• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
47-بَاب التَّغْلِيظِ فِي الانْتِفَائِ مِنْ الْوَلَدِ
۴۷-باب: لڑکے کا انکار کرنے پر وارد وعید اور شناعت کا بیان​


3511- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ: عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُلاعَنَةِ " أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ رَجُلاً لَيْسَ مِنْهُمْ؛ فَلَيْسَتْ مِنْ اللَّهِ فِي شَيْئٍ، وَلا يُدْخِلُهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، وَفَضَحَهُ عَلَى رُئُوسِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"۔
* تخريج: د/الطلاق ۲۹ (۲۲۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۷۲)، دي/النکاح ۴۲ (۲۲۸۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبداللہ بن یونس'' مجہول ہیں)
۳۵۱۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو عورت کسی قوم (خاندان وقبیلے) میں ایسے شخص کو داخل وشامل کر دے جو اس قوم (خاندان وقبیلے) کا نہ ہو (یعنی زنا وبدکاری کرے) تو کسی چیز میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کا تحفظ وتعاون حاصل نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل نہ کرے گا اور (ایسے ہی) جو شخص اپنے بیٹے کا (کسی بھی سبب سے) انکار کر دے اور دیکھ رہا (اور سمجھ بوجھ رہا) ہو (کہ وہ بیٹا اسی کا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کر لے گا ۱؎ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اگلے وپچھلے سبھی لوگوں کے سامنے ذلیل ورسوا کرے گا۔
وضاحت ۱؎: یعنی قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
48-بَاب إِلْحَاقِ الْوَلَدِ بِالْفِرَاشِ إِذَا لَمْ يَنْفِهِ صَاحِبُ الْفِرَاشِ
۴۸- باب: شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہوگی بچہ اسی کا مانا جائے گا​


3512- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ "۔
* تخريج: خ/الفرائض ۱۷ (۶۷۵۰)، والحدود ۲۳ (۶۸۱۸)، م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۸)، ت/الرضاع ۸ (۱۱۵۷)، ق/النکاح ۵۹ (۲۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۴)، حم (۲/۲۳۹، ۲۰۸)، دي/النکاح ۴۱ (۲۲۸۱) (صحیح)
۳۵۱۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے وقانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا، یعنی اس کے لئے بالکل یہ محرومی ہوگی۔


3513- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ؛ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ "۔
* تخريج: م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۲)، حم (۲/۲۸۰) (صحیح)
۳۵۱۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''لڑکا فراش والے (یعنی شوہر) کا ہے اور زنا کار کے لیے پتھر ہے'' (یعنی اسے مار لگے گی یا پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا)۔


3514- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلاَمٍ؛ فَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ؛ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ؛ فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ؛ فَقَالَ: " هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ! الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ " فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳ (۲۰۵۳)، ۱۰۰ (۲۲۱۸)، الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، العتق ۸ (۲۵۳۳)، الوصایا ۴ (۲۷۴۵) المغازي ۵۳ (۴۳۰۳)، الفرائض ۱۸ (۴۳۴۹)، ۲۸ (۶۷۶۵)، الحدود ۲۳ (۶۸۱۷)، الأحکام ۲۹ (۷۱۸۲)، م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۴)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۳۴ (۲۲۷۳)، ق/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، ط/الأقضیۃ ۲۱ (۲۲۸۱)، حم (۶/۱۲۹، ۲۰۰، ۲۷۳، ۲۴۷)، دي/النکاح ۴۱ (۲۲۸۲) (صحیح)
۳۵۱۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی الله عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی الله عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اے عبد (بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی وسرپرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت وحصے میں پتھر ہے۔
اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو ۱؎، تو اس نے ام المومنین سودہ رضی الله عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔
وضاحت ۱؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگر چہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔


3515- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ مَوْلًى لَهُمْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ؛ قَالَ: كَانَتْ لِزَمْعَةَ جَارِيَةٌ يَطَؤُهَا هُوَ، وَكَانَ يَظُنُّ بِآخَرَ يَقَعُ عَلَيْهَا؛ فَجَائَتْ بِوَلَدٍ شِبْهِ الَّذِي كَانَ يَظُنُّ بِهِ؛ فَمَاتَ زَمْعَةُ وَهِيَ حُبْلَى؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ سَوْدَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ؛ فَلَيْسَ لَكِ بِأَخٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۳)، حم (۴/۵) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۵۱۵- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چنانچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہو گیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ام المومنین سودہ (بنت زمعہ) رضی الله عنہا نے کیا۔ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' بچہ فراش والے کا ہے ۱؎ اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہوگی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔


3516- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: وَلا أَحْسَبُ هَذَا عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ. وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۲۹۴) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۳۵۱۶- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''لڑکا فراش والے کا ہے ۱؎ اور زنا کرنے والے کو پتھر ملیں گے'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: بیوی اور لونڈی جس سے مرد کی صحبت جائز ہے اسے فراش (بچھونا) کہا گیا ہے، تو بچھونا جس کا ہوگا یعنی عورت یا لونڈی جس کی ہوگی لڑکا بھی اس کا کہا یا مانا جائے گا۔
وضاحت ۲؎: یعنی غیر شادی شدہ ہوگا تو کوڑے لگیں گے جو پتھر کی مار کی طرح تکلیف دہ ہیں اور شادی شدہ ہوگا تو (فی الواقع) پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
49-بَاب فِرَاشِ الأَمَةِ
۴۹-باب: لونڈی مالک کا بچھونا ہے​


3517- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي ابْنِ زَمْعَةَ، قَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتَ مَكَّةَ؛ فَانْظُرْ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ؛ فَهُوَ ابْنِي؛ فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هُوَ ابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي؛ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ! "۔
* تخريج: خ/الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، د/الطلاق ۳۴ (۲۲۷۳)، ق/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۵)، حم (۶/۳۷، ۱۲۹، ۲۰۰) (صحیح)
۳۵۱۷- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی الله عنہما کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد رضی الله عنہ نے کہا: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کر لو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چنانچہ عبد بن زمعہ رضی الله عنہ نے کہا: وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے وہ میرا بھائی ہے)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ صورت میں بالکل عتبہ کے مشابہ تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر چہ وہ عتبہ کے مشابہ ہے لیکن شریعت کا اصول وضابطہ یہ ہے کہ) بچہ اس کا مانا اور سمجھا جاتا ہے جس کا بستر ہو (اس لیے اس کا حقدار عبد بن زمعہ ہے) اور اے سودہ (اس اعتبار سے گرچہ وہ تمہارا بھی بھائی لگے لیکن) تم اس سے پردہ کرو (کیونکہ فی الواقع وہ تیرا بھائی نہیں ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
50-بَابُ الْقُرْعَةِ فِي الْوَلَدِ إِذَا تَنَازَعُوا فِيهِ وَذِكْرِ الاخْتِلافِ عَلَى الشَّعْبِيِّ فِيهِ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ
۵۰-باب: کسی لڑکے کے نسبت کے بارے میں جھگڑا ہو جائے تو قرعہ اندازی کی جائے گی اور زید بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث میں شعبی کے اختلاف کا ذکر​


