53-بَاب رَضَاعِ الْكَبِيرِ
۵۳-باب: بڑے کو دودھ پلانے کا بیان
3321- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ نَافِعٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ تَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: جَائَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي لأَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْضِعِيهِ " قُلْتُ: إِنَّهُ لَذُو لِحْيَةٍ؛ فَقَالَ: " أَرْضِعِيهِ، يَذْهَبْ مَا فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ " قَالَتْ: وَاللَّهِ! مَا عَرَفْتُهُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ بَعْدُ۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۱)، حم (۶/۱۷۴) (صحیح)
۳۳۲۱- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی الله عنہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! سالم جب میرے پاس آتے ہیں تو میں (اپنے شوہر) ابو حذیفہ رضی الله عنہ کے چہرے پر (ناگواری) دیکھتی ہوں (اور ان کا آنا نا گزیر ہے) ۱؎ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم انہیں دودھ پلا دو''، میں نے کہا: وہ تو ڈاڑھی والے ہیں، (بچہ تھوڑے ہیں)، آپ نے فرمایا: '' (پھر بھی) دودھ پلا دو، دودھ پلا دوگی تو ابو حذیفہ رضی الله عنہ کے چہرے پر جو تم (ناگواری) دیکھتی ہو وہ ختم ہو جائے گی''، سہلہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! دودھ پلا دینے کے بعد پھر میں نے ابو حذیفہ رضی الله عنہ کے چہرے پر کبھی کوئی ناگواری نہیں محسوس کی۔
وضاحت ۱؎: ابو حذیفہ سہلہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے، انہوں نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب متبنی کے سلسلہ میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی، پھر جب تبنی حرام قرار پایا تو ابو حذیفہ رضی الله عنہ کو یہ چیز نا پسند آئی کہ سالم ان کے گھر میں پہلے کی طرح آئیں، یہی وہ مشکل تھی جسے حل کرنے کے لئے سہلہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہونچیں۔
3322- أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْنَاهُ مِنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ - وَهُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ - عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَائَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ عَلَيَّ، قَالَ: "فَأَرْضِعِيهِ" قَالَتْ: وَكَيْفَ أُرْضِعُهُ؟ وَهُوَ رَجُلٌ كَبِيرٌ؛ فَقَالَ: "أَلَسْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيرٌ" ثُمَّ جَائَتْ بَعْدُ؛ فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا! مَا رَأَيْتُ فِي وَجْهِ أَبِي حُذَيْفَةَ بَعْدُ شَيْئًا أَكْرَهُ۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، ن/النکاح ۳۶ (۱۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۸۴)، حم (۶/۳۸) (صحیح)
۳۳۲۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل رضی الله عنہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا: میں سالم کے اپنے پاس آنے جانے سے (اپنے شوہر) ابو حذیفہ کے چہرے میں کچھ (تبدیلی وناگواری) دیکھتی ہوں، آپ نے فرمایا: '' تم انہیں اپنا دودھ پلا دو''، انہوں نے کہا: میں انہیں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑے (عمر والے) آدمی ہیں؟ آپ نے فرمایا: '' کیا مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ بڑی عمر کے ہیں ''، اس کے بعد وہ (دودھ پلا کر پھر ایک دن) آئیں اور کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس کے بعد ابو حذیفہ کے چہرے پر کوئی ناگواری کی چیز نہیں دیکھی۔
3323- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى أَبُوالْوَزِيرِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى وَرَبِيعَةُ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةَ أَبِي حُذَيْفَةَ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، حَتَّى تَذْهَبَ غَيْرَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ؛ فَأَرْضَعَتْهُ، وَهُوَ رَجُلٌ، قَالَ رَبِيعَةُ: فَكَانَتْ رُخْصَةً لِسَالِمٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۲)، حم (۶/۲۴۹) (صحیح)
۳۳۲۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ابو حذیفہ کی بیوی کو حکم دیا کہ تم ابو حذیفہ کے غلام سالم کو دودھ پلا دو تاکہ ابو حذیفہ کی غیرت (ناگواری) ختم ہو جائے۔ تو انہوں نے انہیں دودھ پلا دیا اور وہ (بچے نہیں) پورے مرد تھے۔ ربیعہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: یہ رخصت صرف سالم کے لیے تھی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی کسی دوسرے بڑے شخص کو دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی، جمہور کی رائے یہی ہے کہ یہ سالم کے ساتھ خاص تھا۔
3324- أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ - وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ - عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَائَتْ سَهْلَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ سَالِمًا يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَقَدْ عَقَلَ مَا يَعْقِلُ الرِّجَالُ، وَعَلِمَ مَا يَعْلَمُ الرِّجَالُ، قَالَ: " أَرْضِعِيهِ تَحْرُمِي عَلَيْهِ بِذَلِكَ " فَمَكَثْتُ حَوْلاً، لاَ أُحَدِّثُ بِهِ، وَلَقِيتُ الْقَاسِمَ؛ فَقَالَ: حَدِّثْ بِهِ وَلاَ تَهَابُهُ۔
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۶۴)، حم (۶/۲۰۱) (صحیح)
