• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-تَأْوِيلُ هَذِهِ الآيَةِ عَلَى وَجْهٍ آخَرَ
۱۷-باب: اس آیت کی ایک دوسرے انداز سے تفسیر​


3450- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ، وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلاً؛ فَتَوَاصَيْتُ وَحَفْصَةُ: أَيَّتُنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ؛ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَيْهِمَا؛ فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ؛ فَقَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ، وَقَالَ: لَنْ أَعُودَ لَهُ؛ فَنَزَلَ { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاأَحَلَّ اللَّهُ لَكَ } { إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ } لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ { وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا } لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلاً. كُلُّهُ فِي حَدِيثِ عَطَائٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۴۱۰ (صحیح)
۳۴۵۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم زینب رضی الله عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پی کر آتے تو ہم نے اور حفصہ نے آپس میں صلاح ومشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم آئیں وہ کہے کہ (کیا بات ہے) مجھے آپ کے منہ سے مغافیر ۱؎ کی بو آتی ہے، آپ ہم میں سے ایک کے پاس آئے تو اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ آپ نے کہا: میں نے تو کچھ کھایا پیا نہیں بس زینب کے پاس صرف شہد پیا ہے (اور جب تم ایسا کہہ رہی ہو کہ اس سے مغافیر کی بو آتی ہے) تو آئندہ نہ پیوں گا۔ چنانچہ عائشہ اور حفصہ کی وجہ سے یہ آیت: {يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَك } ۲؎ اور {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ } ۳؎ نازل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس قول: میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت: {وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا} ۴؎ نازل ہوئی ہے، اور یہ ساری تفصیل عطا کی حدیث میں موجود ہے۔
وضاحت ۱؎: مغفر ایک قسم کی گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتی ہے ج /مغافیر۔
وضاحت ۲ ؎: اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (التحریم: ۱)۔
وضاحت ۳؎: (اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے)۔ (التحریم: ۴)
وضاحت ۴؎: اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی (التحریم: ۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب الْحَقِي بِأَهْلِكِ
۱۸-باب: شوہر بیوی سے کہے ''جاؤ اپنے گھر والوں میں رہو'' اس کے حکم کا بیان​


3451- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيِّ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي؛ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۵) (صحیح)
۳۴۵۱- عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی الله عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (یہ فرمایا:) ... ۱؎۔
وضاحت ۱؎: بعد والی حدیث میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔


3452- ح و أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ؛ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَسَاقَ قِصَّتَهُ، وَقَالَ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا؟ قَالَ: لاَ، بَلْ اعْتَزِلْهَا، فَلاَ تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذَا الأَمْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۵) (صحیح)
۳۴۵۲- عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی الله عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قاصد آکر کہتا ہے: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔
وضاحت ۱؎: گویا'' الحقی بأھلک،، سے طلاق اس وقت واقع ہو گی جب اسے طلاق کی نیت سے کہا جائے۔


3453- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَبَلَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ - وَهُوَ أَحَدُ الثَّلاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ - يُحَدِّثُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى صَاحِبَيَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا نِسَائَكُمْ، فَقُلْتُ لِلرَّسُولِ: أُطَلِّقُ امْرَأَتِي أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: لاَ بَلْ تَعْتَزِلُهَا فَلاَ تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي فِيهِمْ، فَلَحِقَتْ بِهِمْ۔
* تخريج: خ/الوصایا ۱۶ (۲۷۵۷)، الجہاد ۱۰۳ (۲۹۵۷)، ۱۹۸ (۳۰۸۸)، المناقب ۲۳ (۳۵۵۶)، المغازي ۳ (۳۹۵۱)، تفسیر سورۃ البراء ۃ ۱۴ (۴۶۷۳)، ۱۷ (۴۶۷۷)، ۱۸ (۴۶۷۶)، ۱۹ (۴۶۷۸)، الاستئذان۲۱ (۶۲۵۵)، الأیمان والنذور ۲۴ (۶۶۹۰)، الأحکام ۵۳ (۲۷۲۵)، م/المسافرین ۱۲ (۲۷۶۹)، د/الطلاق ۱۱ (۲۲۰۲)، الجہاد ۱۷۳ (۲۷۷۳)، ۱۷۸ (۲۷۸۱)، الأیمان والنذور ۲۹ (۳۳۱۷)، وقد أخرجہ: ت/تفسیر التوبۃ (۳۱۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۱)، حم (۳/۴۵۶، ۴۵۷، ۴۵۹)، دي/ال صلاۃ ۱۸۴ (۱۵۶۱) (صحیح)
۳۴۵۳- عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ۱؎، کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور انہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی۔
وضاحت ۱؎: یعنی جن کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے۔
وضاحت ۲؎: مرارہ بن ربیع العمری، ھلال بن امیہ الواقفی رضی الله عنہما۔


