• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
37-بَاب اللِّعَانِ فِي قَذْفِ الرَّجُلِ زَوْجَتَهُ بِرَجُلٍ بِعَيْنِهِ
۳۷-باب: بیوی پر متعین شخص سے بدکاری کی تہمت پر لعان کے حکم کا بیان​


3498- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالأَعْلَى، قَالَ: سُئِلَ هِشَامٌ عَنِ الرَّجُلِ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، فَحَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنْ ذَلِكَ، وَأَنَا أَرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْ ذَلِكَ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ، وَكَانَ أَخُو الْبَرَائِ بْنِ مَالِكٍ لأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لاعَنَ، فَلاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: " ابْصُرُوهُ فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيئَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلاَلِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا، أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ " قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَائَتْ بِهِ أَكْحَلَ، جَعْدًا أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۴۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱)، حم (۳/۱۴۲) (صحیح)
۳۴۹۸- عبدالاعلیٰ کہتے ہیں کہ ہشام سے ایک ایسے شخص سے متعلق پوچھا گیا جو اپنی بیوی پر زنا وبدکاری کا تہمت لگاتا ہے تو ہشام نے (اس کے جواب میں) محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے اس کے متعلق پوچھا اور یہ سمجھ کر پوچھا کہ ان کے پاس اس کے بارے میں کچھ علم ہوگا تو انہوں نے کہا: ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری میں ملوث ٹھہرایا۔ بلال براء بن مالک کے ماں کے واسطہ سے بھائی تھے اور یہ پہلے شخص تھے جن ہوں نے لعان کیا ۱؎، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا۔ پھر فرمایا: بچے پر نظر رکھو اگر وہ بچہ جنے گورا چٹا، لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا تو سمجھو کہ وہ ہلال بن امیہ کا بیٹا ہے اور اگر وہ سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی ٹانگوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ وہ (یعنی انس رضی الله عنہ) کہتے ہیں: مجھے خبر دی گئی کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ چنا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: ان سے پہلے کسی نے لعان نہیں کیا تھا ان کے لعان کرنے سے لعان کا طریقہ معلوم ہوا۔
وضاحت ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں حاملہ عورت سے لعان کرنا منع نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
38-بَاب كَيْفَ اللِّعَانُ؟
۳۸-باب: لعان کس طرح کیا جائے؟​


