• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

26/أ-كِتَابُ عِشْرَةِ النِّسَائِ
۲۶/أ-کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گذارنے) کے احکام ومسائل


1-بَابُ حُبِّ النِّسَائِ
۱-باب: عورتوں سے پیار ومحبت کا بیان​


3391- حَدَّثَنِي الشَّيْخُ الإِمَامُ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى الْقُوْمَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلاَّمٌ أَبُو الْمُنْذِرِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا النِّسَائُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاةِ ".
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۴۳۵)، حم (۳/۱۲۸، ۱۹۹، ۲۸۵) (حسن صحیح)
۳۳۹۱- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''دنیا کی چیزوں میں سے عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک صلاۃ میں رکھی گئی ہے''۔


3392- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ الطُّوسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَائُ وَالطِّيبُ، وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹) (صحیح)
۳۳۹۲- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک صلاۃ میں رکھی گئی ہے''۔


3393- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمْ يَكُنْ شَيْئٌ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ النِّسَائِ مِنْ الْخَيْلِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱)، وأعادہ فی الخیل۲ (برقم۳۵۹۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''قتادہ '' مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
۳۳۹۳- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے بعد گھوڑوں سے زیادہ کوئی چیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو محبوب نہ تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2-مَيْلُ الرَّجُلِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ
۲-باب: شوہر کا میلان کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ ہونے کا بیان​


3394- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ امْرَأَتَانِ يَمِيلُ لإِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى جَائَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَدُ شِقَّيْهِ مَائِلٌ"۔
* تخريج: د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۳)، ت/النکاح ۴۱ (۱۱۴۱)، ق/النکاح ۴۷ (۱۹۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۳)، حم (۲/۲۹۵، ۳۴۷، ۴۷۱)، دي/النکاح ۲۴ (۲۲۵۲) (صحیح)
۳۳۹۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کے مقابلے دوسری طرف زیادہ میلان رکھے تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔


3395- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ، ثُمَّ يَعْدِلُ، ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ هَذَا فِعْلِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ، وَلا أَمْلِكُ " أَرْسَلَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ۔
* تخريج: د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۴)، ت/النکاح ۴۱ (۱۱۴۰)، ق/النکاح ۴۷ (۱۹۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹۰)، حم (۶/۱۴۴)، دي/النکاح ۲۵ (۲۲۵۳) (ضعیف)
(پہلا جملہ حسن ہے، تراجع الالبانی ۳۴۶)
۳۳۹۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان کچھ تقسیم کرتے تو برابر برابر کرتے، پھر فرماتے: اللہ! میرا یہ کام تو میرے دائرہ اختیار میں ہے، لہٰذا تو مجھے ملامت نہ کر ایسے کام کے سلسلے میں جو تیرے اختیار کا ہے اور مجھے اس میں کوئی اختیار نہیں۔
حماد بن زید نے یہ حدیث مرسل روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3-حُبُّ الرَّجُلِ بَعْضَ نِسَائِهِ أَكْثَرَ مِنْ بَعْضٍ
۳-باب: ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان​


3396- أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ؛ أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي؛ فَأَذِنَ لَهَا؛ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، وَأَنَا سَاكِتَةٌ؛ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيْ بُنَيَّةُ! أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَنْ أُحِبُّ؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَأَحِبِّي هَذِهِ؛ فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي قَالَتْ، وَالَّذِي قَالَ لَهَا؛ فَقُلْنَ لَهَا: مَا نَرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْئٍ؛ فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ فَاطِمَةُ: لاَوَاللَّهِ لاَ أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، - وَلَمْ أَرَامْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ، وَأَتْقَى لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَصْدَقَ حَدِيثًا، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَعْظَمَ صَدَقَةً، وَأَشَدَّ ابْتِذَالا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَتَقَرَّبُ بِهِ، مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ، كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَرَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالِ الَّتِي كَانَتْ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا، فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، وَوَقَعَتْ بِي؛ فَاسْتَطَالَتْ، وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ هَلْ أَذِنَ لِي فِيهَا، فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ؛ فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا بِشَيْئٍ حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ"۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۸ (۲۵۸۱)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۹۰)، حم (۶/۸۸، ۱۵۰) (صحیح)
۳۳۹۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں نے فاطمہ بنت رسول صلی الله علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ سے اجازت طلب کی، آپ میرے ساتھ چادر میں لیٹے ہوئے تھے، آپ نے انہیں اجازت دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابو قحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے ۱؎ عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور میں خاموش ہوں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا: اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے مجھے محبت ہے؟ وہ بولیں: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان سے محبت کرو، فاطمہ رضی الله عنہا نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے جب یہ بات سنی تو اٹھیں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس واپس آکر انہیں وہ ساری بات بتائی جو انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہی اور جو آپ نے ان (فاطمہ) سے کہی۔ وہ سب بولیں: ہم نہیں سمجھتے کہ تم نے ہمارا کام کر دیا، تم پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: آپ کی بیویاں آپ سے ابو قحافہ کی بیٹی کے تعلق سے عدل کی اپیل کرتی ہیں۔ فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی۔
عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: اب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس زینب بنت جحش کو بھیجا اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں -میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ وخیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہو جاتا تھا -چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ چادر میں اسی طرح تھے کہ جب فاطمہ رضی الله عنہا آپ کے پاس آئی تھیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابو قحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل وانصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں اور خوب زبان درازی کی، میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں، زینب رضی الله عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو برا نہیں لگے گا۔ چنانچہ جب میں نے انہیں برا بھلا کہا تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''یہ ابوبکر کی بیٹی ہے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی قلبی محبت میں تمام ازواج مطہرات برابر ہوں یا لوگ اپنے ہدایا بھیجنے میں ساری ازواج مطہرات کا خیال رکھیں۔


