8-تَزَوُّجُ الْمَوْلَى الْعَرَبِيَّةَ
۸-باب: غلام کی آزاد عورت سے شادی کا بیان
3224- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ - وَهُوَ غُلامٌ شَابٌّ فِي إِمَارَةِ مَرْوَانَ - ابنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ - وَأُمُّهَا بِنْتُ قَيْسٍ - الْبَتَّةَ؛ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ تَأْمُرُهَا بِالانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ؛ فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنَةِ سَعِيدٍ؛ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا، وَسَأَلَهَا مَا حَمَلَهَا عَلَى الانْتِقَالِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَعْتَدَّ فِي مَسْكَنِهَا، حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا؛ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا أَمَرَتْهَا بِذَلِكَ؛ فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ؛ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصٍ؛ فَلَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ، خَرَجَ مَعَهُ، وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ هِيَ بَقِيَّةُ طَلاقِهَا، وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا؛ فَأَرْسَلَتْ زَعَمَتْ إِلَى الْحَارِثِ وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا الَّذِي أَمَرَ لَهَا بِهِ زَوْجُهَا؛ فَقَالاَ: وَاللَّهِ مَا لَهَا عِنْدَنَا نَفَقَةٌ، إِلا أَنْ تَكُونَ حَامِلاً، وَمَا لَهَا أَنْ تَكُونَ فِي مَسْكَنِنَا إِلا بِإِذْنِنَا؛ فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ؛ فَصَدَّقَهُمَا، قَالَتْ فَاطِمَةُ: فَأَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى الَّذِي سَمَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ " قَالَتْ فَاطِمَةُ: فَاعْتَدَدْتُ عِنْدَهُ، وَكَانَ رَجُلاً قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ؛ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ، حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ؛ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا مَرْوَانُ، وَقَالَ: لَمْ أَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَحَدٍ قَبْلَكِ، وَسَآخُذُ بِالْقَضِيَّةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا. مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، د/الطلاق ۳۹ (۲۲۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۳۱)، حم (۶/۴۱۴- ۴۱۵، دي/النکاح ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۲ (صحیح)
۳۲۲۴- عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ مروان کے دور حکومت میں ایک نوجوان شخص عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی (جن کی ماں بنت قیس ہیں) کو طلاق بتہ دے دی ۱؎، تو اس کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جاؤ، یہ بات مروان نے سنی (کہ سعید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو کے گھر سے چلی گئی ہے)۔ تو اسے یہ حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم اپنے اس گھر کو واپس چلی جا ؤ (جہاں سے نکل کر آئی ہو) اور اس سے وجہ بھی پوچھی کہ تم اپنے گھر میں عدت کے ایام پورا کئے بغیر وہاں سے نکل کیسے آئی؟ تو اس نے انہیں (یعنی مروان کو) کہلا بھیجا کہ میں اپنی خالہ کے کہنے سے نکل آئی تھی۔ تو (اس کی خالہ) فاطمہ بنت قیس نے (اپنا پیش آمدہ واقعہ) بیان کیا کہ وہ ابو عمرو بن حفص کے نکاح میں تھیں، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے علی بن ابو طالب رضی الله عنہ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا، تو وہ بھی ان کے ساتھ گئے اور (وہاں سے) انھوں نے ان کو (تین طلاقوں میں سے) باقی بچی ہوئی طلاق دے کر کہلا بھیجا کہ حارث بن ہشام اور عیاش بن ربیعہ سے اپنا نفقہ لے لیں۔ کہتی ہیں: تو انہوں نے حارث اور عیاش سے پچھوا بھیجا کہ ان کے لیے ان کے شوہر نے ان دونوں کو کیا حکم دیا ہے۔ ان دونوں نے کہا: قسم اللہ کی! ان کے لیے ہمارے پاس کوئی نفقہ (خرچ) نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے گھر میں ہماری اجازت کے بغیر ان کا رہنا درست ہے۔ ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں وضع حمل تک نفقہ وسکنی ملے گا) وہ (یعنی فاطمہ بنت قیس) کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان سب باتوں کا ذکر کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' یہ دونوں سچ کہتے ہیں ''، فاطمہ نے کہا: اللہ کے رسول! پھر میں کہاں چلی جاؤں؟ آپ نے فرمایا: تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ جو ایک نابینا شخص ہیں اور جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن پاک) میں کیا ہے۔ فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو میں نے ان کے یہاں جا کر عدت پوری کی۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کی آنکھیں چلی گئی تھیں، میں ان کے یہاں اپنے کپڑے اتار دیتی تھی، پھر (وہ وقت آیا کہ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی شادی اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے کرا دی ۲؎، ان کی اس بات کو مروان نے قبول نہیں کیا اور کہا: میں نے تم سے پہلے ایسی بات کسی سے نہیں سنی ہے۔ میں تو وہی فیصلہ نافذ رکھوں گا جس پر لوگوں کو عمل کرتا ہوا پایا ہے۔ (یہ حدیث) مختصر ہے۔