3518- أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِخَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلاثَةٍ - وَهُوَ بِالْيَمَنِ - وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالاَ: لاَ! ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ قَالاَ: لاَ! فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَضَحِكَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ۔
* تخريج: د/الطلاق۳۲ (۲۲۷۰)، ق/الأحکام۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۰) حم (۴/۴۷۳) (صحیح)
۳۵۱۸- زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم وقبول کرتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تیسرے کے بارے میں پوچھا: کیا تم دونوں لڑکا اس کا مانتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے ان تینوں کے نام کا قرعہ ڈالا اور جس کے نام پر قرعہ نکلا بچہ اسی کو دے دیا، اور دیت کا دو تہائی اس کے ذمہ کر دیا (اور اس سے لے کر ایک ایک تہائی ان دونوں کو دے دیا) ۱؎ یہ بات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور ایسے ہنسے کہ آپ کی داڑھ دکھائی دینے لگی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: دیت کے دو تہائی کا مفہوم یہ ہے کہ لونڈی کی قیمت کا دو ثلث اسے ادا کرنا پڑا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور کسی لڑکے کے جب کئی دعویدار ہوں تو قیافہ کے بجائے قرعہ کے ذریعہ فیصلہ ہو گا، جو لوگ قرعہ کے بجائے قیافہ کے قائل ہیں ممکن ہے انہوں نے علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کو اس حالت پر محمول کیا ہو جب قیافہ شناس موجود نہ ہو (واللہ اعلم)۔
وضاحت ۲؎: یعنی علی رضی الله عنہ کے اس انوکھے وعجیب فیصلے پر آپ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔


3519- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَجْلَحِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي الْخَلِيلِ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ؛ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَهُ رَجُلٌ مِنْ الْيَمَنِ؛ فَجَعَلَ يُخْبِرُهُ وَيُحَدِّثُهُ، وَعَلِيٌّ بِهَا؛ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتَى عَلِيًّا ثَلاثَةُ نَفَرٍ يَخْتَصِمُونَ فِي وَلَدٍ، وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: د/الطلاق ۳۲ (۲۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۹)، حم (۴/۳۷۴)، ویأتی فیما یلی (۳۵۲۰، ۳۵۲۱) (صحیح)
۳۵۱۹- زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں یمن سے ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو وہاں کی باتیں بتانے اور آپ سے باتیں کرنے لگا، ان دنوں علی رضی الله عنہ یمن ہی میں تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! تین اشخاص ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے علی رضی الله عنہ کے پاس آئے۔ ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں جماع کیا تھا اور آگے وہی حدیث بیان کی جو گزر چکی ہے۔


3520- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الأَجْلَحِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَالنَّبِيّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ بِالْيَمَنِ؛ فَأَتَاهُ رَجُلٌ؛ فَقَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ فِي ثَلاثَةِ نَفَرٍ ادَّعَوْا وَلَدَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ لأَحَدِهِمْ: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا؟ فَأَبَى، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنْتُمْ شُرَكَائُ مُتَشَاكِسُونَ، وَسَأَقْرَعُ بَيْنَكُمْ، فَأَيُّكُمْ أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ فَهُوَ لَهُ، وَعَلَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ؛ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۵۲۰- زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھا اور علی رضی الله عنہ ان دنوں یمن میں تھے، ایک آدمی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں ایک دن علی رضی الله عنہ کے پاس موجود تھا، ان کے پاس تین آدمی آئے وہ تینوں ایک عورت کے بیٹے کے دعویدار تھے (کہ یہ بیٹا ہمارا ہے) علی رضی الله عنہ نے ان میں سے ایک سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، علی رضی الله عنہ نے (دوسرے سے) کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا: نہیں، اور تیسرے سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا نہیں، علی رضی الله عنہ نے کہا: تم سب آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہو، میں تم لوگوں کے درمیان قرعہ اندازی کر دیتا ہوں تو جس کے نام قرعہ نکل آئے لڑکا اسی کا مانا جائے گا اور اسے دیت کا دو تہائی دینا ہوگا (جو لڑکے سے محروم دونوں کو ایک ایک ثلث تہائی کر کے دے دیا جائے گا) یہ قصہ سن کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہنس پڑے (اور ایسے زور سے ہنسے) کہ آپ کی داڑھ دکھائی پڑنے لگی۔


3521- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ شَاهِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا عَلَى الْيَمَنِ، فَأُتِيَ بِغُلاَمٍ تَنَازَعَ فِيهِ ثَلاثَةٌ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ. خَالَفَهُمْ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۱۹ (صحیح)
۳۵۲۱- زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ ان کے پاس ایک بچہ لایا گیا، جس کا باپ ہونے کے تین دعویدار تھے اور آگے وہی حدیث پوری بیان کر دی (جو پہلے گذر چکی ہے)
نسائی کہتے ہیں: '' خالفہم سلمۃ بن کہیل ''سلمہ بن کہیل نے ان لوگوں کے خلاف روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ اوپر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں صالح ہمدانی نے، ایک روایت میں اجلح نے اور ایک روایت میں شیبانی نے زید بن ارقم کو سند میں ذکر کر کے حدیث مرفوع بیان کیا ہے لیکن سلمہ بن کہیل نے اپنی روایت میں زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا ہے۔


3522- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ أَوْ ابْنِ أَبِي الْخَلِيلِ؛ أَنَّ ثَلاثَةَ نَفَرٍ اشْتَرَكُوا فِي طُهْرٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا صَوَابٌ. وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۵۱۹ (صحیح)
۳۵۲۲- سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابو الخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔
٭ ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
51-بَاب الْقَافَةِ
۵۱- باب: قیافہ شناسوں کا بیان​