3499- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ الأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ لِعَانٍ كَانَ فِي الإِسْلاَمِ: أَنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ شَرِيكَ بْنَ السَّحْمَائِ بِامْرَأَتِهِ، فَأَتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْبَعَةَ شُهَدَائَ وَإِلاَّ فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ " يُرَدِّدُ ذَلِكَ عَلَيْهِ مِرَارًا؛ فَقَالَ لَهُ هِلالٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَعْلَمُ أَنِّي صَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنْ الْجَلْدِ؛ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ آيَةُ اللِّعَانِ {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ فَدَعَا هِلاَلاَ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ { إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ } ثُمَّ دُعِيَتْ الْمَرْأَةُ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ؛ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ فِي الرَّابِعَةِ أَوْ الْخَامِسَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَقِّفُوهَا؛ فَإِنَّهَا مُوجِبَةٌ " فَتَلَكَّأَتْ حَتَّى مَا شَكَكْنَا أَنَّهَا سَتَعْتَرِفُ، ثُمَّ قَالَتْ: لاَ أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ؛ فَمَضَتْ عَلَى الْيَمِينِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوهَا؛ فَإِنْ جَائَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيئَ الْعَيْنَيْنِ؛ فَهُوَ لِهِلالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَائَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ؛ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ؛ فَجَائَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلا مَا سَبَقَ فِيهَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ ". قَالَ الشَّيْخُ: وَالْقَضِئُ طَوِيلُ شَعْرِ الْعَيْنَيْنِ لَيْسَ بِمَفْتُوحِ الْعَيْنِ وَلا جَاحِظِهِمَا، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي وانظر ماقبلہ (صحیح)
۳۴۹۹- انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اس طرح ہوا کہ انہوں نے شریک بن سمحاء پر اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر آپ کو اس بات کی خبر دی، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا: چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی (کوڑے پڑیں گے) آپ نے یہ بات بارہا کہی، ہلال نے آپ سے کہا: قسم اللہ کی، اللہ کے رسول! اللہ عزوجل بخوبی جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے) اللہ بزرگ وبرتر آپ صلی الله علیہ وسلم پر کوئی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو کوڑے کھانے سے بچا دے گا، ہم سب یہی باتیں آپس میں کر ہی رہے تھے کہ آپ پر لعان کی آیت: ''وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ۔۔ آخر تک نازل ہوئی ۱؎ آیت نازل ہونے کے بعد آپ نے ہلال کو بلایا، انہوں نے اللہ کا نام لے کر (یعنی قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں اور پانچویں بار انہوں نے کہا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے لوگوں میں سے ہوں، پھر عورت بلائی گئی اور اس نے بھی چار بار اللہ کا نام لے کر (قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے (راوی کو شک ہو گیا) چوتھی بار یا پانچویں بار قسم کھانے کا جب موقع آیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (ذرا) اسے روکے رکھو (آخری قسم کھانے سے پہلے اسے خوب سوچ سمجھ لینے دو ہو سکتا ہے وہ سچائی کا اعتراف کر لے) کیونکہ یہ گواہی (اللہ کی لعنت وغضب کو) واجب ولازم کر دے گی وہ رکی اور ہچکائی تو ہم نے شک کیا (سمجھا) کہ (شاید) وہ اعتراف گناہ کر لے گی، مگر وہ بولی: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ، رسوا وذلیل نہیں کر سکتی، یہ کہہ کر (آخری) قسم بھی کھا گئی۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اسے دیکھتے رہو اگر وہ سفید (گورا) لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا بچہ جنے تو (سمجھو کہ) وہ ہلال بن امیہ کا لڑکا ہے اور اگر وہ بچہ گندم گوں، پیچیدہ الجھے ہوئے بالوں والا، میانہ قد کا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔ تو اس عورت نے گندمی رنگ کا گھونگھریالے بالوں والا، درمیانی سائز کا، پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا، (اس کے جننے کے بعد) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس معاملے میں اللہ کا فیصلہ نہ آ چکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ (یعنی میں اس پر حد قائم کر کے رہتا۔ واللہ اعلم)
وضاحت ۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں (النور: ۶)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان ہلال رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے وقت نازل ہوئی جب کہ عاصم رضی الله عنہ کی حدیث رقم (۳۴۹۶) میں ہے کہ یہ آیت عویمر رضی الله عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ھلال کے ساتھ پیش آیا پھر اس کے معا بعد عویمر بھی اس سے دو چار ہوئے پس یہ آیت ایک ساتھ دونوں سے متعلق نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
39-بَاب قَوْلِ الإِمَامِ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ
۳۹-باب: امام اور حاکم یہ کہے کہ اے اللہ تو اس معاملے کو واضح فرما دے​


3500- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلاَعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلاً ثُمَّ انْصَرَفَ؛ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً، قَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلا بِقَوْلِي؛ فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلاً كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ؛ فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الإِسْلاَمِ الشَّرَّ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۱ (۵۳۱۰)، ۳۶ (۵۳۱۶)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۶)، م/اللعان ۱ (۱۲۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۲۸) (صحیح)
۳۵۰۰- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر آیا، عاصم بن عدی رضی الله عنہ نے اس سلسلے میں کوئی بات کہی پھر وہ چلے گئے تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، یہ بات سن کر عاصم رضی الله عنہ کہنے لگے: میں اپنی بات کی وجہ سے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ۱؎ تو وہ اس آدمی کو لے کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور اس نے آپ کو اس آدمی کے متعلق خبر دی جس کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، کم گوشت والا (چھریرا بدن) سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کو اپنی بیوی کے پاس پانے کا مجرم قرار دیا تھا وہ شخص گندمی رنگ، بھری پنڈلیوں والا، زیادہ گوشت والا (موٹا بدن) تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہم بین'' اے اللہ معاملہ کو واضح کر دے، تو اس عورت نے اس شخص کے مشابہہ بچہ جنا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دیا۔ اس مجلس کے ایک آدمی نے جس میں ابن عباس رضی الله عنہما نے یہ حدیث بیان کی کہا: (ابن عباس!) کیا یہ عورت وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کر دیتا، ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: نہیں، یہ عورت وہ عورت نہیں ہے۔ وہ عورت وہ تھی جو اسلام میں شر پھیلاتی تھی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی نہ میں کہتا اور نہ یہ شخص میرے پاس یہ مقدمہ وقضیہ لے کر آتا۔
وضاحت ۲؎: یعنی فاحشہ تھی، بدکاری کرتی تھی لیکن اس کے خلاف ثبوت نہیں تھا۔


