- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
77-الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ
۷۷- باب: بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں
4641- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي؛ فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ فَلَحِقَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعَا لَهُ فَضَرَبَهُ؛ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ؛ فَقَالَ: بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ، قُلْتُ: لا، قَالَ: بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ، وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ؛ فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ فَقَالَ أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ، وَدَرَاهِمَكَ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۴ (۲۰۹۷)، الاستقراض ۱ (۲۳۸۵)، ۱۸ (۲۴۰۶)، المظالم ۲۶ (۲۴۷۰)، الشروط ۴ (۲۷۱۸)، الجہاد ۴۹ (۲۸۶۱)، ۱۱۳ (۲۹۶۷)، م/البیوع ۴۲ (المساقاۃ ۲۱) (۷۱۵)، الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، د/البیوع ۷۱ (۳۵۰۵)، ت/البیوع ۳۰ (۱۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۱)، حم (۳/۲۹۹) (صحیح)
۴۶۴۱- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لئے دعا کی اور اسے تھپتھپا یا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: '' اسے ایک اوقیہ(۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو''، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''اسے مجھ سے بیچ دو'' تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: '' کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی''۔
وضاحت ۱؎: یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس پر معاملہ کر لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔
4642- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، ثُمَّ ذَكَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلاَمًا مَعْنَاهُ؛ فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ؛ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَانْتَشَطَ حَتَّى كَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا جَابِرُ! مَا أَرَى جَمَلَكَ إِلا قَدْ انْتَشَطَ، قُلْتُ: بِبَرَكَتِكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: بِعْنِيهِ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَقْدَمَ فَبِعْتُهُ، وَكَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ؛ فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا، وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ؛ فَقُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: "أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟ " قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ، وَتَرَكَ جَوَارِيَ أَبْكَارًا؛ فَكَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ؛ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ، وَتُؤَدِّبُهُنَّ؛ فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ لِي: ائْتِ أَهْلَكَ عِشَائً؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ؛ فَلامَنِي فَلَمَّا قَدِمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ؛ فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ، وَالْجَمَلَ، وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۶۴۲- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انھوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ڈانٹا تو وہ تیز ہو گیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جابر! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہو گیا ہے''، میں نے عرض کیا: آپ کے ذریعہ سے ہونے والی برکت سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' اسے، میرے ہاتھ بیچ دو۔ البتہ تم (مدینہ) پہنچنے تک اس پر سوار ہو سکتے ہو''، چنانچہ میں نے اسے بیچ دیا حالانکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے آپ سے شرم آئی۔ جب ہم غزوہ سے فارغ ہوئے اور (مدینے کے) قریب ہوئے تو میں نے آپ سے جلدی سے آگے جانے کی اجازت مانگی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ابھی جلد شادی کی ہے، آپ نے فرمایا: '' کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ '' میں نے عرض کیا: بیوہ سے، اللہ کے رسول! والد صاحب عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما مارے گئے اور انھوں نے کنواری لڑکیاں چھوڑی ہیں، تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں ان کے پاس ان جیسی (کنواری لڑکی) لے کر آؤں، لہٰذا میں نے بیوہ سے شادی کی ہے جو انھیں تعلیم و تربیت دے گی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی اور مجھ سے فرمایا: '' اپنی بیوی کے پاس شام کو جانا''، جب میں مدینے پہنچا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ بیچنے کی اطلاع دی، تو انھوں نے مجھے ملامت کی، جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم پہنچے تو میں صبح کو اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا، تو آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کی اور اونٹ بھی دے دیا اور (مال غنیمت میں سے) ایک حصہ سب لوگوں کے برابر دیا۔
