• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20-الصَّيْدُ إِذَا أَنْتَنَ
۲۰- باب: جب شکار سے بدبو آنے لگے تو کیا کرے؟​


4308- أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْخَلاَّلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَاوِيَةُ - وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ - عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي يُدْرِكُ صَيْدَهُ بَعْدَ ثَلاثٍ؛ فَلْيَأْكُلْهُ إِلا أَنْ يُنْتِنَ۔
* تخريج: م/الصید ۲ (۱۹۳۱)، د/الصید ۴ (۲۸۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۶۳)، حم (۴/۱۹۴) (صحیح)
۴۳۰۸- ابو ثعلبہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو کوئی اپنا شکار تین دن کے بعد پائے تو اسے کھائے إلا کہ اس میں بدبو پیدا ہو گئی ہو''۔


4309- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُرِّيَّ بْنَ قَطَرِيٍّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! أُرْسِلُ كَلْبِي؛ فَيَأْخُذُ الصَّيْدَ، وَلا أَجِدُ مَا اذَكِّيهِ بِهِ؛ فَأُذَكِّيهِ بِالْمَرْوَةِ، وَالْعَصَا، قَالَ: "أَهْرِقْ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ، وَاذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "۔
* تخريج: د/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۴)، ق/الذبائح ۵ (۳۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۵)، حم (۴/۲۵۶، ۲۵۸)، ویأتي عند المؤلف فی الضحایا۱۹ (برقم: ۴۴۰۶) (صحیح)
۴۳۰۹- عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں، وہ شکار پکڑ لیتا ہے، لیکن مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے ذبح کروں تو میں پتھر(چاقو نما سفید پتھر) سے یا(دھاردار) لکڑی سے اسے ذبح کرتا ہوں؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس سے چاہو خون بہاؤ اور اللہ کا نام لو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21-صَيْدُ الْمِعْرَاضِ
۲۱- باب: معراض کا شکار​


4310- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! إِنِّي أُرْسِلُ الْكِلابَ الْمُعَلَّمَةَ؛ فَتُمْسِكُ عَلَيَّ؛ فَآكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِذَا أَرْسَلْتَ الْكِلابَ يَعْنِي الْمُعَلَّمَةَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ؛ فَأَمْسَكْنَ عَلَيْكَ؛ فَكُلْ قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ، قَالَ: وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ لَيْسَ مِنْهَا، قُلْتُ: وَإِنِّي أَرْمِي الصَّيْدَ بِالْمِعْرَاضِ؛ فَأُصِيبُ؛ فَآكُلُ، قَالَ: إِذَا رَمَيْتَ بِالْمِعْرَاضِ، وَسَمَّيْتَ؛ فَخَزَقَ؛ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ؛ فَلا تَأْكُلْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۰ (صحیح)
۴۳۱۰- عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لئے شکار پکڑ کر لاتے ہیں، کیا میں اس سے کھا سکتا ہوں؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم کتے دوڑاؤ یا چھوڑو، (یعنی سدھائے ہوئے) اور اللہ کا نام لے لو اور وہ تمہارے لئے شکار پکڑ لائیں تو تم کھاؤ''۔
میں نے عرض کیا: اور اگر وہ اسے مار ڈالیں؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اگر چہ وہ اسے مار ڈالیں جب تک کہ اس میں کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جو ان کتوں میں سے نہیں تھا ''۔
میں نے عرض کیا: میں معراض (بے پر کے تیر) سے شکار کرتا ہوں اور مجھے شکار مل جاتا ہے تو کیا میں کھاؤں؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم معراض (بغیر پر والا تیر) پھینکو اور ''بسم اللہ'' پڑھ لو اور وہ (شکار کو) چھید ڈالے تو کھاؤ اور اگر وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: شکار کو چھید ڈالنے کی صورت میں اس سے خون بہے گا جو ذبح کا اصل مقصود ہے، اور آڑا لگنے کی صورت میں صرف چوٹ لگے گی اور خون بہے بغیر شکار مر جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22-مَا أَصَابَ بِعَرْضٍ مِنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ
۲۲- باب: معراض (آڑے نیزہ اور تیر) سے کئے گئے شکار کے حکم کا بیان​


4311- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ؛ فَقَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ؛ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ؛ فَقُتِلَ؛ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ؛ فَلا تَأْكُلْ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۷ (صحیح)
۴۳۱۱- عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''جب (شکار میں) معراض کی نوک لگے تو اسے کھاؤ اور جب آڑا معراض پڑے اور وہ (شکار) مر جائے تو وہ موقوذہ ۱؎ ہے، اسے مت کھاؤ''۔
وضاحت ۱؎: موقوذہ: چوٹ کھایا ہوا جانور، اس کا کھانا حرام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-مَا أَصَابَ بِحَدٍّ مِنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ
۲۳- باب: معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کی نوک لگے ہوئے شکار کے حکم کا بیان​