3397- أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ الْحِمْصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ فَذَكَرَتْ نَحْوَهُ.
وَقَالَتْ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ، فَاسْتَأْذَنَتْ، فَأَذِنَ لَهَا، فَدَخَلَتْ، فَقَالَتْ نَحْوَهُ.
٭خَالَفَهُمَا مَعْمَرٌ، رَوَاهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۳۹۶ (صحیح الإسناد)
۳۳۹۷- اس سند سے بھی ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ پھر انہوں نے اسی طرح بیان کیا اور وہ اس میں (صرف اتنا) کہتی ہیں: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں نے زینب کو بھیجا تو انہوں نے اجازت طلب کی، آپ نے انہیں اجازت دی، پھر وہ اسی طرح آگے کہتی ہیں، معمر نے اس کے برعکس عن الزہری، عن عروۃ، عن عائشہ کہہ کر روایت کی ہے۔


3398- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلْنَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقُلْنَ لَهَا: إِنَّ نِسَائَكَ - وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا - يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ: فَدَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ نِسَائَكَ أَرْسَلْنَنِي وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ؛ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُحِبِّينِي، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَحِبِّيهَا، قَالَتْ: فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ؛ فَأَخْبَرَتْهُنَّ مَاقَالَ، فَقُلْنَ لَهَا: إِنَّكِ لَمْ تَصْنَعِي شَيْئًا؛ فَارْجِعِي إِلَيْهِ؛ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ! لاَ أَرْجِعُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبَدًا، وَكَانَتْ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا؛ فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: أَزْوَاجُكَ أَرْسَلْنَنِي، وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيَّ تَشْتِمُنِي، فَجَعَلْتُ أُرَاقِبُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْظُرُ طَرْفَهُ: هَلْ يَأْذَنُ لِي مِنْ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا؟ قَالَتْ: فَشَتَمَتْنِي حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لاَ يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا؛ فَاسْتَقْبَلْتُهَا؛ فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَفْحَمْتُهَا؛ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ " قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمْ أَرَ امْرَأَةً خَيْرًا، وَلاَ أَكْثَرَ صَدَقَةً، وَلاَ أَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَبْذَلَ لِنَفْسِهَا فِي كُلِّ شَيْئٍ يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ زَيْنَبَ، مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ، كَانَتْ فِيهَا، تُوشِكُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ. قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ الَّذِي قَبْلَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۷۴)، حم (۶/۱۵۰) (صحیح الإسناد)
۳۳۹۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور انہوں نے فاطمہ رضی الله عنہا کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور ان سے کہا: آپ کی بیویاں - اور ایسا کلمہ کہا جس کا مفہوم یہ ہے-ابو قحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انصاف سے کام لیجیے۔ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئیں، آپ عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ ان کی چادر میں تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابو قحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''کیا تمھیں مجھ سے محبت ہے؟ '' کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان (عائشہ) سے محبت کرو، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: فاطمہ رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس واپس آکر انہیں وہ ساری بات بتائی جو آپ نے (فاطمہ سے) کہی، وہ سب بولیں: تم نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا، تم پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ فاطمہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی اور در حقیقت وہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی تھیں ۱؎، اب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس) زینب بنت جحش رضی الله عنہا کو بھیجا۔ اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں میں (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک) میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ بولیں: (اللہ کے رسول!) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابو قحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل وانصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں؟ زینب رضی الله عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو برا نہیں لگے گا۔ چنانچہ (جب) میں نے انہیں برا بھلا کہا (تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا) یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے زینب رضی الله عنہا سے فرمایا: یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔
عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ وخیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب رضی الله عنہا سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہو جاتا تھا۔
٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: اس (روایت) میں غلطی ہے صحیح وہی ہے جو اس سے پہلے گزری۔
وضاحت ۱؎: یعنی یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کرتیں جب کی آپ نے ان سے فرمایا تھا تو بھی عائشہ رضی الله عنہا سے محبت کر۔


3399- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُرَّةَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى؛ عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَائِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ"۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۳۲ (۳۴۱۱) مطولا، ۴۶ (۳۴۳۳) مطولا، فضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۹) مطولا، الأطعمۃ ۲۵ (۵۴۱۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۳۱)، ت/الأطعمۃ ۳۱ (۱۸۳۴) مطولا، ق/الأطعمۃ ۱۴ (۳۲۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۹)، حم (۴/۳۹۴، ۳۰۹) (صحیح)
۳۳۹۹- ابو موسی اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی تمام کھانوں پر'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ثرید: عربوں کا سب سے اعلیٰ درجے کا کھانا ہے یہ گوشت کا ہوتا ہے، اس میں لذت اور ذائقہ بھی ہے اور قوت وغذائیت بھی۔ کھانے میں بہت آسان ہوتا ہے اور اسے چبانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ یہ خوب صورتی بڑھانے اور آواز میں حسن پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔


3400- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَائِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِر الطَّعَامِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۰۵)، حم (۶/۱۵۹) (صحیح)
۳۴۰۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عورتوں پر عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی سارے کھانوں پر''۔


3401- أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الصَّغَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَاذَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أُمَّ سَلَمَةَ لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ؛ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا أَتَانِي الْوَحْيُ فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ إِلا هِيَ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۷۴)، وقد أخرجہ: خ/الہبۃ ۸ (۲۵۸۱)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۵)، ت/المناقب ۶۳ (۳۸۷۹) (صحیح)
۳۴۰۱- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے ام سلمہ! مجھے عائشہ کے تعلق سے ایذا نہ دو، اس لیے کہ اللہ کی قسم! اس کے علاوہ کوئی عورت تم میں سے ایسی نہیں ہے جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو''۔


