• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-الْحُكْمُ بِالظَّاهِرِ
۱۳- باب: ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان​


5403- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُهُ بِهِ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ"۔
* تخريج: خ/المظالم ۱۶ (۲۴۹۸)، الشہادات ۲۷ (۲۶۸۰)، الحیل ۱۰ (۶۹۶۷)، الأحکام ۲۰ (۷۱۶۹)، ۲۹ (۷۱۸۱)، م/الأقضیۃ ۳ (۱۷۱۳)، د/الأقضیۃ ۷ (۳۵۸۳)، ت/الأحکام ۱۱ (۱۳۳۹)، ق/الأحکام ۱۱ (۲۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۶۱)، ط/الأقضیۃ ۱(۱)، حم (۶/۲۰۳، ۲۹۰، ۳۰۷، ۳۰۸)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۵۴۲۴ (صحیح)
۵۴۰۳- ام المومنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم لوگ میرے سامنے مقدمات لاتے ہو، میں تو بس تمہاری طرح ایک انسان ہوں ۱؎، ممکن ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو)) تو اسے وہ نہ لے کیونکہ میں تو اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ''۔
وضاحت ۱؎: یعنی غیب کا علم صرف اللہ کو ہے، میں تو صرف ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-حُكْمُ الْحَاكِمِ بِعِلْمِهِ
۱۴- باب: حاکم اپنے علم اور تجربے سے فیصلہ کر سکتا ہے​


5404- أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُوالزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ الأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَقَالَ: بَيْنَمَا امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَائَ الذِّئْبُ؛ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ هَذِهِ لِصَاحِبَتِهَا: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، وَقَالَتْ الأُخْرَى: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلام فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا إِلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَأَخْبَرَتَاهُ فَقَالَ: ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا؛ فَقَالَتْ الصُّغْرَى: لا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا؛ فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ مَاسَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ قَطُّ إِلا يَوْمَئِذٍ مَا كُنَّا نَقُولُ إِلا الْمُدْيَةَ۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۴۰ (۳۴۲۷)، والفرائض ۳۰ (۶۷۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۲۸)، حم۲/۳۲۲، ۳۴۰، وانظر حدیث رقم: ۵۴۰۵، ۵۴۰۶ (صحیح)
۵۴۰۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دو عورتیں تھیں ان دونوں کے ساتھ ان کا ایک ایک بچہ تھا، اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ اٹھا لے گیا، تو اس نے دوسری سے کہا: وہ تمہارا بچہ لے گیا، دوسری بولی: تمہارا بچہ لے گیا، پھر وہ دونوں مقدمہ لے کر داود علیہ السلام کے پاس گئیں تو آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کیا۔ پھر وہ دونوں سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: ایک چھری لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں، چھوٹی بولی: ایسا نہ کیجیے، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، وہ اسی کا بیٹا ہے، تو انہوں نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! سوائے اس دن کے ہم نے کبھی چھری کا نام ''سکین'' نہیں سنا، ہم) تو اسے ''مدیہ'' کہا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-السِّعَةُ لِلْحَاكِمِ فِي أَنْ يَقُولَ لِلشَّيْئِ الَّذِي لا يَفْعَلُهُ: أَفْعَلُ لِيَسْتَبِينَ الْحَقُّ
۱۵- باب: حاکم کے لیے اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کہے کہ میں ایسا کروں گا حالاں کہ اس کا ارادہ کرنے کا نہ ہو​