4312- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الذَّرَّاعُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومُحْصَنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ؛ فَقَالَ: " إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ؛ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ؛ فَلا تَأْكُلْ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۷) (صحیح)
۴۳۱۲- عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے پوچھا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ''جب (شکار میں) معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ''۔


4313- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَغَيْرُهُ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ؛ فَقَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ؛ فَكُلْ، وَمَا اصَابَ بِعَرْضِهِ؛ فَهُوَ وَقِيذٌ"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۹ (صحیح)
۴۳۱۳- عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے معراض (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: '' جب اس (شکار) میں معراض کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ کیونکہ وہ موقوذہ (چوٹ کھایا ہوا شکار) ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-اتِّبَاعُ الصَّيْدِ
۲۴- باب: شکار کا پیچھا کرنے کا بیان​


4314- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنْ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنْ اتَّبَعَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ " وَاللَّفْظُ لابْنِ الْمُثَنَّى۔
* تخريج: د/الصید ۴ (۲۸۵۹)، ت/الفتن ۶۹ (۲۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۳۹) حم (۱/۳۵۷) (صحیح)
۴۳۱۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو بادیہ (دیہات) میں رہے گا وہ سخت مزاج ہوگا، اور جو شکار کا پیچھا کرے گا وہ (اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو بادشاہ کا چکر لگائے گا وہ فتنے اور آزمائش میں پڑ جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-الأَرْنَبُ
۲۵- باب: خرگوش کا بیان​


4315- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْبَحْرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ - وَهُوَ ابْنُ هِلالٍ - قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبٍ قَدْ شَوَاهَا؛ فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ؛ فَأَمْسَكَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمْ يَأْكُلْ، وَأَمَرَ الْقَوْمَ أَنْ يَأْكُلُوا، وَأَمْسَكَ الأَعْرَابِيُّ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَمْنَعُكَ؟ أَنْ تَأْكُلَ، قَالَ إِنِّي أَصُومُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: " إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمْ الْغُرَّ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۲۳ (ضعیف)
(اس کے راوی '' عبدالملک '' مدلس اور مختلط ہیں، موسی بن طلحہ سے صحیح سند '' عن أبی ذر'' ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے)
۴۳۱۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک خرگوش لایا، اس نے اسے بھون رکھا تھا، اسے آپ کے سامنے رکھ دیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم رکے رہے اور خود نہیں کھایا اور لوگوں کو کھانے کا حکم دیا۔ اعرابی بھی رک گیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تمہیں کھانے سے کیا چیز مانع ہے؟ وہ بولا: میں ہر ماہ تین دن کے صوم رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: '' اگر تمہیں صوم رکھنے ہیں تو چاندنی راتوں (تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخوں) میں رکھا کرو''۔


4316- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ حَاضِرُنَا يَوْمَ الْقَاحَةِ، قَالَ: قَالَ أَبُوذَرٍّ: أَنَا أُتِيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبٍ؛ فَقَالَ الرَّجُلُ: الَّذِي جَائَ بِهَا إِنِّي رَأَيْتُهَا تَدْمَى؛ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْكُلْ، ثُمَّ إِنَّهُ قَالَ: كُلُوا؛ فَقَالَ رَجُلٌ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: وَمَاصَوْمُكَ، قَالَ: مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، قَالَ: فَأَيْنَ أَنْتَ عَنْ الْبِيضِ الْغُرِّ؟ ثَلاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۴۲۸ (صحیح)
۴۳۱۶- عمر رضی الله عنہ نے کہتے ہیں کہ قاحہ(مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) کے دن ہمارے ساتھ کون تھا؟ ابو ذر رضی الله عنہ بولے: میں، (اس دن) نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک خرگوش لایا گیا تو جو لے کر آیا اس نے کہا: میں نے اسے حیض آتے دیکھا ہے، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا پھر فرمایا: '' تم لوگ کھاؤ''، ایک شخص نے کہا: صائم ہوں، آپ نے فرمایا: ''تمہارا یہ کون سا صوم ہے؟ '' اس نے کہا: ہر ماہ تین دن والا، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو تم ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں راتوں کے صوم کیوں نہیں رکھتے؟ ''۔


