5-كِتَاب الصَّلاةِ
۵-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل ۱؎
1- فَرْضُ الصَّلاةِ، وَذِكْرُ اخْتِلافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيهِ
۱-باب: صلاۃ کی فرضیت اور اِس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند اور الفاظ میں راویوں کے اختلاف کا بیان
وضاحت ۱؎: اسلام کے پانچ ارکان ہیں یعنی کلمہ توحید ورسالت کا اقرار واذعان، صلاۃ، زکاۃ، صوم اور حج، اردو میں نماز صلاۃ کے معنی میں اور اس کی جگہ رائج ہے، اسی طرح صوم اور صیام کی جگہ روزہ کے لفظ کا رواج ہے، نیز مصلی کی جگہ نمازی اور تارک صلاۃ کی جگہ بے نماز اور صائم کے بجائے روزہ دار کے الفاظ زبان زد عام وخاص ہیں، چونکہ صلاۃ اور صوم ارکان اسلام میں سے ہیں، اور ان کی حیثیت ایک دینی اور شرعی اصطلاح کی ہے، اس لیے ہم نے تراجم حدیث کی کتابوں میں صلاۃ اور مصلی اور تارک صلاۃ کی تراکیب استعمال کی ہیں، ایسے ہی صوم، صیام، اور صائم کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، صوم یعنی روزہ، اور اس کی جمع صیام ہے، نیز صائم کی جمع بھی صیام ہے، جیسے نائم (سونے والا) کی جمع نیام ہے، ایسے ہی صیام مصدرہے، ارکان اسلام میں سے دو اہم رکن یعنی نماز وروزہ کی جگہ ہم اپنے قارئین کرام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صوم وصلاۃ کا لفظ استعمال کریں، اور اس کے استعمال کے عادی ہوں، یہ واضح رہے کہ اردو میں صوم وصلاۃ، اور مصلی اور اس کی جمع مصلیانِ یعنی صلاۃ ادا کرنے والے اور اسی سے مصلیٰ یعنی صلاۃ کی جگہ جس کو اردو میں جائے نماز بھی کہتے ہیں، سب استعمال ہے، اور صلاۃ کی جمع صلوات اور اسی سے صلاۃ التسبیح، صلاۃ الخوف وغیرہ کی تراکیب استعمال ہیں، نیز پابند صوم وصلاۃ اور ماہِ صیام وغیرہ کی تراکیب بھی نظم ونثر میں عام طور پر مروج ہیں، اس لیے قارئین ان اصطلاحات کا خیال رکھیں۔
449- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مَلآنَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشَقَّ مِنْ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، فَغَسَلَ الْقَلْبَ بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلامُ -فَأَتَيْنَا السَّمَائَ الدُّنْيَا، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ! مَرْحَبًا بِهِ، وَنِعْمَ الْمَجِيئُ جَائَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلامُ-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يَحْيَى وَعِيسَى، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا، فَقَالا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ -عَلَيْهِ السَّلام -، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الرَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ -عَلَيْهِ السَّلام-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الْخَامِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى هَارُونَ- عَلَيْهِ السَّلامُ -، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّادِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، قِيلَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يَا رَبِّ! هَذَا الْغُلامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ -عَلَيْهِ السَّلام -، فَسَلَّمْتُ، عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، فَإِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلالِ هَجَرٍ، وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ، فَفِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ، فَالْفُرَاتُ وَالنَّيْل، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاةً، قَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي، فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ -، فَجَعَلَهَا ثَلاثِينَ. فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ، ثُمَّ عَشْرَةً، ثُمَّ خَمْسَةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَقُلْتُ: إِنِّي أَسْتَحِي مِنْ رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ -أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَنُودِيَ: أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ، فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي، وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا "
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۷)، أحادیث الأنبیاء ۲۲ (۳۳۹۳)، ۴۲ (۳۴۳۰)، مناقب الأنصار ۴۲ (۳۸۸۷)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۴)، ت/تفسیر سورۃ الم نشرح (۳۳۴۶) (مختصراً، وقال: في الحدیث قصۃ طویلۃ)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۲)، حم۲/۲۰۷، ۲۰۸، ۲۱۰ (صحیح)
۴۴۹- انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ ما سے روایت کر تے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے)آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت وایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت وایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جا نور لا یا گیا، میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پو چھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی!، پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پو چھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پو چھا گیا: آپ کے سا تھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا ـ: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسی اور یحییٰ کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پو چھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی!، پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق)جبریل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمورہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے صلاۃ ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی ۳؎ میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں ۴؎ باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبریل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی صلاتیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس صلاتیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے چالیس صلاتیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اس نے انہیں چالیس صلاتیں کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تومیں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اس نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تومیں نے کہا: (اب مجھے)اپنے رب عزوجل کے پاس (بار بار)جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں ''۔
وضاحت ۱؎: موسیٰ علیہ السلام کا یہ رونا حسد کے طور پر نہیں تھا، بلکہ یہ بطور تاسف ورنج تھا کہ میری امت نے میری ایسی پیروی نہیں کی جیسی محمد صلی الله علیہ وسلم کی ان کی امت نے کی۔
وضاحت ۲؎: خانہ کعبہ کے عین اور ساتویں آسمان پر ایک عبادت خانہ ہے جہاں فرشتے بہت بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں۔
وضاحت ۳؎: بیری کا وہ درخت جو ساتویں آسمان پرہے، اور جس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔
وضاحت ۴؎: ان دونوں سے مراد جنت کی دونوں نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں۔
450- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَابْنُ حَزْمٍ، قَالاَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَرَضَ اللَّهُ- عَزَّوَجَلَّ -عَلَى أمَّتِي خَمْسِينَ صَلاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلاةً، قَالَ لِي مُوسَى: فَرَاجِعْ رَبَّكَ- عَزَّ وَجَلَّ -، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ-، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَتُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدْ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي- عَزَّوَجَلَّ-"
* تخريج: خ/الصلا ۃ۱/۳۴۹ وأحادیث الأنبیاء ۵ (۳۳۴۲)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۳)، ق/إقامۃ ۱۹۴ (۱۳۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۶) (صحیح)