5405- أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " خَرَجَتْ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا صَبِيَّانِ لَهُمَا فَعَدَا الذِّئْبُ عَلَى إِحْدَاهُمَا؛ فَأَخَذَ وَلَدَهَا فَأَصْبَحَتَا تَخْتَصِمَانِ فِي الصَّبِيِّ الْبَاقِي إِلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلام؛ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى مِنْهُمَا فَمَرَّتَا عَلَى سُلَيْمَانَ فَقَالَ: كَيْفَ أَمْرُكُمَا؟ فَقَصَّتَا عَلَيْهِ فَقَالَ: ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّ الْغُلامَ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ الصُّغْرَى: أَتَشُقُّهُ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: لا تَفْعَلْ حَظِّي مِنْهُ لَهَا قَالَ: هُوَ ابْنُكِ فَقَضَى بِهِ لَهَا "۔
* تخريج: م/الأقضیۃ ۱۰ (۱۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۶۷) (صحیح)
۵۴۰۵- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ دونوں اس بچے کے سلسلے میں جو باقی تھا جھگڑتی ہوئی داود علیہ السلام کے پاس آئیں، تو انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، پھر وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں، وہ بولے: تم دونوں کا کیا قضیہ ہے؟ چنانچہ انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے کہا: چھری لاؤ، بچے کے دو حصہ کر کے ان دونوں کے درمیان تقسیم کروں گا ۱؎، چھوٹی عورت بولی: کیا آپ اسے کاٹیں گے؟ کہا: ہاں، وہ بولی: ایسا نہ کیجیے، اس میں جو میرا حصہ ہے وہ بھی اسی کو دے دیجیے، سلیمان علیہ السلام نے کہا: یہ تمہارا بیٹا ہے، چنانچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کر دیا۔
وضاحت ۱؎: اسی جملے میں باب سے مطابقت ہے، سلیمان علیہ السلام کا مقصد بچے کو حقیقت میں ٹکڑے کر کے تقسیم کرنا نہیں تھا، بس اس طریقے سے وہ بچے کی حقیقی ماں کو پہچاننا چاہتے تھے، واقعی میں جس کا بچہ تھا وہ (چھوٹی عورت) بچے کے ٹکڑے کرنے پر راضی نہیں ہوئی، جب کہ جس کا بچہ نہیں تھا وہ خاموش رہی، اسے دوسری کے بچے سے کیا محبت ہو سکتی تھی؟ اس لیے ٹکڑے کرنے پر خاموش رہی، اس طرح آپ نے حقیقت کا پتہ چلا لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-نَقْضُ الْحَاكِمِ مَا يَحْكُمُ بِهِ غَيْرُهُ مِمَّنْ هُوَ مِثْلُهُ أَوْ أَجَلُّ مِنْهُ
۱۶- باب: حاکم اپنے ہم منصب یا اس سے اوپر کے آدمی کے فیصلہ کو توڑ سکتا ہے​


5406- أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْكِينُ بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " خَرَجَتْ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا وَلَدَاهُمَا فَأَخَذَ الذِّئْبُ أَحَدَهُمَا؛ فَاخْتَصَمَتَا فِي الْوَلَدِ إِلَى دَاوُدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى مِنْهُمَا فَمَرَّتَا عَلَى سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلام فَقَالَ: كَيْفَ قَضَى بَيْنَكُمَا؟ قَالَتْ: قَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى قَالَ سُلَيْمَانُ: أَقْطَعُهُ بِنِصْفَيْنِ لِهَذِهِ نِصْفٌ، وَلِهَذِهِ نِصْفٌ قَالَتِ الْكُبْرَى: نَعَمْ، اقْطَعُوهُ، فَقَالَتِ الصُّغْرَى: لاَ تَقْطَعْهُ هُوَ وَلَدُهَا فَقَضَى بِهِ لِلَّتِي أَبَتْ أَنْ يَقْطَعَهُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۵۴۰۴ (صحیح)
۵۴۰۶- ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ اس بچے کے سلسلے میں جو باقی رہ گیا تھا جھگڑتی ہوئی داود علیہ السلام کے پاس آئیں، انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، وہ سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا؟ (چھوٹی) بولی بڑی کے حق میں فیصلہ کیا، سلیمان علیہ السلام نے کہا: میں اس بچے کودو حصوں میں تقسیم کروں گا، ایک حصہ اس کے لئے اور دوسرا حصہ اس کے لئے ہوگا، بڑی عورت بولی: ہاں! آپ اسے کاٹ دیں، جب کہ چھوٹی عورت نے کہا: ایسا نہ کیجیے، یہ بچہ اسی کا ہے، چنانچہ انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا جس نے بچہ کو کاٹنے سے روکا تھا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ داود علیہ السلام کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، یہی باب سے مطابقت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب الرَّدِّ عَلَى الْحَاكِمِ إِذَا قَضَى بِغَيْرِ الْحَقِّ
۱۷- باب: جب حاکم ناحق فیصلہ کرے) تو اسے رد کر دینے کا بیان​