3523- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا، تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ: "أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ، فَقَالَ: إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الأَقْدَامِ لَمِنْ بَعْضٍ"۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۵)، وفضائل الصحابۃ ۱۷ (۳۷۳۱)، والفرائض ۳۱ (۶۷۷۰)، م/الرضاع (۱۴۵۹)، د/الطلاق ۳۱ (۲۲۶۸)، ت/الولائ۵ (۲۱۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۱)، حم (۶/۸۲، ۲۲۶)، ویأتي فیما یلي (صحیح)
۳۵۲۳- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے، آپ کے چہرے کے خطوط خوشی سے چمک دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا: '' ارے تمھیں نہیں معلوم؟ مجزز (قیافہ شناس ہے) نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو دیکھا تو کہنے لگا: ان کے پیروں کے بعض حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: آپ صلی الله علیہ وسلم کے خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ لوگ اسامہ رضی الله عنہ کے نسب میں شک و شبہ کرتے تھے کہ زید رضی الله عنہ گورے ہیں اور اسامہ رضی الله عنہ کالے ہیں، ساتھ ہی یہ لوگ قیافہ شناس کی بات پر اعتماد بھی کرتے تھے اور جب قیافہ شناس نے یہ کہہ دیا کہ اسامہ کا نسبی تعلق زید سے ہے تو آپ بے حد خوش ہوئے کیونکہ قیافہ شناس کی بات سن کر لوگ اب اسامہ کے سلسلہ میں طعن وتشنیع سے کام نہیں لیں گے، قیافہ شناس کی بات سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا خوش ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ قیافہ سے نسب کا اثبات صحیح ہے، جمہور کا یہی مسلک ہے۔


3524- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مَسْرُورًا، فَقَالَ: "يَاعَائِشَةُ! أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَزَيْدًا، وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، وَقَدْ غَطَّيَا رُئُوسَهُمَا، وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: هَذِهِ أَقْدَامٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ "۔
* تخريج: خ/الفرائض ۳۱ (۶۷۷۱)، م/الرضاع (۱۴۵۹)، د/الطلاق ۳۱ (۲۲۶۷)، ت/الولاء ۵ (۲۱۳۰)، ق/الأحکام ۲۱ (۲۳۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۳) (صحیح)
۳۵۲۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے اور کہا: عائشہ! ارے تم نے نہیں دیکھا مجزز مدلجی (قیافہ شناس) میرے پاس آیا اور (اس وقت) میرے پاس اسامہ بن زید تھے، اس نے اسامہ بن زید اور (اُن کے والد) زیدبن حارثہ رضی الله عنہما دونوں کو دیکھا، ان کے اوپر ایک چھوردار چادر پڑی ہوئی تھی جس سے وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر دکھائی پڑ رہے تھے، اس نے ان کے پیر دیکھ کر کہا: یہ وہ پیر ہیں جن کا بعض بعض سے ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: (یعنی یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
52-إِسْلامُ أَحَدِ الزَّوْجَيْنِ وَتَخْيِيرُ الْوَلَدِ
۵۲-میاں بیوی میں سے کوئی ایک اسلام قبول کر لے تو نابالغ بیٹے کو کسی ایک کے ساتھ ہو جانے کا اختیار دیا جائے گا​


3525- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ؛ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ أَسْلَمَ، وَأَبَتْ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَجَائَ ابْنٌ لَهُمَا صَغِيرٌ لَمْ يَبْلُغْ الْحُلُمَ؛ فَأَجْلَسَ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَبَ هَا هُنَا وَالأُمَّ هَا هُنَا، ثُمَّ خَيَّرَهُ؛ فَقَالَ: اللَّهُمَّ اهْدِهِ، فَذَهَبَ إِلَى أَبِيهِ۔
* تخريج: د/الطلاق ۲۶ (۲۲۴۴)، ق/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۹۴)، حم (۵/۴۴۶، ۴۴۷) (صحیح)
۳۵۲۵- سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تونبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہو جا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہدایت دے تو وہ باپ کی طرف ہو لیا۔


3526- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَةً جَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ؛ فَجَائَ زَوْجُهَا وَقَالَ: مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي ابْنِي؟ فَقَالَ: "يَا غُلامُ! هَذَا أَبُوكَ، وَهَذِهِ أُمُّكَ؛ فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ" فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ؛ فَانْطَلَقَتْ بِهِ۔
* تخريج: د/الطلاق ۳۵ (۲۲۷۷) مطولا، ت/الأحکام ۲۱ (۱۳۵۷)، ق/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۱، ۲۳۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۳)، حم (۲/۴۴۷)، دي/الطلاق ۱۶ (۲۳۳۹) (صحیح)
۳۵۲۶- ابو میمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس تھے تو انھوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (وآرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں) اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا (اور اختلاف) کرتا ہے؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (اس کے بیٹے سے کہا:) اے لڑکے! یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تو تم جس کے ساتھ رہنا چاہو اس کا ہاتھ پکڑ لو چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
53-عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ
۵۳- باب: خلع کرانے والی عورت کی عدت کا بیان​


3527- أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي شَاذَانُ بْنُ عُثْمَانَ أَخُوعَبْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ أَخْبَرَتْهُ؛ أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، فَكَسَرَ يَدَهَا، وَهِيَ جَمِيلَةُ بِنْتُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَأَتَى أَخُوهَا يَشْتَكِيهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ثَابِتٍ؛ فَقَالَ لَهُ: " خُذْ الَّذِي لَهَا عَلَيْكَ، وَخَلِّ سَبِيلَهَا " قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَرَبَّصَ حَيْضَةً وَاحِدَةً، فَتَلْحَقَ بِأَهْلِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۴۷) (صحیح)
۳۵۲۷- ربیع بنت معوذ بن عفرائ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ثابت بن قیس بن شماس رضی الله عنہ نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ) اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا۔ وہ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی، اس کا بھائی اس کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا (جب وہ آئے تو) آپ نے ان سے فرمایا: تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو ۱؎ انہوں نے کہا: اچھا، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا ؤ ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کر دو۔
وضاحت ۲؎: یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کے لئے جو کہتے ہیں کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے۔


