• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18، 19-الْقَوَدُ مِنْ الْعَضَّةِ وَذِكْرُ اخْتِلافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ
۱۸، ۱۹- دانت کاٹ لینے کا قصاص اور اس بابت عمران بن حصین رضی الله عنہ کی حدیث میں راویوں کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر​


4762- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ أَبُوالْجَوْزَائِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَانْتَزَعَ يَدَهُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ أَوْ قَالَ: ثَنَايَاهُ فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَأْمُرُنِي؟ تَأْمُرُنِي أَنْ آمُرَهُ أَنْ يَدَعَ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ إِنْ شِئْتَ فَادْفَعْ إِلَيْهِ يَدَكَ حَتَّى يَقْضَمَهَا، ثُمَّ انْتَزِعْهَا إِنْ شِئْتَ۔
* تخريج: م/القسامۃ ۴ (الحدود ۴) (۱۶۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۴۰) حم (۴/۲۳۰) (صحیح)
۴۷۶۲- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ لیا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا، تو اس کا ایک دانت ٹوٹ کر گر گیا-یا دو دانت-اس نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے فریاد کی، تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: '' تم مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ کیا یہ کہ میں اسے حکم دوں کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیے رہے تاکہ تم اسے جانور کی طرح چبا ڈالو، اگر تم چاہو تو اپنا ہاتھ اسے دو تاکہ وہ اسے چبائے پھر اگر چاہو تو اسے کھینچ لینا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی کا ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹنے لگے اور وہ اپنا ہاتھ زور سے کھینچ لے جس کی وجہ سے اس کے دانت ٹوٹ جائیں تو ان دانتوں کا قصاص (یا دیت) ہاتھ کھینچنے والے سے نہیں لیا جائے گا، یہ بات صرف دانت کھینچنے میں ہی نہیں اس جیسے دیگر معاملات میں بھی ہوگی۔ دیکھئے اسی حدیث پر مولف کا باب باندھنا '' الرجل یدفع عن نفسہ'' (حدیث نمبر: ۴۷۶۷)


4763- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلا عَضَّ آخَرَ عَلَى ذِرَاعِهِ فَاجْتَذَبَهَا؛ فَانْتَزَعَتْ ثَنِيَّتَهُ فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَلَهَا، وَقَالَ: أَرَدْتَ أَنْ تَقْضَمَ لَحْمَ أَخِيكَ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ۔
* تخريج: خ/الدیات ۱۸ (۶۸۹۲)، م/القسامۃ ۴ (۱۶۷۳)، ت/الدیات ۲۰ (۱۴۱۶)، ق/الدیات ۲۰ (۲۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۲۳)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۶۴-۴۷۶۶)، حم (۴/۴۲۷، ۴۲۸، ۴۳۵، دي/الدیات ۱۴ (۲۴۱۳) (صحیح)
۴۷۶۳- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا، پہلے نے اسے کھینچا تو دوسرے کا دانت نکل پڑا، معاملہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے اسے کچھ نہ دلایا اور فرمایا: ''کیا چاہتے ہو کہ تم اونٹ کی طرح اپنے بھائی کا گوشت چباؤ''۔


4764- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَاتَلَ يَعْلَى رَجُلا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ فِيهِ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ؛ فَاخْتَصَمَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ لا دِيَةَ لَهُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
۴۷۶۴- عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یعلی رضی الله عنہ کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا ۱؎، ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پھر ایک نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دوسرے کا دانت نکل پڑا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: '' تم میں سے ایک آدمی اونٹ کی طرح اپنے بھائی کے ہاتھ کو کاٹتا ہے (پھر دیت مانگتا ہے) اسے دیت نہیں ملے گی''۔
وضاحت ۱؎: اس روایت میں صراحت ہے کہ دانت کاٹنے والے یعلی بن امیہ رضی الله عنہ تھے اور جس کو دانت کاٹا تھا وہ ان کا مزدور تھا، چونکہ معاملہ خود یعلی رضی الله عنہ کا تھا اس لیے اپنی روایتوں میں (جو آگے آ رہی ہیں) انہوں نے دانت کاٹنے والے کا نام مبہم کر دیا ہے۔