5407- أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، وَعَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ؛ فَدَعَاهُمْ إِلَى الإِسْلامِ؛ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا: أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: صَبَأْنَا، وَجَعَلَ خَالِدٌ قَتْلاً وَأَسْرًا، قَالَ: فَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ أَسِيرَهُ حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ يَوْمُنَا أَمَرَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لا اقْتُلُ أَسِيرِي، وَلايَقْتُلُ أَحَدٌ، وَقَالَ بِشْرٌ مِنْ أَصْحَابِي: أَسِيرَهُ قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذُكِرَ لَهُ صُنْعُ خَالِدٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَرَفَعَ يَدَيْهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ.
قَالَ زَكَرِيَّا فِي حَدِيثِهِ: فَذُكِرَ وَفِي حَدِيثِ بِشْرٍ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ۔
* تخريج: خ/المغازي ۵۸ (۴۳۳۹)، الأحکام ۳۵ (۷۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۱)، حم (۲/۱۵۱) (صحیح)
۵۴۰۷- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ کیا، خالد رضی الله عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، مگر وہ اچھی طرح ''اسلمنا''(ہم اسلام لائے) نہ کہہ سکے بلکہ کہنے لگیـ: ہم نے اپنا دین چھوڑا، چنانچہ خالد رضی الله عنہ نے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا اور ہر شخص کو اس کا قیدی حوالے کر دیا، جب صبح ہوئی تو خالد رضی الله عنہ نے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا قیدی قتل کرنے کا حکم دیا، ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ ہی (میرے ساتھیوں میں سے) کوئی دوسرا، پھر ہم نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور خالد رضی الله عنہ کی اس کارروائی کا آپ سے ذکر کیا تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا(اور آپ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھیـ): ''اے اللہ میں اس سے برأت کا اعلان کرتا ہوں جو خالد نے کیا '' ۱؎۔ بشر کی روایت میں ہے کہ آپ نے یوں فرمایا: ''اے اللہ! میں اس سے بری ہوں جو خالد نے کیا ہے''، ایسا آپ نے دو مرتبہ کہا۔
وضاحت ۱؎: یہی باب سے مناسبت ہے، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کے فیصلہ کو رد کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-ذِكْرُ مَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يَجْتَنِبَهُ
۱۸- باب: حاکم کو کن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے​


5408- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: كَتَبَ أَبِي، وَكَتَبْتُ لَهُ إِلَى عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ - وَهُوَ قَاضِي سِجِسْتَانَ - أَنْ لاَتَحْكُمَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لا يَحْكُمْ أَحَدٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ "۔
* تخريج: خ/الأحکام ۱۳ (۷۱۵۸)، م/الأقضیۃ ۷ (۱۷۱۷)، د/الأقضیۃ ۹ (۳۵۸۹)، ت/الأحکام ۷ (۱۳۳۴)، ق/الأحکام ۴ (۲۳۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۶)، حم (۵/۳۶، ۳۷، ۳۸، ۴۶، ۵۲)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۵۴۲۳ (صحیح)
۵۴۰۸- عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں: میرے والد نے لکھوایا تو میں نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کے پاس لکھا وہ سجستان کے قاضی تھے، تم دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-الرُّخْصَةُ لِلْحَاكِمِ الأَمِينِ أَنْ يَحْكُمَ وَهُوَ غَضْبَانُ
۱۹- باب: امانت دار حاکم غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کر سکتا ہے​