3402- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رُمَيْثَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ نِسَائَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَّمْنَهَا أَنْ تُكَلِّمَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَتَقُولُ لَهُ: إِنَّا نُحِبُّ الْخَيْرَ كَمَا تُحِبُّ عَائِشَةَ؛ فَكَلَّمَتْهُ؛ فَلَمْ يُجِبْهَا؛ فَلَمَّا دَارَ عَلَيْهَا كَلَّمَتْهُ أَيْضًا؛ فَلَمْ يُجِبْهَا، وَقُلْنَ: مَا رَدَّ عَلَيْكِ؟ قَالَتْ: لَمْ يُجِبْنِي، قُلْنَ: لاَ تَدَعِيهِ حَتَّى يَرُدَّ عَلَيْكِ، أَوْ تَنْظُرِينَ مَايَقُولُ: فَلَمَّا دَارَ عَلَيْهَا كَلَّمَتْهُ؛ فَقَالَ: لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ إِلاَّ فِي لِحَافِ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ هَذَانِ الْحَدِيثَانِ صَحِيحَانِ عَنْ عَبْدَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۸)، حم (۶/۲۹۳) (صحیح)
۳۴۰۲- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویوں نے ان سے بات کی کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بات کریں کہ لوگ عائشہ کی باری کے دن ہدیے اور تحفے بھیجتے ہیں اور آپ سے کہیں کہ ہمیں بھی خیر سے اسی طرح محبت ہے جیسے آپ کو عائشہ سے ہے، چنانچہ انہوں نے آپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، جب ان کی باری کا دن آیا تو انہوں نے پھر بات کی، آپ نے انہیں جواب نہیں دیا۔ انہوں (بیویوں) نے کہا: آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمہیں کوئی جواب دیا؟ وہ بولیں: کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا: تم چھوڑنا مت، جب تک کوئی جواب نہ دے دیں۔ (یا یوں کہا:) جب تک تم دیکھ نہ لو کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں۔ جب پھر ان کی باری آئی تو انہوں نے آپ سے گفتگو کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ کے تعلق سے مجھے اذیت نہ دو، اس لیے کہ عائشہ کے لحاف کے علاوہ تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوتے ہوئے میرے پاس وحی نہیں آئی۔
٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: عبدہ سے مروی یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔


3403- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۷ (۲۵۷۴)، ۸ (۲۵۸۰)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۵)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۴۴)، وحم (۶/۲۹۳) (صحیح)
۳۴۰۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ ہدیے اور تحفے بھیجتے جس دن عائشہ کی باری ہوتی، وہ اس طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خوشی چاہتے تھے۔


3404- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ هُدَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: أَوْحَى اللَّهُ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا مَعَهُ؛ فَقُمْتُ فَأَجَفْتُ الْبَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ؛ فَلَمَّا رُفِّهَ عَنْهُ قَالَ لِي: " يَاعَائِشَةُ! إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلامَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۵۶) (ضعیف الإسناد)
۳۴۰۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر وحی نازل کی، میں آپ کے ساتھ تھی، میں اٹھی اور اپنے اور آپ کے درمیان دروازہ بھیڑ دیا، جب وحی ختم ہو گئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ''عائشہ! جبریل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ''۔


3405- أَخْبَرَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: "إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلامَ" قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، تَرَى مَا لا نَرَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۷۱)، حم (۶/۱۵۰) (صحیح)
۳۴۰۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''جبرئیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ''، انہوں نے کہا: ''وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' (جبرئیل کو عائشہ نے سلام کا جواب دیا اور کہا:) آپ تو وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھتے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی آپ جبرئیل کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی باتیں سن رہے ہیں حالانکہ ہم نہیں دیکھ رہے ہیں۔


3406- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَاعَائِشَةُ! هَذَا جِبْرِيلُ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلامَ " مِثْلَهُ سَوَائٌ .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا الصَّوَابُ، وَالَّذِي قَبْلَهُ خَطَأٌ۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۷)، فضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۸)، الأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، الإستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۷)، ت/المناقب ۶۳ (۳۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۶۶)، حم (۶/۸۸، ۱۱۷) (صحیح)
۳۴۰۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عائشہ! یہ جبرئیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ اور آگے ویسے ہی ہے جیسے اوپر گزرا''۔
٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہ روایت ٹھیک ہے، پہلی والی غلط ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی شعیب عن الزہری عن أبی سلمۃ عن عائشۃ کی سند ٹھیک ہے جب کہ معمر عن الزہری عن عروۃ عن عائشۃ کی سند میں غلطی ہے، کیونکہ عن عروۃ عن عائشۃ کی جگہ عن أبی سلمۃ عن عائشۃ ہونا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-بَاب الْغَيْرَةِ
۴-باب: غیرت کا بیان​