4765- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ يَعْلَى قَالَ: فِي الَّذِي عَضَّ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا دِيَةَ لَكَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
۴۷۶۵- عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یعلی رضی الله عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے دانت کاٹ کھایا، تو اس کا دانت اکھڑ گیا کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہارے لئے دیت نہیں ہے''۔


4766- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوهِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلا عَضَّ ذِرَاعَ رَجُلٍ فَانْتَزَعَ ثَنِيَّتَهُ فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: أَرَدْتَ أَنْ تَقْضَمَ ذِرَاعَ أَخِيكَ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ فَأَبْطَلَهَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۳ (صحیح)
۴۷۶۶- عمران بن حصین رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کے ہاتھ میں دانت کاٹا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ''تم چاہتے تھے کہ تم اپنے بھائی کا ہاتھ اونٹ کی طرح چبا ڈالو'' پھر آپ نے اس کی دیت نہیں دلوائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
19، 20-الرَّجُلُ يَدْفَعُ عَنْ نَفْسِهِ
۱۹، ۲۰- باب: اپنا دفاع کرنے میں دوسرے کے نقصان ہو جانے کا بیان​


4767- أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ الْخَلِيلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ أَنَّهُ قَاتَلَ رَجُلا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ فِيهِ فَقَلَعَ ثَنِيَّتَهُ فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْبَكْرُ فَأَبْطَلَهَا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۴۷) (صحیح الإسناد)
۴۷۶۷- یعلی بن منیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سے ان کا جھگڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پہلے نے اپنا ہاتھ دوسرے کے منہ سے چھڑایا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، معاملہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم تک لایا گیا، تو آپ نے فرمایا: ''کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جوان اونٹ کی طرح کاٹتا ہے'' پھر آپ نے اسے تاوان نہیں دلایا۔


4768- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ أَنَّ رَجُلا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قَاتَلَ رَجُلا فَعَضَّ يَدَهُ فَانْتَزَعَهَا؛ فَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ؛ فَاخْتَصَمَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْبَكْرُ فَأَطَلَّهَا أَيْ أَبْطَلَهَا "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۷۶۸- یعلی بن منیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی تمیم کے ایک آدمی کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا، تو پہلے نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اسے کھینچا تو اس کا دانت نکل پڑا، وہ دونوں جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جوان اونٹ کی طرح دانت کاٹتا ہے''، پھر آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اس کی دیت نہیں دلوائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
20، 21-ذِكْرُ الاخْتِلافِ عَلَى عَطَائٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
۲۰، ۲۱- باب: اس حدیث میں عطاء بن ابی رباح کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان​


4769- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَمَّيْهِ سَلَمَةَ، وَيَعْلَى ابْنَيْ أُمَيَّةَ قَالا: خَرَجْنَا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَمَعَنَا صَاحِبٌ لَنَا فَقَاتَلَ رَجُلا مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ؛ فَجَذَبَهَا مِنْ فِيهِ فَطَرَحَ ثَنِيَّتَهُ فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَمِسُ الْعَقْلَ؛ فَقَالَ: يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيَعَضُّهُ كَعَضِيضِ الْفَحْلِ، ثُمَّ يَأْتِي يَطْلُبُ الْعَقْلَ لا عَقْلَ لَهَا فَأَبْطَلَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: ق/الدیات ۲۰ (۲۶۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۴، ۱۱۸۳۵)، حم (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴) (صحیح)
۴۷۶۹- سلمہ بن امیہ اور یعلی بن امیہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی تھے وہ کسی مسلمان سے لڑ پڑے، اس نے ان کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، انہوں نے ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ شخص نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس دیت کا مطالبہ کرنے آیا، تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کے پاس جا کر اونٹ کی طرح اسے دانت کاٹتا ہے، پھر دیت مانگنے آتا ہے، ایسے دانت کی کوئی دیت نہیں ''، چنانچہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے دیت نہیں دلوائی۔


