تعالی کے اسماء حسنی میں سے ہے، جس کے معنی ہیں ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ضروریات مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا، بغیر اضافت کے اس کا استعمال اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں، اور اسی ربوبیت کا تقاضا ہے کہ آدمی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، کیونکہ وہی برتر وبالا مقدس ذات عبادت کی مستحق ہے یہاں رب ماننے کا معنی ومطلب اس رب کے لیے ہر طرح کی عبادت کو خاص کرنا ہے، اس لیے کہ اللہ کو کائنات کے خالق ومالک ماننے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنے میں مشرکین عرب وغیر عرب کو اعتراض نہ تھا، ان کا اصل مرض یہی تھا کہ وہ اللہ کو رب اور خالق ومالک مانتے ہوئے اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے تھے۔
وضاحت ۲؎: اسلام کو بطور دین تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے طریقہ کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اپنی زندگی میں نہ اپنائے۔
وضاحت ۳؎: محمد صلی الله علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوامر ونواہی کو ہر چیز پر مقدم رکھے۔ اور ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ کے حکم کو بغیر کسی بحث واعتراض کے قبول کرے۔
وضاحت ۴؎: بشرطیکہ اس نے شرک، بدعات کی ان میں آمیزش نہ کی ہو اور بد عملی کا شکار نہ ہوا ہو۔


3134- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُمَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَقَامَ الصَّلاةَ، وَآتَى الزَّكَاةَ، وَمَاتَ لا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ هَاجَرَ، أوْ مَاتَ فِي مَوْلِدِهِ "؛ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا نُخْبِرُ بِهَا النَّاسَ؛ فَيَسْتَبْشِرُوا بِهَا؟ فَقَالَ: " إِنَّ لِلْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ، أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ، وَلَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ، وَلاتَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا بَعْدِي، مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۳) (حسن الإسناد)
۳۱۳۴- ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے صلاۃ قائم کی اور زکاۃ دی، اور اللہ کے ساتھ کسی طرح کا شرک کئے بغیر مرا تو چاہے ہجرت کر کے مرا ہو یا (بلا ہجرت کے) اپنے وطن میں مرا ہو، اللہ پر اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اللہ اسے بخش دے، ہم صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ خبر لوگوں کو نہ پہنچا دیں جسے سن کر لوگ خوش ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: '' جنت کے سو درجے ہیں اور ہر دو درجے کے درمیان آسمان وزمین اتنا فاصلہ ہے، اور یہ درجے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے بنائے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں مسلمانوں کو مشکل ومشقت میں ڈال دوں گا اور انہیں سوار کرا کے لے جانے کے لیے سواری نہ پاؤں گا اور میرے بعد میرا ساتھ چھوٹ جانے کی انہیں ناگواری اور تکلیف ہوگی تو میں کسی سریہ (فوجی دستے) کے ساتھ جانے سے بھی نہ چوکتا اور میں تو پسند کرتا اور چاہتا ہوں کہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، اور پھر قتل کیا جاؤں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس طرح میں بلند سے بلند تر جنت کا درجہ ومرتبہ حاصل کر سکوں گا تو تم بھی صرف جنت میں چلے جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ بلند سے بلند درجے حاصل کرنے کی کوشش کرو، گویا مغفرت کے لئے ایمان کافی تو ہے لیکن جنت میں ترقی درجات جہاد پر موقوف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
19-مَا لِمَنْ أَسْلَمَ وَهَاجَرَ وَجَاهَدَ
۱۹-باب: اسلام لانے، ہجرت کرنے اور جہاد میں حصہ لینے والے کے اجر وثواب کا بیان​