۴۵۰- انس بن مالک اور ابن حزم رضی اللہ عنہ ما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ عزوجل نے میری امت پر پچاس صلاتیں فرض کیں، تومیں انہیں لے کر لوٹا، تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پرکیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اس نے ان پر پچاس صلاتیں فرض کی ہیں، تو موسیٰ نے مجھ سے کہا: جا کر اپنے رب سے پھر سے بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، تومیں نے اپنے رب عزوجل سے بات کی، تو اس نے اس میں سے آدھا ۱؎ معاف کر دیا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے پھر بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، چنانچہ میں نے اپنے رب سے پھر سے بات کی، تو اس نے کہا: یہ پانچ صلاتیں ہیں جو (اجر میں)پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک فرمان بدلا نہیں جاتا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے جا کر پھر بات کیجئے، میں نے کہا: مجھے اپنے رب کے پاس (بار بار)جانے سے شرم آ رہی ہے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی پانچ پانچ کر کے پانچ بارمیں آدھا معاف کیا، یا شطر سے مراد آدھا نہیں بلکہ کچھ حصہ ہے۔
451- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا، فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ- عَلَيْهِ السَّلام-، فَسِرْتُ، فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَفَعَلْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَائَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجُمِعَ لِي الأَنْبِيَائُ -عَلَيْهِمْ السَّلام-، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الدُّنْيَا، فَإِذَا فِيهَا آدَمُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الثَّانِيَةِ، فَإِذَا فِيهَا ابْنَا الْخَالَةِ عِيسَى وَيَحْيَى -عَلَيْهِمَا السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الثَّالِثَةِ، فَإِذَا فِيهَا يُوسُفُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الرَّابِعَةِ، فَإِذَا فِيهَا هَارُونُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الْخَامِسَةِ، فَإِذَا فِيهَا إِدْرِيسُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ السَّادِسَةِ، فَإِذَا فِيهَا مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ السَّابِعَةِ، فَإِذَا فِيهَا إِبْرَاهِيمُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ، فَأَتَيْنَا سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَغَشِيَتْنِي ضَبَابَةٌ، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، فَقِيلَ لِي: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلاةً، فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَلَمْ يَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلاةً، قَالَ: فَإِنَّكَ لا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ بِهَا أَنْتَ وَلا أُمَّتُكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ أَتَيْتُ مُوسَى، فَأَمَرَنِي بِالرُّجُوعِ، فَرَجَعْتُ، فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ رُدَّتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّهُ فَرَضَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ صَلاتَيْنِ فَمَا قَامُوا بِهِمَا، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ-، فَسَأَلْتُهُ التَّخْفِيفَ، فَقَالَ: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلاةً، فَخَمْسٌ بِخَمْسِينَ، فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ- تَبَارَكَ وَتَعَالَى- صِرَّى، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ: ارْجِعْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ صِرَّى -يَقُوْلُ: أَيْ حَتْمٌ - فَلَمْ أَرْجِعْ "
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف ۱۷۰۱) (منکر)
(فریضئہ صلاۃ پانچ وقت ہو جانے کے بعد پھر اللہ سے رجوع، اور اس کے جواب سے متعلق ٹکڑا صحیح نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ پانچ ہو جانے کے بعد آپ نے شرم سے رجوع ہی نہیں کیا)
۴۵۱- یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبریل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبریل نے کہا: اتر کر صلاۃ پڑھ لیجیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں صلاۃ پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہوگی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر صلاۃ پڑھئے، تومیں نے صلاۃ پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر صلاۃ پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر صلاۃ پڑھئے، میں نے اتر کر صلاۃ پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں صلاۃ پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لئے ابنیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبریل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبریل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحیی علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہی تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین وآسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس صلاتیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (صلاتیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس صلاتیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس صلاتیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس صلاتیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس صلاتیں تخفیف کر دیں، پھر (بار بار درخواست کرنے سے)پانچ صلاتیں کر دی گئیں، (اس پر بھی)موسیٰ (علیہ السلام)نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو صلاتیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین وآسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس صلاتیں فرض کیں، تواب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسی علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا''۔
452- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِيَ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ، وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا عُرِجَ بِهِ مِنْ تَحْتِهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا أُهْبِطَ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا، حَتَّى يُقْبَضَ مِنْهَا، قَالَ: {إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} قَالَ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأُعْطِيَ ثَلاثًا: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَيُغْفَرُ لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِهِ لا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۶ (۱۷۳)، ت/تفسیر سورۃ النجم (۳۲۷۶)، (تحفۃ الأشراف ۹۵۴۸)، حم۱/۳۸۷، ۴۲۲) (صحیح)
۴۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب)جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو جبریل علیہ السلام آپ کو لے کر سدرۃ المنتہی پہنچے، یہ چھٹے آسمان پرہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴ ؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ما نے آیت کریمہ
''إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى'' ۵؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جواس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں)آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ صلاتیں، سورہ بقرۃ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔
وضاحت ۱؎: اس سے پہلے انس والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پرہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پرہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔
وضاحت ۲؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔
وضاحت ۳؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔
وضاحت ۴؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔
وضاحت ۵؎: النجم: ۱۶۔
وضاحت ۶؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