• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-الإِصَابَةُ فِي الْحُكْمِ
۳- باب: صحیح فیصلہ کرنے پر اجر وثواب کا بیان​


5383- أخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ؛ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا اجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ "۔
* تخريج: خ/الاعتصام ۲۱ (۷۳۵۲)، م/الأقضیۃ (۱۷۱۶)، د/الأقضیۃ ۲(۳۵۷۴)، ت/الاحکام ۲ (۱۳۲۶)، ق/الأحکام ۳ (۲۳۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۸)، حم (۴/۱۹۸، ۲۰۴) (صحیح)
۵۳۸۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ـــ'' جب حاکم ۱؎ فیصلہ(کا ارادہ) کرے اور اجتہاد سے کام لے پھر وہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اجتہاد کرنے میں غلطی کر بیٹھے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
وضاحت ۱؎: مراد وہ حاکم ہے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو، قدیم وجدید سارے علما مجتہدین کے اجتہادات کا بھی یہی حکم ہے۔ کسی غلط فیصلہ یا اجتہاد کا گناہ حاکم یا عالم یا امام پر تو نہیں ہوگا، مگر جان بوجھ کر کسی امام یا عالم کے کسی فتوے پر اڑے رہ جانے والوں کو ضرور گناہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب تَرْكِ اسْتِعْمَالِ مَنْ يَحْرِصُ عَلَى الْقَضَائِ
۴- باب: قاضی بنائے جانے کے خواہش مند کو قاضی نہ بنایا جائے​


5384- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: أَتَانِي نَاسٌ مِنْ الأَشْعَرِيِّينَ؛ فَقَالُوا: اذْهَبْ مَعَنَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ لَنَا حَاجَةً؛ فَذَهَبْتُ مَعَهُمْ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! اسْتَعِنْ بِنَا فِي عَمَلِكَ، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَاعْتَذَرْتُ مِمَّا قَالُوا: وَأَخْبَرْتُ أَنِّي لا ادْرِي مَا حَاجَتُهُمْ؛ فَصَدَّقَنِي، وَعَذَرَنِي فَقَالَ: " إِنَّا لانَسْتَعِينُ فِي عَمَلِنَا بِمَنْ سَأَلَنَا "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۰۹۳)، حم (۴/۴۱۷) (صحیح)
۵۳۸۴- ابو موسی اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا: ہمیں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم سے اپنا کوئی کام لیجیے ۱؎ میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چنانچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا: ہم اپنے کام(عہدے) میں ایسے لوگوں کو نہیں لگاتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی ہمیں کوئی عہدہ دیجیے۔
وضاحت ۲؎: یعنی جو شخص منصب و عہدے کا طالب ہو ہم اسے یہ چیز نہیں دیتے کیونکہ اگر اسے صحیح طور پر انجام نہ دے سکا تو ایسے شخص کی صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت کی تباہی وبربادی کا بھی ڈر ہے، اور عہدہ و منصب کا طالب تو وہی ہوگا جو حصول دنیا کا خواہاں ہو۔


5385- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ أَنَّ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ جَائَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَلا تَسْتَعْمِلُنِي كَمَا اسْتَعْمَلْتَ فُلانًا؟! قَالَ: إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ"۔
* تخريج: خ مناقب الأنصار ۸ (۳۷۹۲)، الفتن ۲ (۷۰۵۷)، م/الإمارۃ ۱۱ (۱۸۴۵)، ت/الفتن ۲۵ (۲۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸)، حم (۴/۳۵۱، ۳۵۲) (صحیح)
۵۳۸۵- اسید بن حضیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: کیا آپ مجھے کام نہیں دیں گے جیسے فلاں کو دیا ہے؟! تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے بعد تم پاؤ گے کہ ترجیحات ۱؎ ہوں گی ایسے حالات میں تم صبر سے کام لینا یہاں تک کہ حوض پر تم مجھ سے ملو''۔
وضاحت ۱؎: مستحق اور اہلیت والے کو محروم کر کے نالائق کو کام پر رکھنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- النَّهْيُ عَنْ مَسْأَلَةِ الإِمَارَةِ
۵- باب: حکومت اور عہدہ منصب کی خواہش منع ہے​