4770- أَخْبَرَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالْجَبَّارِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَانْتُزِعَتْ ثَنِيَّتُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَهَا۔
* تخريج: خ/الإجارۃ ۵ (۲۲۶۵)، الجہاد ۲۰ (۲۹۷۳)، المغازي ۷۸ (۴۴۱۷)، الدیات ۱۸ (۶۸۹۳)، م/الحدود ۴ (۱۶۷۴)، د/الدیات ۲۴ (۴۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۷)، حم (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۷۱- ۴۷۷۶) (صحیح)
۴۷۷۰- یعلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا تو پہلے شخص کا دانت اکھڑ گیا، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو قرار دیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی دیت نہیں دلوائی۔


4771- أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ مَرَّةً أُخْرَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى أَنَّهُ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَقَاتَلَ رَجُلا فَعَضَّ يَدَهُ؛ فَانْتُزِعَتْ ثَنِيَّتُهُ؛ فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَيَدَعُهَا يَقْضَمُهَا كَقَضْمِ الْفَحْلِ؟ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
۴۷۷۱- یعلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو نوکر رکھا، اس کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی، تو اس نے اس کا ہاتھ کاٹ کھایا، چنانچہ اس کا دانت اکھڑ گیا، وہ اس کے ساتھ جھگڑتے ہوئے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: '' کیا وہ اپنا ہاتھ چھوڑ دیتا کہ وہ اسے اونٹ کی طرح چبا جائے''۔


4772- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَاسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا فَقَاتَلَ أَجِيرِي رَجُلا فَعَضَّ الآخَرُ فَسَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَأَهْدَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
* تخريج: انظر رقم ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
۴۷۷۲- یعلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا، میں نے ایک شخص کو نوکر رکھا، پھر میرے نوکر کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی، تو دوسرے نے اسے دانت کاٹ لیا، چنانچہ اس کا دانت اکھڑ گیا، پھر وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اسے لغو قرار دیا۔


4773- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَائٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ، وَكَانَ أَوْثَقَ عَمَلٍ لِي فِي نَفْسِي، وَكَانَ لِي أَجِيرٌ فَقَاتَلَ إِنْسَانًا؛ فَعَضَّ أَحَدُهُمَا إِصْبَعَ صَاحِبِهِ؛ فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ؛ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ؛ فَسَقَطَتْ فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ، وَقَالَ: أَفَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح الإسناد)
۴۷۷۳- یعلی بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش العسرۃ ۱؎ (غزوۂ تبوک) میں جہاد کیا، میرے خیال میں یہ میرا بہت اہم کام تھا، میرا ایک نوکر تھا، ایک شخص سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کی انگلی کاٹ کھائی، پھر پہلے نے اپنی انگلی کھینچی تو دوسرے آدمی کا دانت نکل کر گر پڑا، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے اس کے دانت کی دیت نہیں دلوائی، اور فرمایا: ''کیا وہ اپنے ہاتھ تیرے منہ میں چھوڑ دیتا کہ تو اسے چباتا رہے؟ ''۔
وضاحت ۱؎: یہ اس آیت کریمہ: {الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ}سے ماخوذ ہے اور یہ غزوہ تبوک کا دوسرا نام ہے، اس جنگ میں زاد سفر کی بے انتہا قلت تھی اسی لئے اسے ساعۃ العسرۃ کہا گیا۔


4774- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصرفي حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ بِمِثْلِ الَّذِي عَضَّ فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا دِيَةَ لَكَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۹ (صحیح الإسناد)
۴۷۷۴- یعلیٰ رضی الله عنہ سے اس جیسے شخص جس نے دانت کاٹا ہو اور اس کا دانت اکھڑ گیا ہو کے بارے میں روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تمہارے لئے دیت نہیں ہے''۔


