- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
41-كِتَاب الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ
۴۱- کتاب: فرع و عتیرہ کے احکام و مسائل
۱- باب
4227- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا فَرَعَ، وَلا عَتِيرَةَ "۔
* تخريج: خ/العقیقۃ ۴ (۵۴۷۳)، الأضاحي ۶ (۱۹۷۶)، د/الأضاحي ۲۰ (۲۸۳۱)، ت/الضحایا ۱۵ (۱۵۱۲)، ق/الذبائح ۲(۳۱۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۷، ۱۳۲۶۹)، حم (۲/۲۲۹، ۲۳۹، ۲۷۹، ۴۹۰)، دي/الأضاحي ۸ (۲۰۰۷) (صحیح)
۴۲۲۷- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''فرع اور عتیرہ واجب نہیں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: فرع: زمانہ جاہلیت میں جانور کے پہلوٹے کو بتوں کے واسطے ذبح کرنے کو فرع کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ تعالیٰ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس سے منع کر دیا گیا۔ اور عتیرہ: زمانہ ٔ جاہلیت میں رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے تھے، اور اسلام کی ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے۔ کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لیے اور مسلمان اللہ تعالی سے تقرب کے لئے ذبح کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ بلکہ مسلمانوں کے لیے عید الا ضحی کے روز قربانی ہے۔
4228- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثْتُ أَبَا إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَحَدُهُمَا نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْفَرَعِ، وَالْعَتِيرَةِ، وَقَالَ الآخَرُ: لافَرَعَ، وَلاعَتِيرَةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۷، ۱۳۲۶۹) (صحیح)
۴۲۲۸- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا (دوسری روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: ''فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱ ؎: یعنی یہ دونوں اب واجب نہیں رہے۔
4229- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ - وَهُوَ ابْنُ مُعَاذٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ؛ فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أَضْحَاةً، وَعَتِيرَةً ".
قَالَ مُعَاذٌ: كَانَ ابْنُ عَوْنٍ يَعْتِرُ أَبْصَرَتْهُ عَيْنِي فِي رَجَبٍ۔
* تخريج: د/الضحایا ۱(۲۷۸۸)، ت/الضحایا ۱۹ (۱۵۱۸)، ق/الضحایا ۲ (۳۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۴)، حم (۴/۲۱۵، ۵/۷۶) (حسن)
۴۲۲۹- مخنف بن سلیم رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم عرفہ میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: '' لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال قربانی اور عتیرہ ہے'' ۱؎۔
معاذ کہتے ہیں: ابن عون رجب میں عتیرہ کرتے تھے، ایسا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
وضاحت ۱؎: فرع اور عتیرہ کے سلسلے میں مروی تمام احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں ایام جاہلیت میں جاہلی انداز میں انجام دیئے جاتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہوتی تھی، رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اسلام میں ان کو جائز قرار تو دیا، مگر وہ شرک و کفر سے خالی اور جاہلی عادات کی مشابہت سے دور ہو، اور اگر نہ انجام دیئے جائیں تو بہتر ہے، خاص طور پر فرع کو اگر چھوڑ رکھا جائے تو یہ جانور بڑا ہو کر زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، واللہ اعلم (دیکھئے اگلی روایات)
4230- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ أَبُوعَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! الْفَرَعَ، قَالَ: "حَقٌّ، فَإِنْ تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا؛ فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ؛ فَيَلْصَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ؛ فَتُكْفِئَ إِنَائَكَ، وَتُولِهُ نَاقَتَكَ". قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! فَالْعَتِيرَةُ؟ قَالَ: "الْعَتِيرَةُ حَقٌّ ". ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: أَبُوعَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ هُمْ أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ أَحَدُهُمْ أَبُوبَكْرٍ وَبِشْرٌ وَشَرِيكٌ وَآخَرُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۱)، وقد أخرجہ: د/الأضحایا۲۱(۲۸۴۲)، حم۲/۱۸۲ -۱۸۳ (حسن)
۴۲۳۰- محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے، لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے''۔ (یعنی دبلی ہو جائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے(کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہوگی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی''۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور عتیرہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''عتیرہ بھی حق ہے'' ۱؎۔
٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: ابو علی حنفی چار بھائی ہیں: ابو بکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔
وضاحت ۱؎: یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔
4231- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ - عَنْ يَحْيَى- وَهُوَ ابْنُ زُرَارَةَ بْنِ كُرَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو الْبَاهِلِيُّ - قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ الْحَارِثَ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ أَنَّهُ لَقِيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَائِ فَأَتَيْتُهُ مِنْ أَحَدِ شِقَّيْهِ؛ فَقُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! بِأَبِي أَنْتَ، وَأُمِّي اسْتَغْفِرْ لِي؛ فَقَالَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ الشِّقِّ الآخَرِ أَرْجُو أَنْ يَخُصَّنِي دُونَهُمْ؛ فَقُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! اسْتَغْفِرْ لِي؛ فَقَالَ بِيَدِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ؛ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ النَّاسِ، يَا رسول اللَّهِ! الْعَتَائِرُ، وَالْفَرَائِعُ، قَالَ: مَنْ شَائَ عَتَرَ، وَمَنْ شَائَ لَمْ يَعْتِرْ، وَمَنْ شَائَ فَرَّعَ، وَمَنْ شَائَ لَمْ يُفَرِّعْ فِي الْغَنَمِ أُضْحِيَّتُهَا، وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ إِلا وَاحِدَةً۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۹)، وقد أخرجہ: د/المناسک ۹ (۱۷۴۲)، حم (۳/۴۸۵) (ضعیف)
(اس کے راوی '' یحیی بن زرارہ '' لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کے مضامین دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہیں)
۴۲۳۱- حارث بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے ملا، آپ اپنی اونٹنی عضبائ، پر سوار تھے۔ میں آپ کی ایک جانب گیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لئے مغفرت کی دعا کیجئے، آپ نے فرمایا: اللہ تم لوگوں کی مغفرت فرمائے۔ پھر میں آپ کی دوسری جانب گیا، مجھے امید تھی کہ آپ خاص طور پر میرے لئے دعا کریں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لئے مغفرت کی دعا کیجئے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں (کو اٹھا کر) فرمایا: اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف کرے۔ پھر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! عتیرہ اور فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ''جو چاہے عتیرہ ذبح کرے اور جو چاہے نہ کرے اور جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے، بکریوں میں صرف قربانی ہے''، اور آپ نے اپنی سب انگلیاں بند کر لیں سوائے ایک کے۔ (یعنی: سالانہ صرف ایک قربانی ہے)
4232- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زُرَارَةَ السَّهْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّهِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو ح وَأَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ زُرَارَةَ السَّهْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ لَقِيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ؛ فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رسول اللَّهِ! وَأُمِّي اسْتَغْفِرْ لِي؛ فَقَالَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَائِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ مِنْ الشِّقِّ الآخَرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ما قبلہ (ضعیف)
۴۲۳۲- حارث بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے ملا۔ اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لئے مغفرت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف فرمائے''، آپ صلی للہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے، پھر میں مڑا اور دوسری جانب گیا۔ اور پھر آگے پوری حدیث بیان کی۔