وضاحت ۱؎: طلاق بتہ ایسی طلاق ہے جس میں عورت کا شوہر سے کوئی علاقہ وتعلق باقی نہ رہ جائے۔
وضاحت ۲؎: حدیث کا مقصود یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے کر دیا، باوجودیکہ وہ غلام زادے تھے۔
3225- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ - وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَبَنَّى سَالِمًا، وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ: هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، وَهُوَ مَوْلًى لامْرَأَةٍ مِنْ الأَنْصَارِ، كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلاً فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ ابْنَهُ، فَوَرِثَ مِنْ مِيرَاثِهِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَاللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ} فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ كَانَ مَوْلًى، وَأَخًا فِي الدِّينِ، مُخْتَصَرٌ۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۵ (۵۰۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۶۷)، وقد أخرجہ: د/النکاح ۱۰ (۲۰۶۱)، ط/الرضاع ۲ (۱۲)، حم (۶/۲۰۱، ۲۷۱)، دي/النکاح ۵۲ (۲۳۰۳) (صحیح)
۳۲۲۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا، اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس سے کر دی۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا قرار دے لیا تھا، اور زمانہ جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ متبنی کرنے والے کو اس لڑکے کا باپ کہا کرتے تھے اور وہ لڑکا اس کی میراث پاتا تھا اور یہ دستور اس وقت تک چلتا رہا جب تک اللہ پاک نے یہ آیت:
{ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ } ۱؎ نازل نہ کی، پس جس کا باپ معلوم نہ ہو وہ دینی بھائی اور دوست ہے، (یہ حدیث) مختصر ہے۔
وضاحت ۱؎: لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے، پھر اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں (الاحزاب: ۵)۔
3226- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى - يَعْنِي: ابْنَ سَعِيدٍ - وَأَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ - وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَبَنَّى سَالِمًا - وَهُوَ مَوْلًى لامْرَأَةٍ مِنْ الأَنْصَارِ - كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ، وَأَنْكَحَ أَبُوحُذَيْفَةَ بْنُ عُتْبَةَ سَالِمًا ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ ابْنَةَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَكَانَتْ هِنْدُ بِنْتُ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامَى قُرَيْشٍ؛ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ فِي زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ {ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ} رُدَّ كُلُّ أَحَدٍ يَنْتَمِي مِنْ أُولَئِكَ إِلَى أَبِيهِ؛ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يُعْلَمُ أَبُوهُ رُدَّ إِلَى مَوَالِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۸۶) (صحیح)
۳۲۲۶- امہات المومنین عائشہ اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس ان لوگوں میں سے تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، انہوں نے ایک انصاری عورت کے غلام سالم کو اپنا لے پالک بنا لیا تھا۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی الله عنہ کو اپنا لے پالک بنایا تھا۔ ابو حذیفہ بن عتبہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دیا تھا اور یہ ہند بنت ولید بن عتبہ شروع شروع کی مہاجرہ عورتوں میں سے تھیں، وہ قریش کی بیوہ عورتوں میں اس وقت سب سے افضل وبرتر عورت تھیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے زید بن حارثہ (غلام) کے تعلق سے آیت:
{ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ } ۱؎ نازل فرمائی تو ہر ایک لے پالک اپنے اصل باپ کے نام سے پکارا جانے لگا، اور جن کے باپ نہ جانے جاتے انہیں ان کے آقاؤں کی طرف منسوب کر کے پکارتے۔
وضاحت ۱؎: لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