4775- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ أَنَّ أَجِيرًا لِيَعْلَى ابْنِ مُنْيَةَ عَضَّ آخَرُ ذِرَاعَهُ؛ فَانْتَزَعَهَا مِنْ فِيهِ فَرَفَعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سَقَطَتْ ثَنِيَّتُهُ؛ فَأَبْطَلَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " أَيَدَعُهَا فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا كَقَضْمِ الْفَحْلِ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۷۰ (صحیح)
(سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۷۷۵- صفوان بن یعلیٰ بن منیہ (امیہ) سے روایت ہے کہ یعلیٰ بن منیہ(امیہ) رضی الله عنہ کے ایک نوکر کو ایک دوسرے شخص نے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، اس (نوکر) نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا، یہ معاملہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا اور حال یہ تھا کہ اس آدمی کا دانت اکھڑ کر گر گیا تھا، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے لغو قرار دیا، اور فرمایا: ''کیا وہ تمہارے منہ میں اسے چھوڑ دیتا تاکہ تم اسے اونٹ کی طرح چبا جاؤ ''۔


4776- أَخْبَرَنِي أَبُوبَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوالْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى أَنَّ أَبَاهُ غَزَا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَاسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَقَاتَلَ رَجُلا فَعَضَّ الرَّجُلُ ذِرَاعَهُ؛ فَلَمَّا أَوْجَعَهُ نَتَرَهَا فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَعَضُّ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ فَأَبْطَلَ ثَنِيَّتَهُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۶۹ (صحیح)
۴۷۷۶- صفوان بن یعلیٰ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، انھوں نے ایک نوکر رکھ لیا تھا، اس کا ایک شخص سے جھگڑا ہو گیا تو اس آدمی نے اس (نوکر) کے ہاتھ میں دانت کاٹ لیا، جب اسے تکلیف ہوئی تو اس نے اسے زور سے کھینچا، تو اس (آدمی) کا دانت نکل پڑا، یہ معاملہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپ نے فرمایا: '' کیا تم میں سے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کو چبائے جیسے اونٹ چباتا ہے؟ '' چنانچہ آپ نے دانت کی دیت نہیں دلوائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
21، 22-الْقَوَدُ فِي الطَّعْنَةِ
۲۱، ۲۲- باب: نیزے کی ضرب کے قصاص کا بیان​


4777-أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ شَيْئًا، أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ، كَانَ مَعَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَالَ، فَاسْتَقِدْ " قَالَ: بَلْ قَدْ عَفَوْتُ يَا رسول اللَّهِ!۔
* تخريج: د/الدیات ۱۵ (۴۵۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۴۷)، حم (۳/۲۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عبیدہ '' لین الحدیث ہیں)
۴۷۷۷- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران اچانک ایک شخص آپ کے اوپر گر پڑا تو آپ نے اسے ایک لکڑی جو آپ کے ساتھ تھی چبھا دی، وہ شخص نکل گیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''آؤ اور بدلہ لے لو'' اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے تو معاف کر دیا۔


4778- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الرِّبَاطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ أَنْبَأَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى يُحَدِّثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ شَيْئًا إِذْ أَكَبَّ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَطَعَنَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ فَصَاحَ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَالَ، فَاسْتَقِدْ، قَالَ: بَلْ عَفَوْتُ يَا رسول اللَّهِ!۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۴۷۷۸- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ اسی دوران اچانک ایک شخص آپ پر گر پڑا، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی چبھا دی، وہ شخص چیخ پڑا تو آپ نے اس سے فرمایا: ''آؤ، بدلہ لے لو'' اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے تو معاف کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
22، 23-الْقَوَدُ مِنْ اللَّطْمَةِ
۲۲، ۲۳- باب: طمانچے اور تھپڑ کے قصاص کا بیان​


