• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
27-بَاب فِي الْمُخَيَّرَةِ تَخْتَارُ زَوْجَهَا
۲۷-باب: اختیار دی گئی عورتوں کا اپنے شوہروں کو اختیار کر لینے کا بیان​


3471- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى - هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ - عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ؛ فَهَلْ كَانَ طَلاَقًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۰۵ (صحیح)
۳۴۷۱- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کو چن لیا، تو کیا یہ طلاق ہوئی؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں ہوئی)۔


3472- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ الشَّعْبِيُّ: عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَدْ خَيَّرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ؛ فَلَمْ يَكُنْ طَلاقًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۰۵ (صحیح)
۳۴۷۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیاتو یہ اختیار دینا طلاق نہیں ہوا۔


3473- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صُدْرَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ - وَهُوَ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ - عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَدْ خَيَّرَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ؛ فَلَمْ يَكُنْ طَلاَقًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۰۳ (صحیح)
۳۴۷۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ اختیار طلاق نہیں تھا۔


3474- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَدْ خَيَّرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَائَهُ، أَفَكَانَ طَلاقًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۰۴ (صحیح)
۳۴۷۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو (انتخاب کا) اختیار دیا تو کیا یہ (اختیار) طلاق تھا؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں تھا)۔


3475- أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الضَّعِيفُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَاخْتَرْنَاهُ؛ فَلَمْ يَعُدَّهَا عَلَيْنَا شَيْئًا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۳۰۴ (صحیح)
۳۴۷۵- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم سب نے آپ کو منتخب اور قبول کر لیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے ہم سے متعلق کچھ بھی شمار نہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
28-خِيَارُ الْمَمْلُوكَيْنِ يُعْتَقَانِ
۲۸-باب: آزاد کیے گئے غلام میاں بیوی کو اختیار حاصل ہوگا یا نہیں؟​


3476- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَوْهَبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كَانَ لِعَائِشَةَ غُلاَمٌ وَجَارِيَةٌ قَالَتْ: فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْتِقَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْدَئِي بِالْغُلاَمِ قَبْلَ الْجَارِيَةِ۔
* تخريج: د/الطلاق ۲۲ (۲۲۳۷)، ق/العتق ۱۰ (۲۵۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۴) (ضعیف)
(اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں)
۳۴۷۶- قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کر دیا تو آپ نے فرمایا: لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو) ۱؎۔
وضاحت ۱؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی وبڑائی کے باعث کہا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
29-بَاب خِيَارِ الأَمَةِ
۲۹-باب: آزادی پانے والی لونڈی کو اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا اختیار ہے​


3477- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ؛ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلاثُ سُنَنٍ: إِحْدَى السُّنَنِ أَنَّهَا أُعْتِقَتْ؛ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ " وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ؛ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ؟ فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ! ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لاَ تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَعَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ "۔
* تخريج: خ/ النکاح ۱۹ (۵۰۹۷)، الطلاق ۲۴ (۵۲۷۹)، العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الأطعمۃ ۳۱ (۵۴۳۰)، الفرائض۲۰ (۶۷۵۴)، ۲۲ (۶۷۵۷)، ۲۳ (۶۷۵۹)، م /الزکاۃ ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۴۹) وقد أخرجہ: د/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۵)، ت/البیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، والولاء ۱ (۲۱۲۵)، ط/الطلاق ۱۰ (۲۵)، حم (۶/۱۷۸) (صحیح)
۳۴۷۷- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی الله عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ولاء ۲؎ (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے''، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟ '' (تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی الله عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہوگا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو) ۳؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔
وضاحت ۲؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔
وضاحت ۳؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔


3478- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلاَثُ قَضِيَّاتٍ: أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا الْوَلاَئَ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا؛ فَإِنَّمَا الْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ " وَأُعْتِقَتْ؛ فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهَا؛ فَتُهْدِي لَنَا مِنْهُ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "كُلُوهُ؛ فَإِنَّهُ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ "۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۲۸)، حم (۶/۴۵)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۶، ۲۳۳۷) (صحیح)
۳۴۷۸- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی الله عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ رضی الله عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولائ (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: (ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہوگا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: '' اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: (اور ہدیہ قبول کرنا ہمارے لیے جائز ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
30-بَاب خِيَارِ الأَمَةِ تُعْتَقُ وَزَوْجُهَا حُرٌّ
۳۰-باب: آزاد شخص کی غلام بیوی آزاد ہو تو اسے اختیار کا حق حاصل ہوگا​