4317- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامٍ - وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ - قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ؛ فَأَخَذْتُهَا؛ فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ؛ فَذَبَحَهَا؛ فَبَعَثَنِي بِفَخِذَيْهَا، وَوَرِكَيْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَبِلَهُ۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۵ (۲۵۷۲)، الصید ۱۰ (۵۴۸۹)، ۳۲ (۵۵۳۵)، م/الصید ۹ (۱۹۵۳)، د/الأطعمۃ ۲۷ (۳۷۹۱)، ت/الأطعمۃ ۲ (۱۷۸۹)، ق/الصید ۱۷ (۳۲۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹)، حم (۳/۱۱۸، ۱۷۱، ۱۹۱)، دي/الصید ۷ ۹۲۰۵۶) (صحیح)
۴۳۱۷- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مرالظہران ۱؎ میں میں نے ایک خرگوش کو چھیڑا اور اسے پکڑ لیا، میں اسے لے کر ابو طلحہ رضی الله عنہ کے پاس آیا، انہوں نے اسے ذبح کیا، پھر مجھے اس کی دونوں رانیں اور پٹھے دے کر نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔
وضاحت ۱؎: مکے سے کچھ دور ایک مقام کا نام ہے۔


4318- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، وَدَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: أَصَبْتُ أَرْنَبَيْنِ؛ فَلَمْ أَجِدْ مَا أُذَكِّيهِمَا بِهِ؛ فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ؛ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؛ فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهِمَا۔
* تخريج: د/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۲)، ق/الصید ۱۷ (۳۲۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۲۴)، دي/الصید ۷ (۲۰۵۷)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۴۰۴ (صحیح)
۴۳۱۸- ابن صفوان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے دو خرگوش ملے، انہیں ذبح کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے انہیں سفید پتھر سے ذبح کر دیا ۱؎، پھر نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں پوچھا، تو آپ نے مجھے انہیں کھانے کا حکم دیا۔
وضاحت ۱؎: یہ سفید پتھر نوک دار تھا، کسی بھی دھاردار یا نوکدار چیز سے جس سے خون بہہ جائے، ذبح کر دینے سے جانور کا ذبح کرنا شرع کے مطابق صحیح ہوگا اور اس کا کھانا حلال ہوگا، ذبح کا اصل مقصود اللہ کا نام لینا اور خون بہنا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-الضَّبُّ
۲۶- باب: ضب کا بیان​


4319- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ سُئِلَ عَنْ الضَّبِّ؛ فَقَالَ: " لا آكُلُهُ، وَلا أُحَرِّمُهُ "۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۳ (۱۷۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۴۰)، وقد أخرجہ: خ/الصید ۳۳ (۵۵۳۶)، م/الصید ۷ (۱۹۴۳)، ط/الاستئذان ۴ (۱۱)، حم (۲/۹، ۱۰، ۳۳، ۴۱، ۴۶، ۶۰، ۶۲، ۷۴، ۱۱۵)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۸) (صحیح)
۴۳۱۹- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: '' میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی للہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔
جس جانور کو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔
نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے:
- ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈاز رعی اور پانی والے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ بر صغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی چیز کو پکڑ لے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے، ترقی یافتہ دور سے پہلے مشہور ہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپر چڑھا دیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیر کے ساتھ جا کر مضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑ لیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپر چڑھ جاتے اور چوری کرتے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی۔
- ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) ایسا نہیں کرتی۔
- ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانور ہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبو آتی ہے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے، اور کیڑے مکوڑے بھی، نجدی ضب (گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے، لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجود نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو معمولی اور کبھی کبھار، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کو بھی وہ کھاتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ) کی کھال کو پکا کر عرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو'' ضبة'' کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔
- نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں) میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیر موجود ہے، اور یہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی، حتی کہ اگر سابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حد تک جا سکتی ہیں جس تک پہنچنا مشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کر گزرے گی، اسی کو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ اگر سابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کر رہی ہے، اور صحراء نجد کے واقف کار خاص کر ضب (گوہ) کا شکار کرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں، اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہر آ جاتی ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجود سوراخ میں رہتی ہے۔
ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟
صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانور کو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل'' عمدہ قامت اور لمبی دم والا جانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دو ہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبز زردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلا ہو جاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبز گھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلا سب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضو تناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب)
سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب (گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبو اٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہو جائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ ''کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ بر صغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا۔
ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کر دی:
نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ''ورل '' نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ورل کا شکار مشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیر پھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اور کانٹے دار ہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دُم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت بالکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔
صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آ جائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بنا پر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایسا جانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہو جائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کر کے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے۔
گوہ کی کئی قس میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشتر کہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفید ہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔
حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابر ہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات: ۴۲۷)، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔
گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہور جانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطور مقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات: صفحہ ۲۷۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

