- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
25-ذِكْرُ مَا عَلَى مَنْ بَايَعَ الإِمَامَ وَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ
۲۵- باب: جو کسی امام سے بیعت کر لے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دے اور اخلاص کا عہد کرے تو اس پر کیا لازم ہے
4196- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ مُجْتَمِعُونَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ نَزَلْنَا مَنْزِلا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَائَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرَتِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةُ جَامِعَةٌ؛ فَاجْتَمَعْنَا؛ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَخَطَبَنَا؛ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُ نذر هُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلائٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا تَجِيئُ فِتَنٌ؛ فَيُدَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ؛ فَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ؛ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيئُ؛ فَيَقُولُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ؛ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ؛ فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا؛ فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ؛ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ؛ فَإِنْ جَائَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ؛ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الآخَرِ؛ فَدَنَوْتُ مِنْهُ؛ فَقُلْتُ: سَمِعْتَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: هَذَا، قَالَ: نَعَمْ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: م/الإمارۃ (۱۸۴۴)، د/الفتن ۱(۴۲۴۸)، ق/الفتن ۹(۳۹۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۱) حم (۲/۱۶۱، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۳) (صحیح)
۴۱۹۶- عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کے پاس گیا، وہ کعبہ کے سایے میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگ ان کے پاس اکٹھا تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: اسی دوران جب کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ہم میں سے بعض لوگ خیمہ لگانے لگے، بعض نے تیر اندازی شروع کی، بعض جانور چَرانے لگے، اتنے میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے منادی نے پکارا: صلاۃ کھڑی ہونے والی ہے، چنانچہ ہم اکٹھا ہوئے، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور آپ نے فرمایا: ''مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہ تھا جس پر ضروری نہ رہا ہو کہ جس چیز میں وہ بھلائی دیکھے اس کو وہ اپنی امت کو بتائے، اور جس چیز میں برائی دیکھے، انہیں اس سے ڈرائے، اور تمہاری اس امت کی خیر و عافیت شروع (کے لوگوں) میں ہے، اور اس کے آخر کے لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتیں اور ایسے مسائل گھیر لیں گے جن کو یہ ناپسند کریں گے، فتنے ظاہر ہوں گے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہوں گے، پھر ایک ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت وبربادی ہے، پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا، پھر دوبارہ فتنہ آئے گا، تو مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت وبربادی ہے۔ پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا۔ لہٰذا تم میں سے جس کو یہ پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو ضروری ہے کہ اسے موت ایسی حالت میں آئے جب وہ اللہ، اور آخرت (کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اور چاہیئے کہ وہ لوگوں سے اس طرح پیش آئے جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اور جو کسی امام سے بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دے اور اخلاص کے ساتھ دے تو طاقت بھر اس کی اطاعت کرے، اب اگر کوئی اس سے (اختیار چھیننے کے لیے) جھگڑا کرے تو اس کی گردن اڑا دو، یہ سن کر میں نے ان سے قریب ہو کر کہا: کیا یہ آپ نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، پھر (پوری) حدیث ذکر کی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث کا آخری حصہ مؤلف نے نہیں ذکر کیا، امام مسلم نے اس کو ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ '' عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ نے عرض کیا: معاویہ رضی الله عنہ ایسا ویسا کر رہے ہیں، اس پر عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما نے فرمایا: '' تم معروف (بھلی بات) میں ان کی اطاعت کرتے رہو، اگر کسی منکر (برے کام) کا حکم دیں تو تم انکار کر دو، لیکن ان کے خلاف بغاوت مت کرو (خلاصہ) یہ کہ یہ حدیث سلف صالحین کے اس منہج اور طریقے کی تائید کرتی ہے کہ کسی مسلمان حاکم کے بعض منکر کاموں کی وجہ سے ان کو اختیار سے بے دخل کر دینے کے لیے ان کے خلاف تحریک نہیں چلائی جا سکتی، معروف کے سارے کام اس کی ماتحتی میں کئے جاتے رہیں گے۔ اور منکر کے سلسلے میں صرف زبانی نصیحت کی جائے گی۔