3407- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ؛ فَأَرْسَلَتْ أُخْرَى بِقَصْعَةٍ فِيهَا طَعَامٌ؛ فَضَرَبَتْ يَدَ الرَّسُولِ؛ فَسَقَطَتْ الْقَصْعَةُ؛ فَانْكَسَرَتْ؛ فَأَخَذَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِسْرَتَيْنِ؛ فَضَمَّ إِحْدَاهُمَا إِلَى الأُخْرَى؛ فَجَعَلَ يَجْمَعُ فِيهَا الطَّعَامَ، وَيَقُولُ غَارَتْ أُمُّكُمْ، كُلُوا؛ فَأَكَلُوا؛ فَأَمْسَكَ حَتَّى جَائَتْ بِقَصْعَتِهَا الَّتِي فِي بَيْتِهَا؛ فَدَفَعَ الْقَصْعَةَ الصَّحِيحَةَ إِلَى الرَّسُولِ، وَتَرَكَ الْمَكْسُورَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي كَسَرَتْهَا۔
* تخريج: د/البیوع ۹۱ (۳۵۶۷)، ق/الأحکام ۱۴ (۲۳۳۴) وقد أخرجہ: خ/المظالم ۳۴ (۲۴۸۱)، النکاح ۱۰۷ (۵۲۲۵)، ت/الأحکام ۲۳ (۱۳۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۳)، حم (۳/۱۰۵، ۲۶۳) (صحیح)
۳۴۰۷- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم امہات المومنین میں سے ایک کے پاس تھے، آپ کی کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ کھانا بھیجا، پہلی بیوی نے (غصہ سے کھانا لانے والے) کے ہاتھ پر مارا اور پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے برتن کے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک کو دوسرے سے جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کرنے لگے اور فرماتے جاتے تھے: تمہاری ماں کو غیرت آ گئی ہے (کہ میرے گھر اس نے کھانا کیوں بھیجا)۔ تم لوگ کھانا کھاؤ۔ لوگوں نے کھایا۔ پھر قاصد کو آپ نے روکے رکھا یہاں تک کہ جن کے گھر میں آپ تھے اپنا پیالہ لائیں تو آپ نے یہ صحیح سالم پیالہ قاصد کو عنایت کر دیا ۱؎ اور ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ چھوڑا جس نے اسے توڑا تھا۔
وضاحت ۱؎: بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں پیالے آپ کی ذاتی ملکیت تھے، ورنہ کسی ضائع اور برباد چیز کا بدلہ اسی کے مثل قیمت ہوا کرتا ہے، یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں پیالے قیمت میں برابر رہے ہوں گے۔


3408- أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا يَعْنِي أَتَتْ بِطَعَامٍ فِي صَحْفَةٍ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ؛ فَجَائَتْ عَائِشَةُ مُتَّزِرَةً بِكِسَائٍ، وَمَعَهَا فِهْرٌ؛ فَفَلَقَتْ بِهِ الصَّحْفَةَ؛ فَجَمَعَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ فِلْقَتَيْ الصَّحْفَةِ وَيَقُولُ: " كُلُوا: غَارَتْ أُمُّكُمْ " مَرَّتَيْنِ ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحْفَةَ عَائِشَةَ؛ فَبَعَثَ بِهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَأَعْطَى صَحْفَةَ أُمِّ سَلَمَةَ عَائِشَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۴۷) (صحیح)
۳۴۰۸- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک پیالے میں کھانا لے کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس آئیں۔ اتنے میں عائشہ رضی الله عنہا ایک چادر پہنے ہوئے آئیں، ان کے پاس ایک پتھر تھا، جس سے انہوں نے وہ پیالا مار کر دو ٹکرے کر دیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پیالے کے دونوں ٹکڑے جوڑ نے لگے اور کہہ رہے تھے: تم لوگ کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آ گئی، آپ نے دو بار کہا۔ پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عائشہ رضی الله عنہا کا پیالا لیا اور وہ ام سلمہ رضی الله عنہا کو بھجوا دیا اور ام سلمہ کا پیالا عائشہ کو دے دیا۔


3409- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ فُلَيْتٍ، عَنْ جَسْرَةَ بِنْتِ دَجَاجَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ صَانِعَةَ طَعَامٍ مِثْلَ صَفِيَّةَ، أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَائً فِيهِ طَعَامٌ؛ فَمَا مَلَكْتُ نَفْسِي أَنْ كَسَرْتُهُ؛ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَفَّارَتِهِ؛ فَقَالَ: " إِنَائٌ كَإِنَائٍ، وَطَعَامٌ كَطَعَامٍ "۔
* تخريج: د/البیوع ۹۱ (۳۵۶۸)، حم ۶/۱۴۸، ۲۷۷ (ضعیف)
۳۴۰۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ام المومنین صفیہ رضی الله عنہا کے جیسی کھانا بنانے والی کوئی عورت نہیں دیکھی، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک برتن بھیجا جس میں کھانا تھا، میں اپنے کو قابو میں نہ رکھ سکی اور میں نے برتن توڑ دیا پھر میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کے کفارے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''برتن کے جیسا برتن اور کھانے کے جیسا کھانا ''۔


3410- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ؛ فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلا؛ فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ: أَنَّ أَيَّتُنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؛ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا؛ فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ؛ فَقَالَ: لاَ بَلْ شَرِبْتُ عَسَلا عِنْدَزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ؛ فَنَزَلَتْ: { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ } " إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ " لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ { وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا } لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلا۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ التحریم ۱ (۴۹۱۲) مختصراً، الطلاق ۸ (۵۲۶۷)، والأیمان والنذور ۲۵ (۶۶۹۱)، الحیل ۱۲ (۶۹۷۲)، م/الطلاق ۳ (۱۴۷۴)، د/الأشربۃ ۱۱ (۳۷۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۲۲)، حم (۶/۲۲۱)، ویأتي عند المؤلف في الطلاق ۱۷ (برقم: ۳۴۵۰) وفي الأیمان والنذور ۲۰ برقم: ۳۸۲۶ (صحیح)
۳۴۱۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ام المومنین زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اور ان کے ہاں شہد پی رہے تھے، میں نے اور حفصہ رضی الله عنہا نے باہم مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر ۱؎؎ کی بو آ رہی ہے، آپ نے مغافیر کھایا ہے۔ آپ ان میں سے ایک کے پاس گئے تو اس نے یہی کہا، آپ نے فرمایا: نہیں، میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب آئندہ نہیں پیوں گا۔ تو عائشہ اور حفصہ (رضی الله عنہما) کی وجہ سے یہ آیت { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَك } ۲؎ اور {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ } ۳؎ نازل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس قول: میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت: {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا } ۴؎ نازل ہوئی ہے۔
وضاحت ۱؎: ایک قسم کا گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتا ہے۔
وضاحت ۲ ؎: اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (التحریم: ۱)۔
وضاحت ۳؎: (اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے)۔ (التحریم: ۴)
وضاحت ۴؎: اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (التحریم: ۳)۔