3135- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوهَانِئٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ الْجَنْبِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَنَا زَعِيمٌ - وَالزَّعِيمُ الْحَمِيلُ - لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ، وَهَاجَرَ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ، وَأَنَا زَعِيمٌ لِمَنْ آمَنَ بِي وَأَسْلَمَ، وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَبِبَيْتٍ فِي وَسَطِ الْجَنَّةِ، وَبِبَيْتٍ فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ، مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ؛ فَلَمْ يَدَعْ لِلْخَيْرِ مَطْلَبًا، وَلا مِنْ الشَّرِّ مَهْرَبًا؛ يَمُوتُ حَيْثُ شَائَ أَنْ يَمُوتَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۷) (صحیح)
۳۱۳۵- فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: '' جو مجھ پر ایمان لایا، اور میری اطاعت کی، اور ہجرت کی، تو میں اس کے لیے جنت کے احاطے (فصیل) میں ایک گھر اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا ذمہ لیتا ہوں۔ اور میں اس شخص کے لیے بھی جو مجھ پر دل سے ایمان لائے، اور میری اطاعت کرے، اور اللہ کے راستے میں جہاد کرے ضمانت لیتا ہوں جنت کے گرد ونواح میں (فصیل کے اندر) ایک گھر کا، اور جنت کے وسط میں ایک گھر کا اور جنت کے بلند بالا خانوں (منزلوں) میں سے بھی ایک گھر (اونچی منزل) کا۔ جس نے یہ سب کیا (یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد) اس نے خیر کے طلب کی کوئی جگہ نہ چھوڑی ا؎ اور نہ ہی شر سے بچنے کی کوئی جگہ ۲؎ جہاں مرنا چاہے مرے'' ۳؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی خیر کے طلب کے لئے کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں وہ پہنچا نہ ہو۔
وضاحت ۲؎: یعنی شر سے اپنے آپ کو بچانے اور اس سے محفوظ رکھنے کے لئے شر کی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں سے اس نے اپنے آپ کو دور نہ رکھا ہو۔
وضاحت ۳؎: یعنی ہر طرح کا خیر اس نے حاصل کر لیا ہے، اور ہر طرح کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے، اب اس کے لئے فکر وغم کی کوئی بات نہیں ہے۔


3136- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَقِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِي فَاكِهٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ قَعَدَ لابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ؛ فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الإِسْلامِ؛ فَقَالَ: تُسْلِمُ وَتَذَرُ دِينَكَ وَدِينَ آبَائِكَ وَآبَائِ أَبِيكَ؟ فَعَصَاهُ؛ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْهِجْرَةِ؛ فَقَالَ: تُهَاجِرُ، وَتَدَعُ أَرْضَكَ وَسَمَائَكَ، وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي الطِّوَلِ؟ فَعَصَاهُ؛ فَهَاجَرَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْجِهَادِ؛ فَقَالَ: تُجَاهِدُ؛ فَهُوَ جَهْدُ النَّفْسِ وَالْمَالِ؛ فَتُقَاتِلُ؛ فَتُقْتَلُ؛ فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَيُقْسَمُ الْمَالُ؟ فَعَصَاهُ؛ فَجَاهَدَ " فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّتُهُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۰۸)، حم (۳/۴۸۳) (صحیح)
۳۱۳۶- سبرہ بن ابی فاکہہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: شیطان ابن آدم کو بہکانے کے لیے اس کے راستوں میں بیٹھا۔ کبھی وہ اسلام کے راستہ سے سامنے آیا۔ کہا: تم اسلام لاتے ہو؟ اپنے دین کو، اپنے باپ کے دین کو اور اپنے دادا کے دین کو چھوڑ رہا ہے؟ (یہ اچھی بات نہیں) لیکن انسان نے اس کی بات نہیں مانی اور اسلام لے آیا۔ پھر وہ ہجرت کے راستے سے اسے بہکانے کے لیے بیٹھا۔ کہا: تم ہجرت کر رہے ہو؟ تم اپنی زمین اور اپنا آسمان چھوڑ کر جا رہے ہو، مہاجر کی مثال لمبی رسی میں بندھے گھوڑے کی مثال ہے۔ (جو رسی کے دائرے سے باہر کہیں آ جا نہیں سکتا۔) لیکن اس نے اس کی بات نہیں مانی (اس کے بہکانے میں نہیں آیا) اور ہجرت کی۔ پھر وہ انسان کو جہاد کے راستے سے بہکانے کے لیے بیٹھا۔ کہا: تم جہاد کرتے ہو؟ یہ تو جان ومال کو کھپا دینا اور ضائع کر دینا ہے۔ تم جہاد کرو گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے۔ تمہاری بیوی کی شادی کر دی جائے گی، اور تمہارا مال بانٹ دیا جائے گا۔ لیکن اس نے اس کی بات نہیں مانی اور جہاد کیا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس نے ایسا کیا اس کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اسے (اپنی رحمت سے) جنت میں داخل فرمائے، اور جو شخص (اس راہ میں) شہید ہو گیا اللہ تعالیٰ پر ایک طرح سے واجب ہو گیا کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے، اگر وہ (اس راہ میں) ڈوب گیا تو اسے بھی جنت میں داخل کرنا اللہ پر اس کا حق بنتا ہے، اگر اسے اس کی سواری گرا کر ہلاک کر دے تو بھی اللہ تعالیٰ پر اس کا حق بنتا ہے کہ اسے بھی (اپنے فضل وکرم سے) جنت میں داخل فرمائے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
20-بَاب فَضْلِ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۲۰-باب: اللہ کے راستے (جہاد) میں جوڑا دینے والے کی فضیلت کا بیان​