3528- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ رُبَيِّعَ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَ: قُلْتُ لَهَا: حَدِّثِينِي حَدِيثَكِ، قَالَتْ: اخْتَلَعْتُ مِنْ زَوْجِي، ثُمَّ جِئْتُ عُثْمَانَ فَسَأَلْتُهُ، مَاذَا عَلَيَّ مِنْ الْعِدَّةِ؟ فَقَالَ: لاَعِدَّةَ عَلَيْكِ، إِلا أَنْ تَكُونِي حَدِيثَةَ عَهْدٍ بِهِ، فَتَمْكُثِي حَتَّى تَحِيضِي حَيْضَةً، قَالَ: وَأَنَا مُتَّبِعٌ فِي ذَلِكَ قَضَائَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرْيَمَ الْمَغَالِيَّةِ، كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَاخْتَلَعَتْ مِنْهُ۔
* تخريج: ق/الطلاق۲۳ (۲۰۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۶) (حسن صحیح)
۳۵۲۸- عبادہ بن ولید ربیع بنت معوذ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے اپنا واقعہ (حدیث) بیان کیجئے انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کیا اور عثمان رضی الله عنہ کے پاس آکر پوچھا کہ مجھے کتنی عدت گزارنی ہو گی؟ انہوں نے کہا: تمہارے لیے عدت تو کوئی نہیں لیکن اگر انہیں دنوں (یعنی طہر سے فراغت کے بعد) اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو ایک حیض آنے تک رکی رہو۔ انہوں نے کہا: میں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اس فیصلے کی پیروی کر رہا ہوں جو آپ نے ثابت بن قیس کی بیوی مریم غالیہ کے خلع کرنے کے موقع پر صادر فرمایا تھا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ثابت بن قیس کی بیوی کے مختلف نام لوگوں نے لکھے ہیں، انہیں میں سے ایک مریم غالیہ بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
54-مَا اسْتُثْنِيَ مِنْ عِدَّةِ الْمُطَلَّقَاتِ
۵۴-باب: عدت سے مستثنیٰ مطلقہ عورتوں کا بیان​


3529- أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ النَّحْوِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ { مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا } وَقَالَ {وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ } الآيَةَ وَقَالَ { يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَائُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ } فَأَوَّلُ مَا نُسِخَ مِنْ الْقُرْآنِ الْقِبْلَةُ، وَقَالَ: {وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ } وَقَالَ { وَاللاَّئِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ } فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ تَعَالَى{ وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا }۔
* تخريج: د/الطلاق ۳۷ (۲۲۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۵۳)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۴ (حسن صحیح)
۳۵۲۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما (سورہ بقرہ کی) آیت: { مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا} ۱؎ (اور سورہ نمل کی) آیت: { وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ۔۔۔ } ۲؎ (اور سورہ رعد کی) آیت: { يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَائُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ـ} ۳؎ کے بارے میں فرماتے ہیں: ان آیات کی روشنی میں پہلی چیز جو منسوخ ہوئی وہ قبلہ کی تبدیلی ہے ۴؎، اور (اس کے بعد) ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: (اور یہ جو سورہ بقرہ کی) آیت: { وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوئٍ } ۵؎ اور (سورہ طلاق کی) آیت: { وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنْ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنْ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ}۶؎ آئی ہے تو ان دونوں آیات سے (ان کا عموم) منسوخ ہو گیا (سورہ احزاب کی اس) آیت: { وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا} سے ۷؎۔
وضاحت ۱؎: جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں (البقرہ: ۱۰۶)
وضاحت ۲؎: اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالی نازل فرماتا ہے...۔ (النحل: ۱۰۱)
وضاحت ۳؎: اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے لوح محفوظ اسی کے پاس ہے (الرعد: ۳۹)
وضاحت ۴؎: یعنی بیت المقدس کے بجائے قبلہ خانہ کعبہ بنا دیا گیا۔
وضاحت ۵؎: طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں (البقرہ: ۲۲۸)
وضاحت ۶؎: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے (الطلاق: ۴)
وضاحت ۷؎: اگر تم مومنہ عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (الاحزاب: ۴۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
55-بَاب عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
۵۵-باب: بیوہ کی عدت کا بیان​


3530- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لاَيَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا "۔
* تخريج: خ/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۰، ۱۲۸۱)، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۴)، ۴۷ (۵۳۳۸)، ۵۰ (۵۳۴۵)، م/الطلاق ۹ (۱۴۸۶)، د/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، ت/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۴)، وقد أخرجہ: ق/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، ط/الطلاق ۳۵ (۱۰۱)، حم (۶/۳۲۵، ۳۲۶، ۴۲۶)، دي/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰)، ویأتي عند المؤلف في ۵۹، ۶۳ (بأرقام۳۵۵۷، ۳۵۶۳) (صحیح)
۳۵۳۰- ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: '' اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، وہ شوہر کے انتقال پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی''۔


3531- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ: عَنْ أُمِّهَا، قَالَ: نَعَمْ إِنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا أَتَكْتَحِلُ، فَقَالَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي بَيْتِهَا فِي شَرِّ أَحْلاَسِهَا حَوْلاَ، ثُمَّ خَرَجَتْ؛ فَلاَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"۔
* تخريج: خ/الطلاق ۴۶ (۵۳۳۶)، ۴۷ (۵۳۴۰)، والطب ۱۸ (۵۷۰۶)، م/الطلاق ۹ (۱۴۸۸)، د/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، ت/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۷)، تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۹)، ق/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، ط/الطلاق ۳۵ (۱۰۳)، حم (۶/۲۹۱، ۳۱۱، ۳۲۶)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۶۳، ۳۵۶۸-۳۵۷۱) (صحیح)
۳۵۳۱- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس کا شوہر مر گیا ہو اور سرمہ (وکاجل) نہ لگانے سے اس کی آنکھوں کے خراب ہو جانے کا خوف وخطرہ ہو تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: (زمانہ جاہلیت میں) تمہاری ہر عورت (اپنے شوہر کے سوگ میں) اپنے گھر میں انتہائی خراب، گھٹیا وگندا کپڑا (اونٹ کی کاٹھ کے نیچے کے کپڑے کی طرح) پہن کر سال بھر گھر میں بیٹھی رہتی تھی، پھر کہیں (سال پورا ہونے پر) نکلتی تھی۔ اور اب چار مہینے دس دن بھی تم پر بھاری پڑ رہے ہیں؟ ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی اسلام کی رو سے وہ چار ماہ دس دن صبر نہیں کر سکتی؟ یہ مدت تو سال کے مقابلہ میں اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔


3532- أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ الأَنْصَارِيِّ - وَجَدُّهُ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتَا: جَائَتْ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَإِنِّي أَخَافُ عَلَى عَيْنِهَا، أَفَأَكْحُلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَجْلِسُ حَوْلاَ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا؛ فَإِذَا كَانَ الْحَوْلُ خَرَجَتْ، وَرَمَتْ وَرَائَهَا بِبَعْرَةٍ "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۵۳۲- ام المومنین ام سلمہ اور ام المومنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری بیٹی کے شوہر (یعنی میرے داماد) کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے (عدت میں بیٹھی) بیٹی کی آنکھ کے خراب ہو جانے کا خوف ہے تو میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم میں (سوگ منانے والی) عورت زمانہ جاہلیت میں سال بھر بیٹھی رہتی تھی، اور یہ تو چار مہینہ دس دن کی بات ہے، جب سال پورا ہو جاتا تو وہ باہر نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی''۔


3533- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ نَافِعًا يَقُولُ: عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ: أَنَّهَا سَمِعَتْ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ زَوْجَ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ؛ فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا "۔
* تخريج: م/الطلاق ۹ (۱۴۹۰)، ق/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۱۷)، ط/الطلاق ۳۵ (۱۰۴)، حم (۶/۱۸۴، ۲۸۶، ۲۸۷) (صحیح)
۳۵۳۳- ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سوائے شوہر کے، شوہر کے انتقال پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی''۔


3534- أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لاَيَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ أَكْثَرَ مِنْ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۸۳) (صحیح)
۳۵۳۴- بعض امہات المومنین اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے، شوہر کے مرنے پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی ''۔


3535- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا السَّهْمِيُّ يَعْنِي عَبْدَاللَّهِ بْنَ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، - وَهِيَ أُمُّ سَلَمَةَ - عَنْ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۵۳۵- صفیہ بنت ابو عبید نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک بیوی سے اور بیوی سے مراد ام سلمہ رضی الله عنہا ہیں اور وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اوپر گزری ہوئی حدیث جیسی حدیث بیان کرتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
56-بَاب عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
۵۶-باب: حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان​


3536- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ - قَالاَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ: أَنَّ سُبَيْعَةَ الأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ أَنْ تَنْكِحَ، فَأَذِنَ لَهَا فَنَكَحَتْ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۹ (۵۳۲۰)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۷۲)، ط/الطلاق ۳۰ (۸۵)، حم (۴/۳۲۷)، ویأتي فیما یلي (صحیح)
۳۵۳۶- مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی رضی الله عنہا کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کر لی۔


3537- أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ سُبَيْعَةَ أَنْ تَنْكِحَ إِذَا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۵۳۷- مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سبیعہ رضی الله عنہا کو اپنے نفاس سے فراغت کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا۔


3538- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلاثَةٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ تَشَوَّفَتْ لِلأَزْوَاجِ؛ فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا؛ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَقَالَ مَا يَمْنَعُهَا، قَدْ انْقَضَى أَجَلُهَا "۔
* تخريج: ت/الطلاق ۱۷ (۱۱۹۳)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۳)، حم (۴/۳۰۴، ۳۰۵)، دي/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۷) (صحیح)
۳۵۳۸- ابو سنابل رضی الله عنہ کہتے ہیں سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہا کے شوہر کو مرے ہوئے ۲۳یا ۲۵ راتیں گزریں تھیں کہ اس نے بچہ جنا پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئی تو اس نے (نئی) شادی کی تیاری کی اور اس کے لیے زیب وزینت سے مزین ہوئی تو اس کے لیے ایسا کرنا غیر مناسب سمجھا (اور نا پسند کیا) گیا اور اس کی شکایت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بھی کی گئی تو آپ نے فرمایا: '' جب اس کی عدت پوری ہو چکی ہے تو اب اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟ '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی وہ ایسا کر سکتی ہے یہ کوئی عیب وبرائی نہیں ہے۔


3539- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يَقُولُ: اخْتَلَفَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَابْنُ عَبَّاسٍ فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: تُزَوَّجُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَبْعَدَ الأَجَلَيْنِ؛ فَبَعَثُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ؛ فَقَالَتْ: تُوُفِّيَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ؛ فَوَلَدَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِخَمْسَةَ عَشَرَ نِصْفِ شَهْرٍ، قَالَتْ: فَخَطَبَهَا رَجُلانِ؛ فَحَطَّتْ بِنَفْسِهَا إِلَى أَحَدِهِمَا؛ فَلَمَّا خَشُوا أَنْ تَفْتَاتَ بِنَفْسِهَا قَالُوا: إِنَّكِ لا تَحِلِّينَ، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ؛ فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ "۔
* تخريج: تفرد النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۳۳)، حم (۶/۳۱۱، ۳۱۹) (صحیح)
۳۵۳۹- ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم میں اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہو گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور اس نے بچہ جن دیا ہو۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: (وضع حمل کے بعد نفاس سے فارغ ہو کر) وہ شادی کر سکتی ہے اور ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (یعنی وضع حمل اور عدت طلاق) میں سے جس عدت کی مدت لمبی ہوگی اُسے وہ عدت پوری کرنی ہوگی (یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد ہی وہ شادی کر سکے گی) آخر کار ان لوگوں نے کسی کو ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس بھیج کر اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا سبیعہ رضی الله عنہا کے شوہر انتقال کر گئے اور ان کے انتقال کے پندرہ دن بعد اس نے بچہ جنا۔ پھر اسے دو آدمیوں نے شادی کا پیغام دیا، جن میں سے ایک کی طرف وہ مائل ہو گئی (اور اس کا بھی خیال اس سے شادی کر ڈالنے کا ہو گیا) تو جب (دوسرا شادی کا خواہشمند اور اس کے ساتھی) لوگ ڈرے کہ یہ تو ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے تو انہوں نے (شادی روکنے اور رکاوٹ ڈالنے کی خاطر) کہا: ابھی تو تم حلال ہی نہیں ہوئی ہو (تمہاری عدت پوری نہیں ہوئی ہے تم شادی رچانے کیسے جا رہی ہو) وہ کہتی ہیں (جب ان لوگوں نے یہ بات کہی) تو میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئی، آپ نے فرمایا: ''بلا شبہ تم حلال ہو گئی ہو تو جس سے بھی چاہو اس سے نکاح کر سکتی ہو''۔