3501- أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلاَعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلاَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً؛ فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ: آدَمَ خَدْلا كَثِيرَ اللَّحْمِ جَعْدًا قَطَطًا؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ بَيِّنْ " فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلاَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا؛ فَقَالَ رَجُلٌ لابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لاَ، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ الشَّرَّ فِي الإِسْلاَمِ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۰۰ (صحیح)
۳۵۰۱- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لعان کی بات آئی تو عاصم بن عدی رضی الله عنہ نے اس معاملے میں کوئی بات کہی پھر واپس چلے گئے، ان کی قوم کا ایک آدمی ان کے پاس پہنچا اور اس نے انہیں بتایا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (زنا کرتا ہوا) پایا ہے تو وہ اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے، اس نے آپ کو اس شخص سے باخبر کیا جس کے ساتھ اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، دبلا، سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے گندمی رنگ، بھری ہوئی پنڈلیوں والا، فربہ، گھنگھریالے چھوٹے بالوں والا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کی ''اللھم بیّن'' (اے اللہ تو اسے واضح کر دے) پھر اس نے بچہ جنا، وہ بچہ بالکل اسی طرح تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا، ایک آدمی نے جو (اس وقت) مجلس میں موجود تھا ابن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو کر دیتا۔ ابن عباس نے کہا: نہیں، یہ عورت تو اسلام میں رہتے ہوئے شر پھیلاتی تھی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی بدکاری کراتی تھی، لیکن اقرار اور ثبوت نہ ہونے کے باعث قانون کی گرفت سے بچی ہوئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
40-بَاب الأَمْرِ بِوَضْعِ الْيَدِ عَلَى فِي الْمُتَلاعِنَيْنِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ
۴۰- باب: لعان کرنے والے پانچویں بار جب قسم کھانے چلیں تو ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں روکنے کی کوشش کرنے کا حکم​


3502- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلاً حِينَ أَمَرَ الْمُتَلاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلاعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ عَلَى فِيهِ، وَقَالَ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ۔
* تخريج: د/الطلاق۲۷ (۲۲۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۷۲) (صحیح)
۳۵۰۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جب دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص کو (یہ بھی) حکم دیا کہ جب پانچویں قسم کھانے کا وقت آئے تو لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے ۱؎ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قسم اللہ کی لعنت وغضب کو لازم کر دے گی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: تاکہ وہ ایک بار پھر سوچ لے کہ وہ کتنی بڑی اور بھیانک قسم کھانے جا رہا ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی جھوٹے ہوں گے تو اللہ کی لعنت وغضب کے سزاوار ہونے سے بچ نہ سکیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
41-بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ الرَّجُلَ وَالْمَرْأَةَ عِنْدَ اللِّعَانِ
۴۱-باب: لعان کرتے وقت امام اور حاکم مرد اور عورت کو سمجھائے اور نصیحت کرے​