3454- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبًا يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ: فِيهِ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي وَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: بَلْ اعْتَزِلْهَا، وَلاتَقْرَبْهَا، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لاَمْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، وَكُونِي عِنْدَهُمْ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ فِي هَذَا الأَمْرِ. خَالَفَهُمْ مَعْقِلُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۵۳ (صحیح)
۳۴۵۴- عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی الله عنہ کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، میں نے (اس سے) کہا: میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا (طلاق نہ دو) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے) ایسا ہی پیغام دے کر بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ رہو اور اس وقت تک رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔
معقل بن عبید اللہ نے ان سب کے خلاف ذکر کیا ہے (تفصیل آگے حدیث میں آ رہی ہے)۔


3455- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبًا يُحَدِّثُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى صَاحِبَيَّ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا نِسَائَكُمْ؛ فَقُلْتُ لِلرَّسُولِ: أُطَلِّقُ امْرَأَتِي أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: لاَ، بَلْ تَعْتَزِلُهَا وَلاَ تَقْرَبْهَا؛ فَقُلْتُ لامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ؛ فَكُونِي فِيهِمْ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَلَحِقَتْ بِهِمْ. ٭خَالَفَهُ مَعْمَرٌ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۴۵۳ (صحیح)
۳۴۵۵- عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب رضی الله عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو، بلکہ اس سے الگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ، (یہ سن کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور جب تک اللہ عزوجل فیصلہ نہ کر دے انہیں لوگوں میں رہو، تو بیوی انہیں لوگوں کے پاس جا کر رہنے لگی۔
٭ (ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں) معمر نے معقل کے خلاف ذکر کیا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اشارہ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ معقل اور معمر دونوں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ معقل نے اس روایت میں ''لاتقربھا''کے بعد ''فقلت لامرأتی الحقی باھلک......''ذکر کیا ہے۔ لیکن معمر نے اپنی روایت میں جو اب آ رہی ہے اور ان کے استاد زہری ہی کے واسطہ سے آ رہی ہے''لاتقربھا ''کے بعد ''فقلت لامرأتی الحقی باھلک...'' کا ذکر نہیں کیا ہے۔


3456- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ - وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ - عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ فِي حَدِيثِهِ: إِذَا رَسُولٌ مِنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَتَانِي؛ فَقَالَ: اعْتَزِلْ امْرَأَتَكَ؛ فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا؟ قَالَ: لاَ وَلَكِنْ لاَتَقْرَبْهَا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ " الْحَقِي بِأَهْلِكِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۵۴) (صحیح)
۳۴۵۶- عبدالرحمن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا: اچانک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہو جاؤ، میں نے اس سے کہا: میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے ''الحقی باھلک'' کا ذکر نہیں کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19-بَاب طَلاقِ الْعَبْدِ
۱۹-باب: غلام کے طلاق دینے کا بیان​


3457- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ، أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَامْرَأَتِي مَمْلُوكَيْنِ؛ فَطَلَّقْتُهَا تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ أُعْتِقْنَا جَمِيعًا؛ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ؛ فَقَالَ: إِنْ رَاجَعْتَهَا كَانَتْ عِنْدَكَ عَلَى وَاحِدَةٍ، قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . خَالَفَهُ مَعْمَرٌ۔
* تخريج: د/الطلاق ۶ (۲۱۸۷)، ق/الطلاق ۳۲ (۲۰۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۱)، حم (۱/۲۲۹) (ضعیف)
(اس کے راوی '' عمر بن معتب '' ضعیف ہیں۔)
۳۴۵۷- ابوالحسن مولیٰ بنی نوفل کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں غلام تھے، میں نے اسے دو طلاقیں دے دی، پھر ہم دونوں اکٹھے ہی آزاد کر دیے گئے۔ میں نے ابن عباس سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: اگر تم اس سے رجوع کر لو تو وہ تمہارے پاس رہے گی اور تمھیں ایک طلاق کا حق حاصل رہے گا، یہی فیصلہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کیا ہے۔
معمر نے اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔


3458- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ، عَنْ الْحَسَنِ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ عُتِقَا، أَيَتَزَوَّجُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عَمَّنْ؟ قَالَ: أَفْتَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لِمَعْمَرٍ: الْحَسَنُ هَذَا مَنْ هُوَ؟ لَقَدْ حَمَلَ صَخْرَةً عَظِيمَةً۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۴۵۸- بنی نوفل کے غلام حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما سے ایک غلام کے متعلق جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر وہ دونوں آزاد کر دیے گیے، پوچھا گیا: کیا وہ اس سے شادی کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، (کر سکتا ہے) کسی نے کہا کس سے سن کر یہ بات کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس مسئلہ میں یہی فتویٰ دیا ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن المبارک نے معمر سے کہا: یہ حسن کون ہیں؟ انہوں نے تو اپنے سر پر ایک بڑی چٹان لاد لی ہے ۱ ؎۔
وضاحت ۱؎: غلام دو طلاق دے دے تو عورت بائنہ ہو جاتی ہے، بائنہ ہو جانے کے بعد عورت جب تک کسی اور سے شادی نہ کر لے اور طلاق یا موت کسی بھی وجہ سے اس کی علاحدگی نہ ہو جائے تو وہ عورت پہلے شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں دونوں کو آزاد ہو جانے کے بعد بغیر حلالہ کے شادی کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اب یہ روایت - اللہ نہ کرے - غلط ہوئی تو اس طرح کی سبھی شادیوں کا وبال اس راوی حسن کے ذمہ آئے گا اور وہ گویا ایک بڑی چٹان کے نیچے دب کر رہ جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَتَى يَقَعُ طَلاقُ الصَّبِيِّ
۲۰-باب: بچہ کی طلاق کس عمر میں واقع ہوگی​


3459- أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنَا قُرَيْظَةَ أَنَّهُمْ عُرِضُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ؛ فَمَنْ كَانَ مُحْتَلِمًا، أَوْ نَبَتَتْ عَانَتُهُ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مُحْتَلِمًا، أَوْ لَمْ تَنْبُتْ عَانَتُهُ تُرِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۶۱)، حم (۴/۳۴، ۵/۳۷۲) (صحیح)
(آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۴۵۹- قُریظہ رضی الله عنہ کے دونوں بیٹے روایت کرتے ہیں کہ وہ سب (یعنی بنو قریظہ کے نوجوان) قریظہ کے (فیصلے کے) دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے، تو جسے احتلام ہونے لگا تھا، یا جس کی ناف کے نیچے کے بال اگ آئے تھے اسے (جوان قرار دے کر) قتل کر دیا گیا۔ اور جسے ابھی احتلام ہونا شروع نہیں ہوا تھا یا جس کی ناف کے نیچے کے بال نہیں آئے تھے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا گیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو جائے اور اچھا برا سمجھنے نہ لگے اسے طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے۔


3460- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ، قَالَ: كُنْتُ يَوْمَ حُكْمِ سَعْدٍ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ غُلاَمًا؛ فَشَكُّوا فِيَّ؛ فَلَمْ يَجِدُونِي أَنْبَتُّ؛ فَاسْتُبْقِيتُ فَهَا أَنَا ذَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ۔
* تخريج: د/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، ت/السیر ۲۹ (۱۵۸۴)، ق/الحدود ۴ (۲۵۴۱)، حم (۴/۳۱۰، ۳۸۳، و۵/۳۱۱، ۳۱۲، دي/السیر ۲۶ (۲۵۰۷)، ویأتي عند المؤلف في القطع ۱۷ برقم: ۴۹۸۴، ۴۴۰۵ (صحیح)
۳۴۶۰- عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ جب سعد رضی الله عنہ نے بنو قریظہ کے مردوں کے قتل کا فیصلہ دیا تو اس وقت میں بچہ تھا، لوگوں کو میرے متعلق شبہ ہوا (کہ میں فی الواقع بچہ ہوں یا جوان؟ جب انہوں نے تحقیق کی) تو مجھے زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا اور میں بچ رہا۔ چنانچہ میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔


3461- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ، وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْهُ، وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَهُ۔
* تخريج: خ/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، د/الخراج ۱۶ (۲۹۵۷)، الحدود ۱۷ (۴۴۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۵۳)، وقد أخرجہ: م/الإمارۃ ۲۳ (۱۸۶۸)، ت/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، الجہاد ۳۱ (۱۷۱۱)، ق/الحدود ۴ (۵۲۴۳)، حم (۲/۱۷) (صحیح)
۳۴۶۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ۱۴سال کی عمر میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوئہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔
وضاحت ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَنْ لا يَقَعُ طَلاقُهُ مِنْ الأَزْوَاجِ
۲۱-باب: کن شوہروں کی طلاق واقع نہیں ہوتی​


3462- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاثٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبُرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ أَوْ يُفِيقَ"۔
* تخريج: د/الحدود ۱۶ (۴۳۹۸)، ق/الطلاق ۱۵ (۲۰۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۳۵)، حم (۶/۱۰۰، ۱۰۱، ۱۴۴)، دي/الحدود ۱ (۲۳۴۳) (صحیح)
۳۴۶۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ۱؎ ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے ۲؎، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل وہوش میں آ جائے ''۔
وضاحت ۱؎: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان حالات میں ان پر گناہ کا حکم نہیں لگتا۔
وضاحت ۲؎: یعنی سونے کی حالت میں جو کچھ کہہ دے اس کا اعتبار نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَنْ طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ
۲۲-باب: اپنے جی میں طلاق دینے والے کی طلاق کے حکم کا بیان​


3463- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلاَّمٍ، قَالاَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي كُلَّ شَيْئٍ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۲) (صحیح)
۳۴۶۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم، (عبدالرحمن کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں اور اس پہ عمل نہ کریں ''۔


3464- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ، وَحَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ، أَوْ تَتَكَلَّمْ بِهِ "۔
* تخريج: خ/العتق ۶ (۲۵۲۸)، الطلاق ۱۱ (۵۲۶۹)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، م/الإیمان ۵۸ (۱۲۷)، د/الطلاق ۱۵ (۲۲۰۹)، ت/الطلاق ۸ (۱۱۸۳)، ق/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۶)، حم۲/ ۲۵۵، ۳۹۳، ۳۹۸، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (صحیح)
۳۴۶۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ عزوجل نے ہماری امت کے وسوسوں اور جی میں گزرنے والے خیالات سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں ''۔


3465- أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ لأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۴۶۴ (صحیح)
۳۴۶۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میری امت کے لوگوں کے دل میں جو بات کھٹکتی اور گزرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-الطَّلاقُ بِالإِشَارَةِ الْمَفْهُومَةِ
۲۳-باب: سمجھ میں آنے والے اشارہ سے طلاق کے حکم کا بیان​


3466- أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَارٌ فَارِسِيٌّ طَيِّبُ الْمَرَقَةِ؛ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعِنْدَهُ عَائِشَةُ؛ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ تَعَالَ، وَأَوْمَأَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ: أَيْ وَهَذِهِ؟ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الآخَرُ هَكَذَا بِيَدِهِ: أَنْ لاَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا۔
* تخريج: م/الأشربۃ ۱۹ (۲۰۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۵)، حم (۳/۱۲۳، ۲۷۲) (صحیح)
۳۴۶۶- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو اچھا شوربہ بناتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس عائشہ رضی الله عنہا بھی موجود تھیں، اس نے آپ کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا، آپ نے عائشہ رضی الله عنہا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: کیا انہیں بھی لے کر آؤں، اس نے ہاتھ سے اشارہ سے منع کیا دو یا تین بار کہ نہیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کوئی اشارۃً طلاق دے اور معلوم ہو جائے کہ طلاق دے رہا ہے تو طلاق پڑ جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-بَاب الْكَلامِ إِذَا قُصِدَ بِهِ فِيمَا يَحْتَمِلُ مَعْنَاهُ
۲۴-باب: اگر کسی بات کے کئی معنی نکلتے ہوں تو کہنے والا جو معنی مراد لے گا وہی معنی صحیح مانا جائے گا​