3479- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلاَئَهَا؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: "أَعْتِقِيهَا؛ فَإِنَّمَا الْوَلائُ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ" قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا؛ فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا، قَالَتْ: لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا أَقَمْتُ عِنْدَهُ؛ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا۔
* تخريج: خ/ العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الفرائض ۲۰ (۶۷۵۴)، ۲۲ (۶۷۵۸)، ت/البیوع ۱۲ (۱۲۵۶)، الولاء ۱ (۲۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۹۲) (صحیح)
(حدیث میں ''وکان زوجہاحرا'' کا لفظ شاذ ہے)
۳۴۷۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی الله عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اسے آزاد کر دو کیوں کہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد کر دینے کے بعد) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہو گئی)، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم (۳۴۸۱) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے'' وکان عبدا،، یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لئے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔


3480- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ؛ فَاشْتَرَطُوا وَلاَئَهَا؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا؛ فَإِنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ " وَأُتِيَ بِلَحْمٍ؛ فَقِيلَ: إِنَّ هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ؛ فَقَالَ: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ " وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۲۶۱۵) (صحیح دون قولہ: ''...حرا'' والمحفوظ أنہ کان عبدا مملوکا کما یأتی فی الباب التالی)
۳۴۸۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی الله عنہا کو خرید نے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی الله عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ بریرہ رضی الله عنہا کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے تو ہدیہ وتحفہ ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، بریرہ کا شوہر آزاد شخص تھا۔
وضاحت ۱؎: لہذا بیچنے والا اگر شرط لگائے تو وہ شرط فاسد ہے اور شرط فاسد کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
31-بَاب خِيَارِ الأَمَةِ تُعْتَقُ وَزَوْجُهَا مَمْلُوكٌ
۳۱-باب: شوہر غلام ہو اور لونڈی بیوی آزاد کر دی جائے تو اسے حق خیار حاصل ہوگا​