3540- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ - قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُوهُرَيْرَةَ، عَنْ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَهِيَ حَامِلٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِذَا وَلَدَتْ فَقَدْ حَلَّتْ؛ فَدَخَلَ أَبُو سَلَمَةَ، إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ؛ فَقَالَتْ: وَلَدَتْ سُبَيْعَةُ الأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِنِصْفِ شَهْرٍ؛ فَخَطَبَهَا رَجُلاَنِ: أَحَدُهُمَا شَابٌّ، وَالآخَرُ كَهْلٌ؛ فَحَطَّتْ إِلَى الشَّابِّ؛ فَقَالَ الْكَهْلُ: لَمْ تَحْلِلْ، وَكَانَ أَهْلُهَا غُيَّبًا، فَرَجَا إِذَا جَائَ أَهْلُهَا أَنْ يُؤْثِرُوهُ بِهَا؛ فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ؛ فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۵۴۰- ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے اس عورت (کی عدت) کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور وہ (انتقال کے وقت) حاملہ رہی ہو۔ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو آخر میں ہو یعنی لمبی ہو اور دوسری کے مقابل میں بعد میں پوری ہوتی ہو ۱؎، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: جس وقت عورت بچہ جنے اسی وقت اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ (یہ اختلاف سن کر) ابو سلمہ ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس گئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے پندرہ دن بعد بچہ جنا پھر دو آدمیوں نے اسے شادی کرنے کا پیغام دیا، ان دونوں میں سے ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر کا، وہ جوان کی طرف مائل ہوئی اور اسے شادی کے لیے پسند کر لیا۔ ادھیڑ عمر والے نے اس سے کہا: تو تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو (شادی کرنے کیسے جا رہی ہو)، اس کے گھر والے غیر موجود تھے ادھیڑ عمر والے نے امید لگائی (کہ میرے ایسا کہنے سے شادی ابھی نہ ہوگی اور) جب لڑکی کے گھر والے آ جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کا اس کے ساتھ رشتہ کر دینے کو ترجیح دیں (اور سبیعہ کو اس کے ساتھ شادی کر لینے پر راضی کر لیں)۔ لیکن وہ تو (سیدھے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم (بچہ جن کر) حلال ہو چکی ہو، تمہارا دل جس سے چاہے اس سے شادی کر لو ۲؎۔
وضاحت ۱؎: آیت: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} (البقرة: 234) کے مطابق ایک عدت چار مہینہ دس دن کی ہے اور دوسری عدت آیت: { وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ } (الطلاق: 4) کے مطابق وضع حمل ہے۔
وضاحت ۲؎: گویا ابوہریرہ رضی الله عنہ کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں درست تھا۔


3541- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: قِيلَ لابْنِ عَبَّاسٍ فِي امْرَأَةٍ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِعِشْرِينَ لَيْلَةً: أَيَصْلُحُ لَهَا أَنْ تَزَوَّجَ؟ قَالَ: لاَ! إِلا آخِرَ الأَجَلَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى {وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} (الطلاق: 4) فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الطَّلاقِ، فَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي - يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ - فَأَرْسَلَ غُلامَهُ كُرَيْبًا فَقَالَ: ائْتِ أُمَّ سَلَمَةَ؛ فَسَلْهَا: هَلْ كَانَ هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَجَائَ؛ فَقَالَ: قَالَتْ: نَعَمْ، سُبَيْعَةُ الأَسْلَمِيَّةُ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِعِشْرِينَ لَيْلَةً؛ فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَزَوَّجَ؛ فَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِيمَنْ يَخْطُبُهَا۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الطلاق ۲ (۴۹۰۹)، م/الطلاق ۸ (۱۴۸۵)، ت/الطلاق ۱۷ (۱۱۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۰۶)، حم (۶/۳۱۴)، دي/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۵) (صحیح)
۳۵۴۱- ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں ابن عباس رضی الله عنہما سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنے شوہر کے انتقال کے بیس رات بعد بچہ جنا، کیا اس کے لیے نکاح کر لینا جائز ودرست ہوگا؟ انہوں نے کہا: اس وقت تک نہیں جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے بعد میں مکمل ہونے والی عدت کو پوری نہ کر لے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: {وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ } یعنی جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں۔ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: یہ حکم مطلقہ (حاملہ) کا ہے۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابو سلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ابو سلمہ جو کہتے ہیں وہی میرے نزدیک بھی صحیح اور بہتر ہے) اس گفتگو کے بعد ابن عباس رضی الله عنہما نے اپنے غلام کریب کو بھیجا کہ ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی سنت موجود ہے؟ کریب ان کے پاس آئے اور انہیں (ساری بات) بتائی، تو انہوں نے کہا: ہاں، سبیعہ اسلمی رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کی بیس راتیں گزرنے کے بعد بچہ جنا اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کی اجازت دی، اور ابو سنابل رضی الله عنہ انہیں لوگوں میں سے تھے جن ہوں نے اسے شادی کا پیغام دیا تھا۔


3542- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ تَذَاكَرُوا عِدَّةَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَعْتَدُّ آخِرَ الأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ؛ فَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي؛ فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ؛ فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
۳۵۴۲- سلیمان بن یسار سے روایت ہے، ابوہریرہ، ابن عباس (رضی الله عنہم) اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اس عورت کے بار ے میں جس کا شوہر مر گیا ہو اور شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنا ہو آپس میں بات چیت کی۔ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: جو عدت بعد میں پوری ہو اس کا وہ لحاظ وشمار کرے گی، ابو سلمہ نے کہا: نہیں وہ وضع حمل کے ساتھ ہی (دوسرے کے لیے) حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں بھی اپنے بھتیجے ابو سلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ان کا ہم خیال ہوں)، پھر ان لوگوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے تھوڑے ہی دنوں بعد بچہ جنا پھر اس نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا۔


3543- أَخْبَرَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَزَوَّجَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
۳۵۴۳- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے کچھ دنوں بعد بچہ جنا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے (اپنی پسند کے شخص سے) شادی کر لینے کا حکم دیا۔


