19-الرُّخْصَةُ لِلْحَاكِمِ الأَمِينِ أَنْ يَحْكُمَ وَهُوَ غَضْبَانُ
۱۹- باب: امانت دار حاکم غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کر سکتا ہے
5409- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلاهُمَا النَّخْلَ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ " فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ، وَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ! اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ فَاسْتَوْفَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ، وَكَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ فِيهِ السَّعَةُ لَهُ، وَلِلأَنْصَارِيِّ فَلَمَّا أَحْفَظَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارِيُّ اسْتَوْفَى لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ قَالَ الزُّبَيْرُ: لا أَحْسَبُ هَذِهِ الآيَةَ أُنْزِلَتْ إِلا فِي ذَلِكَ { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ } وَأَحَدُهُمَا يَزِيدُ عَلَى صَاحِبِهِ فِي الْقِصَّةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۶۳۰)، وقد أخرجہ: خ/الشرب والمساقاۃ۶-۸ (۲۳۶۰- ۲۳۶۲)، والصلح۱۲(۲۷۰۸)، وتفسیرسورۃ النسائ۱۲(۴۵۸۵)، م/الفضائل۳۶(۲۳۵۷)، د/الأقضیۃ۳۱ (۳۶۳۷)، ت/الأحکام۲۶(۱۳۶۳)، وتفسیرسورۃ النسائ، ق/المقدمۃ ۲ (۱۵)، والرہون۲۰ (۲۴۸۰)، حم (۱/۱۶۵)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۵۴۱۸ (صحیح)
۵۴۰۹- زبیر بن عوام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص سے جو بدر میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تھا حرہ کی نالیوں کے سلسلہ میں ان کا جھگڑا ہو گیا۔ وہ دونوں ہی اس سے اپنے کھجوروں کے باغ کی سنیچائی کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: پانی چھوڑ دو وہ اس سے گزر کر چلا جائے، انہوں نے پانی چھوڑنے سے انکار کیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''زبیر! پہلے سنیچائی کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو''، انصاری کو غصہ آ گیا وہ بولا: اللہ کے رسول! وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی زاد(بھائی) ہیں نا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۱؎، پھر فرمایا: ''زبیر! سینچائی کرو، پھر پانی اس قدر روکو کہ میڈوں تک ہو جائے''، اس طرح رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے زبیر کو ان کا پورا پورا حق دلایا، حالاں کہ اس سے پہلے آپ نے جو مشورہ دیا تھا اس میں ان کا بھی فائدہ تھا اور انصاری کا بھی۔ لیکن جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو انصاری نے غصہ دلایا تو آپ نے زبیر رضی الله عنہ کو صریح حکم دے کر ان کا حق دلادیا۔
زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے:
{ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ} ۲؎ (اس حدیث کے دو راوی ہیں) اس واقعہ کو بیان کرنے میں ایک کے یہاں دوسرے کے بالمقابل کچھ کمی بیشی ہے۔
وضاحت ۱؎: یہی باب سے مطابقت ہے کہ غصہ کی حالت میں ایک فیصلہ صادر فرمایا، چونکہ آپ امین تھے اس لیے آپ کو غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کرنے کا حق تھا، عام قاضیوں کو یہ حق نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎: نہیں، آپ کے رب کی قسم! وہ مومن نہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم تسلیم نہ کر لیں۔ (النسائ: ۶۵)