• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
23-تَوْجِيهُ الْحَاكِمِ إِلَى مَنْ أُخْبِرَ أَنَّهُ زَنَى
۲۳- باب: حاکم اس شخص کو بلوا سکتا ہے جس کے بارے میں اس کو خبر ہے کہ اس نے زنا کیا ہے​


5414- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِامْرَأَةٍ قَدْ زَنَتْ فَقَالَ: مِمَّنْ قَالَتْ مِنْ الْمُقْعَدِ الَّذِي فِي حَائِطِ سَعْدٍ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ مَحْمُولا؛ فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْهِ؛ فَاعْتَرَفَ فَدَعَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِثْكَالٍ فَضَرَبَهُ، وَرَحِمَهُ لِزَمَانَتِهِ، وَخَفَّفَ عَنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰)، وقد أخرجہ: د/الحدود ۳۴ (۴۴۷۲)، ق/الحدود ۱۸ (۲۵۷۴)، حم (۵/۲۲۲) (کلھم بزیادۃ '' سعید بن سعد بن عبادۃ '' أو '' بعض أصحاب النبی ﷺ '' بعد '' أبی أمامۃ '') (صحیح)
۵۴۱۴- ابو اما مہ بن سہل بن حنیف سے (مرسلاً) ۱؎ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت لائی گئی، جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا تو آپ نے فرمایا: ''کس کے ساتھ؟ '' وہ بولی: اپا ہج سے جو سعد رضی الله عنہ کے باغ میں رہتا ہے، آپ نے اسے بلا بھیجا چنانچہ وہ لاد کر لا یا گیا اور اسے آپ کے سامنے رکھا گیا، پھر اس نے اعتراف کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے کھجور کے خوشے منگا کر اسے مارا اور اس کے لنجے پن کی وجہ سے اس پر رحم کیا اور اس پر تخفیف کی ۲؎۔
وضاحت ۱؎: نسائی کی روایت مرسل ہے، لیکن دیگر لوگوں کے یہاں '' سعید بن سعد بن عبادہ (ایک چھوٹے صحابی) یا: بعض اصحاب نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا واسطہ موجود ہے، اس لیے حدیث متصل مرفوع صحیح ہے۔
وضاحت ۲؎: چونکہ وہ غیر شادی شدہ تھا اس لیے اس کو رجم کی سزا نہیں دی گئی، اور کوڑے میں بھی تخفیف سے کام لیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
24-مَصِيرُ الْحَاكِمِ إِلَى رَعِيَّتِهِ لِلصُّلْحِ بَيْنَهُمْ
۲۴- باب: صلح کرانے کے لیے حاکم کے رعا یا کے پاس جانے کا بیان​


