38-كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْئِ
۳۸- کتاب: مالِ فی ٔ ۱؎ کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل
4138- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى لِمَنْ تُرَاهُ، قَالَ: هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ، وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ، وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ، وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ، وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، د/الخراج۲۰(۲۹۸۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲)، دي/السیر ۳۲ (۲۵۱۴) (صحیح)
۴۱۳۸- یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لئے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ(مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ(اب) کس کو ملنا چاہئے ۳؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر رضی الله عنہ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ وجدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ '' غنیمت '' میں سے بھی رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔
وضاحت۲؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کو قتل کیا تھا۔
وضاحت۳؎: رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ '' رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟ '' ابن عباس رضی الله عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیے، جب کہ عمر رضی الله عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔
4139- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ - قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ: وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَى أَنْ يُنْكِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا، وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا، وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا؛ فَأَبَيْنَا إِلا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا، وَأَبَى ذَلِكَ؛ فَتَرَكْنَاهُ عَلَيْهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۳۹- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے؟ نجدہ کے پاس ابن عباس رضی الله عنہما کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر رضی الله عنہ نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء ومساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔
4140- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ، وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ ال رسول، وَذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ؛ فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَائَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ، وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ، وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الإِسْلامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوئِ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)
۴۱۴۰- اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لئے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔
4141- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ جَائَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ؛ فَقَالا: يَا رسول اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ؛ فَقَالَ لَهُمَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا، وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا " قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: وَلَمْ يَقْسِمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۸ (۴۲۲۹)، د/الخراج ۲۰ (۲۹۷۹، ۲۹۸۰)، ق/الجہاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۴۱۴۱- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس غزوۂ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ''، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔
وضاحت۲؎: جبیر بن مطعم اور عثمان رضی الله عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیوں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دیکر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی للہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا؟ اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئے اگلی حدیث)
4142- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ أَتَيْتُهُ أَنَا، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ؛ فَقُلْنَا: يَا رسول اللَّهِ! هَؤُلائِ بَنُوهَاشِمٍ لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي جَعَلَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ، وَمَنَعْتَنَا؛ فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلا اسْلامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ"۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۴۲- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لئے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' انہوں نے مجھے نہ زمانۂ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں ''، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔
4143- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: أَخَذَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ قَدْرُ هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: اسْمُ أَبِي سَلاَّمٍ مَمْطُورٌ - وَهُوَ حَبَشِيٌّ - وَاسْمُ أَبِي أُمَامَةَ صُدَيُّ بْنُ عَجْلانَ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۲)، حم (۵/۳۱۶، ۳۱۸، ۳۱۹) (حسن صحیح)
۴۱۴۳- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ حنین کے دن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا: ''لوگو! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لئے خمس(پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے''۔
4144- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَعِيرًا؛ فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْئِ شَيْئٌ، وَلا هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۲) (حسن، صحیح)
۴۱۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا: '' خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مالِ فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے''۔
4145- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو - يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ- عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ؛ قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلارِكَابٍ؛ فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ، وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۸۰ (۲۹۰۴)، الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرسورۃ الحشر ۳ (۴۸۸۵)، النفقات ۳ (۵۳۵۷)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۱۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۵)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجہاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱)، حم (۱/۲۵، ۴۸) (صحیح)
۴۱۴۵- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مالِ غنیمت مالِ فیٔ میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لئے صرف کرتے۔
4146- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ، وَمِمَّا تَرَكَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا نُورَثُ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱(۳۰۹۲)، فضائل الصحابۃ ۱۲ (۳۷۱۱)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۵، ۴۰۳۶)، ۳۸ (۴۲۴۰، ۴۲۴۱)، الفرائض ۳ (۶۷۲۵)، م/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۹)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۸، ۲۹۶۹، ۲۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰)، حم (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰) (صحیح)
۴۱۴۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی الله عنہا نے ابو بکر رضی الله عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا(یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا''۔
4147- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى } قَالَ: خُمُسُ اللَّهِ، وَخُمُسُ رسولهِ وَاحِدٌ كَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ، وَيُعْطِي مِنْهُ، وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَائَ، وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَائَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۵۶) (صحیح الإسناد)
(سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے)
۴۱۴۷- عطاء آیت کریمہ:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى} ۱؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں: اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔
وضاحت ۱؎: جان لو کہ تمہیں جو مالِ غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لئے اور رسول اور ذی القربی کے لئے ہے۔ (الأنفال: ۴۱)
4148- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } قَالَ: هَذَا مَفَاتِحُ كَلامِ اللَّهِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ لِلَّهِ، قَالَ: اخْتَلَفُوا فِي هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ بَعْدَ وَفَاةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمِ ال رسول، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى؛ فَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِيفَةِ، مِنْ بَعْدِهِ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ الْخَلِيفَةِ، فَاجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَنْ جَعَلُوا هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ فِي الْخَيْلِ، وَالْعُدَّةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَكَانَا فِي ذَلِكَ خِلافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۷۹) (صحیح الإسناد مرسل)
۴۱۴۸- قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتدا ہے جیسے کہا جاتا ہے ''دنیا اور آخرت اللہ کے لئے ہے''، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں ''یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ'' میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہوگا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہوگا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہوگا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لئے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر(رضی الله عنہما) کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لئے رہے۔
4149- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول} قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخُمُسِ، قَالَ: خُمُسُ الْخُمُسِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۳۱) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۴۹- موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول } کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم اسلامی کاموں میں خرچ کر دیتے تھے۔
4150- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: سُئِلَ الشَّعْبِيُّ، عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَقَالَ: أَمَّا سَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا سَهْمُ الصَّفِيِّ؛ فَغُرَّةٌ تُخْتَارُ مِنْ أَيِّ شَيْئٍ شَائَ۔