3481- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَاتَبَتْ بَرِيرَةُ عَلَى نَفْسِهَا بِتِسْعِ أَوَاقٍ، فِي كُلِّ سَنَةٍ بِأُوقِيَّةٍ؛ فَأَتَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا؛ فَقَالَتْ: لاَ إِلاَّ أَنْ يَشَائُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَيَكُونُ الْوَلاَئُ لِي؛ فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ؛ فَكَلَّمَتْ فِي ذَلِكَ أَهْلَهَا؛ فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَئُ لَهُمْ؛ فَجَائَتْ إِلَى عَائِشَةَ، وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ؛ فَقَالَتْ لَهَا: مَاقَالَ أَهْلُهَا؟ فَقَالَتْ: لاَ هَا اللَّهِ إِذًا، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَئُ لِي؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا هَذَا؟ " فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْنِي تَسْتَعِينُ بِي عَلَى كِتَابَتِهَا؛ فَقُلْتُ: لاَ، إِلاَّ أَنْ يَشَائُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَيَكُونُ الْوَلاَئُ لِي؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لأَهْلِهَا؛ فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَئُ لَهُمْ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ابْتَاعِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمْ الْوَلائَ؛ فَإِنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ " ثُمَّ قَامَ؛ فَخَطَبَ النَّاسَ؛ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ، يَقُولُونَ: أَعْتِقْ فُلاَنًا وَالْوَلائُ لِي، كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَكُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ " فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا، وَكَانَ عَبْدًا؛ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَوْ كَانَ حُرًّا مَا خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳) مختصراً، ت/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۷۰)، حم (۶/۱۷۰) (صحیح)
۳۴۸۱- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی الله عنہا نے اپنی آزادی کے لیے نو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنے کی شرط ٹھہرائی اور عائشہ رضی الله عنہا سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا: میں اس طرح مدد تو نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ میں انہیں ایک ہی دفعہ میں پوری رقم گن دوں اور ولاء (وراثت) میرا حق ہو (تو میں ایسا کر سکتی ہوں)، بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی اور ان لوگوں سے اس معاملے میں بات کی، تو انہوں نے بغیر ولاء (وراثت) کے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا (کہا ولاء (میراث) ہم لیں گے) تو وہ لوٹ کر عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، اور اسی موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، بریرہ رضی الله عنہا نے اپنے مالک کے جواب سے انہیں (عائشہ کو) آگاہ کیا، انہوں نے کہا: نہ قسم اللہ کی جب تک ولاء (میراث) مجھے نہ ملے گی (میں اکٹھی رقم نہ دوں گی)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: کیا قصہ ہے؟ انہوں کہا: اللہ کے رسول! (بات یہ ہے کہ) بریرہ اپنی مکاتبت رضی الله عنہا پر مجھ سے امداد طلب کرنے آئی تو میں نے اس سے کہا میں یوں تو مدد نہیں کرتی مگر ہاں اگر وہ ولاء (میراث) کو میرا حق تسلیم کریں تو میں ساری رقم انہیں یکبارگی گن دیتی ہوں، اس بات کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، ولاء (میراث) ہم لیں گے (تب ہی ہم اس پر راضی ہوں گے)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (عائشہ سے) کہا: تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولاء (میراث) کی شرط مان لو، ولاء اس شخص کا حق ہے جو اسے آزاد کرے (اس طرح جب تم خرید کر آزاد کر دوگی تو حق ولاء (میراث) تم کو مل جائے گا) پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو خطاب کیا (سب سے پہلے) اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہیں ہیں، کہتے ہیں: (ہم سے خرید کر) آزاد تم کرو لیکن ولاء (وراثت) ہم لیں گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب بر حق وصحیح تر ہے اور اللہ کی شرط مضبوط، ٹھوس اور قابل اعتماد ہے اور ہر وہ شرط جس کا کتاب اللہ میں وجود وثبوت نہیں ہے باطل وبے اثر ہے، اگر چہ وہ ایک نہیں سو شرطیں ہوں، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا تو اس نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔
عروہ کہتے ہیں: اگر اس کا شوہر آزاد شخص ہوتا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے (علیحدہ ہو جانے کا) اختیار نہ دیتے۔
وضاحت ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔


3482- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا۔
* تخريج: م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۵۴)، حم (۶/۲۶۹) (صحیح)
۳۴۸۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی الله عنہا کاشوہر غلام شخص تھا۔


3483- أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ أَنَّهَا اشْتَرَتْ بَرِيرَةَ مِنْ أُنَاسٍ مِنْ الأَنْصَارِ؛ فَاشْتَرَطُوا الْوَلاَئَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلاَئُ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ " وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، وَأَهْدَتْ لِعَائِشَةَ لَحْمًا؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ وَضَعْتُمْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ " قَالَتْ عَائِشَةُ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ؛ فَقَالَ: " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ "۔
* تخريج: م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۴)، مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۰) (حسن صحیح)
۳۴۸۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو کچھ انصاری لوگوں سے خریدا جن ہوں نے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط رکھی، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ولاء (میراث) کا حقدار ولی نعمت (آزاد کرانے والا) ہوتا ہے ۱؎، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا (اس نے اس حق کا اپنے حق میں استعمال کیا اور شوہر کو چھوڑ دیا)، اس نے عائشہ رضی الله عنہا کو گوشت کا ہدیہ بھیجا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس گوشت میں ہمارے لیے بھی تو حصہ رکھنا تھا ''، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: وہ گوشت بریرہ کے پاس صدقہ آیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا لیکن ہمارے لیے (صدقہ نہیں) ہدیہ ہے '' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی جو خریدے اور خرید کر آزاد کرے۔
وضاحت ۲؎: نبی اور اس کے اہل بیت کے لیے صدقہ کھانا حرام ہے، ہدیہ کھانا حرام نہیں ہے۔