۳۳۲۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: سہلہ رضی الله عنہا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! سالم ہمارے پاس آتا جاتا ہے (اب وہ بڑا ہو گیا ہے) جو باتیں لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی سمجھتا ہے اور جو باتیں لوگ جانتے ہیں وہ بھی جان گیا ہے (اور اس کا آنا جانا بھی ضروری ہے) آپ نے فرمایا: ''تو اسے اپنا دودھ پلا دے تو اپنے اس عمل سے اس کے لیے حرام ہو جائے گی ''۔ ابن ابی ملیکہ (اس حدیث کے راوی) کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو سال بھر کسی سے بیان نہیں کیا، پھر میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی (اور اس کا ذکر آیا) تو انہوں نے کہا: اس حدیث کو بیان کرو اور اس کے بیان کرنے میں (شرماؤ) اور ڈرو نہیں۔
3325- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالْوَهَّابِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ؛ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ كَانَ مَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأَهْلِهِ فِي بَيْتِهِمْ؛ فَأَتَتْ بِنْتُ سُهَيْلٍ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا قَدْ بَلَغَ مَا يَبْلُغُ الرِّجَالُ، وَعَقَلَ مَا عَقَلُوهُ، وَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْنَا، وَإِنِّي أَظُنُّ فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا؛ فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْضِعِيهِ تَحْرُمِي عَلَيْهِ " فَأَرْضَعْتُهُ؛ فَذَهَبَ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ؛ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ؛ فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُهُ؛ فَذَهَبَ الَّذِي فِي نَفْسِ أَبِي حُذَيْفَةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۳۲۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابو حذیفہ کے غلام سالم ابو حذیفہ اور ان کی بیوی (بچوں) کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے تھے۔ تو سہیل کی بیٹی (سہلہ ابو حذیفہ کی بیوی) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہا کہ سالم لوگوں کی طرح جوان ہو گیا ہے اور اسے لوگوں کی طرح ہر چیز کی سمجھ آ گئی ہے اور وہ ہمارے پاس آتا جاتا ہے اور میں اس کی وجہ سے ابو حذیفہ کے دل میں کچھ (کھٹک) محسوس کرتی ہوں، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم اسے دودھ پلا دو، تو تم اس پر حرام ہو جاؤ گی'' تو انہوں نے اسے دودھ پلا دیا، چنانچہ ابو حذیفہ کے دل میں جو (خدشہ) تھا وہ دور ہو گیا، پھر وہ لوٹ کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس (دوبارہ) آئیں اور (آپ سے) کہا: میں نے (آپ کے مشورہ کے مطابق) اسے دودھ پلا دیا، اور میرے دودھ پلا دینے سے ابو حذیفہ کے دل میں جو چیز تھی یعنی کبیدگی اور ناگواری وہ ختم ہو گئی۔
3326- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ وَمَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضْعَةِ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ - يُرِيدُ رَضَاعَةَ الْكَبِيرِ - وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ! مَا نُرَى الَّذِي أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْلَةَ بِنْتَ سُهَيْلٍ إِلارُخْصَةً فِي رَضَاعَةِ سَالِمٍ وَحْدَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ! لاَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضْعَةِ وَلايَرَانَا۔
* تخريج: النکاح ۱۰ (۲۰۶۱) مطولا، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۷۷) (صحیح)
۳۳۲۶- زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبھی ازواج مطہرات ۱؎ نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی ان کے پاس اس رضاعت کا سہارا لے کر (گھر کے اندر) آئے، مراد اس سے بڑے کی رضاعت ہے اور سب نے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم سمجھتے ہیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سہلہ بنت سہیل کو (سالم کو دودھ پلانے کا) جو حکم دیا ہے وہ حکم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جانب سے سالم کی رضاعت کے سلسلہ میں خاص تھا۔ قسم اللہ کی! اس رضاعت کے ذریعہ کوئی شخص ہمارے پاس آ نہیں سکتا اور نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے۔
وضاحت ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا کے علاوہ۔
3327- أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ أَنَّ أُمَّهُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تَقُولُ: أَبَى سَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخَلَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ! مَا نُرَى هَذِهِ إِلاَّ رُخْصَةً رَخَّصَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً لِسَالِمٍ؛ فَلاَيَدْخُلْ عَلَيْنَا أَحَدٌ بِهَذِهِ الرَّضَاعَةِ وَلاَيَرَانَا .
* تخريج: م/الرضاع ۷ (۱۴۵۴)، ق/النکاح ۳۷ (۱۹۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۷۴)، حم (۶/۳۱۲) (صحیح)
۳۳۲۷- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی تھیں کہ سبھی ازواج مطہرات نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس رضاعت (یعنی بڑے کی رضاعت) کو دلیل بنا کر ان کے پاس (یعنی کسی بھی عورت کے پاس) جایا جائے، انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: قسم اللہ کی! ہم اس رخصت کو عام رخصت نہیں سمجھتے، یہ رخصت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے خاص سالم کے لیے دی تھی، اس رضاعت کو دلیل بنا کر ہم عورتوں کے پاس کوئی آجا نہیں سکتا اور نہ ہی ہم عورتوں کو دیکھ سکتا ہے۔