5386- أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۸۱۳ (صحیح)
۵۳۸۶- عبدالرحمن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''منصب طلب مت کرو، اس لیے کہ اگر مانگے سے وہ تمہیں ملا تو تم اسی کے سپرد کر دئے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے مل گیا تو تمہاری اس میں مدد ہوگی''۔
وضاحت ۱؎: یعنی اللہ کی نصرت وتائید سے تم محروم رہو گے اور کوئی مدد نہیں ملے گی۔


5387- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الإِمَارَةِ، وَإِنَّهَا سَتَكُونُ نَدَامَةً وَحَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَنِعْمَتِ الْمُرْضِعَةُ، وَبِئْسَتِ الْفَاطِمَةُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۲۱۶ (صحیح)
۵۳۸۷- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' عنقریب تم لوگ منصب کی خواہش کرو گے، لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہوگی پس دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے، (اس لئے کہ ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے '') ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی: حکومت اور منصب والی زندگی تو بھلی لگے گی لیکن اس کے بعد والی زندگی ابتر اور بری ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-اسْتِعْمَالُ الشُّعَرَائِ
۶- باب: شعراء کو ذمہ داری دینے کا بیان​


5388- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدٍ، وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلْ أَمِّرْ الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ وَ رسولهِ } حَتَّى انْقَضَتِ الآيَةُ: { وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ }۔
* تخريج: خ/المغازي ۶۸ (۴۳۶۷)، تفسیرسورۃ الحجرات ۱ (۴۸۴۵)، ۲ (۴۸۴۷)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۲)، ت/تفسیرسورۃ الحجرات (۳۲۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۹) (صحیح)
۵۳۸۸- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں: بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی الله عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا'' اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو'' (یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ آیت اس مضمون پر ختم ہو گئی: ''اگر وہ لوگ تمہارے باہر نکلنے تک صبر کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کی بحث و تکرار کے سبب ابتداء سورہ سے '' أجر عظیم '' تک ۳؍آیتیں نازل ہوئیں، اور آیت: { وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ } اقرع بن حابس رضی الله عنہ کے آپ صلی للہ علیہ وسلم کو زور زور سے ''یا محمد اخرج'' کہنے کی وجہ سے نازل ہوئی، ان میں سے اقرع شاعر تھے، یہی بات باب سے مناسبت ہے، یعنی: کسی شاعر ہونے کے سبب اس کو کسی عہدہ سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-إِذَا حَكَّمُوا رَجُلا فَقَضَى بَيْنَهُمْ
۷- باب: جب کسی کو حکم اور ثالث بنائیں اور وہ فیصلہ کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟​


5389- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ - عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَهُ وَهُمْ يَكْنُونَ هَانِئًا أَبَا الْحَكَمِ؛ فَدَعَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ فَلِمَ تُكَنَّى أَبَا الْحَكَمِ؟ فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْئٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ فَرَضِيَ كِلا الْفَرِيقَيْنِ، قَالَ: مَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا فَمَا لَكَ مِنْ الْوُلْدِ؟ قَالَ: لِي شُرَيْحٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ، وَمُسْلِمٌ، قَالَ: " فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟ " قَالَ شُرَيْحٌ: قَالَ: " فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ " فَدَعَا لَهُ وَلِوَلَدِهِ۔
* تخريج: د/الأدب۷۰(۴۹۵۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۲۵) (صحیح)
۵۳۸۹- ہانی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: ''حَکم تو اللہ ہے اور حُکم کرنا بھی اسی کا کام ہے''، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ''اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، تمہارے کتنے لڑکے ہیں؟ ''وہ بولے: شریح، عبداللہ اور مسلم، آپ نے فرمایا: '' ان میں بڑا کون ہے؟ '' وہ بولے: شریح، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو تم اب سے ابو شریح ہو''، پھر آپ نے ان کے لیے اور ان کے بیٹے کے لیے دعا کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8-النَّهْيُ عَنْ اسْتِعْمَالِ النِّسَائِ فِي الْحُكْمِ
۸- باب: عورتوں کو قاضی (جج) بنانا منع ہے​