3484- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ - قَالَ: وَكَانَ وَصِيَّ أَبِيهِ، قَالَ: وَفَرِقْتُ أَنْ أَقُولَ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِيكَ - قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَرِيرَةَ، وَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، وَاشْتُرِطَ الْوَلاَئُ لأَهْلِهَا؛ فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا فَإِنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ " قَالَ: وَخُيِّرَتْ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: مَا أَدْرِي، وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ؛ فَقَالُوا: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، قَالَ: "هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ "۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۱۳ (۲۵۸۷)، م/الزکاۃ ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۹۱)، حم (۶/۱۷۲)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۶۴۷) (صحیح)
۳۴۸۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بریرہ رضی الله عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو وباطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے۔ راوی کہتے ہیں: (عائشہ نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ''وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ وتحفہ ہے'' (اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
32-بَاب الإِيلائِ
۳۲-باب: ایلاء یعنی ناراضگی کی بناء پر بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم کھا لینے کا بیان​


3485- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُويَعْفُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، قَالَ: تَذَاكَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ؛ فَقَالَ بَعْضُنَا: ثَلاَثِينَ، وَقَالَ بَعْضُنَا: تِسْعًا وَعِشْرِينَ؛ فَقَالَ أَبُو الضُّحَى: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَصْبَحْنَا يَوْمًا، وَنِسَائُ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ، عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا؛ فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ؛ فَإِذَا هُوَ مَلآنٌ مِنْ النَّاسِ، قَالَ: فَجَائَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛ فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ؛ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ؛ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ؛ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ؛ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ؛ فَرَجَعَ؛ فَنَادَى بِلاَلاً؛ فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَائَكَ؟ فَقَالَ: لاَ، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا؛ فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ؛ فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ۔
* تخريج: خ/النکاح۹۲ (۵۲۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۵) (صحیح)
۳۴۸۵- ابو یعفور کہتے ہیں کہ ہم ابو الضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹) دن کا۔ ابو الضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی الله عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ) بھری ہوئی تھی، (اس وقت) عمر رضی الله عنہ آئے اور اوپر چڑھ کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ اپنے بالا خانہ میں تھے، آپ کو سلام کیا تو کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، عمر رضی الله عنہ نے پھر سلام کیا پھر کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، پھر سلام کیا پھر انہیں کسی نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ پھر لوٹ پڑے اور بلال کو بلایا ۱؎ اور اوپر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کا ایلاء ۲؎ کیا ہے، پھر آپ انتیس (۲۹) دن (اوپر) وہاں قیام فرما رہے، پھر نیچے آئے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔
وضاحت ۱؎: '' نادی بلالا'' (بلال کو بلایا) کے بجائے ''نادی بلال'' ہے جیسا کہ ''فتح الباری۹/۳۰۲،، میں مذکور ہے، یعنی عمر رضی الله عنہ کو بلال نے آواز دی۔
وضاحت ۲؎: ایلاء کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور شرع میں ایلاء یہ ہے کہ جماع پر قدرت رکھنے والا شوہر اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم اس بات پر کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لئے اپنے سے جدا رکھے گا اور اس سے جماع نہیں کرے گا۔ اس تعریف کی روشنی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا، کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لئے ایلاء کیا تھا اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہے، اور کفارہ یمین یہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن صوم رکھنا۔


3486- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: آلَى النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ؛ فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نَزَلَ؛ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلَيْسَ آلَيْتَ عَلَى شَهْرٍ؟ قَالَ: "الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳)، وقد أخرجہ: خ/ال صلاۃ ۱۸ (۳۷۸)، المظالم۲۵ (۲۴۶۹)، النکاح ۹۱ (۵۲۰۱)، الطلاق ۲۱ (۵۲۸۹)، الأیمان والنذور ۲۰ (۶۶۸۴)، ت/الصوم ۶ (۶۸۹، ۶۹۰)، حم (۳/۲۰۰) (صحیح)
۳۴۸۶- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہ جانے کا عہد کیا (یعنی ایلاء کیا) اور انتیس (۲۹) راتیں اپنے بالا خانے پر رہے پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اتر آئے، آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مہینہ بھر کا ایلاء نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: مہینہ انتیس (۲۹) دن کا (بھی) ہوا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
33-بَابُ الظِّهَارِ
۳۳-باب: ظہار ۱؎ کا بیان​