* تخريج: د/الخراج۲۱(۲۹۹۱)، تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۶۸) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۵۰- مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا صفی ۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔
وضاحت ۱؎: صفی مالِ غنیمت کے اُس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔
4151- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِالْمِرْبَدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدَمٍ، قَالَ: كَتَبَ لِي هَذِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَقْرَأُ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَقْرَأُ فَإِذَا فِيهَا مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ، وَفَارَقُوا الْمُشْرِكِينَ، وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ، وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَ رسولهِ۔
* تخريج: د/الخراج ۲۱ (۲۹۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۳)، حم (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۴۱۵۱- یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لئے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: '' اللہ کے نبی محمد صلی للہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لئے: اگر یہ لوگ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی دیں اور کفار ومشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے صفی کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے''۔
4152- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ؛ قَالَ: الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ، وَلِل رسول كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَابَتِهِ لايَأْكُلُونَ مِنْ الصَّدَقَةِ شَيْئًا؛ فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۶۱) (ضعیف الإسناد مرسل)
(خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)
٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ، فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَقَوْلُهُ عَزَّوَجَلَّ: لِلَّهِ ابْتِدَائُ كَلامٍ لأَنَّ الأَشْيَائَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَلَعَلَّهُ إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلامَ فِي الْفَيْئِ، وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ، وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّوَجَلَّ لأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنْ الْغَنِيمَةِ شَيْئٌ؛ فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ، وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِمَامِ يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ، وَالسِّلاحَ، وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَائً، وَمَنْفَعَةً لأَهْلِ الإِسْلامِ، وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَالْعِلْمِ، وَالْفِقْهِ، وَالْقُرْآنِ، وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى، وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُوالْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمْ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ، وَالْفَقِيرُ، وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ كَالْيَتَامَى، وَابْنِ السَّبِيلِ - وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي - وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَالصَّغِيرُ، وَالْكَبِيرُ، وَالذَّكَرُ، وَالأُنْثَى سَوَائٌ لأَنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلاخِلافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَائِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ، وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى فِيهِ سَوَائٌ، إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ؛ فَهَكَذَا كُلُّ شَيْئٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ إِلا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الآمِرُ بِهِ، وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ، وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لابْنِ السَّبِيلِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَلايُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ، وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ وَالأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ۔
۴۱۵۲- مجاہد کہتے ہیں: (قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لئے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لئے تھا، وہ لوگ صدقہ وزکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لئے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لئے اور اتنا ہی مسافروں کے لئے۔
٭ابو عبدالرحمن(امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: '' اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مالِ غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لئے، رسول کے لئے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان
{وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } میں اللہ کا قول
'' لِلَّهِ ''(یعنی اللہ کے لئے ہے) ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مالِ فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ''اپنے ذکر'' سے شاید اس لئے کی ہے کہ وہ سب سے اعلی درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لئے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لئے ہوگا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لئے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مال دار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لئے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔
اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لئے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لئے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہوگا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لئے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہوگی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ واللہ ولی التوفیق۔
اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لئے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لئے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لئے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔
4153- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ - عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ جَائَ الْعَبَّاسُ، وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ؛ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا؛ فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عُمَرُ لا افْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ، وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُوبَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ ثُمَّ أَتَيَانِي؛ فَسَأَلانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ ابْنِ أَخِي، وَيَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَائَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُوبَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ؛ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ هَذَا لِهَؤُلائِ {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} هَذِهِ لِهَؤُلائِ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ، وَلارِكَابٍ.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: هَذِهِ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا، فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، { وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ } فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الآيَةُ النَّاسَ؛ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ أَوْ قَالَ: حَظٌّ إِلا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ أَوْ قَالَ حَظُّهُ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸) إعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۳)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۳) (صحیح)
۴۱۵۳- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی رضی الله عنہما جھگڑتے ہوئے عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، عباس رضی الله عنہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجیے، لوگوں نے کہا: ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے، تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے''۔
راوی کہتے ہیں: زہری ۱؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا: (عمر رضی الله عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم (جب) اس مال کے ولی ونگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لئے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابو بکر رضی الله عنہ متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جیسے ابو بکر رضی الله عنہ کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چنانچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں: میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ۲؎ اور وہ کہتے ہیں: مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ۳؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ۴؎، پھر عمر رضی الله عنہ نے یہ آیات پڑھیں:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } ۵؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے
{ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ } ۶؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے
''{ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ }۷؎۔
زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔
اور اسی طرح
{ فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ }۸؎، اس آیت میں سبھی لوگ آگئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا: حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا: اس کا نصیب مل کر رہے گا۔
وضاحت ۱؎: مالک بن اوس سے اس حدیث کو روایت کرنے والے ایک راوی زہری بھی ہیں، دیکھئے حدیث نمبر: ۴۱۴۵
وضاحت ۲؎: کیونکہ عباس رضی الله عنہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
وضاحت ۳؎: کیونکہ علی رضی الله عنہ فاطمہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے۔
وضاحت ۴؎: یعنی جس عہد و پیمان کے تحت یہ مال تمہیں دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کرو مزید کسی مطالبہ کی قطعی ضرورت نہیں۔
وضاحت ۵؎: جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لئے ہے، رسول کے لئے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (الانفال: ۴۱)
وضاحت۶؎: صدقات فقرائ، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃالقلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لئے ہیں (التوبۃ: ۶۰)
وضاحت۷؎: اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے(الحشر: ۶)
وضاحت ۸؎: جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لئے رسول کے لئے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار(مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد(الحشر: ۷-۱۰)
* * *