5409- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلاهُمَا النَّخْلَ فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ " فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ، وَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا زُبَيْرُ! اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ فَاسْتَوْفَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ، وَكَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ فِيهِ السَّعَةُ لَهُ، وَلِلأَنْصَارِيِّ فَلَمَّا أَحْفَظَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَنْصَارِيُّ اسْتَوْفَى لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ قَالَ الزُّبَيْرُ: لا أَحْسَبُ هَذِهِ الآيَةَ أُنْزِلَتْ إِلا فِي ذَلِكَ { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ } وَأَحَدُهُمَا يَزِيدُ عَلَى صَاحِبِهِ فِي الْقِصَّةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۶۳۰)، وقد أخرجہ: خ/الشرب والمساقاۃ۶-۸ (۲۳۶۰- ۲۳۶۲)، والصلح۱۲(۲۷۰۸)، وتفسیرسورۃ النسائ۱۲(۴۵۸۵)، م/الفضائل۳۶(۲۳۵۷)، د/الأقضیۃ۳۱ (۳۶۳۷)، ت/الأحکام۲۶(۱۳۶۳)، وتفسیرسورۃ النسائ، ق/المقدمۃ ۲ (۱۵)، والرہون۲۰ (۲۴۸۰)، حم (۱/۱۶۵)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۵۴۱۸ (صحیح)
۵۴۰۹- زبیر بن عوام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انصار کا ایک شخص سے جو بدر میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تھا حرہ کی نالیوں کے سلسلہ میں ان کا جھگڑا ہو گیا۔ وہ دونوں ہی اس سے اپنے کھجوروں کے باغ کی سنیچائی کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: پانی چھوڑ دو وہ اس سے گزر کر چلا جائے، انہوں نے پانی چھوڑنے سے انکار کیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''زبیر! پہلے سنیچائی کرو، پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو''، انصاری کو غصہ آ گیا وہ بولا: اللہ کے رسول! وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی زاد(بھائی) ہیں نا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۱؎، پھر فرمایا: ''زبیر! سینچائی کرو، پھر پانی اس قدر روکو کہ میڈوں تک ہو جائے''، اس طرح رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے زبیر کو ان کا پورا پورا حق دلایا، حالاں کہ اس سے پہلے آپ نے جو مشورہ دیا تھا اس میں ان کا بھی فائدہ تھا اور انصاری کا بھی۔ لیکن جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو انصاری نے غصہ دلایا تو آپ نے زبیر رضی الله عنہ کو صریح حکم دے کر ان کا حق دلادیا۔
زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی ہے: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ} ۲؎ (اس حدیث کے دو راوی ہیں) اس واقعہ کو بیان کرنے میں ایک کے یہاں دوسرے کے بالمقابل کچھ کمی بیشی ہے۔
وضاحت ۱؎: یہی باب سے مطابقت ہے کہ غصہ کی حالت میں ایک فیصلہ صادر فرمایا، چونکہ آپ امین تھے اس لیے آپ کو غصہ کی حالت میں بھی فیصلہ کرنے کا حق تھا، عام قاضیوں کو یہ حق نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎: نہیں، آپ کے رب کی قسم! وہ مومن نہیں یہاں تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم تسلیم نہ کر لیں۔ (النسائ: ۶۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-حُكْمُ الْحَاكِمِ فِي دَارِهِ
۲۰- باب: حاکم اپنے گھر میں رہ کر بھی فیصلہ کر سکتا ہے​