5390- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ؛ قَالَ: عَصَمَنِي اللَّهُ بِشَيْئٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا هَلَكَ كِسْرَى قَالَ: "مَنْ اسْتَخْلَفُوا؟ " قَالُوا: بِنْتَهُ، قَالَ: "لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ، وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً"۔
* تخريج: خ/المغازي ۸۲ (۴۴۲۵)، الفتن۱۸(۷۰۹۹)، ت/الفتن ۷۵ (۲۲۶۲)، حم (۵/۳۸، ۴۳، ۴۷، ۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۰) (صحیح)
۵۳۹۰- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی وجہ سے روکے رکھا ۱ ؎ جو میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے سنی، جب کسریٰ ہلاک ہوا تو آپ نے فرمایا: انہوں نے کسے جانشین بنایا؟ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے کسی عورت کو حکومت کے اختیارات دے دیے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی عائشہ رضی الله عنہا کی طرف سے علی رضی الله عنہ سے جب جنگ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس فرمانِ رسول صلی للہ علیہ وسلم کے سبب محفوظ رکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-الْحُكْمُ بِالتَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ وَذِكْرُ الاخْتِلافِ عَلَى الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ
۹- باب: تشبیہ اور مثال کے ذریعہ فیصلہ کرنا اور ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں ولید بن مسلم کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر​


5391- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ الْوَلِيدِ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ؛ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ فَقَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَرْكَبَ إِلا مُعْتَرِضًا أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّي عَنْهُ؛ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَضَيْتِيهِ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲۳ (۱۸۵۳)، م/الحج ۷۱ (۱۳۳۵)، ت/الحج ۸۵ (۹۲۸)، ق/الحج ۱۰ (۲۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۸)، حم (۱/۲۱۲، ۳۱۳)، دي/المناسک ۲۳ (۱۸۷۳، ۱۸۷۴) (صحیح)
۵۳۹۱- فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن(یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فریضہ ٔ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں '' اشباہ ونظائر'' کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔


5392- أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ ح وَأَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْفَضْلُ رَدِيفُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لايَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يُجْزِئُ؟ قَالَ مَحْمُودٌ: فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ لَهَا: نَعَمْ.
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ؛ فَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مَا ذَكَرَ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ۔
* تخريج: انظر رقم: ۲۶۳۵ (صحیح)
۵۳۹۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا (فضل اس وقت رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔) وہ بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فرض فریضۂ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہے؟ (محمود نے ('' فهل يجزي''یعنی کافی ہے؟ کے بجائے) ''فهل يقضي''(یعنی کیا ادا ہو جائے گا) کہا۔) آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ہاں۔ ٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث کو زہری سے ایک سے زائد لوگوں نے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر ولید نے کیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی ولید نے اس حدیث کو مسند فضل سے روایت کیا ہے جب کہ زہری سے روایت کرنے والے دوسرے شاگردوں نے اسے مسند ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کیا ہے۔


5393- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ: - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الآخَرِ؛ فَقَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لايَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۳۵ (صحیح)
۵۳۹۳- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: فضل بن عباس رضی الله عنہما رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے آئی، فضل رضی الله عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم فضل کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے، وہ بولی: اللہ کے رسول! اپنے بن دوں پر اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ فریضہ ٔحج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر سیدھے بیٹھ بھی نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں ''، اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔


5394- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ قَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لا يَسْتَوِي عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ لَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ " فَأَخَذَ الْفَضْلُ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، وَكَانَتْ امْرَأَةً حَسْنَائَ، وَأَخَذَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ؛ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ مِنْ الشِّقِّ الآخَرِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۳۵ (صحیح)
۵۳۹۴- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ہاں، فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک حسین وجمیل عورت تھی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فضل کو پکڑا اور ان کا رخ دوسری جانب گھما دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-ذِكْرُ الاخْتِلافِ عَلَى يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ فِيهِ
۱۰- باب: اس حدیث میں یحییٰ بن ابی اسحاق کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر​


5395- أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْحَجُّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لا يَثْبُتُ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَإِنْ شَدَدْتُهُ خَشِيتُ أَنْ يَمُوتَ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: "أَفَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ مُجْزِئًا" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۳۵ (شاذ)
(اس واقعہ میں سائل کا مرد ہونا شاذ ہے)
۵۳۹۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے، اور وہ اس قدر بوڑھے ہو گئے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ اس سے مر نہ جائیں، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ نے فرمایا: اگر ان پر کچھ قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کیا وہ کافی ہوتا؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''تو تم اپنے باپ کی طرف سے حج کر لو''۔


5396- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَجَائَهُ رَجُلٌ؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ إِنْ حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَحُجَّ عَنْ أُمِّكَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۴۴ (شاذ)
۵۳۹۶- فضل بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بڑی بوڑھی عورت ہیں، اگر میں انہیں سوار کر دوں تو وہ اسے پکڑ نہیں سکیں گی اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ میرے اس عمل سے مر نہ جائیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے یا نہیں؟ '' اس نے کہا: ہاں، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو''۔


5397- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ يُحَدِّثُهُ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَانَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ، وَإِنْ حَمَلْتُهُ لَمْ يَسْتَمْسِكْ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ . قَالَ: "حُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: سُلَيْمَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۶۴۴ (شاذ)
۵۳۹۷- فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کر سکتے، اگر میں انہیں سوار کر دوں) تو اسے پکڑ کر بیٹھ نہیں سکیں گے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو''۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: سلیمان کا فضل بن عباس رضی الله عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے۔


5398- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلا جَائَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ يُجْزِئُ عَنْهُ؟۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۹) (شاذ)
۵۳۹۸- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟ ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ
۱۱- باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان​


5399- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ - هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ - قَالَ: أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِاللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ؛ فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ: إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ، وَلَسْنَا نَقْضِي، وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ؛ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَائٌ بَعْدَ الْيَوْمِ؛ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَإِنْ جَائَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَائَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ؛ فَإِنْ جَائَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ؛ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ، وَلايَقُولُ: إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَايَرِيبُكَ إِلَى مَا لا يَرِيبُكَ. ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ جَيِّدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۳۹۹) (صحیح الإسناد)
۵۳۹۹- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱ ؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
وضاحت ۱؎: مراد '' نیک علماء '' ہیں، کیونکہ ابن مسعود رضی الله عنہ کے زمانہ میں '' صالحین'' صحابہ ٔ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ ٔ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و أئمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہوگا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہو سکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔


5400- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا حِينٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، وَلَسْنَا هُنَالِكَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ؛ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَائٌ بَعْدَ الْيَوْمِ؛ فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَائَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ فَإِنْ جَائَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، وَلا يَقُولُ أَحَدُكُمْ: إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ؛ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لا يَرِيبُكَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۷) (صحیح)
(اس کے راوی '' حریث '' مجہول ہیں، لیکن پچھلی سند صحیح لغیرہ ہے)
۵۴۰۰- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ اس وقت نہ ہم فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے اہل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وہ مقام مقدر کر دیا جہاں تم ہمیں دیکھ رہے ہو، لہٰذا جس کسی کو آج کے بعد کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ اس کے مطابق کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، اور اگر اس کے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ ہی نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو، اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، لہٰذا جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اسے لے لو۔