5415- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوحَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ يَقُولُ: وَقَعَ بَيْنَ حَيَّيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ كَلامٌ حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ؛ فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فَحَضَرَتِ الصَّلاةُ فَأَذَّنَ بِلالٌ، وَانْتُظِرَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحْتُبِسَ فَأَقَامَ الصَّلاةَ، وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَائَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُوبَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ صَفَّحُوا، وَكَانَ أَبُوبَكْرٍ لاَيَلْتَفِتُ فِي الصَّلاةِ فَلَمَّا سَمِعَ تَصْفِيحَهُمْ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ اثْبُتْ فَرَفَعَ أَبُوبَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَعْنِي: يَدَيْهِ ثُمَّ نَكَصَ الْقَهْقَرَى، وَتَقَدَّمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمَّا قَضَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ؟ قَالَ: مَاكَانَ اللَّهُ لِيَرَى ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ بَيْنَ يَدَيْ نَبِيِّهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: مَا لَكُمْ إِذَا نَابَكُمْ شَيْئٌ فِي صَلاتِكُمْ صَفَّحْتُمْ؟ إِنَّ ذَلِكَ لِلنِّسَائِ مَنْ نَابَهُ شَيْئٌ فِي صَلاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۴۶۹۳)، وقد أخرجہ: خ/العمل فی الصلاۃ ۳ (۱۲۰۱)، ۱۶ (۱۲۱۸)، الصلح ۱ (۲۶۹۰)، م/الصلاۃ ۲۲ (۴۲۱)، حم (۵/۳۳۰، ۳۳۱، ۲۳۶) (صحیح)
۵۴۱۵- سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: انصار کے دو قبیلوں کے درمیان تکرار ہوئی یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے لگے، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم ان کے درمیان صلح کرانے گئے، اتنے میں صلاۃ کا وقت ہو گیا، تو بلال رضی الله عنہ نے اذان دی اور آپ کا انتظار کیا اور رکے رہے، پھر اقامت کہی اور ابو بکر رضی الله عنہ آگے بڑھے، اتنے میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم آگئے، ابوبکر رضی الله عنہ لو گوں کو صلاۃ پڑھا رہے تھے، جب لو گوں نے آپ کو دیکھا تو (بتا نے کے لیے) تالی بجا دی۔ (ابو بکر صلاۃ میں کسی اور طرف توجہ نہیں دیتے تھے) پھر جب انہوں نے ان سب کی تالی کی آواز سنی تو مڑے، دیکھا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ہیں، انہوں نے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا، تو آپ نے وہیں رہنے کا اشارہ کیا، تو ابوبکر رضی الله عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور صلاۃ پڑھا ئی، پھر جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے صلاۃ پوری کر لی تو فرمایا: '' تمہیں وہیں رکنے سے کس چیز نے روکا؟ '' وہ بولے: یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ابو قحافہ کے بیٹے کو اپنے نبی کے آگے دیکھے، پھر آپ لو گوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں صلاۃ میں کوئی چیز پیش آتی ہے تو تالی بجانے لگتے ہو، یہ تو عورتوں کی عادت ہے، تم میں سے کسی کو جب کوئی بات پیش آئے تو وہ ''سبحان اللہ'' کہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
25-إِشَارَةُ الْحَاكِمِ عَلَى الْخَصْمِ بِالصُّلْحِ
۲۵- باب: حاکم فریقین میں سے کسی کو صلح کر لینے کا مشورہ دے سکتا ہے​


5416- أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الأَسْلَمِيِّ يَعْنِي: دَيْنًا فَلَقِيَهُ فَلَزِمَهُ فَتَكَلَّمَا حَتَّى ارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ فَمَرَّ بِهِمَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا كَعْبُ! فَأَشَارَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ: النِّصْفَ فَأَخَذَ نِصْفًا مِمَّا عَلَيْهِ، وَتَرَكَ نِصْفًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۵۴۱۰ (صحیح)
۵۴۱۶- کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی الله عنہ پر اُن کا قرضہ تھا، وہ راستے میں مل گئے تو انہیں پکڑ لیا، پھر ان دونوں میں تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، ان کے پاس سے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: ''کعب! '' پھر اپنے ہاتھ سے ایک اشارہ کیا گویا آپ کہہ رہے تھے: ''آدھا''، چنانچہ انہوں نے آدھا قرضہ لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
26-إِشَارَةُ الْحَاكِمِ عَلَى الْخَصْمِ بِالْعَفْوِ
۲۶- باب: حاکم فریقین میں کسی کو معاف کر دینے کا مشورہ دے سکتا ہے​


5417- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَائَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ، قَالَ: لا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ فَقَالَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ، قَالَ: لا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ فَقَالَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ، قَالَ: لا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوئُ بِإِثْمِهِ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ فَعَفَا عَنْهُ، وَتَرَكَهُ فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
۵۴۱۷- وائل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتا ہوا لا یا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: کیا تم معاف کر دو گے؟ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''کیا دیت لو گے؟ ''وہ بولا: نہیں، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو اسے قتل کرو گے؟ '' کہا: ہاں، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اسے لے جاؤ'' (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلا یا اور فرمایا: ''کیا معاف کر دو گے؟ '' کہا: نہیں، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دیت لو گے؟ '' کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''تو اسے قتل کرو گے؟ '' کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''لے جاؤ اسے'' (اور قتل کرو) جب وہ چلا اور آپ کے پاس سے چلا گیا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ''کیا معاف کر دو گے؟ '' کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''دیت لو گے؟ '' کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''تو اسے قتل کرو گے؟ '' کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''لے جاؤ اسے'' (اور قتل کرو) پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: ''اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے گناہ اور تمہارے (مقتول) ساتھی کے گناہ سمیٹ لے گا''، یہ سن کر اس نے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کھینچ رہا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
27-إِشَارَةُ الْحَاكِمِ بِالرِّفْقِ
۲۷- باب: حاکم پہلے نرمی کرنے کے لیے حکم دے سکتا ہے​