3487- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ظَاهَرَ مِنْ امْرَأَتِهِ؛ فَوَقَعَ عَلَيْهَا؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي ظَاهَرْتُ مِنْ امْرَأَتِي؛ فَوَقَعْتُ قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ؟ قَالَ: وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ، يَرْحَمُكَ اللَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا فِي ضَوْئِ الْقَمَرِ؛ فَقَالَ: " لاَ تَقْرَبْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: د/الطلاق ۱۷ (۲۲۲۵)، ت/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، ق/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (حسن)
۳۴۸۷- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر اس سے صحبت کر بیٹھا، اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا لیکن میں کفارہ ادا کیے بغیر اس سے جماع کر بیٹھا۔ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، ایسا کر گزرنے پر تمھیں کس چیز نے مجبور کیا ہے؟ اس نے کہا: چاند کی چاندنی میں میں نے اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے جماع کر بیٹھا) آپ نے فرمایا: (اچھا اب) اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ نے (ایسے موقع پر کرنے کا) حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو) ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔
وضاحت ۲؎: ظہار کا کفارہ یہ ہے: ایک مؤمن غلام آزاد کرنا اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے صیام رکھنا۔


3488- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ؛ قَالَ: تَظَاهَرَ رَجُلٌ مِنْ امْرَأَتِهِ؛ فَأَصَابَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ؛ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ " قَالَ: رَحِمَكَ اللَّهُ، يَارَسُولَ اللَّهِ! رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا أَوْ سَاقَيْهَا فِي ضَوْئِ الْقَمَرِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۴۸۸- عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا (یعنی اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح کہہ کر حرام کر لیا) پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے صحبت کر لی، پھر جا کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا (کہ ایسا ایسا ہو گیا ہے) تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے کہا: کس چیز نے تمھیں اس قدر بے قابو کر دیا کہ تم اس کام کے کرنے پر مجبور ہو گئے، اس نے کہا: اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر اللہ کے رسول! میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی پازیب دیکھ لی (راوی کو شبہ ہو گیا کہ یہ کہا یا یہ کہا) کہ میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی (چمکتی ہوئی) پنڈلیاں دیکھ لیں (تو مجھ سے رہا نہ گیا)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس سے دور رہو جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ عزوجل نے تمھیں کرنے کا حکم دیا ہے'' (یعنی کفارہ ادا کر دو)۔


3489- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ، ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ نَبِيَّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّهُ ظَاهَرَ مِنْ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ غَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يَفْعَلَ مَا عَلَيْهِ، قَالَ: " مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ " قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقَيْهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَاعْتَزِلْ حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ " وَقَالَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ: "فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ" وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: الْمُرْسَلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنْ الْمُسْنَدِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۴۸۷ (حسن)
۳۴۸۹- عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: ''کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ '' اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)۔
اسحاق بن راہویہ نے اپنی حدیث میں ''فاعتزل'' کے بجائے ''فاعتزلہا'' بیان کیا ہے اور یہ ''فاعتزل'' لفظ محمد کی روایت میں ہے ٭امام ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہ مرسل حدیث مسند کے مقابل میں زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے ۱؎ (واللہ سبحانہ وتعالی اعلم)۔
وضاحت ۱؎: یعنی یہ حدیث مسنداً ابن عباسؓ سے مروی ہے اور مرسلاً عکرمہ سے اور مسند کی بنسبت مرسل روایت صحیح ہے۔


3490- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُرْوَةَ؛ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَائَتْ خَوْلَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو زَوْجَهَا؛ فَكَانَ يَخْفَى عَلَيَّ كَلاَمُهَا؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَ اور كُمَا } الآيَةَ۔
* تخريج: خ/التوحید ۹ (۷۳۸۵) (تعلیقاً)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۸)، الطلاق ۲۵ (۲۰۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۳۲)، حم (۶/۴۶) (صحیح)
۳۴۹۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آکر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں (کہ انہوں نے ان سے ظہار کر لیا ہے) ان کی باتیں مجھے سنائی نہ پڑ رہی تھیں، تو اللہ عزوجل نے{قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَ اور كُمَا ... الآيَةَ }اتاری (جس سے ہم سبھی کو معلوم ہو گیا کہ کیا باتیں ہورہی تھیں)۔
وضاحت ۱؎: یقینا اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالی تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالی سننے دیکھنے والا ہے (المجادلہ: ۱)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
34-بَاب مَا جَائَ فِي الْخَلْعِ
۳۴-باب: خلع کا بیان​