4643- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ؛ فَقَالَ: مَا لَكَ فِي آخِرِ النَّاسِ، قُلْتُ: أَعْيَا بَعِيرِي؛ فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ، ثُمَّ زَجَرَهُ؛ فَإِنْ كُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ، قَالَ: مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ، قُلْتُ: لا، بَلْ هُوَ لَكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: لا، بَلْ بِعْنِيهِ، قُلْتُ: لا، بَلْ هُوَ لَكَ، قَالَ: لا، بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْكَبْهُ؛ فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ؛ فَأْتِنَا بِهِ؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ؛ فَقَالَ لِبِلالٍ يَا بِلالُ! زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً وَزِدْهُ قِيرَاطًا، قُلْتُ هَذَا شَيْئٌ زَادَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمْ يُفَارِقْنِي؛ فَجَعَلْتُهُ فِي كِيسٍ؛ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّى جَائَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ؛ فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا۔
* تخريج: خ/الشروط ۴ (۲۷۱۸ تعلیقًا)، م/البیوع ۴۲ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۴۳)، حم (۳/۳۱۴) (صحیح)
۴۶۶۳- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: ''کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟ '' میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لئے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اونٹ کا کیا ہوا؟ اسے میرے ہاتھ بیچ دو''، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' نہیں، اسے میرے ہاتھ بیچ دو''، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے کہا: '' نہیں، بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے اسے ایک اوقیہ میں لے لیا، تم اس پر سوار ہو اور جب مدینہ پہنچ جاؤ تو اسے ہمارے پاس لے آنا''، جب میں مدینے پہنچا تو اسے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے بلال رضی الله عنہ سے فرمایا: '' بلال! انہیں ایک اوقیہ (چاندی) دے دو اور ایک قیراط مزید دے دو''، میں نے عرض کیا: یہ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے مجھے زیادہ دیا ہے، (یہ سوچ کر کہ) وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو، تو میں نے اسے ایک تھیلی میں رکھا، پھر وہ قیراط میرے پاس برابر رہا یہاں تک کہ حرہ کے دن ۱؎ اہل شام آئے اور ہم سے لوٹ لے گئے جو لے گئے۔
وضاحت ۱؎: یہ واقعہ ۶۳ھ میں پیش آیا تھا، اس میں یزید کے لشکرنے مدینے پر چڑھائی کی تھی۔ حرہ کالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں جو مدینے کے مشرقی اور مغربی علاقہ کی زمین ہے۔
4644- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَدْرَكَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْتُ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا سَوْئٍ؛ فَقُلْتُ: لا يَزَالُ لَنَا نَاضِحُ سَوْئٍ يَا لَهْفَاهُ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبِيعُنِيهِ يَا جَابِرُ! قُلْتُ: بَلْ هُوَ لَكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ قَدْ أَخَذْتُهُ بِكَذَا وَكَذَا، وَقَدْ أَعَرْتُكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ هَيَّأْتُهُ؛ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ؛ فَقَالَ: يَابِلالُ! أَعْطِهِ ثَمَنَهُ؛ فَلَمَّا أَدْبَرْتُ دَعَانِي؛ فَخِفْتُ أَنْ يَرُدَّهُ؛ فَقَالَ: هُوَ لَكَ۔
* تخريج: تفردہ بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۹) (ضعیف)
(سند ضعیف ہے، اور متن منکر ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کے متن میں پچھلے متن سے تعارض بھی ہے جو واضح ہے)
۴۶۴۴- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے پایا کہ میں اپنے سینچنے والے اونٹ پر سوار تھا، میں نے عرض کیا: افسوس! ہمارے پاس ہمیشہ پانی سینچنے والا اونٹ ہی رہتا ہے، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جابر! کیا تم اسے میرے ہاتھ بیچو گے؟ '' میں نے عرض کیا: یہ تو آپ ہی کا ہے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' اے اللہ! اس کی مغفرت کر، اس پر رحم فرما، میں نے تو اسے اتنے اتنے دام پر لے لیا ہے، اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی تمہیں اجازت دی ہے''، جب میں مدینے آیا تو اسے تیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بلال! انھیں اس کی قیمت دے دو''، جب میں لوٹنے لگا تو آپ نے مجھے بلایا، مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ اسے لوٹائیں گے، آپ نے فرمایا: '' یہ تمہارا ہے''۔
4645- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُونَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَسِيرُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: وَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ: افْعَلْ كَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ۔
* تخريج: خ/الشروط ۴ (۲۷۱۸ تعلیقًا)، م/الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، ق/التجارات ۲۹ (۲۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۰۱)، حم (۳/۳۷۳) (صحیح)
۴۶۴۵- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ جار ہے تھے، میں سینچائی کرنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہی ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، وہ آپ ہی کا ہے۔
ابو نضرہ کہتے ہیں: یہ مسلمانوں کا تکیہ کلام تھا کہ جب کسی سے کہتے: ایسا ایسا کرو تو کہتے: واللہ یغفر لک۔