5418- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ فَأَبَى عَلَيْهِ؛ فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ " فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ! اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، قَالَ الزُّبَيْرُ: إِنِّي أَحْسَبُ أَنَّ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ } الآيَةَ۔
* تخريج: خ/المساقات ۶ (۲۳۵۹، ۲۳۶۰)، م/الفضائل ۳۶ (۲۳۵۷)، د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۷)، ت/الأحکام ۲۶ (۱۳۶۳)، تفسیر سورۃ النساء (۳۰۲۷)، ق/المقدمۃ ۲ (۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۷۵)، حم (۴/۴) (صحیح)
۵۴۱۸- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے زبیر رضی الله عنہ سے حرہ کی نالیوں کے سلسلے میں جھگڑا کیا، (جن سے وہ باغ کی سینچائی کرتے تھے) اور مقدمہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، انصاری نے کہا: پانی کو بہتا چھوڑ دو، تو انہوں نے انکار کیا، ان دونوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ پیش کیا، تو آپ نے فرمایا: ''زبیر! سینچائی کر لو پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو''، انصاری کو غصہ آ گیا، وہ بولا: اللہ کے رسول! وہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں نا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے فرمایا: ''زبیر! سینچائی کرو، اور پانی مینڈوں تک روک لو''، زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ یہ آ یت: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ} ۱؎ اسی سلسلے میں اتری۔
وضاحت ۱؎: نہیں، تمہارے رب کی قسم! وہ مومن نہیں ہوں گے ـ۔ (النساء: ۶۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
28-شَفَاعَةُ الْحَاكِمِ لِلْخُصُومِ قَبْلَ فَصْلِ الْحُكْمِ
۲۸- باب: فیصلہ سے پہلے حاکم کسی فریق کے حق میں سفارش کرے تو اس کے جواز کا بیان​


5419- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي، وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ: يَا عَبَّاسُ! أَلا تَعْجَبْ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ؟! وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ" قَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! أَتَأْمُرُنِي قَالَ: إِنَّمَا أَنَا شَفِيعٌ قَالَتْ: فَلاحَاجَةَ لِي فِيهِ۔
* تخريج: خ/الطلاق ۱۶ (۵۲۸۳)، د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۱)، ق/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۸)، حم (۱/۲۱۵) (صحیح)
۵۴۱۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے عباس رضی الله عنہ سے کہا: عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے؟!، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس (بریرہ) سے فرمایا: ''اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے''، وہ بولیں: اللہ کے رسول! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: '' نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں ''، وہ بولیں: پھر تو مجھے اس کی ضرو رت نہیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مغیث اور بریرہ (رضی الله عنہما) کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ '' بریرہ رضی الله عنہا کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے'' مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ رضی الله عنہا سے قانونا نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جا سکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
29-مَنْعُ الْحَاكِمِ رَعِيَّتَهُ مِنْ إِتْلاَفِ أَمْوَالِهِمْ وَبِهِمْ حَاجَةٌ إِلَيْهَا
۲۹- اگرکسی شخص کو مال کی حاجت ہو اور وہ اپنا مال برباد کرے تو حاکم اس کو اس کام سے روک سکتا ہے​


5420- أَخْبَرَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَاضِرُ بْنُ الْمُوَرِّعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ غُلامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، وَكَانَ مُحْتَاجًا، وَكَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَبَاعَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ؛ فَأَعْطَاهُ فَقَالَ: اقْضِ دَيْنَكَ وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۶۵۸ (صحیح)
۵۴۲۰- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں: انصار کے ایک شخص نے مدابرہ ۱؎ کے طور پر اپنا ایک غلام آزاد کر دیا، حالاں کہ وہ ضرورت مند تھا اور اس پر قرض بھی تھا۔ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے آٹھ سو درہم میں بیچ کر مال اسے دے دیا اور فرمایا: ''اپنا قرض ادا کرو اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو ''۔
وضاحت ۱؎: مدابرہ یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
30-الْقَضَائُ فِي قَلِيلِ الْمَالِ وَكَثِيرِهِ
۳۰- باب: مال تھوڑا ہو یا زیادہ ہر حال میں فیصلہ ہوگا​