3491- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمَخْزُومِيُّ - وَهُوَ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ - قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْحَسَنِ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "الْمُنْتَزِعَاتُ وَالْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ". قَالَ الْحَسَنُ: لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ غَيْرِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: الْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۶)، حم (۲/۴۱۴) (صحیح)
۳۴۹۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اپنے شوہروں سے بلا عذر کے خلع ۱؎ اور طلاق مانگنے والیاں منافق عورتیں ہیں '' ۲؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے ابوہریرہ کے سوا کسی اور سے نہیں سنی ہے۔ ٭ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: حسن بصری نے (یہ حدیث ہی کیا) ابوہریرہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔
وضاحت ۱؎: کچھ مال دے کر بیوی اپنے شوہر سے جدائی اور علاحدگی اختیار کر لے اسے خلع کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎: آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان عورتوں کو منافق بطور زجر وتوبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں کہ جنت میں دخول اولی کا مستحق نہیں قرار پائیں گی، کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گذار وفرمانبردار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔


3492- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ؛ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ، فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ هَذِهِ؟ " قَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: لاَ أَنَا وَلاَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ - لِزَوْجِهَا - فَلَمَّا جَائَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، قَدْ ذَكَرَتْ مَاشَائَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ"؛ فَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتٍ، خُذْ مِنْهَا؛ فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ فِي أَهْلِهَا۔
* تخريج: د/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۹۲)، ط/ الطلاق ۱۱ (۳۱)، دي/الطلاق ۷ (۲۳۱۷) (صحیح)
۳۴۹۲- حبیبہ بنت سہل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (صلاۃ کے لیے) صبح صادق میں نکلے تو ان کو اپنے دروازے پر تاریکی میں کھڑا ہوا پایا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے یہ؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: کیا بات ہے، کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا: نہ میں اور نہ ثابت بن قیس (یعنی دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، آپ ہم میں علیحدگی کرا دیجئے) پھر جب ثابت بن قیس بھی آ گئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا: ''یہ حبیبہ بنت سہل ہیں، اللہ کو ان سے جو کہلانا تھا وہ انہوں نے کہا: حبیبہ رضی الله عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے (وہ یہ لے سکتے ہیں) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قیس بن ثابت رضی الله عنہ سے کہا وہ ان سے لے لو (اور ان کو چھوڑ دو) تو انہوں نے ان سے لے لیا اور وہ (وہاں سے آکر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔


3493- أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَمَا إِنِّي مَاأَعِيبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلا دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ " قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً "۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱۲ (۵۲۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۵۲)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۹)، ت/الطلاق ۱۰ (۱۱۸۵) (صحیح)
۳۴۹۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی وکوتاہی کا الزام نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر وناشکری کو نا پسند کرتی ہوں ۱؎ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دوگی؟ '' (وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا: ''اپنا باغ لے لو اور انہیں ایک طلاق دے دو ''۔
وضاحت ۱؎: ہو سکتا ہے میرے انہیں نا پسند کرنے کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی وکوتاہی، نافرمانی وناشکری ہو جائے اور میں گناہ گار ہو جاؤں، اس لیے میں ان سے علیحدگی چاہتی ہوں۔


3494- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ: " إِنَّ امْرَأَتِي لاَ تَمْنَعُ يَدَ لاَمِسٍ " فَقَالَ: " غَرِّبْهَا إِنْ شِئْتَ " قَالَ: إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَتَّبِعَهَا نَفْسِي، قَالَ: " اسْتَمْتِعْ بِهَا "۔
* تخريج: د/النکاح۴ (۲۰۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۱) (صحیح الإسناد)
۳۴۹۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎ آپ نے فرمایا: چاہو تو طلاق دے دو، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا: پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو۔
وضاحت ۱؎: اس کا دو مفہوم ہے ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق وفجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔


3495- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ رِئَابٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ تَحْتِي امْرَأَةً لاَ تَرُدُّ يَدَ لاَمِسٍ، قَالَ: " طَلِّقْهَا " قَالَ: إِنِّي لاَ أَصْبِرُ عَنْهَا، قَالَ: " فَأَمْسِكْهَا ". ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۲۳۱ (صحیح)
۳۴۹۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی، آپ نے فرمایا: ''اسے طلاق دے دو''۔ اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: '' پھر تو اسے رہنے دو ''۔ ٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے، اس کا متصل ہونا غلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
35-بَاب بَدْئِ اللِّعَانِ
۳۵-باب: لعان کے آغاز کا بیان​


3496- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، قَالَ: جَائَنِي عُوَيْمِرٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْعَجْلاَنِ؛ فَقَالَ - أَيْ عَاصِمُ - أَرَأَيْتُمْ رَجُلاً رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً أَيَقْتُلُهُ؟ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ يَاعَاصِمُ؟ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَعَابَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَكَرِهَهَا؛ فَجَائَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَاصِمُ فَقَالَ: صَنَعْتُ أَنَّكَ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ! لأَسْأَلَنَّ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيكَ، وَفِي صَاحِبَتِكَ؛ فَأْتِ بِهَا، قَالَ سَهْلٌ: وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَائَ بِهَا؛ فَتَلاَعَنَا؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْسَكْتُهَا لَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا؛ فَفَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا؛ فَصَارَتْ سُنَّةَ الْمُتَلاَعِنَيْنِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۱)، حم (۵/۳۳۷) (صحیح)
۳۴۹۶- سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عاصم بن عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عجلان کا ایک شخص عویمر میرے پاس آیا اور کہنے لگا: عاصم! بھلا بتاؤ تو صحیح؟ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر شخص کو دیکھتا ہے، اگر وہ اسے قتل کر دیتا ہے تو کیا تم لوگ اسے قتل کر دوگے یا وہ کیا کرے؟ عاصم میرے واسطے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھو تو عاصم رضی الله عنہ نے اس کے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح کے سوالات کو برا جانا اور نا پسند کیا، عویمر ان کے پاس آئے اور کہا: عاصم! کیا کیا تو نے؟ (مسئلہ پوچھا یا نہیں؟) انہوں نے کہا: میں نے کیا تو (یعنی پوچھا تو) لیکن تو اچھا سوال لے کر نہیں آیا تھا (جواب کیا ملتا) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح کے سوالات کو نا پسند کیا اور برا مانا۔ عویمر رضی الله عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو ضرور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات پوچھ کر رہوں گا (یہ کوئی فرضی سوال نہیں امر واقع ہے) پھر وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ تو (جاؤ) اسے لے کر آؤ، سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اُس وقت میں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، وہ اسے لے کر آئے اور دونوں نے لعان کیا ۱؎۔ پھر اس نے (یعنی عویمر نے) کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی اگر میں نے اسے اپنے پاس رکھا تو میں اس پر تہمت لگانے والا ٹھہروں گا (یہ کہہ کر) انہوں نے اسے طلاق دے کر چھوڑ دیا اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ (راوی کہتے ہیں) پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا (یعنی لعان کے بعد میاں بیوی دونوں جدا ہو جائیں)۔
وضاحت ۱ ؎: لعان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
36-بَاب اللِّعَانِ بِالْحَبَلِ
۳۶-باب: حمل کی حالت میں عورت سے لعان کرنے کا بیان​


3497- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لاَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْعَجْلاَنِيِّ وَامْرَأَتِهِ، وَكَانَتْ حُبْلَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۶۳۳۰)، وقد أخرجہ: خ/الطلاق ۳۱ (۵۳۱۰)، ۳۶ (۵۳۱۶)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۶)، م/اللعان ۱ (۱۴۹۷)، حم (۱/۳۳۵، ۳۳۶، ۳۵۷) (صحیح)
۳۴۹۷- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور اس وقت اس کی بیوی حاملہ تھی۔
 
Top