3137- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ: يَاعَبْدَاللَّهِ! هَذَا خَيْرٌ؛ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ " فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! مَا عَلَى الَّذِي يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا مِنْ ضَرُورَةٍ، هَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۲۴۰ (صحیح)
۳۱۳۷- ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص اللہ کے راستے میں جوڑا دے ۱؎، جنت میں (اسے مخاطب کر کے) کہا جائے گا: اللہ کے بندے یہ ہے (تیری) بہتر چیز۔ تو جو کوئی مصلی ہوگا اسے باب صلاۃ (صلاۃ کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی مجاہد ہوگا اسے باب جہاد (جہاد کے دروازہ) سے بلایا جائے گا، اور جو کوئی صدقہ وخیرات دینے والا ہوگا اسے باب صدقہ (صدقہ وخیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا، اور جو کوئی اہل صیام میں سے ہوگا اسے باب ریان (سیراب وشاداب دروازہ) سے بلایا جائے گا ''۔
ابوبکر رضی الله عنہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! اس کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں کہ کسی کو ان تمام دروازوں سے بلا یا جائے ۲؎ کیا کوئی ان تمام دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: '' ہاں، اور مجھے اُمید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے ''۔
وضاحت ۱؎: یعنی جو چیز بھی اللہ کے راستے میں دیتا ہے تو دینے والے کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جوڑا کی شکل میں دے، یا جوڑا سے مراد نیک عمل کی تکرار ہے۔
وضاحت ۲؎: کیونکہ جنت میں داخل ہونے کا مقصد تو صرف ایک دروازے سے دخول کی اجازت ہی سے حاصل ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
21-مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا
۲۱-باب: اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے لڑنے والے مجاہد کا بیان​


3138- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ، قَالَ: جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيَغْنَمَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ؛ فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا؛ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: خ/العلم ۴۵ (۲۱۸۳)، الجہاد ۱۵ (۲۸۱۰)، الخمس ۱۰ (۳۱۲۶)، التوحید ۲۸ (۷۴۵۸)، م/الإمارۃ ۴۲ (۱۹۰۴)، د/الجہاد ۲۶ (۲۵۱۸)، ت/فضائل ۱۶ (۱۶۴۶)، ق/الجہاد ۱۳ (۲۷۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۹۹)، حم (۴/۳۹۲، ۳۹۷، ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۵، ۴۱۷) (صحیح)
۳۱۳۸- ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آدمی لڑتا ہے تاکہ اس کا ذکر اور چرچا ہو ۱؎، لڑتا ہے تاکہ مال غنیمت حاصل کرے، لڑتا ہے تاکہ اللہ کے راستے میں لڑنے والوں میں اس کا مقام ومرتبہ جانا پہچانا جائے تو کس لڑنے والے کو اللہ کے راستے کا مجاہد کہیں گے؟ آپ نے فرمایا: '' اللہ کے راستے کا مجاہد اسے کہیں گے جو اللہ کا کلمہ ۲؎ بلند کرنے کے لیے لڑے ''۔
وضاحت ۱؎: یعنی ریاکاری کے ساتھ لڑتا ہے تاکہ لوگوں میں اپنی بہادری کی وجہ سے جانا اور پہچانا جائے۔
وضاحت ۲؎: یعنی اس کے دین کی بلندی کے لئے لڑے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
22-مَنْ قَاتَلَ لِيُقَالَ: فُلانٌ جَرِيئٌ
۲۲-باب: بہادر کہلانے کے لیے لڑنے والے کا بیان​