3503- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ؟ فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ؛ فَقُلْتُ: يَاأَبَاعَبْدِالرَّحْمَنِ! الْمُتَلاَعِنَيْنِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: نَعَمْ، سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلانُ بْنُ فُلانٍ؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ - وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو: أَرَأَيْتَ - الرَّجُلَ مِنَّا يَرَى عَلَى امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً، إِنْ تَكَلَّمَ، فَأَمْرٌ عَظِيمٌ - وَقَالَ عَمْرٌو: أَتَى أَمْرًا عَظِيمًا - وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ؛ فَلَمْ يُجِبْهُ؛ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ؛ فَقَالَ: إِنَّ الأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُكَ ابْتُلِيتُ بِهِ؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ هَؤُلائِ الآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ}حَتَّى بَلَغَ { وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ } فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَاكَذَبْتُ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ؛ فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا؛ فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ؛ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ {أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ} ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ { أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ } فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، ت/الطلاق ۲۲ (۱۱۰۲)، خ/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)، ۳۵ (۵۳۱۵)، ۵۳ (۵۳۵۰)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۸)، حم (۲/۱۲)، دي/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح)
۳۵۰۳- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عبد اللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے زمانہ میں دولعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا (کہ جب وہ دونوں لعان کر چکیں گے تو) کیا ان دونوں کے درمیان تفریق (جدائی) کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں، میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ابن عمر رضی الله عنہما کے گھر چلا گیا، میں نے کہا: ابوعبدالرحمن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: ہاں، سبحان اللہ، پاک وبرتر ہے ذات اللہ کی۔ سب سے پہلے اس بارے میں فلاں ابن فلاں نے مسئلہ پوچھا تھا (ابن عمر رضی الله عنہما نے ان کا نام نہیں لیا) اس آدمی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! (ارأیت عمرو بن علی جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں انہوں نے اپنی روایت میں ''ارأیت'' کا لفظ نہیں استعمال کیا ہے)، آپ بتائیے ہم میں سے کوئی شخص کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے (تو کیا کرے؟) اگر وہ زبان کھولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے ۱؎ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو بھی وہ ایسی بڑی اور بری بات پر چپ رہتا ہے (جو ناقابل برداشت ہے)، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا (اس روایت میں ـ''فأمر عظیم'' کے الفاظ آئے ہیں، یہ اس روایت کے ایک راوی محمد بن مثنیٰ کے الفاظ ہیں، اس روایت کے دوسرے راوی عمرو بن علی نے اس کے بجائے ''اتی امراً عظیماً''کے الفاظ استعمال کیے ہیں)۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش آ گیا تو وہ شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: جس بارے میں میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تھا میں خود ہی اس سے دوچار ہو گیا، (اس وقت) اللہ تعالی نے سورہ نور کی یہ آیت: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ}سے لے کر { وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ } تک نازل فرمائیں، (اس کارروائی کا) آغاز آپ نے مرد کو وعظ ونصیحت سے کیا، آپ نے اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا، آسان اور کم تر ہے۔ اس شخص نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے جھوٹ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے عورت کو بھی خطاب کیا، آپ نے اسے بھی وعظ ونصیحت کی، ڈرایا اور آخرت کے سخت عذاب کا خوف دلایا۔ اس نے بھی کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ شخص جھوٹا ہے۔ (اس وعظ ونصیحت کے بعد لعان کی کارروائی روبہ عمل آئی) تو آپ نے (یہ کارروائی) مرد سے شروع کی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہے اور پانچویں بار اس نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے عورت سے گواہی لینی شروع کی، اس نے بھی اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے اور اس نے پانچویں بار کہا: اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (شوہر) سچوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اس سے کہا جائے گا کہ چار گواہ لاؤ، چار گواہ نہ پیش کر سکو تو کوڑے کھاؤ۔
وضاحت ۲؎: لعان کرنے والوں کے مابین جدائی کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ لعان کے بعد دونوں کے مابین جدائی ہو جائے گی، حاکم کے فیصلہ کی ضرورت نہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے زادالمعاد (۵/۳۸۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
42-بَاب التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُتَلاعِنَيْنِ
۴۲- باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان تفریق کر دینے کا بیان​


3504- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالاَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لابْنِ عُمَرَ؛ فَقَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلانِ۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۶۱) (صحیح)
۳۵۰۴- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق نہیں کی (لعان کے بعد انہیں ایک ساتھ رہنے دیا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بنی عجلان کے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
43-اسْتِتَابَةُ الْمُتَلاعِنَيْنِ بَعْدَ اللِّعَانِ
۴۳- باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت سے لعان کے بعد توبہ کرانے کا بیان​