3411- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ حَرَمِيٌّ - هُوَ لَقَبُهُ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ يَطَؤُهَا؛ فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا عَلَى نَفْسِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ } إِلَى آخِرِ الآيَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲) (صحیح الإسناد)
۳۴۱۱- انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی، آپ اس سے مجامعت فرماتے تھے۔ عائشہ اور حفصہ رضی الله عنہا ایک دن آپ کے پاس بیٹھی رہیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپر حرام کر لی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ } إِلَى آخِرِ الآيَةِ (التحریم: ۱) نازل فرمائی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے پہلے والی حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اوپر شہد کو حرام کر لیا تھا۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے یہ دونوں واقعے آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔


3412- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى - هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ - عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: الْتَمَسْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْخَلْتُ يَدِي فِي شَعْرِهِ، فَقَالَ: قَدْ جَائَكِ شَيْطَانُكِ، فَقُلْتُ: أَمَا لَكَ شَيْطَانٌ؟ فَقَالَ: بَلَى وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۸۴) (صحیح الإسناد)
۳۴۱۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تفتیش کر رہی تھی چنانچہ میں نے اپنا ہاتھ آپ کے بالوں میں داخل کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا آپ کا شیطان نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا میں اس سے محفوظ رہتا ہوں۔


3413- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ؛ فَتَجَسَّسْتُهُ؛ فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ - أَوْ سَاجِدٌ - يَقُولُ: "سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ" فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي، إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي شَأْنٍ آخَرَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۱۳۲ (صحیح)
۳۴۱۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے۔ میں آپ کو تلاش کرنے لگی، دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدہ میں ہیں اور کہہ رہے ہیں: ''سُبْحَانَكَ وَ بِحَمْدِكَ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ'' (پاک ہے تیری ذات، تیری ہی تعریف ہے اور تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں)۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔


3414- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: افْتَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ؛ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ ذَهَبَ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، فَتَجَسَّسْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَإِذَا هُوَ رَاكِعٌ - أَوْ سَاجِدٌ - يَقُولُ: "سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ" فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي! إِنَّكَ لَفِي شَأْنٍ، وَإِنِّي لَفِي آخَرَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۶۹، ۱۱۳۱، ۱۱۳۲ (صحیح)
۳۴۱۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو غائب پایا، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس گئے ہوں گے، میں آپ کو تلاش کرنے لگی پھر میں لوٹی تو دیکھا کہ آپ رکوع یا سجدے میں ہیں، آپ کہہ رہے ہیں: ''سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ''میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کچھ کر رہے ہیں اور میں کچھ اور ہی گمان کر رہی تھی۔


3415- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: أَلاَ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي انْقَلَبَ؛ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَوَضَعَ رِدَائَهُ، وَبَسَطَ إِزَارَهُ عَلَى فِرَاشِهِ، وَلَمْ يَلْبَثْ إِلاَّ رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، فَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي، وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ، حَتَّى جَائَ الْبَقِيعَ؛ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ انْحَرَفَ وَانْحَرَفْتُ؛ فَأَسْرَعَ؛ فَأَسْرَعْتُ؛ فَهَرْوَلَ؛ فَهَرْوَلْتُ؛ فَأَحْضَرَ؛ فَأَحْضَرْتُ وَسَبَقْتُهُ؛ فَدَخَلْتُ، وَلَيْسَ إِلاَّ أَنْ اضْطَجَعْتُ؛ فَدَخَلَ فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشُ! رَابِيَةً - قَالَ سُلَيْمَانُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: حَشْيَا - قَالَ: لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؛ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ: أَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَلَهَدَنِي لَهْدَةً فِي صَدْرِي أَوْجَعَتْنِي، قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمْ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْوَضَعْتِ ثِيَابَكِ؛ فَنَادَانِي؛ فَأَخْفَى مِنْكِ؛ فَأَجَبْتُهُ وَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَظَنَنْتُ أَنَّكِ قَدْ رَقَدْتِ؛ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي؛ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ؛ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ ".
٭خَالَفَهُ حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَقَالَ: عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۰۳۹ (صحیح)
۳۴۱۵- محمد بن قیس سے روایت ہے کہ انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کو کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تم سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر اپنا تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی، جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بھیڑ دیا۔ میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی اور پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرۂ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! سانس کیوں پھولی ہے؟ (سلیمان بن داود نے کہا: میرا خیال ہے کہ میرے شیخ نے یوں فرمایا: '' حشیا، یعنی) تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ ورنہ مجھے لطیف وخبیر یعنی اللہ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا، آپ نے فرمایا: تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے بخوبی جانتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہاں، پھر کہا: جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں، انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ تمہیں جگاؤں۔ اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہا ئی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرئیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں ''۔ ٭حجاج بن محمد نے سند اس کے برعکس یوں بیان کی' عن ابن جریج، عن ابن ابی ملیکۃ، عن محمد بن قیس۔