4779- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا وَقَعَ فِي أَبٍ كَانَ لَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؛ فَلَطَمَهُ الْعَبَّاسُ؛ فَجَائَ قَوْمُهُ فَقَالُوا: لَيَلْطِمَنَّهُ كَمَا لَطَمَهُ فَلَبِسُوا السِّلاحَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ؛ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ! أَيُّ أَهْلِ الأَرْضِ! تَعْلَمُونَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَقَالُوا: أَنْتَ؛ فَقَالَ: إِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ لا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَائَنَا فَجَائَ الْقَوْمُ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِكَ اسْتَغْفِرْ لَنَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۵۴۵)، حم (۱/۳۰۰) (ضعیف)
(اس کے راوی '' عبدالاعلی ثعلبی '' حافظہ کے کمزور ہیں، لیکن اس کا جملہ ''لاتسبوا۔۔۔ '' شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)
۴۷۷۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کے جاہلیت کے کسی باپ دادا کو برا بھلا کہا تو عباس رضی الله عنہ نے اسے تھپڑ مار دیا، اس کے آدمیوں نے آ کر کہا: وہ لوگ بھی انھیں تھپڑ ماریں گے جیسا کہ انھوں نے مارا ہے اور ہتھیار اٹھا لیے۔ یہ بات نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا: '' لوگو! تم جانتے ہو کہ زمین والوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت کون ہے؟ '' انھوں نے کہا: آپ، آپ نے فرمایا: '' تو عباس میرے ہیں اور میں عباس کا ہوں، تم لوگ ہمارے مُردوں کو برا بھلا نہ کہو جس سے ہمارے زن دوں کو تکلیف ہو''، ان لوگوں نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، ہمارے لئے مغفرت کی دعا فرمائیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23، 24-الْقَوَدُ مِنْ الْجَبْذَةِ
۲۳، ۲۴- باب: پکڑ کر کھینچنے کے قصاص کا بیان​


4780- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَعْنَبِيّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ هِلالٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا نَقْعُدُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا قَامَ قُمْنَا؛ فَقَامَ يَوْمًا، وَقُمْنَا مَعَهُ حَتَّى لَمَّا بَلَغَ وَسَطَ الْمَسْجِدِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ؛ فَجَبَذَ بِرِدَائِهِ مِنْ وَرَائِهِ، وَكَانَ رِدَاؤُهُ خَشِنًا فَحَمَّرَ رَقَبَتَهُ؛ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! احْمِلْ لِي عَلَى بَعِيرَيَّ هَذَيْنِ فَإِنَّكَ لا تَحْمِلُ مِنْ مَالِكَ، وَلا مِنْ مَالِ أَبِيكَ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لاوَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لا أَحْمِلُ لَكَ حَتَّى تُقِيدَنِي مِمَّا جَبَذْتَ بِرَقَبَتِي " فَقَالَ الأَعْرَابِيُّ: لا، وَاللَّهِ لا أُقِيدُكَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: لا، وَاللَّهِ لا اقِيدُكَ فَلَمَّا سَمِعْنَا قَوْلَ الأَعْرَابِيِّ أَقْبَلْنَا إِلَيْهِ سِرَاعًا " فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: عَزَمْتُ عَلَى مَنْ سَمِعَ كَلامِي أَنْ لا يَبْرَحَ مَقَامَهُ حَتَّى آذَنَ لَهُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مِنْ الْقَوْمِ يَافُلانُ! احْمِلْ لَهُ عَلَى بَعِيرٍ شَعِيرًا، وَعَلَى بَعِيرٍ تَمْرًا، ثُمَّ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْصَرِفُوا"۔
* تخريج: د/الأدب ۱(۴۷۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۱)، حم (۲/۲۸۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال لین الحدیث ہیں، لیکن اعرابی کے آپ کو پکڑ کر کھینچنے کا قصہ صحیح بخاری (لباس ۱۸) میں انس رضی الله عنہ سے مروی ہے)
۴۷۸۰- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھا کرتے تھے، جب آپ کھڑے ہوتے، ہم کھڑے ہو جاتے، ایک دن آپ کھڑے ہوئے تو ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ جب آپ مسجد کے بیچوں بیچ پہنچے تو ایک شخص نے آپ کو پکڑا اور پیچھے سے آپ کی چادر پکڑ کر کھینچے لگا، وہ چادر بہت کھردری تھی، آپ کی گردن سرخ ہو گئی، وہ بولا: '' اے محمد! میرے لئے میرے ان دو اونٹوں کو لاد دیجیے، آپ کوئی اپنے مال سے تو کسی کو دیتے نہیں اور نہ اپنے باپ کے مال سے''، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' نہیں، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، میں تجھے نہیں دوں گا جب تک تو میری اس گردن کھینچنے کا بدلہ نہیں دے گا''، اعرابی نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، میں بدلہ نہیں دوں گا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، ہر مرتبہ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم میں بدلہ نہیں دوں گا، جب ہم نے اعرابی کی بات سنی تو ہم دوڑ کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: '' میں قسم دیتا ہوں، تم میں سے جو میری بات سنے اپنی جگہ سے نہ ہٹے، یہاں تک کہ میں اسے اجازت دے دوں ''، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے قوم کے ایک آدمی سے کہا: ''اے فلاں! اس کے ایک اونٹ پر جَو لاد دو اور ایک اونٹ پر کھجور''، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم لوگ جا سکتے ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24، 25- الْقِصَاصُ مِنْ السَّلاطِينِ
۲۴، ۲۵- باب: بادشاہوں اور حکمرانوں سے قصاص لینے کا بیان​


