4-ذِكْرُ اخْتِلافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ سَهْلٍ فِيهِ
۴- باب: اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر
4716- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا قَالا: خَرَجَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا بِمُحَيِّصَةَ يَجِدُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ فَصَمَتَ، وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا؛ فَذَكَرُوا لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ لَهُمْ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا؟ وَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ، وَلَمْ نَشْهَدْ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ عَقْلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۶- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں: عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن ان میں سب سے چھوٹے تھے-پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمن بولنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' عمر میں جو بڑا ہے اس کا لحاظ کرو'' تو وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھی گفتگو کرنے لگے، پھر عبدالرحمن نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی، چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: '' کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے'' (یا کہا: اپنے قاتل کے) انھوں نے کہا: ہم کیوں کر قسم کھائیں گے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے، آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے''، انھوں نے کہا: ان کی قس میں ہم کیوں کر قبول کر سکتے ہیں وہ تو کافر لوگ ہیں، جب یہ چیز رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ نے ان کی دیت خود سے انہیں دے دی۔
4717- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ أَتَيَا خَيْبَرَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ؛ فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَجَائَ أَخُوهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا عَمِّهِ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَتَكَلَّمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ، وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُمْ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ لِيَبْدَأْ الأَكْبَرُ؛ فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ؛ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ، قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! قَوْمٌ كُفَّارٌ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ قَالَ سَهْلٌ: فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الإِبِلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۷- سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں: محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہما اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر خیبر آئے، پھر وہ باغ میں الگ الگ ہو گئے، عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا، تو ان کے بھائی عبدالرحمن بن سہل اور چچا زاد بھائی حویصہ اور محیصہ (رضی الله عنہم) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو کی حالانکہ وہ ان میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، سب سے بڑا پہلے بات شروع کرے''، چنانچہ ان دونوں نے اپنے آدمی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ نے ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یوں تھا: '' تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں گے''، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک ایسا معاملہ جہاں ہم موجود نہ تھے، اس کے بارے میں کیوں کر قسم کھائیں؟ آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودی اپنے پچاس لوگوں کو قسم کھلا کر تمہارے شک کو دور کریں گے''، وہ بولے: اللہ کے رسول! وہ تو کافر لوگ ہیں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کی دیت ادا کی۔ سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں: جب میں ان کے مربد (باڑھ) میں داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماردی۔
4718- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ - وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ - قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا خَيْبَرَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ؛ فَتَفَرَّقَا لِحَوَائِجِهِمَا فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ؛ فَانْطَلَقَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ سِنًّا فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرِ الْكُبْرَ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ؛ فَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَرَ، قَالَ: تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَعَقَلَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۸- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل، محیصہ بن مسعود بن زید خیبر رضی الله عنہما گئے، ان دنوں صلح چل رہی تھی، وہ اپنی ضرورتوں کے لئے الگ الگ ہو گئے، پھر محیصہ رضی الله عنہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کے پاس آئے (دیکھا کہ) وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ رہے تھے، تو انھیں دفن کیا اور مدینے آئے، پھر عبدالرحمن بن سہل، حویصہ اور محیصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو عبدالرحمن نے بات کی وہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑے کا لحاظ کرو''، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے، پھر ان دونوں نے بات کی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ اپنے آدمی (کے خون بہا) یا اپنے قاتل (خون) کے حق دار بنو؟ '' انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیوں کر قسم کھائیں گے حالانکہ نہ ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا: '' یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں گے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
4719- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا؛ فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ؛ فَانْطَلَقَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ الْكُبْرَ، وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ؛ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ؟ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ"؛ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَرَ؛ فَقَالَ: أَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ؟ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَعَقَلَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۹- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لئے جدا ہو گئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انھیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ (رضی الله عنہم) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمن بن سہل رضی الله عنہ بات کرنے لگے تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو''، وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، تو وہ چپ ہو گئے، پھر ان حویصہ اور محیصہ نے بات کی، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ تم اپنے قاتل (کے خون)، یا اپنے آدمی کے خون (بہا) کے حق دار بنو''، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم قسم کیوں کر کھائیں گے، نہ تو ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہم نے انھیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ''تو کیا پچاس یہودیوں کی قسموں سے تمہارا شک دور ہو جائے گا؟ '' وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