3505- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلاَنِ، وَقَالَ: " اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ؛ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ " قَالَ لَهُمَا ثَلاَثًا؛ فَأَبَيَا؛ فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، قَالَ أَيُّوبُ: وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا لا أَرَاكَ تُحَدِّثُ بِهِ؟ قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي، قَالَ: لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا؛ فَهِيَ أَبْعَدُ مِنْكَ.
* تخريج: خ/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)، ۳۳ (۵۳۱۲)، ۵۳ (۵۳۴۹)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۳) مختصراً، د/ال صلاۃ ۲۷ (۲۲۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۰)، حم (۱/۷۵، ۲/۴، ۳۷) (صحیح)
۳۵۰۵- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا: کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے)؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کر دی۔ (ایوب کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے کہا: اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے؟ کہتے ہیں: اس شخص نے کہا: میرے مال کا کیا ہو گا (ملے گا یا نہیں)؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کر چکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لئے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
44-اجْتِمَاعُ الْمُتَلاعِنَيْنِ
۴۴-باب: لعان کرنے والے مرد اور عورت کا دوبارہ اجتماع (ممکن ہے یا نہیں؟)​


3506- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ؛ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلاعِنَيْنِ: "حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، وَلا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا" قَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ! مَالِي، قَالَ: " لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا؛ فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا؛ فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ "۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۳ (۵۳۱۲)، ۵۳ (۵۳۵۰)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۱)، حم ۲/۱۱) (صحیح)
۳۵۰۶- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے کہا: تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے، (مرد سے کہا:) تمہارا اب اس (عورت) پر کچھ حق واحتیار نہیں ہے ۱؎، مرد نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ اگر تم نے اس پر صحیح تہمت لگائی ہے تو تم نے اب تک اس کی شرمگاہ سے حلت کا جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ مال اس کا بدل ہو گیا اور اگر تم نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو یہ تو تمہارے لیے اور بھی غیر مناسب ہے۲؎۔
وضاحت ۱؎: معلوم ہوا کہ لعان کے بعد دونوں میں جدائی ہمیشہ ہمیش کے لئے ہو جائے گی، حدیث رسول اور اقوال صحابہ سے یہی ثابت ہے۔
وضاحت ۲؎: یعنی تو نے اس کی شرم گاہ کو حلال بھی کیا، اس پر جھوٹا الزام بھی لگایا اور اس سے اپنا مال بھی لینے وپانے کا متمنی ہے یہ تو اور بھی غیر ممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
45-بَاب نَفْيِ الْوَلَدِ بِاللِّعَانِ وَإِلْحَاقِهِ بِأُمِّهِ
۴۵-باب: لعان کے ذریعہ بیٹے کا انکار اور اسے ماں کے حوالے کرنے کا بیان​


3507- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لاَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالأُمِّ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۵ (۵۳۱۵)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۴)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۹)، ت/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۲)، ط/الطلاق ۱۳ (۳۵)، حم (۲/۷، ۳۸، ۶۴، ۷۱)، دي/النکاح ۳۹ (۲۲۷۸) (صحیح)
۳۵۰۷- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کا حکم دیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے کو ماں کی سپردگی میں دے دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
46-بَاب إِذَا عَرَّضَ بِامْرَأَتِهِ وَشَكَّ فِي وَلَدِهِ وَأَرَادَ الانْتِفَائَ مِنْهُ
۴۶-باب: مرد عورت پر بدکاری کا شبہ کرے اور بیٹے کے بارے میں شک کرے اور اس سے اپنی برأت کا ارادہ کرے تو اس کے حکم کا بیان​