4781- أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومَسْعُودٍ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ أَنَّ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ۔
* تخريج: د/الدیات ۱۵ (۴۵۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۶۴)، حم۱/۴۱ (ضعیف)
(اس کے راوی '' ابو فراس '' لین الحدیث ہیں)
۴۷۸۱- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی ذات سے بدلا دلاتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25، 26-السُّلْطَانُ يُصَابُ عَلَى يَدِهِ
۲۵، ۲۶- باب: سلطان (حکمراں) کے (عامل کے) ذریعہ کسی کو زخم آ جائے ۱؎​


4782- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلاحَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ؛ فَضَرَبَهُ أَبُوجَهْمٍ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الْقَوَدُ يَا رسول اللَّهِ! فَقَالَ: "لَكُمْ كَذَا وَكَذَا " فَلَمْ يَرْضَوْا بِهِ، فَقَالَ: " لَكُمْ كَذَا وَكَذَا " فَرَضُوا بِهِ، فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ، وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِنَّ هَؤُلائِ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا " قَالُوا: لا، فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ؛ فَأَمَرَهُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ، قَالَ: "أَرَضِيتُمْ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ، وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ قَالَ: " أَرَضِيتُمْ؟ " قَالُوا: نَعَمْ۔
* تخريج: د/الدیات ۱۳ (۴۵۳۴)، ق/الدیات ۱۰ (۲۶۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۳۶)، حم (۶/۲۳۲) (صحیح الإسناد)
۴۷۸۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ابو جہم بن حذیفہ رضی الله عنہ کو زکاۃ لینے کے لئے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابو جہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجیے، آپ نے فرمایا: '' اتنا اتنا مال لے لو''، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ''(اچھا) اتنا اتنا مال لے لو''، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: '' میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انھیں تمہاری رضا مندی کی اطلاع دوں گا''، ان لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: '' یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے تھے تو میں نے ان پر اتنے اتنے مال کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر راضی ہیں ''، لیکن وہ لوگ بولے: نہیں، تو مہاجرین نے انھیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے انھیں ٹھہر جانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ لوگ باز رہے، پھر آپ نے انھیں بلایا اور فرمایا: '' کیا تم رضا مند ہو؟ '' وہ بولے: ہاں، آپ نے فرمایا: '' میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور تمہاری رضا مندی کی انھیں اطلاع دوں گا''، انھوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ آپ نے لوگوں سے خطاب کیا پھر(ان سے) فرمایا: '' کیا تم اس پر راضی ہو؟ '' وہ بولے: ہاں۔
وضاحت ۱؎: امام ابوداود نے اس حدیث پر باب باندھا ہے'' العامل یصاب علی یدہ خطأ'' (یعنی عامل کے ذریعہ کسی کو غلطی سے زخم لگ جائے) اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری عامل ہونے کی وجہ سے قصاص معاف نہیں ہوگا، ہاں دیت پر راضی ہو جانے کی صورت میں سرکاری بیت المال سے دیت دلوائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے دلوائی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26، 27-الْقَوَدُ بِغَيْرِ حَدِيدَةٍ
۲۶، ۲۷- باب: تلوار کے بجائے کسی اور چیز سے قصاص لینے کا بیان​