3544- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ؛ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ اخْتَلَفَا فِي الْمَرْأَةِ تُنْفَسُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: إِذَا نُفِسَتْ؛ فَقَدْ حَلَّتْ؛ فَجَائَ أَبُوهُرَيْرَةَ؛ فَقَالَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي - يَعْنِي أَبَاسَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ - فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا عَنْ ذَلِكَ؛ فَجَائَهُمْ؛ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهَا قَالَتْ: وَلَدَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۴۱ش۳۵ (صحیح)
۳۵۴۴- سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن کے درمیان اُس عورت (کی عدت) کے بارے میں اختلاف ہو گیا جو اپنے شوہر کے انتقال کے چند ہی راتوں بعد بچہ جنے۔ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس عدت کی مدت زیادہ ہوگی اس پر عمل کرے گی اور ابو سلمہ نے کہا: جب بچہ پیدا ہو جائے گا تو وہ حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی الله عنہ بھی (وہاں) پہنچ گئے (اور باتوں میں شریک ہو گئے) انہوں نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابو سلمہ بن عبدالرحمن کے ساتھ ہوں (یعنی میری بھی وہی رائے ہے جو ابو سلمہ کی ہے) پھر ان سبھوں نے ابن عباس رضی الله عنہما کے غلام کریب کو (ام المومنین) ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا وہ پوچھ کر ان لوگوں کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ وہ کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے چند راتوں بعد بچہ جنا پھر اس نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا، آپ نے فرمایا: تو حلال ہو چکی ہے (جس سے بھی تو شادی کرنا چاہے کر سکتی ہے)۔


3545- أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُوهُرَيْرَةَ؛ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِذَا وَضَعَتْ الْمَرْأَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَإِنَّ عِدَّتَهَا آخِرُ الأَجَلَيْنِ، فَقَالَ أَبُوسَلَمَةَ: فَبَعَثْنَا كُرَيْبًا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا عَنْ ذَلِكَ، فَجَائَنَا مِنْ عِنْدِهَا أَنَّ سُبَيْعَةَ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَوَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَزَوَّجَ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
۳۵۴۵- ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم (سب) ساتھ میں تھے، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: جب عورت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنے گی تو وہ عورت دونوں عدتوں میں سے وہ عدت گزارے گی جس کی مدت بعد میں ختم ہوتی ہو۔ ابو سلمہ کہتے ہیں: ہم نے ام سلمہ (ام المومنین) رضی الله عنہا سے یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے ان کے پاس کریب کو بھیجا، وہ ہمارے پاس اُن کے پاس سے یہ خبر لے کر آئے کہ سبیعہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا، ان کے انتقال چند دنوں بعد سبیعہ کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں شادی کرنے کا حکم دیا۔


3546- أَخْبَرَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهَا سُبَيْعَةُ، كَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا؛ فَتُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَى؛ فَخَطَبَهَا أَبُوالسَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ؛ فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَهُ؛ فَقَالَ: مَايَصْلُحُ لَكِ أَنْ تَنْكِحِي حَتَّى تَعْتَدِّي آخِرَ الأَجَلَيْنِ؛ فَمَكَثَتْ قَرِيبًا مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نُفِسَتْ؛ فَجَائَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: انْكِحِي۔
* تخريج: خ/الطلاق ۳۹ (۳۵۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۷۳) (صحیح)
۳۵۴۶- ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے اپنی ماں ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے سن کر مجھے خبر دی کہ قبیلہ اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی اور حاملہ تھی (اسی دوران) شوہر کا انتقال ہو گیا تو ابو سنابل بن بعکک رضی الله عنہ نے اسے شادی کا پیغام دیا جسے اس نے ٹھکرا دیا، اس نے اُس سے کہا: تیرے لیے درست نہیں ہے کہ دونوں عدتوں میں سے آخری مدت کی عدت پوری کئے بغیر شادی کرے۔ پھر وہ تقریباً بیس راتیں ٹھہری رہی کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ (اس کے بعد) وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی (اور آپ سے اسی بارے میں مسئلہ پوچھا اور صورت حال بتائی) آپ نے فرمایا: '' تو (جس سے چاہے) نکاح کر لے ''۔


3547- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ؛ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا وَأَبُوهُرَيْرَةَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ جَائَتْهُ امْرَأَةٌ؛ فَقَالَتْ: تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ؛ فَوَلَدَتْ لأَدْنَى مِنْ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ مِنْ يَوْمِ مَاتَ؛ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الأَجَلَيْنِ؛ فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ سُبَيْعَةَ الأَسْلَمِيَّةَ جَائَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ؛ فَوَلَدَتْ لأَدْنَى مِنْ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ؛ فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَزَوَّجَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۹۳) (صحیح)
۳۵۴۷- ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں اور ابوہریرہ رضی الله عنہ دونوں ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس تھے، اتنے میں ایک عورت اُن کے پاس آئی اور کہنے لگی: وہ حمل سے تھی کہ اسی دوران اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اسے مرے ہوئے قریب چار مہینے ہوئے تھے کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا (اس کی عدت کیا ہوگی؟)۔ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس کی مدت لمبی ہوگی وہی تمہاری عدت ہوگی، (یہ سن کر) ابو سلمہ نے کہا: مجھے ایک صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: اُس کا شوہر انتقال کر گیا، اُس وقت وہ حاملہ تھی پھر اس نے قریب چار مہینے پر بچہ جنا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اسے شادی کر لینے کا حکم دیا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہنے لگے میں اس مسئلہ میں گواہ ہوں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: گویا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو گئی۔


3548- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَهُ؛ أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ الزُّهْرِيِّ، يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ، فَيَسْأَلَهَا حَدِيثَهَا، وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حِينَ اسْتَفْتَتْهُ؟ فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ - وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا - فَتُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ - رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِالدَّارِ - فَقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً، لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ النِّكَاحَ؟ إِنَّكِ وَاللَّهِ! مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ، جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي۔
* تخريج: خ/المغازي ۱۰ (۳۹۹۱) تعلیقًا، الطلاق ۳۹ (۵۳۱۹)، م/الطلاق ۸ (۱۴۸۴)، د/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۶)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۰)، حم (۶/۴۳۲)، ویأتي برقم: ۳۵۴۹، ۳۵۵۰ (صحیح)
۳۵۴۸- عبید اللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے باپ عبداللہ (بن عتبہ) نے عمر بن اللہ بن ارقم زہری کو خط لکھ کر حکم دیا کہ تم سبیعہ اسلمی بنت حارث رضی الله عنہما کے پاس جاؤ اور ان کا قصہ معلوم کرو اور یہ کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کیا فرمایا تھا جس وقت انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا تھا، عمر بن عبداللہ نے (سبیعہ اسلمی سے ملاقات کر کے) عبیداللہ بن عتبہ کو باخبر کرتے ہوئے لکھا: سبیعہ رضی الله عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں اور وہ (سعد) بنو عامر بن لوئی کے قبیلے سے تھے اور بدری بھی تھے، ان کا انتقال حجۃ الوداع میں ہوا اور اس وقت وہ حاملہ تھیں اور ان کی وفات کے بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب وزینت کے ساتھ رہنے لگیں)، ان کے پاس قبیلہ بنو عبدالدار کے ابو سنابل بن بعکک رضی الله عنہ آئے، انہوں نے کہا: کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھتا ہوں، لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو؟ قسم اللہ کی! تم اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم چار مہینے دس دن عدت کے پوری نہ کر لو۔ سبیعہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں نے اپنے کپڑے لپیٹے وسمیٹے (اور اوڑھ پہن کر اور سلیقے سے ہو کر) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گئی اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ ''جس وقت میں نے بچہ جنا ہے اسی وقت سے میں حلال ہو چکی ہوں اور مجھے حکم دیا کہ میں شادی کر لوں اگر میرا جی چاہے۔