4320- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلا قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! مَا تَرَى فِي الضَّبِّ؛ قَالَ: " لَسْتُ بِآكِلِهِ، وَلا مُحَرِّمِهِ "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۷۲۴۰، ۸۳۹۹) (صحیح)
۴۳۲۰- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ضب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: '' میں نہ اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں ''۔


4321- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ؛ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ؛ فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، قَالَ لَهُ: مَنْ حَضَرَ يَا رسول اللَّهِ! إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ؛ فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ؛ فَقَالَ لَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رسول اللَّهِ! أَحَرَامٌ؟ الضَّبُّ، قَالَ: لا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي؛ فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ؛ فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ؛ فَأَكَلَ مِنْهُ، وَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۴)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۴)، ط/الإستئذان ۴ (۱۰)، حم (۴/۸۸، ۸۹)، دي/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
۴۳۲۱- خالد بن ولید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی الله عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: '' نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے''، پھر خالد رضی الله عنہ نے اپنا ہاتھ ضب کی طرف بڑھایا اور اس میں سے کھایا اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔


4322- أَخْبَرَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، وَهِيَ خَالَتُهُ؛ فَقُدِّمَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمُ ضَبٍّ، وَكَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَأْكُلُ شَيْئًا، حَتَّى يَعْلَمَ مَا هُوَ؟ فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ: أَلا تُخْبِرْنَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَأْكُلُ؟ فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ؛ فَتَرَكَهُ، قَالَ خَالِدٌ: سَأَلْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: لا، وَلَكِنَّهُ طَعَامٌ، لَيْسَ فِي أَرْضِ قَوْمِي؛ فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ إِلَيَّ؛ فَأَكَلْتُهُ، وَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ
وَحَدَّثَهُ ابْنُ الأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَكَانَ فِي حِجْرِهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۳۲۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہیں خالد بن ولید رضی الله عنہ ۱؎ نے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی الله عنہا کے پاس گئے (یہ ان کی خالہ تھیں) ۲؎، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے سامنے ضب کا گوشت پیش کیا گیا، آپ کا معمول تھا کہ آپ کوئی چیز نہ کھاتے جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کیا ہے، تو امہات المومنین رضی اللہ عنھم میں سے کسی نے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو نہیں بتاؤ گی کہ آپ کیا کھار ہے ہیں؟ تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ یہ ضب کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا، خالد رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: '' نہیں، لیکن وہ ایسا کھانا ہے جو میری قوم کی زمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آ رہی ہے''۔ خالد بن ولید رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے کھایا اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔
اس حدیث کو ابن الا ٔصم نے ام المومنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت کیا ہے، ابن الا ٔصم آپ کی گود میں پلے تھے۔
وضاحت ۱؎: ام المومنین میمونہ رضی الله عنہا ابن عباس کے دونوں بیٹے عبداللہ اور فضل اور خالد بن الولید تین کی خالہ ہیں، عبداللہ بن عباس کی والدہ کا نام لبابۃ الکبری ام الفضل ہے، اور خالد کی والدہ کا نام لبابۃ الصغریٰ بنت حارث بن حزن الھلالی ہے، رضی اللہ عنھن۔
وضاحت ۲؎: ام المومنین خالد بن ولید رضی الله عنہما کی خالہ تھیں، ابن الا ٔصم یہ یزید بن الا ٔصم، عمرو بن عبید بن معاویہ ہیں اور یزیدمیمونہ رضی الله عنہا کے بھانجے ہیں۔


4323- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَهْدَتْ خَالَتِي إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقِطًا، وَسَمْنًا، وَأَضُبًّا؛ فَأَكَلَ مِنَ الأَقِطِ، وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الأَضُبَّ تَقَذُّرًا، وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۷ (۲۵۷۵)، الأطعمۃ ۸ (۵۷۸۹)، ۱۶ (۵۴۰۲)، الاعتصام ۲۴ (۷۳۵۸)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۵)، د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۸)، حم (۱/۲۵۴، ۳۲۲، ۳۲۸، ۳۴۰، ۲۴۷ (صحیح)
۴۳۲۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میری خالہ (ام حفید رضی الله عنہا) نے مجھے پنیر، گھی اور ضب دے کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دی، لیکن وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھائی گئی ۱؎ اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ ہی آپ اسے کھانے کا حکم فرماتے۔
وضاحت ۱؎: یعنی دوسروں نے ضب بھی کھایا۔