4783- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ يَهُودِيًّا رَأَى عَلَى جَارِيَةٍ أَوْضَاحًا؛ فَقَتَلَهَا بِحَجَرٍ فَأُتِيَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ؛ فَقَالَ: أَقَتَلَكِ فُلانٌ؟ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا أَنْ لا، فَقَالَ: أَقَتَلَكِ فُلانٌ؟ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا أَنْ لا، قَالَ: أَقْتَلَكِ فُلانٌ؟ فَأَشَارَ شُعْبَةُ بِرَأْسِهِ يَحْكِيهَا أَنْ نَعَمْ، فَدَعَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۲۴ (۵۲۹۵ تعلیقًا)، الدیات ۴ (۶۸۷۷)، ۵ (۶۸۷۹)، م/الحدود ۳ (۱۶۷۲)، د/الدیات ۱۰ (۴۵۲۹)، ق/الدیات ۲۴ (۲۶۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۱)، حم (۳/۱۷۱، ۲۰۳) (صحیح)
۴۷۸۳- انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی نے ایک لڑکی کو زیور پہنے دیکھا تو اسے پتھر سے مار ڈالا، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، اس میں کچھ جان باقی تھی، آپ نے فرمایا: '' کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ '' (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ '' (شعبہ نے اپنے سر سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ) اس نے کہا: نہیں، پھر آپ نے فرمایا: '' کیا تمہیں فلاں نے قتل کیا ہے؟ '' (پھر شعبہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ) اس نے کہا: ہاں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور دو پتھروں کے درمیان کچل کر اسے مار ڈالا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے تلوار کی بجائے پتھروں سے اس کا سر کچل کر قصاص لیا، اس سے ثابت ہوا کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ضروری نہیں ہے(جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے) بلکہ یہ تو ارشاد ربانی کے مطابق ہے { وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ } (سورة النحل: 126) { فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ } (سورة البقرة: 194) حنفیہ حدیث '' لا قود إلا بالسیف'' (یعنی: قصاص صرف تلوار ہی سے ہے۔ '' سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ یہ حدیث ہر طریقے سے ضعیف ہے، بلکہ بقول امام ابو حاتم '' منکر'' ہے (کذا فی نیل الا ٔوطار والإرواء رقم ۲۲۲۹)۔