3139- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ - مِنْ أَهْلِ الشَّامِ -: أَيُّهَا الشَّيْخُ! حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ، فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ: فُلاَنٌ جَرِيئٌ؛ فَقَدْ قِيلَ: ثُمَّ أُمِرَ بِهِ؛ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ، وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ؛ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ؛ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ، وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ، قَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ قَارِئٌ؛ فَقَدْ قِيلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ؛ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ، حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ، وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ؛ فَأُتِيَ بِهِ؛ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا؛ فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ -. ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: وَلَمْ أَفْهَمْ " تُحِبُّ " كَمَا أَرَدْتُ - أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنْ لِيُقَالَ: إِنَّهُ جَوَادٌ؛ فَقَدْ قِيلَ: ثُمَّ أُمِرَ بِهِ؛ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ؛ فَأُلْقِيَ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۴۳ (۱۹۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۸۲)، حم (۲/۳۲۲، ۳۲۱) (صحیح)
۳۱۳۹- سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ (کی مجلس) سے لوگ جدا ہونے لگے، تو اہل شام میں سے ایک شخص نے ابو ہریرہ سے کہا: شیخ! رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی حدیث مجھ سے بیان کیجئے، کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: '' قیامت کے دن پہلے پہل جن لوگوں کا فیصلہ ہوگا، وہ تین (طرح کے لوگ) ہوں گے، ایک وہ ہوگا جو شہید کر دیا گیا ہوگا، اسے لا کر پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی (ان) نعمتوں کی پہچان کروائے گا (جو نعمتیں اس نے انہیں عطا کی تھیں)۔ وہ انہیں پہچان (اور تسلیم کر) لے گا۔ اللہ (اس) سے کہے گا: یہ ساری نعمتیں جو ہم نے تجھے دی تھیں ان میں تم نے کیا کیا وہ کہے گا: میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا۔ اللہ فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے۔ بلکہ تو اس لیے لڑاتا کہ کہا جائے کہ فلاں تو بڑا بہادر ہے چنانچہ تجھے ایسا کہا گیا ۱؎، پھر حکم دیا جائے گا: اسے لے جاؤ تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر لے جایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
ایک وہ ہوگا جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور قرآن پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، اللہ (اس سے) کہے گا: ان نعمتوں کا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے (دوسروں کو) سکھایا اور تیرے واسطے قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو نے جھوٹ اور غلط کہا تو نے تو علم اس لیے سیکھا کہ تجھے عالم کہا جائے تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے چنانچہ تجھے کہا گیا۔ پھر اسے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹ کر اسے لے جایا جائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا ''۔
ایک اور شخص ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے بڑی وسعت دی ہوگی طرح طرح کے مال ومتاع دیئے ہوں گے اسے حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی عطا کردہ نعمتوں کی پہچان کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا۔ اللہ (اس سے) کہے گا: ان کے شکریہ میں تو نے کیا کیا وہ کہے گا: اے رب! میں نے کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑی جہاں تو پسند کرتا ہے کہ وہاں خرچ کیا جائے۔ مگر میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بکتا ہے، تو نے یہ سب اس لیے کیا کہ تیرے متعلق کہا جائے کہ تو بڑا سخی اور فیاض آدمی ہے چنانچہ تجھے کہا گیا، اسے یہاں سے لے جانے کا حکم دیا جائے گا چنانچہ چہرے کے بل گھسیٹتا ہوا اسے لے جایا جائے گا۔ اور لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں '' تُحِبُّ '' (کامفہوم) جیسا میں چاہتا تھا سمجھ نہ سکا لیکن جو میں نے سمجھا وہ یہ ہے کہ استاذ نے '' تُحِبُّ '' کے آگے '' أنْ يُنْفَقَ فِيْهاَ۔۔۔ '' کہا۔
وضاحت ۱؎: یعنی تیری جرأت وبہادری کی دنیا میں بڑی تعریفیں ہوئیں اور بڑا چرچا رہا۔
 
Top