5401- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَبِسُنَّةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلا فِي سُنَّةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ؛ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلا فِي سُنَّةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ؛ فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلا خَيْرًا لَكَ وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۱۹۷) (صحیح الإسناد)
۵۴۰۱- شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ (قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث) میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی للہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو(فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ}
۱۲- آیت کریمہ: ''جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کافر ہیں '' کی تفسیر​


5402- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَتْ مُلُوكٌ بَعْدَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ الصَّلاة وَالسَّلامُ بَدَّلُوا التَّوْرَاةَ وَالإِنْجِيلَ، وَكَانَ فِيهِمْ مُؤْمِنُونَ يَقْرَؤنَ التَّوْرَاةَ قِيلَ لِمُلُوكِهِمْ مَا نَجِدُ شَتْمًا أَشَدَّ مِنْ شَتْمٍ يَشْتِمُونَّا هَؤُلائِ إِنَّهُمْ يَقْرَؤنَ، { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمْ الْكَافِرُونَ } وَهَؤُلائِ الآيَاتِ مَعَ مَا يَعِيبُونَّا بِهِ فِي أَعْمَالِنَا فِي قِرَائَتِهِمْ فَادْعُهُمْ فَلْيَقْرَؤا كَمَا نَقْرَأُ، وَلْيُؤْمِنُوا كَمَا آمَنَّا فَدَعَاهُمْ فَجَمَعَهُمْ، وَعَرَضَ عَلَيْهِمْ الْقَتْلَ أَوْ يَتْرُكُوا قِرَائَةَ التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ إِلا مَابَدَّلُوا مِنْهَا؛ فَقَالُوا: مَا تُرِيدُونَ إِلَى ذَلِكَ دَعُونَا فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ ابْنُوا لَنَا أُسْطُوَانَةً ثُمَّ ارْفَعُونَا إِلَيْهَا، ثُمَّ اعْطُونَا شَيْئًا نَرْفَعُ بِهِ طَعَامَنَا وَشَرَابَنَا فَلا نَرِدُ عَلَيْكُمْ، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: دَعُونَا نَسِيحُ فِي الأَرْضِ، وَنَهِيمُ، وَنَشْرَبُ كَمَا يَشْرَبُ الْوَحْشُ فَإِنْ قَدَرْتُمْ عَلَيْنَا فِي أَرْضِكُمْ فَاقْتُلُونَا، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: ابْنُوا لَنَا دُورًا فِي الْفَيَافِي، وَنَحْتَفِرُ الآبَارَ، وَنَحْتَرِثُ الْبُقُولَ فَلا نَرِدُ عَلَيْكُمْ، وَلا نَمُرُّ بِكُمْ، وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ الْقَبَائِلِ إِلا وَلَهُ حَمِيمٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَفَعَلُوا ذَلِكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: { وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا }، وَالآخَرُونَ قَالُوا: نَتَعَبَّدُ كَمَا تَعَبَّدَ فُلانٌ، وَنَسِيحُ كَمَا سَاحَ فُلانٌ وَنَتَّخِذُ دُورًا كَمَا اتَّخَذَ فُلانٌ، وَهُمْ عَلَى شِرْكِهِمْ لا عِلْمَ لَهُمْ بِإِيمَانِ الَّذِينَ اقْتَدَوْا بِهِ فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلا قَلِيلٌ انْحَطَّ رَجُلٌ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، وَجَائَ سَائِحٌ مِنْ سِيَاحَتِهِ وَصَاحِبُ الدَّيْرِ مِنْ دَيْرِهِ فَآمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِ رسولهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ} أَجْرَيْنِ بِإِيمَانِهِمْ بِعِيسَى، وَبِالتَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ، وَبِإِيمَانِهِمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَصْدِيقِهِمْ قَالَ: { يَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ } الْقُرْآنَ وَاتِّبَاعَهُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: { لِئَلا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ } يَتَشَبَّهُونَ بِكُمْ { أَنْ لايَقْدِرُونَ عَلَى شَيْئٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ } الآيَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۵۷۵) (صحیح الإسناد)