5410- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ عَلَيْهِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهُمَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا فَكَشَفَ سِتْرَ حُجْرَتِهِ فَنَادَى يَا كَعْبُ! قَالَ لَبَّيْكَ يَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! قَالَ: ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا، وَأَوْمَأَ إِلَى الشَّطْرِ قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ قَالَ قُمْ فَاقْضِهِ .
* تخريج: خ/الصلاۃ ۷۱ (۴۵۷)، ۷۳ (۴۷۱)، الخصومات ۴ (۲۴۱۸)، ۹ (۲۴۲۴)، الصلح ۱۰ (۲۷۰۶)، ۱۴ (۲۷۱۰)، م/البیوع ۲۵ (المساقاۃ۴) (۱۵۵۸)، د/الأقضیۃ (۳۵۹۵)، ق/الصدقات ۱۸ (۲۴۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۳۰)، حم (۶/۳۹۰)، دي/البیوع ۴۹(۲۶۲۹) (صحیح)
۵۴۱۰- کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی الله عنہ سے اپنے قرض کا جو ان کے ذمہ تھا تقاضا کیا، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو سنائی دیں، آپ اپنے گھر میں تھے، چنانچہ آپ ان کی طرف نکلے، پھر اپنے کمرے کا پردہ اٹھایا اور پکارا: '' کعب! '' وہ بولے: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ''اتنا قرض معاف کر دو'' اور آپ نے آدھے اشارہ کیا۔ کہا: میں نے معاف کیا، پھر آپ نے (ابن ابی حدرد سے) کہا: ''اٹھو اور قرض ادا کرو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-الاسْتِعْدَائُ
۲۱- باب: قابل گرفت آدمی کے خلاف حاکم سے مدد طلب کرنے کا بیان​


5411- أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَزِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: قَدِمْتُ مَعَ عُمُومَتِي الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ حَائِطًا مِنْ حِيطَانِهَا فَفَرَكْتُ مِنْ سُنْبُلِهِ؛ فَجَائَ صَاحِبُ الْحَائِطِ؛ فَأَخَذَ كِسَائِي، وَضَرَبَنِي فَأَتَيْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَعْدِي عَلَيْهِ؛ فَأَرْسَلَ إِلَى الرَّجُلِ؛ فَجَاؤا بِهِ فَقَالَ: مَاحَمَلَكَ عَلَى هَذَا؟ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّهُ دَخَلَ حَائِطِي فَأَخَذَ مِنْ سُنْبُلِهِ؛ فَفَرَكَهُ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا عَلَّمْتَهُ إِذْ كَانَ جَاهِلا، وَلا أَطْعَمْتَهُ إِذْ كَانَ جَائِعًا ارْدُدْ عَلَيْهِ كِسَائَهُ " وَأَمَرَ لِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَسْقٍ أَوْ نِصْفِ وَسْقٍ۔
* تخريج: د/الجہاد ۹۳ (۲۶۲۰، ۲۶۲۱)، ق/التجارات ۶۷ (۲۲۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۶۱)، حم (۴/۱۶۷) (صحیح)
۵۴۱۱- عباد بن شرحبیل رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینے آیا تو وہاں کے ایک باغ میں گیا اور ایک بالی (توڑ کر) مسل ڈالی، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا، میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کے خلاف مدد چاہی، چنانچہ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگ اسے لے کر آئے، آپ نے فرمایا: '' اس اقدام پر تمہیں کس چیز نے اکسایا؟ '' وہ بولا: اللہ کے رسول! یہ میرے باغ میں آیا اور بالی توڑ کر مسل دی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہ تو تم نے اسے بتایا جب کہ وہ ناسمجھ تھا، نہ تم نے اسے کھلایا جبکہ وہ بھوکا تھا، اس کی چادر اسے لوٹا دو''، اور مجھے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک وسق یا آدھا وسق دینے کا حکم دیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ابوداود کے الفاظ ہیں '' وأعطانی'' یعنی اس باغ والے نے مجھے ایک یا آدھا صاع غلہ دیا'' یعنی اس نے جو میری ساتھ زیادتی کی تھی اس کے بدلے میں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے میرے لیے اس تاوان کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب صَوْنِ النِّسَائِ عَنْ مَجْلِسِ الْحُكْمِ
۲۲- باب: عورتوں کو عدالت میں لانے سے بچانے کا بیان​