4324- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَكْلِ الضِّبَابِ؛ فَقَالَ: أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا، وَأَقِطًا، وَأَضُبًّا؛ فَأَكَلَ مِنْ السَّمْنِ، وَالأَقِطِ، وَتَرَكَ الضِّبَابَ تَقَذُّرًا لَهُنَّ فَلَوْكَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۳۲۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ضب کھانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ام حفید(ابن عباس رضی الله عنہما کی خالہ) نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گھی پنیر اور ضب بھیجا تو آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دیا، لیکن اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ آپ اسے کھانے کا حکم دیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

4325- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مَنْصُورٍ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ سَلاَّمُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنَّا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ؛ فَنَزَلْنَا مَنْزِلا؛ فَأَصَابَ النَّاسُ ضِبَابًا؛ فَأَخَذْتُ ضَبًّا؛ فَشَوَيْتُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَخَذَ عُودًا يَعُدُّ بِهِ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الأَرْضِ، وَإِنِّي لا أَدْرِي أَيُّ الدَّوَابِّ هِيَ؟ قُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَكَلُوا مِنْهَا، قَالَ: فَمَا أَمَرَ بِأَكْلِهَا وَلا نَهَى۔
* تخريج: د/الأطعمۃ ۲۸ (۳۷۹۵)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۹)، حم (۴/۲۲۰)، ویأتي فیما یلي: ۴۳۲۶، ۴۳۲۷ (صحیح الإسناد)
۴۳۲۵- ثابت بن یزید انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ ٹھہرے، لوگوں کو ضب ملی، میں نے ایک ضب پکڑی اور اسے بھونا، پھر اسے لے کر میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے ایک لکڑی لی اور اس کی انگلیاں گنیں، پھر فرمایا: '' بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی شکل مسخ کر کے زمین کے کچھ جانوروں کی طرح بنا دی گئی، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سا جانور ہے'' ۱؎، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں نے اس میں سے کھا لیا ہے، تو پھر نہ آپ نے کھانے کا حکم دیا اور نہ ہی روکا۔
وضاحت ۱؎: احتمال ہے کہ آپ کا یہ فرمان اس وقت کا ہو جب آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ مسخ کی ہوئی مخلوق تین دن سے زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتی۔


4326- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ وَدِيعَةَ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ؛ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَيُقَلِّبُهُ، وَقَالَ: إِنَّ أُمَّةً مُسِخَتْ لا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَإِنِّي لا أَدْرِي لَعَلَّ هَذَا مِنْهَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۳۲۶- ثابت بن یزید بن ودیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک ضب لایا۔ آپ اسے دیکھنے لگے اور اسے الٹا پلٹا اور فرمایا: '' ایک امت کی صورت مسخ کر دی گئی تھی، نہ معلوم اس کا کیا ہوا، اور میں اس کا علم نہیں، شاید یہ اسی میں سے ہو''۔


4327- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ ثَابِتِ ابْنِ وَدِيعَةَ أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ؛ فَقَالَ: " إِنَّ أُمَّةً مُسِخَتْ " وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔
* تخريج: انظر رقم ۴۲۲۵ (صحیح)
۴۳۲۷- ثابت بن یزید بن ودیعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک ضب لایا، آپ نے فرمایا: ''ایک امت مسخ کر دی گئی تھی''، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-الضَّبُعُ
۲۷- باب: لکڑ بگھا کا بیان ۱؎​


4328- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ عَنْ الضَّبُعِ؛ فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهَا؛ فَقُلْتُ أَصَيْدٌ هِيَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَسَمِعْتَهُ؟ مِنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۸۳۹ (صحیح)
۴۳۲۸-ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا، میں نے کہا: کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: '' ہاں ''۔
وضاحت ۱؎: ضبع: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سربڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندوپاک میں اس درندے کو لکڑ بگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سرکی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔
اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھرکا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے ضبع کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے ''کفتار'' اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑ بگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑ بگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحیدالزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: '' اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے ''، سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑ بگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔
واضح رہے کہ چیر پھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور(نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑ بگھا اور لومڑی ابو یوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک)۔
لکڑ بگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑ بگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی الله عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑ بگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔
مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے: {قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}[ سورة الأنعام: 145] ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑ بگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ۵/۱۳۳-۱۳۴)
 
Top