3508- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَمَا أَلْوَانُهَا؟ " قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: " فَهَلْ فِيهَا مِنْ اور قَ؟ " قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: "فَأَنَّى تَرَى أَتَى ذَلِكَ؟ " قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ "۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، د/الطلاق ۲۸ (۲۲۶۰)، ق/النکاح ۵۸ (۲۲۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۹)، خ/الطلاق ۲۶ (۵۳۰۵)، والحدود ۴۱ (۶۸۴۷)، والاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، ت/الولاء ۴ (۲۱۲۹)، حم (۲/۳۳۴، ۲۳۹، ۴۰۹) (صحیح)
۳۵۰۸- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی فرازہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: '' کس رنگ کے ہیں؟ ''، اس نے کہا لال رنگ (کے ہیں)، آپ نے فرمایا: '' کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ '' اس نے کہا: (ہاں) ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں، آپ نے فرمایا: ''تم کیا سمجھتے ہو یہ رنگ کہاں سے آیا؟ '' اس نے کہا ہو سکتا ہے کسی رگ نے یہ رنگ کشید کیا ہو۔ آپ نے فرمایا: '' (یہی بات یہاں بھی سمجھو) ہو سکتا ہے کسی رگ نے اس رنگ کو کھینچا ہو '' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: گویا اس شخص کو اپنی بیوی پر شک ہوا کہ بیٹے کا کالا رنگ کہیں اس کی بدکاری کا نتیجہ تو نہیں ہے؟
وضاحت ۲؎: یعنی تم گرچہ گورے سہی تمہارے آباء و اجداد میں کوئی کالے رنگ کا رہا ہوگا اور اس کا اثر تمہارے بیٹے میں آ گیا ہوگا۔


3509- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ - وَهُوَ يُرِيدُ الانْتِفَائَ مِنْهُ - فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " مَا أَلْوَانُهَا؟ " قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ اور قَ، قَالَ: فِيهَا ذَوْدُ وُرْقٍ، قَالَ: فَمَا ذَاكَ تُرَى؟ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ نَزَعَهَا عِرْقٌ، قَالَ: فَلَعَلَّ هَذَا أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: فَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الانْتِفَائِ مِنْهُ۔
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، د/الطلاق ۲۸ (۲۲۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۳)، حم (۲/۲۳۳، ۲۷۹) (صحیح)
۳۵۰۹- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فرازہ کا ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے اور وہ اسے اپنا بیٹا ہونے کے انکار کا سوچ رہا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ ''، اس نے کہا ہاں، آپ نے کہا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: سرخ، آپ نے کہا: کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ بھی ہے؟ اس نے کہا (ہاں) خاکستری رنگ کے اونٹ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے یہ رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: کسی رگ نے اسے کھینچا ہوگا۔ آپ نے فرمایا: (یہ بھی ایسا ہی سمجھ) کسی رگ نے اسے بھی کھینچا ہوگا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے بچے کے اپنی اولاد ہونے سے انکار کی رخصت واجازت نہ دی۔


3510- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَيْوَةَ حِمْصِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي وُلِدَ لِي غُلامٌ أَسْوَدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ؟ " قَالَ: مَا أَدْرِي، قَالَ: " فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَمَا أَلْوَانُهَا؟ " قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: " فَهَلْ فِيهَا جَمَلٌ اور قُ؟ " قَالَ: فِيهَا إِبِلٌ وُرْقٌ، قَالَ: " فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ؟ " قَالَ: مَا أَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِلا أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: " وَهَذَا لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ " فَمِنْ أَجْلِهِ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، لا يَجُوزُ لِرَجُلٍ أَنْ يَنْتَفِيَ مِنْ وَلَدٍ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ إِلاأَنْ يَزْعُمَ؛ أَنَّهُ رَأَى فَاحِشَةً۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۷۰) (صحیح)
۳۵۱۰- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ؟ ''، اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا: '' کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ ''، اس نے کہا: ہاں ہیں۔ آپ نے کہا: ''ان کے رنگ کیا ہیں؟ ''، اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ نے کہا: '' کیا کوئی ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے؟ ''، اس نے کہا: ان میں خاکی رنگ کے بھی اونٹ ہیں۔آپ نے کہا: '' یہ خاکی رنگ کہاں سے آیا؟ ''، اس نے کہا: میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول! ہو سکتا ہے کسی رگ نے اسے کشید کیا ہو (یعنی یہ نسلی کشش کا نتیجہ ہو اور نسل میں کوئی کالے رنگ کا ہو)، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اور یہ بھی ہو سکتا ہے کسی رگ کی کشش کے نتیجہ میں کالے رنگ کا پیدا ہوا ہو''۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچے کا انکار کر دے جب تک کہ وہ اس کا دعویٰ نہ کرے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
 
Top