16-الرُّخْصَةُ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ
۱۶- باب: شکاری کتے کی قیمت لینے کی رخصت کا بیان
4300- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ السِّنَّوْرِ، وَالْكَلْبِ، إِلا كَلْبَ صَيْدٍ.
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: وَحَدِيثُ حَجَّاجٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ لَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۶۹۷)، ویأتي عند المؤلف في البیوع ۹۰ (برقم: ۴۶۷۲) (صحیح) ''إلا کلب صید''
کا جملہ امام نسائی کے یہاں صحیح نہیں ہے، لیکن البانی صاحب نے طرق اور شواہد کی روشنی میں اس کو بھی صحیح قرار دیا ہے، الصحیحۃ ۲۹۷۱، ۲۹۹۰، وتراجع الالبانی ۲۲۶)
۴۳۰۰- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے بلی ۱؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔
٭ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: حماد بن سلمہ سے حجاج (بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: چونکہ بلی سے کوئی ایسا فائدہ جو مقصود ہو حاصل ہونے والا نہیں اسی لیے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور یہی اس کے حرام ہونے کی علت اور اس کا سبب ہے۔
وضاحت۲؎: اس کے راوی '' ابوالزبیر'' مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یہ لفظ مسلم کی روایت میں ہے بھی نہیں ہے، انہیں اسباب و وجوہ سے بہت سے ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے فتح الباری (۴/۴۲۷) اور التعلیقات السلفیہ۔
4301- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَائٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ لِي كِلابًا مُكَلَّبَةً؛ فَأَفْتِنِي فِيهَا، قَالَ: مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كِلابُكَ؛ فَكُلْ، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ، قَالَ: وَإِنْ قَتَلْنَ، قَالَ: أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: مَا رَدَّ عَلَيْكَ سَهْمُكَ؛ فَكُلْ، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيَّ، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَهْمٍ غَيْرَ سَهْمِكَ أَوْ تَجِدْهُ قَدْ صَلَّ يَعْنِي: قَدْ أَنْتَنَ قَالَ: ابْنُ سَوَائٍ وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مَالِكٍ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۸)، وقد أخرجہ: د/الصید۲(۲۸۵۷)، حم (۲/۱۸۴) (حسن صحیح)
۴۳۰۱- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا: ''تمہارے لئے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ''۔ میں نے عرض کیا: اگر چہ وہ اسے قتل کر ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: ''اگر چہ قتل کر ڈالیں ''، اس نے کہا: (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا: ''جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ''، اس نے کہا: اگر وہ(شکار تیر کھا کر) غائب ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: '' اگر چہ وہ غائب ہو جائے، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو'' ۱؎۔
ابن سواء کہتے ہیں: میں نے اسے ابو مالک عبید اللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما عن النبی صلی للہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خرید وفروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