3416- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ الْمِصِّيصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ قَالَتْ: أَلا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي تَعْنِي النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَوَضَعَ رِدَائَهُ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ؛ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَائَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ وَأَجَافَهُ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي؛ فَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ، حَتَّى جَائَ الْبَقِيعَ؛ فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ انْحَرَفَ؛ فَانْحَرَفْتُ؛ فَأَسْرَعَ؛ فَأَسْرَعْتُ؛ فَهَرْوَلَ؛ فَهَرْوَلْتُ؛ فَأَحْضَرَ؛ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ؛ فَدَخَلْتُ؛ فَلَيْسَ إِلا أَنْ اضْطَجَعْتُ؛ فَدَخَلَ فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ! حَشْيَا رَابِيَةً؟ قَالَتْ: لاَ، قَالَ: لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ: فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُهُ أَمَامِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ: " أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ " قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمْ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلام أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ؛ فَنَادَانِي؛ فَأَخْفَى مِنْكِ؛ فَأَجَبْتُهُ؛ فَأَخْفَيْتُ مِنْكِ؛ فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي؛ فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ؛ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ.
٭رَوَاهُ عَاصِمٌ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَائِشَةَ عَلَى غَيْرِ هَذَا اللَّفْظِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۰۳۹ (صحیح)
۳۴۱۶- محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کو کہتے ہوئے سنا: کیا میں تم سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اور اپنا ایک واقعہ نہ بیان کروں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ وہ بولیں: جس رات میری باری تھی، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میرے یہاں تھے، آپ عشاء سے لوٹے اور جوتے اپنے پیروں کے پاس رکھ لیے، اپنی چادر رکھی اور بستر پر تہبند بچھایا، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب آپ کو اندازہ ہوا کہ میں سو چکی ہوں، آپ نے آہستہ سے جوتے پہنے اور آہستہ سے چادر لی پھر دھیرے سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر دھیرے سے بھیڑ دیا، میں نے بھی اوڑھنی اپنے سر پر ڈالی، چادر اوڑھی، پھر تہبند پہن کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، تو آپ نے اپنے ہاتھ تین بار اٹھائے، قیام کو طویل کیا پھر پلٹے تو میں بھی پلٹی، اور تیزی سے چلے، میں بھی تیزی سے چلی، پھر آپ نے رفتار کچھ اور تیز کر دی تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی اور میں آپ سے آگے نکل گئی اور اندر داخل ہو گئی اور اب میں لیٹی ہی تھی کہ آپ اندر آ گئے اور فرمایا: کیا بات ہے عائشہ! پیٹ کیسا پھولا ہے، تمہاری سانسیں کیوں پھول رہی ہیں؟ بتاؤ ورنہ مجھے لطیف وخبیر یعنی اللہ تعالیٰ بتا دے گا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، پھر انہوں نے آپ کو پورا واقعہ بتایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو تمہارا ہی سایہ تھا جو میں نے اپنے آگے دیکھا؟ ''میں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے میرے سینے پر ایک ایسی تھپکی ماری کہ مجھے تکلیف ہوئی اور فرمایا: کیا تم سمجھتی ہو کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ انہوں نے کہا: کوئی بات چاہے لوگوں سے کتنی ہی مخفی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جان ہی لے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، (اور) کہا: جبرئیل میرے پاس آئے جب تم نے مجھے دیکھا، لیکن وہ اندر تمہارے سامنے نہیں آ سکتے تھے کہ تم اپنے کپڑے اتار چکی تھیں۔ انہوں نے مجھے پکارا اور تم سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا اور میں نے اسے تم سے چھپایا (یعنی دھیرے سے کہا) اور میں سمجھا کہ تم سو چکی ہو، اور مجھے ڈر تھا کہ تم تنہا ئی میں وحشت نہ کھاؤ، تو انہوں (جبرئیل) نے مجھے حکم دیا کہ میں اہل بقیع کے پاس جاؤں اور ان کے لیے استغفار کروں۔
٭عاصم نے یہ حدیث دوسرے الفاظ کے ساتھ عبداللہ بن عامر سے اور انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے۔


3417- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُهُ مِنْ اللَّيْلِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: ق/الجنائز ۳۶ (۱۵۴۶) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۲۶)، حم (۶/۷۱) (صحیح)
۳۴۱۷- اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رات کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے غائب پایا اور پھر پوری حدیث بیان کی۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

27-كِتَابُ الطَّلاقِ
۲۷-کتاب: طلاق کے احکام ومسائل​

1-بَابُ وَقْتِ الطَّلاقِ لِلْعِدَّةِ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ
۱-باب: عورتوں کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دی جانے والی عدت کا بیان​


3418- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَاسْتَفْتَى عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَقَالَ: " مُرْ عَبْدَاللَّهِ؛ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يَدَعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضَتِهَا هَذِهِ، ثُمَّ تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى؛ فَإِذَا طَهُرَتْ فَإِنْ شَائَ فَلْيُفَارِقْهَا، قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَائَ فَلْيُمْسِكْهَا؛ فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲۰)، حم (۲/۵۴) (صحیح)
۳۴۱۸- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ کہہ کر کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے مسئلہ پوچھا (کہ کیا اس کی طلاق صحیح ہوئی ہے)؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عبداللہ سے کہیے (طلاق ختم کر کے) اسے لوٹا لے (یعنی اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے اپنے اس حیض سے پاک ہو لینے دے، پھر جب وہ دوبارہ حائضہ ہو اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو وہ اگر اسے چھوڑ دینا چاہے تو اسے جماع کرنے سے پہلے چھوڑ دے اور اگر اسے رکھنا چاہے تو اسے رکھ لے (اور اس سے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرے) یہ ہے وہ عدت جس کے مطابق اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے''۔