3549- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوعَبْدِالرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ؛ قَالَ: كَتَبَ إِلَيْهِ يَذْكُرُ أَنَّ عُبَيْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِاللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّ زُفَرَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَاالسَّنَابِلِ بْنَ بَعْكَكِ بْنِ السَّبَّاقِ قَالَ لِسُبَيْعَةَ الأَسْلَمِيَّةِ: لاتَحِلِّينَ حَتَّى يَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، أَقْصَى الأَجَلَيْنِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ؛ فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْتَاهَا أَنْ تَنْكِحَ إِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، وَكَانَتْ حُبْلَى فِي تِسْعَةِ أَشْهُرٍ حِينَ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا، وَكَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ؛ فَتُوُفِّيَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَنَكَحَتْ فَتًى مِنْ قَوْمِهَا حِينَ وَضَعَتْ مَا فِي بَطْنِهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۵۴۹- زفر بن اوس بن حدثان نصری بیان کرتے ہیں کہ ابو سنابل بن بعکک بن سباق رضی الله عنہ نے سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہا سے کہا کہ تم (نکاح کے لیے) حلال نہ ہوگی جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے لمبی مدت والی عدت کے چار ماہ دس دن تم پر گذر نہ جائیں، تو وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھا، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں فتویٰ دیا کہ جب وہ بچہ جنچکی ہے تو نکاح کر لے، وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جب ان کے شوہر سعد کا انتقال ہوا تو ان کے حمل کا نوواں مہینہ چل رہا تھا، وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا، چنانچہ بچہ جننے کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے شادی کر لی۔


3550- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ أَنْ ادْخُلْ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ؛ فَاسْأَلْهَا عَمَّا أَفْتَاهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَمْلِهَا؟ قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ فَسَأَلَهَا؛ فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا - فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ؛ فَوَلَدَتْ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا؛ فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا دَخَلَ عَلَيْهَا أَبُوالسَّنَابِلِ - رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ - فَرَآهَا مُتَجَمِّلَةً؛ فَقَالَ: لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ النِّكَاحَ قَبْلَ أَنْ تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا؟ قَالَتْ: فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثِي؛ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْحَلَلْتِ حِينَ وَضَعْتِ حَمْلَكِ "۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۳۵۴۸ (صحیح)
۳۵۵۰- عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی رضی الله عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا؟ عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ رضی الله عنہا کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ رضی الله عنہ کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اُن صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہو گیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابو السنابل رضی الله عنہ ان کے پاس آئے اور انہیں زیب وزینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں: جب میں نے ابو السنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا: '' تو تم اُسی وقت سے حلال ہو گئی ہو جب تم نے بچہ جنا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کر سکتی ہو۔


3551- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي نَاسٍ بِالْكُوفَةِ فِي مَجْلِسٍ لِلأَنْصَارِ عَظِيمٍ، فِيهِمْ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى؛ فَذَكَرُوا شَأْنَ سُبَيْعَةَ؛ فَذَكَرْتُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ - فِي مَعْنَى قَوْلِ ابْنِ عَوْنٍ - " حَتَّى تَضَعَ " قَالَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى: لَكِنَّ عَمَّهُ لاَيَقُولُ ذَلِكَ؛ فَرَفَعْتُ صَوْتِي، وَقُلْتُ: إِنِّي لَجَرِيئٌ: أَنْ أَكْذِبَ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَلَقِيتُ مَالِكًا قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ، قَالَ: قَالَ: أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ، وَلاَ تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ، لأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَائِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى۔
* تخريج: خ/تفسیرسورۃ البقرۃ ۴۱ (۴۵۳۲)، تفسیرسورۃ الطلاق۱ (۴۹۱۰) تعلیقًا، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۴۴) (صحیح)
۳۵۵۱- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی الله عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول '' حتی تضع '' کے معنی اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے)، (اس بات پر) ابن ابی لیلی نے کہا: لیکن ان کے (یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود رضی الله عنہ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا: کیا میں جرأت کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک وشبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ سبیعہ رضی الله عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورہ النساء (یعنی سورہ طلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورہ (بقرہ) کے بعد اتری ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی یہ عدت چار ماہ دس دن کی عدت سے مستثنیٰ اور الگ ہے۔


3552- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينِ بْنِ نُمَيْلَةَ - يَمَامِيٌّ - قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ح و أَخْبَرَنِي مَيْمُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شَبْرَمَةَ الْكُوفِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ شَائَ لاعَنْتُهُ، مَا أُنْزِلَتْ {وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} إِلابَعْدَ آيَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، إِذَا وَضَعَتِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فَقَدْ حَلَّتْ، وَاللَّفْظُ لِمَيْمُونٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۴۴۲)، وقد أخرجہ: د/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۷)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۳۰) (صحیح الإسناد)
۳۵۵۲- علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: جو کوئی مجھ سے مباہلہ کرنا چاہے میں اس سے اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں (کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے) کیونکہ وضع حمل کی مدت سے متعلق آیت متوفی عنہا زوجہا والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے جس کا شوہر مر گیا ہو جب وہ بچہ جن دے گی حلال ہو جائے گی۔ اس روایت کے الفاظ میمون کے ہیں۔


3553- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ - وَهُوَ ابْنُ أَعْيَنَ - قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ح و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ وَمَسْرُوقٌ وَعَبِيدَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ سُورَةَ النِّسَائِ الْقُصْرَى نَزَلَتْ بَعْدَ الْبَقَرَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۱۸۴) (صحیح)
۳۵۵۳- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نسائی (یعنی طلاق) کی چھوٹی سورہ بقرہ کی (بڑی) سورہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
 
Top