3467- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. - وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لامْرِئٍ مَا نَوَى؛ فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ؛ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا؛ فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۷۵ (صحیح)
۳۴۶۷- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا، جو اللہ ورسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کا ثواب ملے گا) اور جو کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے دنیا ملے گی، یا عورت حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے عورت ملے گی۔ ہجرت جس قصد وارادے سے ہوگی اس کا حاصل اس کے اعتبار سے ہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-بَاب الإِبَانَةِ وَالإِفْصَاحِ بِالْكَلِمَةِ الْمَلْفُوظِ بِهَا إِذَا قُصِدَ بِهَا لِمَا لاَيَحْتَمِلُ مَعْنَاهَا لَمْ تو جب شَيْئًا وَلَمْ تُثْبِتْ حُكْمًا
۲۵-باب: زبان سے ادا کیے ہوئے کلمہ کا اگر کوئی وہ معنی ومفہوم مراد لے جو اس سے نہیں نکلتا تو اس سے کوئی حکم ثابت نہ ہوگا​


3468- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ الأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ: " انْظُرُوا كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، إِنَّهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا، وَأَنَا مُحَمَّدٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۸۲)، حم (۲/۲۴۴، ۳۴۰، ۳۶۹) (صحیح)
۳۴۶۸- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنی ومفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہو سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-بَاب التَّوْقِيتِ فِي الْخِيَارِ
۲۶-باب: شوہر کے پاس رہنے یا اس سے الگ ہونے کے اختیار کی مدت متعین کرنے کا بیان​


3469- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمُوسَى بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي؛ فَقَالَ: "إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلاَ عَلَيْكِ أَنْ لاَ تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ " قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآيَةَ { يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا } إِلَى قَوْلِهِ { جَمِيلاً } فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَافَعَلْتُ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ حِينَ قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاخْتَرْنَهُ طَلاَقًا مِنْ أَجْلِ أَنَّهُنَّ اخْتَرْنَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۳ (صحیح)
۳۴۶۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا ۱؎ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس (اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا ۲؎، آپ صلی الله علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے آیت: { يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا إِلَى قَوْلِهِ جَمِيلاً }۳؎ تک پڑھی (یہ آیت سن کر) میں نے کہا: میں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے صلاح ومشورہ لوں؟ (مجھے کسی سے مشورہ نہیں لینا ہے) میں اللہ عزوجل، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) آپ صلی الله علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے بھی ویسا ہی کیا (اور کہا) جیسا میں نے کیا (اور کہا) تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ان سے کہنے اور ان کے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو منتخب کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ۴؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی دنیا اور اس کی زینت اور نبی کی مصاحبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لیں۔
وضاحت ۲؎: معلوم ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے عائشہ رضی الله عنہا کے خیار کی مدت ماں باپ سے مشورہ لینے تک متعین کی
وضاحت ۳؎: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔ (الاحزاب: ۲۸)
وضاحت ۴؎؎؎: اس لیے کہ وہ بیویاں تو پہلے ہی سے تھیں، اگر وہ آپ کو منتخب نہ کرتیں تب طلاق ہو جاتی۔


3470- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ { إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ } دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي؛ فَقَالَ: يَاعَائِشَةُ! إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا؛ فَلاَ عَلَيْكِ أَنْ لاَتُعَجِّلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ؛ فَقَرَأَ عَلَيَّ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا} فَقُلْتُ أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ! فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالأَوَّلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ. وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: خ/تفسیر الأحزاب ۱۵ (۴۷۸۶م) تعلیقًا، م/الطلاق ۴ (۱۴۷۵)، ق/الطلاق ۲۰ (۲۰۹)، تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۳۲)، حم (۶/۳۳، ۱۶۳، ۱۸۵، ۲۶۳) (صحیح)
۳۴۷۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: { إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ } اتری تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: ''عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ '' آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ وحکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ...}میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا؟)۔
٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہ (یعنی حدیث ''معمر عن الزہری عن عائشہ'' غلط ہے اور اول (یعنی حدیث یونس وموسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ ''زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔
 
Top