3419- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَائَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَائَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ؛ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ "۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱ (۵۲۵۱)، ۴۴ (۵۳۳۲)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۶)، ط/الطلاق ۲۱ (۵۳)، حم (۶/۶، ۵۴، ۶۳، ۱۰۲، ۱۲۴)، دي/الطلاق ۱ (۲۳۰۸) (صحیح)
۳۴۱۹- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عبداللہ سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے (یعنی طلاق ختم کر کے اسے اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے روکے رکھے جب تک کہ وہ حیض سے پاک نہ ہو جائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہو (جب وہ دوبارہ حیض سے پاک ہو جائے) تو چاہے تو اسے روک لے اور چاہے تو اسے چھونے (اس کے پاس جانے اور اس سے صحبت کرنے) سے پہلے اسے طلاق دے دے۔ یہی وہ عدت ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے''۔


3420- أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، قَالَ: سُئِلَ الزُّهْرِيُّ كَيْفَ الطَّلاَقُ لِلْعِدَّةِ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ؛ فَقَالَ: " لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً وَتَطْهُرَ؛ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا؛ فَذَاكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ، كَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ " قَالَ: عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَرَاجَعْتُهَا وَحَسَبْتُ لَهَا التَّطْلِيقَةَ الَّتِي طَلَّقْتُهَا۔
* تخريج: م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر سورۃ الطلاق ۱ (۴۹۰۸)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۱)، ت/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، ق/الطلاق ۳ (۲۱۰۹)، حم۲/۲۶، ۵۸، ۶۱، ۸۱، ۱۳۰ (صحیح)
۳۴۲۰- زبیدی کہتے ہیں: امام زہری سے پوچھا گیا: عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے؟ (اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت: {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ } (الطلاق: 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا: سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم یہ سن کر غصہ ہوئے اور فرمایا: اسے رجوع کر لینا چاہیے، پھر اسے روکے رکھے رہنا چاہیئے یہاں تک کہ (پھر) اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اگر اسے طلاق دے دینا ہی مناسب سمجھے تو طہارت کے ایام میں طلاق دے دے ہاتھ لگانے سے پہلے۔ عدت والی طلاق کا یہی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں نے اسے لوٹا لیا اور جو طلاق میں اسے دے چکا تھا اسے بھی شمار کر لیا (کیونکہ ان کے خیال میں وہ طلاق اگر چہ سنت کے خلاف اور حرام تھی پروہ پڑ گئی تھی)۔


3421- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا؟ فَقَالَ لَهُ: طَلَّقَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِيُرَاجِعْهَا" فَرَدَّهَا عَلَيَّ، قَالَ: " إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ، أَوْ لِيُمْسِكْ " قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقَالَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ} فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ۔
* تخريج: م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۴۳)، حم (۲/۶۱، ۸۰-۱۳۹) (صحیح)
۳۴۲۱- ابو الزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمن بن ایمن کو ابن عمر رضی الله عنہما سے سوال کرتے سنا: آپ کی کیا رائے ہے ایسے شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی؟ انہوں نے جواب دیا: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں اس وقت طلاق دی جب وہ حیض سے تھی تو عمر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ بتاتے ہوئے مسئلہ پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کی بیوی حالت حیض میں تھی اس نے اسے اسی حالت میں طلاق دے دی ہے؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''عبداللہ کو اسے لوٹا لینا چاہیے''، اور پھر اسے مجھ پر لوٹا بھی دیا، فرمایا: ''جب وہ حیض سے پاک وصاف ہو جائے تب اسے یا تو طلاق دے دینا چاہیے یا اسے روک لینا چاہیے'' (اسے دونوں کا اختیار ہے جیسی اس کی مرضی وپسند ہو)۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: (اس کے بعد) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پڑھا { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ }.
وضاحت ۱؎: اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو۔ (الطلاق: ۱)


3422- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ } قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۹) (صحیح)
۳۴۲۲- مجاہد (اپنے استاذ) ابن عباس رضی الله عنہما سے اللہ تعالیٰ کے قول { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَائَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ } کے سلسلے میں روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے {لِعِدَّتِهِنَّ}کی جگہ'' قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ'' پڑھا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے اور اس سے اس طہر میں صحبت بھی نہ کی جائے تب طلاق دینی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2-بَاب طَلاقِ السُّنَّةِ
۲-باب: مسنون طلاق کا بیان ۱؎​


3423- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ قَالَ: طَلاَقُ السُّنَّةِ تَطْلِيقَةٌ وَهِيَ طَاهِرٌ فِي غَيْرِ جِمَاعٍ؛ فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى؛ فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى، ثُمَّ تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِكَ بِحَيْضَةٍ، قَالَ الأَعْمَشُ: سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ؛ فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: ق/الطلاق۲ (۲۰۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۱۱) (صحیح)
۳۴۲۳- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت اس طرح ہے کہ جب عورت پاک ہو اور اس پاکی کے دنوں میں عورت سے جماع نہ کیا ہو تو اسے ایک طلاق دے، پھر جب دوبارہ اسے حیض آئے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے دوسری طلاق دے پھر جب (تیسری بار) حیض سے ہو جائے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے ایک اور طلاق دے۔ پھر اس کے بعد عورت ایک حیض کی عدت گزارے۔
اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی اسی طرح بتایا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: سنت کے موافق طلاق کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی ہر طہر میں ایک طلاق دینا سنت کے مطابق ہے، جب کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا منع ہے۔


