79-الْبِنَائُ فِي السَّفَرِ
۷۹-باب: دوران سفرکی رخصتی کا بیان
3382- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا الْغَدَاةَ بِغَلَسٍ؛ فَرَكِبَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَخَذَ نَبِيُّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ: وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لأَرَى بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ " قَالَهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، قَالَ عَبْدُالْعَزِيزِ: فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ؟ قَالَ عَبْدُالْعَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: وَالْخَمِيسُ، وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً؛ فَجَمَعَ السَّبْيَ؛ فَجَائَ دِحْيَةُ؛ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ، قَالَ: اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً؛ فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ؛ فَجَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ، مَاتَصْلُحُ إِلا لَكَ، قَالَ: ادْعُوهُ بِهَا، فَجَائَ بِهَا؛ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خُذْ جَارِيَةً مِنْ السَّبْيِ غَيْرَهَا، قَالَ: وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ! مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، قَالَ: حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ؛ فَأَهْدَتْهَا إِلَيْهِ مِنْ اللَّيْلِ؛ فَأَصْبَحَ عَرُوسًا، قَالَ: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْئٌ؛ فَلْيَجِئْ بِهِ، قَالَ: وَبَسَطَ نِطَعًا؛ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيئُ بِالسَّمْنِ؛ فَحَاسُوا حَيْسَةً؛ فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: خ/ال صلاۃ ۱۲ ال صلاۃ ۱۲ (۳۱۷)، م/النکاح ۱۴ (۱۳۶۵)، الجہاد ۴۳ (۱۳۶۵) (مختصر)، د/الخراج ۲۴ (۳۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰)، حم (۳/۱۰۱، ۱۸۶) (صحیح)
۳۳۸۲- انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خیبر فتح کرنے کے ارادے سے نکلے، ہم نے صلاۃ فجر خیبر کے قریب اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ رضی الله عنہ بھی سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا، جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خیبر کے تنگ راستے سے گزرنے لگے تو میرا گھٹنا آپ صلی الله علیہ وسلم کی ران سے چھونے اور ٹکرانے لگا، (اور یہ واقعہ میری نظروں میں اس طرح تازہ ہے گویا کہ) میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ران کی سفیدی (وچمک) دیکھ رہا ہوں، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو تین بار کہا:
''اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ،، اللہ بہت بڑا ہے، خیبر کی بربادی آئی، جب ہم کسی قوم کی آبادی (وحدود) میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس پر ڈرائی گئی قوم کی بدبختی کی صبح نمودار ہوجاتی ہے ۱؎۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: (جب ہم خیبر میں داخل ہوئے) لوگ اپنے کاموں پر جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ (عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں:) لوگ کہنے لگے: محمد (آ گئے) ہیں (اور بعض کی روایت میں ''الخمیس،، ۲؎؎ کا لفظ آیا ہے) یعنی لشکر آ گیا ہے۔ (بہر حال) ہم نے خیبر طاقت کے زور پر فتح کر لیا، قیدی اکٹھا کئے گئے، دحیہ کلبی نے آ کر کہا: اللہ کے نبی! ایک قیدی لونڈی مجھے دے دیجئے؟ آپ نے فرمایا: جاؤ ایک لونڈی لے لو، تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی الله عنہا کو لے لیا۔ (ان کے لے لینے کے بعد) ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے دحیہ کو صفیہ بنت حیی کو دے دیا، وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر گھرانے کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں ومناسب ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے (دحیہ کو) بلاؤ، اسے (صفیہ کو) لے کر آئیں، جب وہ انہیں لے کر آئے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک نظر دیکھا تو فرمایا: تم انہیں چھوڑ کر کوئی دوسری باندی لے لو۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کر لی، ثابت نے ان سے (یعنی انس سے) پوچھا: اے ابو حمزہ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کتنا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور ان سے شادی کر لی (یہی آزادی ان کا مہر تھا)۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: آپ راستے ہی میں تھے کہ ام سلیم رضی الله عنہا نے صفیہ کو آراستہ وپیراستہ کر کے رات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے صبح ایک دولہے کی حیثیت سے کی اور فرمایا: جس کے پاس جو کچھ (کھانے کی چیز) ہو وہ لے آئے، چمڑا (دستر خوان) بچھا یا گیا۔ کوئی پنیر لایا، کوئی کھجور اور کوئی گھی لایا اور لوگوں نے سب کو ملا کر ایک کر دیا (اور سب نے مل کر کھایا) یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
وضاحت ۱؎: وہ اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی وہاں اسلامی انقلاب آکر رہے گا اور ہم محمد اور محمد کے شیدائی جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔
وضاحت ۲؎: چونکہ لشکر کے پانچ حصے مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب ہوتے ہیں اس لئے اسے '' الخمیس،، کہا جاتا ہے۔
3383- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلالٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسًا يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ بِطَرِيقِ خَيْبَرَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ، حِينَ عَرَّسَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ؛ فِيمَنْ ضُرِبَ عَلَيْهَا الْحِجَابُ۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۶) (صحیح)
۳۳۸۳- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی الله عنہا کے ساتھ خیبر کے راستے میں تین دن گزارے، پھر ان کا شمار ان عورتوں میں ہو گیا جن پر پردہ فرض ہو گیا یعنی صفیہ آپ کی ازواج مطہرات میں ہو گئیں۔
3384- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَقَامَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ خَيْبَرَ وَالْمَدِينَةِ ثَلاثًا، يَبْنِي بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ؛ فَدَعَوْتُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى وَلِيمَتِهِ؛ فَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ خُبْزٍ وَلا لَحْمٍ، أَمَرَ بِالأَنْطَاعِ، وَأَلْقَى عَلَيْهَا مِنْ التَّمْرِ وَالأَقِطِ وَالسَّمْنِ؛ فَكَانَتْ وَلِيمَتَهُ؛ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ: إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ؟ فَقَالُوا: إِنْ حَجَبَهَا؛ فَهِيَ مِنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ، وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ مِمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ؛ فَلَمَّا ارْتَحَلَ وَطَّأَ لَهَا خَلْفَهُ، وَمَدَّ الْحِجَابَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ النَّاسِ۔
* تخريج: خ/النکاح ۱۳ (۵۰۸۵)، ۶۰ (۱۵۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۷)، حم (۳/۲۶۴) (صحیح)
۳۳۸۴- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ طیبہ کے درمیان صفیّہ بنت حيّ رضی الله عنہا کے ساتھ تین (عروسی) دن گزارے، میں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ولیمے کے لیے بلایا، اس ولیمے میں روٹی گوشت نہیں تھا، آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس (چمڑے کے) دسترخوان پر کھجوریں، پنیر اور گھی ڈالے گئے (اور انہیں ملا کر پیش کر دیا گیا) یہی آپ کا ولیمہ تھا۔ لوگوں نے کہا: صفیہ امہات المومنین میں سے ایک ہو گئیں یا ابھی آپ کی لونڈی ہی رہیں؟ پھر لوگ کہنے لگے: اگر آپ نے انہیں پردے میں رکھا تو سمجھو کہ یہ امہات المومنین میں سے ہیں اور اگر آپ نے انہیں پردے میں نہ بٹھایا تو سمجھو کہ یہ آپ کی باندی ہیں۔ پھر جب آپ نے کوچ فرمایا تو ان کے لیے کجاوے پر آپ کے پیچھے بچھونا بچھایا گیا اور ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا گیا (کہ دوسرے لوگ انہیں نہ دیکھ سکیں)۔