5421- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلائُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ؛ فَقَدْ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "؛ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: وَإِنْ كَانَ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ۔
* تخريج: م/الإیمان ۶۱ (۱۳۷)، ق/الأحکام ۸ (۲۳۲۴)، ط/الأقضیۃ ۸ (۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۴)، حم (۵/۲۶۰) (صحیح)
۵۴۲۱- ابو امامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی کسی مسلمان آدمی کا حق قسم کھا کر مار لے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا اور جنت اس پر حرام کر دے گا''، ایک شخص نے آپ سے کہا: اگر چہ وہ معمولی سی چیز ہو؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ''گر چہ وہ پیلو کی ایک ڈال ہو'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: جب جھوٹی قسم کھا کر پیلو کی ایک ڈال ہڑپ کر لینے پر اتنی سخت وعید ہے تو اتنی سی معمولی چیز کے بارے میں عدالتی فیصلہ بھی ہو سکتا ہے، یہی باب سے مناسبت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
31-قَضَائُ الْحَاكِمِ عَلَى الْغَائِبِ إِذَا عَرَفَهُ
۳۱- باب: حاکم اگر کسی کو پہچانتاہو تو اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے​


5422- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَائَتْ هِنْدٌ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، وَلا يُنْفِقُ عَلَيَّ، وَوَلَدِي مَا يَكْفِينِي أَفَآخُذُ مِنْ مَالِهِ، وَلايَشْعُرُ، قَالَ: "خُذِي مَا يَكْفِيكِ، وَوَلَدِكِ بِالْمَعْرُوفِ "۔
* تخريج: م/الأقضیۃ ۴ (۱۷۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶۱)، وقد أخرجہ: خ/البیوع ۹۵ (۲۲۱۱)، والمظالم ۱۸ (۲۴۶۰)، النفقات ۵ (۵۳۵۹)، ۹ (۵۳۶۴)، ۱۴(۵۳۷)، الأیمان ۳ (۶۶۴۱)، الأحکام ۱۴ (۷۱۶۱)، ۲۸ (۷۱۸۰)، د/البیوع ۸۱ (۳۵۳۲)، ق/التجارات ۶۵ (۲۲۹۳)، حم (۳۹۶، ۵۰، ۲۰۶)، دي/النکاح ۵۴ (۲۳۰۵) (صحیح)
۵۴۲۲- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہند رضی الله عنہا نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل شخص ہیں، وہ مجھ پر اور میرے بچوں پراس قدر نہیں خرچ کرتے ہیں جو کافی ہو، تو کیا میں ان کے مال میں سے کچھ لے لیا کروں اور انہیں پتا بھی نہ چلے؟ آپ نے فرمایا: '' بھلائی کے ساتھ اس قدر لے لو کہ تمہارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس غائب اور غیر موجود کو پہچانتا ہو، اور مدعی کی صداقت اور مدعی علیہ کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہو جیسا کہ ہند اور ابوسفیان رضی الله عنہما کے معاملہ کی بابت آپ صلی للہ علیہ وسلم جانتے تھے، ہر مدعی علیہ کے بارے میں اس طرح فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عام حالات میں مدعی کی گواہی یا قسم اور مدعا علیہ کے بیان سننے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
32-النَّهْيُ عَنْ أَنْ يَقْضِيَ فِي قَضَائٍ بِقَضَائَيْنِ
۳۲- باب: ایک قضیہ میں دو فیصلہ کرنا منع ہے​


5423- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، وَكَانَ عَامِلا عَلَى سِجِسْتَانَ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لايَقْضِيَنَّ أَحَدٌ فِي قَضَائٍ بِقَضَائَيْنِ، وَلايَقْضِي أَحَدٌ بَيْنَ خَصْمَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۵۴۰۸ (صحیح)
۵۴۲۳- عبدالرحمن بن ابو بکرہ (سجستان کے گورنر تھے) کہتے ہیں کہ مجھے ابو بکرہ رضی الله عنہ نے لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: '' کوئی ایک قضیہ میں دو فیصلے نہ کرے ۱ ؎، اور نہ کوئی دو فریقوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ کرے ''۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ قضا کا مقدمہ جھگڑے کو ختم کرنا ہے، اور ایک ہی معاملہ میں دو طرح کے فیصلے سے جھگڑا ختم نہیں ہوتا۔
 
Top