4784- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوخَالِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَى قَوْمٍ مِنْ خَثْعَمَ؛ فَاسْتَعْصَمُوا بِالسُّجُودِ؛ فَقُتِلُوا فَقَضَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ: إِنِّي بَرِيئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ مَعَ مُشْرِكٍ، ثُمَّ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلا لا تَرَائَى نَارَاهُمَا "۔
* تخريج: د/الجہاد ۱۰۵ (۲۶۴۵)، ت/السیر ۴۳ (۱۶۰۴، ۱۶۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۷، ۱۹۲۳۳) (صحیح مرسلاً وموصولاً)
(یہ حدیث ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے، لیکن قیس کے شاگردوں کی ایک جماعت نے قیس کے بعد جریر رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ مرسلا ہی روایت کی ہے، امام بخاری نے بھی مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے، مگر موصول کی بھی صحیح متابعات موجود ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: الإروائ: ۱۲۰۷)
۴۷۸۴- قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کے کچھ لوگوں کی طرف (فوج کی) ایک ٹکڑی بھیجی، تو انھوں نے سجدہ کر کے اپنے کو بچانا چاہا، پھر بھی وہ سب قتل کر دئے گئے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کی آدھی دیت ادا کی ۱؎ اور فرمایا: '' میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ رہے'' ۲؎، پھر آپ نے فرمایا: سنو! (مسلمان اور کافر اس حد تک دور رہیں کہ) ان دونوں کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے۳؎۔
وضاحت ۱؎: آدھی دیت کا حکم دیا اور باقی آدھی کفار کے ساتھ رہنے سے ساقط ہو گئی کیونکہ کافروں کے ساتھ رہ کر اپنی ذات کو انہوں نے جو فائدہ پہنچایا در حقیقت یہ ایک جرم تھا اور اسی جرم کی پاداش میں آدھی دیت ساقط ہو گئی۔
وضاحت۲؎: اس جملہ کی توجیہ میں تین اقوال وارد ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ دونوں کا حکم یکساں نہیں ہو سکتا، دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام کو دارالکفر سے علاحدہ کر دیا ہے لہٰذا مسلمان کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہے، تیسرا یہ کہ مسلمان مشرک کی خصوصیات اور علامتوں کو نہ اپنائے اور نہ ہی چال ڈھال اور شکل وصورت میں ان کے ساتھ تشبہ اختیار کرے۔
وضاحت۳؎: اس حدیث کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں، ممکن ہے اس سے پہلے والے باب کی حدیث ہو اور نساخ کے تصرف سے اس باب کے تحت آ گئی ہو، اور اس حدیث کا مصداق ساری دنیا کے مسلمان نہیں ہیں کہ وہ ہر ملک میں کافروں سے الگ سکونت اختیار کریں، اس زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، اس کا مصداق ایسے علاقے ہیں جہاں اسلامی حکومت ہو، اور سارے حالات واختیارات مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء راشدین وغیرہ کے عہ دوں میں تھا، اور آج سعودیہ اور دیگر مسلم ممالک میں ہے، بعض مسلم ممالک کے اندر بھی موجودہ حالات میں الگ تھلگ رہائش مشکل ہے، {لاَيُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا} (سورة البقرة: 286)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27، 28-تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَائٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ}
۲۷، ۲۸- آیت کریمہ: ''جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے''(البقرۃ: ۱۷۸) کی تفسیر​


4785- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ، وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمْ الدِّيَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ، وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ، وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى إِلَى قَوْلِهِ؛ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْئٌ؛ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَأَدَائٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ؛ فَالْعَفْوُ أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ، وَاتِّبَاعٌ بِمَعْرُوفٍ يَقُولُ: يَتَّبِعُ هَذَا بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَائٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ وَيُؤَدِّي هَذَا بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ إِنَّمَا هُوَ الْقِصَاصُ لَيْسَ الدِّيَةَ۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ البقرۃ ۲۳ (۴۴۹۸)، والدیات ۸ (۶۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۵) (صحیح)
۴۷۸۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا، ان میں دیت دینے کا حکم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے '' كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى'' ۱؎ سے ''فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَائٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ '' ۲؎ تک نازل فرمایا، تو عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کر لے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے، اور ''وَأَدَائٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ '' یہ ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ادا کرے، ''ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ'' (یہ تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے) اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر صرف قصاص فرض تھا، دیت کا حکم نہیں تھا ''۔
وضاحت ۱؎: تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت۔
وضاحت ۲؎: جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے۔ (تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے گا، اسے دردناک عذاب ہوگا (البقرۃ: ۱۷۸)


4786- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَائُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ، قَالَ: كَانَ بَنُوإِسْرَائِيلَ عَلَيْهِمْ الْقِصَاصُ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ الدِّيَةُ؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ عَلَيْهِمْ الدِّيَةَ؛ فَجَعَلَهَا عَلَى هَذِهِ الأُمَّةِ تَخْفِيفًا عَلَى مَا كَانَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
(سابقہ روایت سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۴۷۸۶- مجاہد ''كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ۔۔۔ '' (تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد) کے سلسلہ میں کہتے ہیں: بنی اسرائیل پر صرف قصاص فرض تھا، ان پر دیت نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے دیت کا حکم نازل فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بالمقابل اس امت محمدیہ پر تخفیف کی۔
 
Top