3424- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: طَلاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا فِي غَيْرِ جِمَاعٍ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۴۲۳ (صحیح)
۳۴۲۴- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے ہوئے طلاق دے۔
وضاحت ۱؎: سنی طلاق کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والے کا عمل مسنون اور باعث اجر ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا شخص جو طلاق کا حاجت مند ہو اس کے لئے سنت میں جو مباح اور جائز طریقہ وارد ہے وہ یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3-بَابُ مَا يَفْعَلُ إِذَا طَلَّقَ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ
۳-باب: حالت حیض میں مردعورت کو طلاق دے دے تو کیا کرے​


3425- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً؛ فَانْطَلَقَ عُمَرُ؛ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ؛ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرْ عَبْدَاللَّهِ فَلْيُرَاجِعْهَا؛ فَإِذَا اغْتَسَلَتْ فَلْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَحِيضَ؛ فَإِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْ حَيْضَتِهَا الأُخْرَى؛ فَلا يَمَسَّهَا حَتَّى يُطَلِّقَهَا؛ فَإِنْ شَائَ أَنْ يُمْسِكَهَا؛ فَلْيُمْسِكْهَا؛ فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۱۲۳) (صحیح)
۳۴۲۵- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی۔ تو عمر رضی الله عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تونبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ اسے لوٹا لے۔ پھر جب (حیض سے فارغ ہو کر) وہ غسل کر لے تو اسے چھوڑے رکھے پھر جب حیض آئے اور اس دوسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل کر لے تو اسے نہ چھوئے یعنی (صحبت نہ کرے) یہاں تک کہ اسے طلاق دے دے پھر اسے روک لینا چاہے تو روک لے (اور طلاق نہ دے) یہی وہ عدت ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔


3426- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرٌ، أَوْ حَامِلٌ "۔
* تخريج: م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۱)، ت/الطلاق ۱ (۱۱۷۶)، ق/الطلاق ۳ (۲۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۷)، حم (۲/۲۶، ۵۸، دي/الطلاق ۱ (۲۳۰۹) (صحیح)
۳۴۲۶- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہوا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے، پھر جب وہ (حیض سے) پاک ہو جائے یا حاملہ ہو جائے تب اس کو طلاق دے'' (اگر دینا چاہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-بَاب الطَّلاقِ لِغَيْرِ الْعِدَّةِ
۴-باب: عدت کا لحاظ کیے بغیر طلاق دینے کا بیان​


3427- أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَرَدَّهَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى طَلَّقَهَا وَهِيَ طَاهِرٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶۸) (صحیح)
۳۴۲۷- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (اس طلاق کو باطل قرار دے کر) اس عورت کو انہیں لوٹا دیا۔ پھر جب وہ حیض سے پاک وصاف ہو گئی تو انہوں نے اسے طلاق دی (اور وہ طلاق نافذ ہوئی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5-الطَّلاقُ لِغَيْرِ الْعِدَّةِ وَمَا يُحْتَسَبُ مِنْهُ عَلَى الْمُطَلِّقِ
۵-باب: عدت کا لحاظ کیے بغیر طلاق دے دینے پر کیا اس طلاق کا شمار ہوگا؟​


3428- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؟ فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا؛ فَقُلْتُ لَهُ: فَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؛ فَقَالَ: مَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۲ (۵۲۵۲)، ۳ (۵۲۵۸)، ۴۵ (۵۳۳۳)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۳)، ت/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، ق/الطلاق ۲ (۲۰۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۳)، حم (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۵ (صحیح)
۳۴۲۸- یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے اس مرد کے متعلق (مسئلہ) پوچھا جس کی بیوی حیض سے ہو اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو؟ انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ (اس وقت) حیض سے تھی تو عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر کو حکم دیا کہ اسے لوٹا لے اور اس کی عدت کا انتظار کرے۔
(یونس بن جبیر کہتے ہیں) میں نے ان سے کہا: یہ طلاق جو وہ دے چکا ہے کیا وہ اس کا شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جاتا (اور رجوع نہ کرتا یا رجوع کرنے سے پہلے مر جاتا) اور وہ حماقت کر گزرتا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ ہو جانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ کا''مُرْہ فَلْیُرَاجِعْھَا''کہنا بے معنی ہوگا۔ جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگر چہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔


3429- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَقَالَ أَتَعْرِفُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ؛ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ؛ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا، قُلْتُ لَهُ: إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، أَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ فَقَالَ: مَهْ، وَإِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۴۲۸ (صحیح)
۳۴۲۹- یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حیض سے تھی طلاق دے دی (تو اس کا مسئلہ کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھی۔ تو عمر رضی الله عنہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا لے، پھر اس کی عدت کا انتظار کرے۔ میں نے ان سے پوچھا: جب آدمی اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دے تو کیا وہ اس طلاق کو شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اگر وہ رجوع نہ کرتا اور حماقت کرتا۔ (تو کیا وہ شمار نہ ہوتی؟ ہوتی، اس لیے ہوگی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6-الثَّلاثُ الْمَجْمُوعَةُ وَمَا فِيهِ مِنْ التَّغْلِيظِ
۶-باب: اکٹھی تین طلاقیں دینا سخت نا پسندیدہ عمل ہے​


3430- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا؛ فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ: " أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ؟ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ " حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلاأَقْتُلُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۷) (ضعیف)
(سند میں مخرمہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)
۳۴۳۰- محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ (بھڑک اٹھے اور) غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: ''میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو ۱؎ ''، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔
وضاحت ۱؎: یعنی اللہ کا حکم کیا ہے اسے نہیں دیکھتے؟ میں تمہارے درمیان موجود ہوں مجھ سے نہیں پوچھتے اور سمجھتے؟ اللہ کے فرمان کے خلاف عمل کرنے لگے ہو کیا اب یہی ہوگا۔
 
Top