4720- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَاجَتِهِمَا فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ الأَنْصَارِيُّ؛ فَجَائَ مُحَيِّصَةُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ أَخُو الْمَقْتُولِ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَتَّى أَتَوْا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ فَتَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، وَحُوَيِّصَةُ؛ فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَحْضُرْ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ قَالَ: فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بُشَيْرٌ: قَالَ لِي سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ لَقَدْ رَكَضَتْنِي فَرِيضَةٌ مِنْ تِلْكَ الْفَرَائِضِ فِي مِرْبَدٍ لَنَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۰- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما خیبر کی طرف نکلے پھر اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل انصاری رضی الله عنہ کا قتل ہو گیا۔ چنانچہ محیصہ، مقتول کے بھائی عبدالرحمن اور حویصہ بن مسعود رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبدالرحمن بات کرنے لگے۔ تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''۔ پھر محیصہ اور حویصہ رضی الله عنہما نے گفتگو کی اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہیں پچاس قس میں کھانی ہوں گی، پھر تم اپنے قاتل کے (خون کے) حق دار بنو گے''، وہ بولے: ہم قسم کیوں کر کھائیں، نہ ہم موجود تھے اور نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو پھر یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارے شک کو دور کریں گے''۔ وہ بولے: ہم کافروں کی قس میں کیسے قبول کریں۔ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا کی۔
بشیر کہتے ہیں: مجھ سے سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ نے کہا: دیت میں دی گئی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے ہمارے مربد میں مجھے لات ماری۔
4721- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وُجِدَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلا؛ فَجَائَ أَخُوهُ، وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ، وَهُمَا عَمَّا عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ قَالا: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَتَّهِمُونَ، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ: أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ؟ عَلَى مَا لَمْ نَرَ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ؟ وَهُمْ مُشْرِكُونَ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ .
٭أَرْسَلَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۱- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی الله عنہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن رضی الله عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: ''تمہارا شک کس پر ہے؟ '' انھوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انھیں قتل کیا ہے؟ ''، انھوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودیوں کی پچاس قس میں کہ انھوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟ ''وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضا مند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
٭مالک بن انس نے اسے مرسلا روایت کیا ہے۔ (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)
4722- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا؛ فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ فَأَتَى هُوَ، وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ؛ فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ لَهُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ؟ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى: فَزَعَمَ بُشَيْرٌ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ. ٭خَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۲- بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لئے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کا قتل ہو گیا، محیصہ رضی الله عنہ آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمن رضی الله عنہ مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''، چنانچہ حویصہ اور محیصہ رضی الله عنہما نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حق دار بنو؟ ''۔
مالک کہتے ہیں: یحییٰ نے کہا: بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
٭سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، (دیات ۲۲) بقول امام ابن حجر: بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کر سکے تو مدعا علیھم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔
4723- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ أَنَّ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا؛ فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلا؛ فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ، وَلا عَلِمْنَا قَاتِلا فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ؛ فَقَالَ لَهُمْ: تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ قَالُوا: لا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ. ٭خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۳- بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انھیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انھوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انھوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو'' ۱؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا: ''تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہوگا''، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تو وہ قسم کھائیں گے''، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قس میں منظور نہیں، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو گراں گزرا کہ ان کا خون بے کار جائے، تو آپ نے انھیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔
٭ (ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں:) عمروبن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی (عبدالرحمن مقتول کے بھائی) نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔
وضاحت ۲ ؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔
4724- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الأَصْغَرَ أَصْبَحَ قَتِيلا عَلَى أَبْوَابِ خَيْبَرَ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقِمْ شَاهِدَيْنِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ أَدْفَعْهُ إِلَيْكُمْ بِرُمَّتِهِ، قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! وَمِنْ أَيْنَ أُصِيبُ شَاهِدَيْنِ؟ وَإِنَّمَا أَصْبَحَ قَتِيلا عَلَى أَبْوَابِهِمْ، قَالَ: فَتَحْلِفُ خَمْسِينَ قَسَامَةً، قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! وَكَيْفَ أَحْلِفُ؟ عَلَى مَا لا أَعْلَمُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَنَسْتَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسِينَ قَسَامَةً؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَسْتَحْلِفُهُمْ؟ وَهُمْ الْيَهُودُ؛ فَقَسَمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ عَلَيْهِمْ، وَأَعَانَهُمْ بِنِصْفِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۹) (شاذ) ۱ ؎
وضاحت ۱؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمروبن شعیب نے ان رواۃ کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے: اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے،، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہو جاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان: روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔
۴۷۲۴- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہو گیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے؟ وہ تو انھیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: '' تو پھر تمہیں پچاس قس میں کھانی ہوں گی''، وہ بولے: اللہ کے رسول! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں؟ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تو تم ان سے پچاس قس میں لے لو''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم ان سے قس میں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