5412- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ وَقَالَ الآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُهُمَا أَجَلْ يَا رسول اللَّهِ! وَأْذَنْ لِي فِي أَنْ أَتَكَلَّمَ قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ؛ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ؛ فَافْتَدَيْتُ بِمِائَةِ شَاةٍ، وَبِجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ؛ فَأَخْبَرُونِي أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ أَمَّا غَنَمُكَ، وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ إِلَيْكَ، وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً، وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأَمَرَ أُنَيْسًا أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الآخَرِ؛ فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا "۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۱۳ (۲۳۱۴)، الصلح ۵ (۲۶۹۵، ۲۶۹۶)، الشروط ۹ (۲۷۲۴، ۲۷۲۵)، الأیمان ۳ (۶۶۳۳، ۶۶۳۴)، الحدود ۳۰ (۶۸۲۷، ۶۸۲۸)، ۳۴ (۶۸۳۵)، ۳۸ (۶۸۴۲)، ۴۶ (۶۸۶۰)، الأحکام ۴۳ (۷۱۹۳)، الآحاد ۱ (۷۲۵۸)، م/الحدود ۵ (۱۶۹۷)، د/الحدود۲۵(۴۴۴۵)، ق/الحدود ۷ (۲۵۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۵)، ط/الحدود ۱ (۶)، حم۴/۱۱۵، ۱۱۶، دی/الحدود ۱۲(۲۳۶۳) (صحیح)
۵۴۱۲- ابو ہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے درمیان کتاب اللہ (قرآن) سے فیصلہ فرمایئے اور دوسرا جو زیادہ سمجھدار تھا بولا: ہاں، اللہ کے رسول اور مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیجئے، وہ کہنے لگا: میرا بیٹا اس آدمی کے یہاں نوکر تھا، اُس نے اِس کی عورت کے ساتھ زنا کیا، تو لو گوں نے مجھے بتا یا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے، چنانچہ میں نے اسے بدلے میں سو بکریاں اور اپنی ایک لونڈی دے دی، پھر میں نے اہل علم سے پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، اور رجم کی سزا اِس کی عورت کی تھی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا، تمہاری بکریاں اور لونڈی تو تمہیں لوٹائی جائیں گی''، اور آپ نے اُس کے بیٹے کو سو کوڑے لگائے اور اسے ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا، اور انیس (رضی الله عنہ) کو حکم دیا کہ وہ دو سرے کی بیوی کے پاس جائیں ۱؎، اگر وہ اس جرم کا اعتراف کر لے تو اسے رجم کر دو، چنانچہ اس نے اعتراف کر لیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔
وضاحت ۱؎: اسی میں باب سے مطابقت ہے، یعنی: وہ عورت مجلس قضا میں طلب نہیں کی گئی، اسی لیے آپ نے انیس رضی الله عنہ کو اس کے پاس اس کے گھر بھیجا، ہاں اگر کسی معاملہ میں عورتوں کی حاضری مجلس قضاء میں ضروری ہو تو پردے کے ساتھ ان کو لایا جا سکتا ہے، اور پردے کی آڑ سے ان کا بیان لیا جا سکتا ہے۔


5413- أخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ قَالُوا كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلا مَا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ فَقَامَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ؛ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَكَأَنَّهُ أُخْبِرَ أَنَّ عَلَى ابْنِهِ الرَّجْمَ؛ فَافْتَدَى مِنْهُ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَمَّا الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ؛ فَرَجَمَهَا "۔
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۵۴۱۳- ابو ہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی الله عنہم کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس تھے، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کیجئے، پھر اس کا فریق مخالف کھڑا ہوا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، اس نے کہا: اِس نے ٹھیک کہا ہے، آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ فرمایئے۔ آپ نے فرمایا: ''بتاؤ'' تو اس نے کہا: میرا بیٹا اس کے یہاں نوکر تھا، تو وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا۔ چنانچہ میں نے اس کے بدلے سو بکریاں اور ایک خادم (غلام) دے دیا (گویا اسے معلوم تھا کہ اس کے بیٹے پر رجم ہے، چنا نچہ اس نے تاوان دے دیا)، پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتا یا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا: ''اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق فیصلہ کروں گا: رہیں سو بکریاں اور خادم (غلام) تو وہ تمہیں لوٹائے جائیں گے، اور تمہارے لڑ کے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور انیس! تم صبح اس کی عورت کے پاس جاؤ، اگر وہ اقبال جرم کر لے تو اسے رجم کر دینا''، چنانچہ وہ گئے، اُس نے اقبال جرم کیا تو انہوں نے اسے رجم کر دیا۔
 
Top