۵۴۰۲- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: عیسی بن مریم علیہ السلام کے بعد کئی بادشاہ ہوئے جن ہوں نے تورات اور انجیل کو بدل ڈالا، ان میں کچھ مومن تھے جو توراۃ پڑھتے تھے، ان کے بادشاہوں سے عرض کیا گیا: ہمیں اس سے زیادہ سخت گالی نہیں ملتی جو یہ ہمیں دیتے ہیں، یہ لوگ پڑھتے ہیں ''جس نے اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا وہ کاف رہیں '' یہ لوگ اس قسم کی آیات پڑھتے ہیں ور ساتھ ہی وہ چیزیں پڑھتے ہیں جس میں ہمارا عیب نکلتا ہے تو انہیں بلا کر کہو کہ وہ بھی ویسے ہی پڑھیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور اسی طرح کا ایمان لائیں جیسا ہم لائے ہیں، چنانچہ اس (بادشاہ) نے انہیں بلایا اور اکٹھا کیا اور کہا: قتل منظور کرو یا پھر توراۃ اور انجیل کو پڑھنا چھوڑ دو، البتہ وہ پڑھو جو بدل دیا گیا ہے۔ وہ بولے: تمہارا اس سے کیا مقصد ہے؟ ہمیں چھوڑ دو۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے لیے ایک مینار بنا دو اور ہمیں اس پر چڑھا دو پھر ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دے دو، تو ہم تمہارے پاس کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ہمیں چھوڑ دو، ہم زمین میں گھومیں ور بھٹکتے پھریں اور جنگلی جانوروں کی طرح پئیں، پھر اگر تم ہمیں اپنی زمین میں دیکھ لو تو مار ڈالنا، ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: ہمارے لئے صحراء و بیابان میں گھر بنا دو، ہم خود کنویں کھود لیں گے اور سبزیاں بولیں گے، پھر پلٹ کر تمہارے پاس نہ آئیں گے اور نہ تمہارے پاس سے گزریں گے، اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا دوست یا رشتہ دار اس میں نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آیت: {وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا } نازل فرمائی ۱؎، کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: ہم بھی فلاں کی طرح عبادت کریں گے اور فلاں کی طرح گھو میں گے اور فلاں کی طرح گھر بنائیں گے حالانکہ وہ شرک میں مبتلا تھے، یہ ان لوگوں کے ایمان سے باخبر نہ تھے جن کی پیروی کا یہ دم بھر رہے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ان میں سے بہت تھوڑے سے لوگ بچے تھے، ایک شخص اپنے عبادت خانے سے اترا اور جنگل میں گھومنے والا گھوم کر لوٹا اور گرجا گھر میں رہنے والا گرجا گھر سے لوٹا اور یہ سب کے سب آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِ رسولهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ}۲؎ دوہرا اجر ان کے عیسیٰ، تورات اور انجیل پر ایمان کے بدلے اور محمد صلی للہ علیہ وسلم پر ایمان اور تصدیق کے بدلے، پھر فرمایا: ''وہ تمہارے چلنے کے لیے ایک روشنی دے گا'' یعنی قرآن اور نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی پیروی ''تاکہ اہل کتاب'' یعنی وہ اہل کتاب جو تمہاری مشابہت کرتے ہیں ''جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے'' ۳؎۔
وضاحت ۱؎: اور جو درویشی انہوں نے خود نکالی تھی ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، پھر انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی۔ (الحدید: ۲۷)
وضاحت۲؎: اے لوگو! جو ایمان رکھتے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کا دوگنا حصہ دے گا۔ (الحدید: ۲۹)
وضاحت۳؎: الحدید ۲۹۔
 
Top