• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
20- بَاب صَلاةِ الْعِشَائِ فِي السَّفَرِ
۲۰-باب: سفر میں عشاء کی صلاۃ کا بیان​


484- أخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ، قَالَ: صَلَّى بِنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ بِجَمْعٍ الْمَغْرِبَ ثَلاثًا بِإِقَامَةٍ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَعَلَ ذَلِكَ، وَذَكَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۸۲ بلفظ '' ثم اقام فصلی یعنی العشاء '' وہو المحفوظ (صحیح)
۴۸۴- حکم کہتے ہیں کہ ہمیں سعید بن جبیر نے مزدلفہ میں ایک اقامت سے مغرب کی تین رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، پھر (دوسری اقامت سے) عشاء کی دو رکعت پڑھائی، پھر ذکر کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا، اور انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے (بھی) ایسا ہی کیا تھا۔


485- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ صَلَّى بِجَمْعٍ، فَأَقَامَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلاثًا، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي هَذَا الْمَكَانِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۸۲ (صحیح)
۴۸۵- سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کو مزدلفہ میں صلاۃ پڑھتے دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی صلاۃ تین رکعت پڑھی، پھر (دوسری اقامت سے) عشاء کی دو رکعت پڑھی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اس جگہ ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
21-بَاب فَضْلِ صَلاةِ الْجَمَاعَةِ
۲۱-باب: صلاۃ باجماعت کی فضیلت کا بیان​


486- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ وَصَلاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ - فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ - كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ "
* تخريج: خ/مواقیت ۱۶ (۵۵۵)، بدء الخلق ۶ (۳۲۲۳)، التوحید ۲۳ (۷۴۲۹)، ۳۲ (۷۴۸۶)، م/المساجد ۳۷ (۶۳۲)، ط/قصرالصلاۃ ۲۴ (۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۰۹)، حم۲/۲۵۷، ۳۱۲، ۴۸۶ (صحیح)
۴۸۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے ۱؎ باری باری آتے جاتے ہیں، اور فجر اور عصر کی صلاۃ میں اکٹھا ہو جاتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گذاری تھی وہ اوپر چڑھتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہتر جانتا ہے، ۲؎ ہمارے بندوں کو تم کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں: ''ہم نے انہیں صلاۃ کی حالت میں چھوڑا ہے، اور ہم ان کے پاس آئے تھے تو بھی وہ صلاۃ ہی میں مصروف تھے''۔
وضاحت ۱؎: اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو لوگوں کے اعمال لکھتے ہیں، اور جنہیں کراماً کاتبین کہا جاتا ہے۔
وضاحت ۲؎: اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے، وہ فرشتوں سے اپنے بندوں کی بابت اس لیے پوچھتا ہے تاکہ فرشتوں پر بھی اہل ایمان کا فضل وشرف واضح ہو جائے۔


487- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَفْضُلُ صَلاةُ الْجَمْعِ عَلَى صَلاةِ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْئًا، وَيَجْتَمِعُ مَلائِكَةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ فِي صَلاةِ الْفَجْرِ " وَاقْرَئُوا إِنْ شِئْتُمْ: { وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا }.
* تخريج: وقد أخرجہ: تفرد بہ النسائی (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۵۹)، کلہم مقتصرا إلی قولہ ''خمس وعشرین جزائ'' إلا البخاری وأحمد (صحیح)
۴۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جماعت کی صلاۃ تمہاری تنہا صلاۃ سے پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۱؎ رات اور دن کے فرشتے صلاۃ فجر میں اکٹھا ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو آیت کریمہ{وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا } ۲؎ پڑھ لو ''۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث میں ۲۵ گنا کا ذکرہے، اور صحیحین کی ایک روایت میں ۲۷گنا وارد ہے، اس کی توجیہ اس طرح کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۲۵گنا بتایا گیا پھر۲۷گنا، تو جیسے جیسے آپ کو بتایا گیا آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اسی طرح بتلایا، اور بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ کمی وبیشی صلاۃ کے خشوع وخضوع اور صلاۃ کی ہیئت وآداب کی حفاظت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎: الاسراء: ۲۸۔


488- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لا يَلِجُ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲ (صحیح)
۴۸۸- عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: '' وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے صلاۃ پڑھے گا'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی فجر اور عصر کی صلاتوں کی محافظت کرے گا کیونکہ جوان دونوں صلاتوں کی محافظت کرے گا وہ دیگر فرائض کی بدرجہ اولیٰ محافظت کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
22-بَاب فَرْضِ الْقِبْلَةِ
۲۲-باب: قبلہ کی فرضیت کا بیان​


489- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا - شَكَّ سُفْيَانُ - وَصُرِفَ إِلَى الْقِبْلَةِ۔
* تخريج: خ/تفسیر البقرۃ ۱۸ (۴۴۹۲)، م/المساجد ۲ (۵۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۹)، حم۴/ ۲۸۸ (صحیح)
۴۸۹- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے صلاۃ پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم قبلہ (خانہ کعبہ)کی طرف پھیر دئیے گئے۔


490- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَصَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ إِنَّهُ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَمَرَّ رَجُلٌ قَدْ كَانَ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَانْحَرَفُوا إِلَى الْكَعْبَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۰ (۴۰)، الصلاۃ ۳۱ (۳۹۹)، تفسیر البقرۃ ۱۲ (۴۴۸۶)، أخبار الآحاد ۱ (۷۲۵۲)، م/المساجد ۲ (۵۲۵)، ت/الصلاۃ ۲۵۵ (۳۴۰)، تفسیر البقرۃ (۲۹۶۲)، ق/إقامۃ ۵۶ (۱۰۱۰)، حم۴/۲۸۳، ویأتي عند المؤلف في القبلۃ ۱ (برقم: ۷۴۳) (صحیح)
۴۹۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے صلاۃ پڑھی، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صلاۃ پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا)تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھر گئے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے خبر واحد جو ظنی ہے سے قرآن سے ثابت حکم قطعی کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے، نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نسخ کے علم سے پہلے منسوخ کے مطابق جو عمل کیا گیا ہو وہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
23- بَاب الْحَالِ الَّتِي يَجُوزُ فِيهَا اسْتِقْبَالُ غَيْرِ الْقِبْلَةِ
۲۳-باب: قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرنے کی صورت کا بیان​


491- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ زُغْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ - عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَتَوَجَّهُ، وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ۔
* تخريج: خ/الوتر ۶ (۱۰۰۰)، تقصیر الصلاۃ ۹ (۱۰۹۷) تعلیقاً ۱۲ (۱۱۰۵)، م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، د/الصلاۃ ۲۷۷ (۱۲۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۷۸)، حم۲/۱۳۲ ویأتي عند المؤلف برقم: ۷۴۵ (صحیح)
۴۹۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہو جاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض صلاۃ اس پر نہیں پڑھتے تھے۔


492- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى دَابَّتِهِ وَهُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَفِيهِ أُنْزِلَتْ: { فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ }۔
* تخريج: م/صلاۃ المسافرین ۴ (۷۰۰)، ت/تفسیر البقرۃ (۲۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۷)، حم۲/۲۰، ۴۱ (صحیح)
۴۹۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفل) صلاۃ پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ: {فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ } نازل ہوئی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے (البقرہ: ۱۱۵)۔


493- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ فِي السَّفَرِ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ. قَالَ مَالِكٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
* تخريج: وقد أخرجہ: م/المسافرین ۴ (۷۰۰)، ط/سفر ۷ (۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۸)، حم۲/۱۳ (۶۶)، ویأتي عند المؤل برقم: ۷۴۴ (صحیح)
۴۹۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر صلاۃ پڑھتے تھے جس طرف بھی وہ متوجہ ہوتی، مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار نے کہا: اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
24- بَاب اسْتِبَانَةِ الْخَطَإِ بَعْدَ الاجْتِهَادِ
۲۴-باب: اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان​


494- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ بِقُبَائَ فِي صَلاةِ الصُّبْحِ، جَائَهُمْ آتٍ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّامِ، فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۲ (۴۰۳)، تفسیر البقرۃ ۱۴ (۴۴۸۸)، ۱۶ (۴۴۹۰)، ۱۷ (۴۴۹۱)، ۱۹ (۴۴۹۳)، ۲۰ (۴۴۹۴)، خبر الآحاد ۱ (۷۲۵۱)، م/المساجد ۲ (۵۲۶)، ط/قبلۃ ۴ (۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۲۸)، حم۲/۱۱۳، ویأتي عند المؤلف برقم: ۷۴۶ (صحیح)
۴۹۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (صلاۃ میں)کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس طرح پھر جانے سے لوگ آگے ہو جائیں گے، اور امام لوگوں کے پیچھے ہو جائے گا، إلا یہ کہ یہ کہا جائے کہ پہلے امام مسجد کے پچھلے حصہ میں چلا گیا ہوگا پھر لوگ اپنی جگہ پر گھوم گئے ہوں گے، اس طرح پہلے جو اگلی صف تھی اب وہ پچھلی ہو گئی ہوگی، اور حدیث کا مستفاد یہ ہے کہ جس کو حالت صلاۃ میں صحیح قبلہ کے بارے میں علم ہو جائے وہ بھی اسی طرح قبلہ رخ ہو جائے۔

---​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207

6-كِتَاب الْمَوَاقِيتِ
۶-کتاب: اوقاتِ صلاۃ کے احکام ومسائل


1- بَابُ إمَامَةِ جِبْرِيْل عَلَيْهِ السَّلامِ
۱-باب: جبریل علیہ السلام کی امامت کا بیان​


495- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلام - قَدْ نَزَلَ، فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَقَالَ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ! فَقَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " نَزَلَ جِبْرِيلُ، فَأَمَّنِي، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ " يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱ (۵۲۱)، بدء الخلق ۶ (۳۲۲۱)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۷)، م/المساجد ۳۱ (۶۱۰)، د/الصلاۃ ۲ (۳۹۴)، ق/الصلاۃ ۱ (۶۶۸)، ط/وقوت الصلاۃ ۱ (۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۷)، حم۴/۱۲۰، ۵/۲۷۴، دي/الصلاۃ ۲ (۱۲۲۳) (صحیح)
۴۹۵- ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، تو عروہ نے ان سے کہاـ: کیا آپ کو معلوم نہیں؟ جبریل علیہ السلام نازل ہوئے، اور آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو صلاۃ پڑھائی ۱ ؎ اس پر عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جوتم کہہ رہے ہو اسے خوب سوچ سمجھ کر کہو، تو عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے ابو مسعود سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جبریل اترے، اور انہوں نے میری امامت کرائی، تو میں نے ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، پھر ان کے ساتھ صلاۃ پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں صلاتوں کو گن رہے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے عروہ کا مقصود یہ تھا کہ صلاۃ کے اوقات کا معاملہ کافی اہمیت کا حامل ہے، اس کے اوقات کی تحدید کے لیے جبریل علیہ السلام آئے، اور انہوں نے عملی طور پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اسے سکھایا، اس لیے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
2- أَوَّلُ وَقْتِ الظُّهْرِ
۲-باب: ظہر کے اول وقت کا بیان​


496- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَسْأَلُ أَبَا بَرْزَةَ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: كَمَا أَسْمَعُكَ السَّاعَةَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَسْأَلُ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ لا يُبَالِي بَعْضَ تَأْخِيرِهَا يَعْنِي الْعِشَائَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَلايُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَلا الْحَدِيثَ بَعْدَهَا. قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ لَقِيتُهُ بَعْدُ، فَسَأَلْتُهُ، قَالَ: كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالْعَصْرَ يَذْهَبُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ لا أَدْرِي أَيَّ حِينٍ ذَكَرَ، ثُمَّ لَقِيتُهُ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: وَكَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ، فَيَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ جَلِيسِهِ الَّذِي يَعْرِفُهُ فَيَعْرِفُهُ. قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ۔
* تخريج: خ/المواقیت ۱۱ (۵۴۱)، ۱۳ (۵۴۷)، ۲۳ (۵۶۸)، ۳۸ (۵۹۹)، الأذان ۱۰۴ (۷۷۱)، م/المساجد ۴۰ (۶۴۷)، د/الصلاۃ ۳ (۳۹۸)، وقد أخرجہ: ق/الصلاۃ ۳ (۶۷۴) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۵)، حم۴/۴۲۰، ۴۲۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵، دي/الصلاۃ ۶۶ (۱۳۳۸)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۵۲۶، ۵۳۱ (صحیح)
۴۹۶- سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ کے متعلق سوال کر رہے تھے، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے(سیار بن سلامہ سے) پوچھا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: (میں نے اسی طرح سنا ہے)جس طرح میں اس وقت آپ کو سنا رہا ہوں، میں نے اپنے والد سے سنا وہ(ابو برزہ سے) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ کے متعلق سوال کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا: آپ صلی الله علیہ وسلم آدھی رات تک عشاء کی تأخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر سیار سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی الله علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جس وقت سورج ڈھل جاتا، اور عصر اس وقت پڑھتے کہ آدمی (عصر پڑھ کر) مدینہ کے آخری کنارہ تک جاتا، اور سورج زندہ رہتا ۱؎ اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مغرب کا کون سا وقت ذکر کیا، اس کے بعد میں پھر ان سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی الله علیہ وسلم فجر پڑھتے تو آدمی پڑھ کر پلٹتا اور اپنے ساتھی کا جسے وہ پہچانتا ہو چہرہ دیکھتا تو پہچان لیتا، انہوں نے کہا: آپ صلی الله علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں کے درمیان پڑھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زرد نہیں پڑتا۔


497- أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى بِهِمْ صَلاةَ الظُّهْرِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۵)، وقد أخرجہ عن طریق شعیب عن الزہری عن أنس بن مالک: خ/المواقیت ۱۱ مطولاً(۵۴۰)، م/الفضائل ۳۷ (۲۳۵۹)، دي/الصلاۃ ۱۳ (۱۲۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳) (صحیح)
۴۹۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد نکلے اور آپ نے انہیں ظہر پڑھائی۔


498- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ خَبَّابٍ قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّ الرَّمْضَائِ، فَلَمْ يُشْكِنَا. قِيلَ لأَبِي إِسْحَاقَ: فِي تَعْجِيلِهَا؟ قَالَ : نَعَمْ۔
* تخريج: م/المساجد ۳۳ (۶۱۹)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۳۵۱۳)، حم۵/۱۰۸، ۱۱۰ (صحیح)
۴۹۸- خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے (تیز دھوپ سے) زمین جلنے کی شکایت کی، تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ نہیں کیا ۱؎، راوی ابو اسحاق سے پوچھا گیا : (یہ شکایت) اسے جلدی پڑھنے کے سلسلہ میں تھی؟ انہوں نے کہا ہاں، (اسی سلسلہ میں تھی)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ظہر تاخیر سے پڑھنے کی اجازت نہیں دی، جیسا کہ مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
3-بَاب تَعْجِيلِ الظُّهْرِ فِي السَّفَرِ
۳-باب: سفر میں ظہر جلدی پڑھنے کا بیان​


499- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلا لَمْ يَرْتَحِلْ مِنْهُ حَتَّى يُصَلِّيَ الظُّهْرَ؛ فَقَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَتْ بِنِصْفِ النَّهَارِ؟ قَالَ: وَإِنْ كَانَتْ بِنِصْفِ النَّهَارِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۳ (۱۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۵)، حم ۳/۱۲۰، ۱۲۹ (صحیح)
۴۹۹- حمزہ عائذی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (ظہر سے پہلے) جب کسی جگہ اترتے ۱؎ تو جب تک ظہر نہ پڑھ لیتے وہاں سے کوچ نہیں کرتے، اس پر ایک آدمی نے کہا: اگر چہ ٹھیک دوپہر ہوتی؟ انہوں نے کہا: اگر چہ ٹھیک دوپہر ہوتی ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زوال (سورج ڈھلنے) سے پہلے اترتے، جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔
وضاحت ۲؎ : مراد زوال کے فوراً بعد ہے، کیوں کہ ظہر کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
4-تَعْجِيلُ الظُّهْرِ فِي الْبَرْدِ
۴-باب: جاڑے میں ظہر جلدی پڑھنے کا بیان​


500- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ۔
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۷ (۹۰۶)، وفیہ ''یعنی الجمعۃ''، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۳) (صحیح)
۵۰۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم صلاۃ ۱ ؎ ٹھنڈی کر کے پڑھتے ۲؎ اور جب جاڑا ہوتا تو جلدی پڑھتے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری کی روایت میں کسی راوی نے'' صلاۃ '' کی تفسیر '' جمعہ'' سے کی ہے، کیوں کہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ کسی سائل نے انس رضی اللہ عنہ سے جمعہ ہی کے بارے میں پوچھا تھا(فتح الباری)مؤلف نے اس کے مطلق لفظ '' الصلاة'' سے استدلال کیا ہے، نیز یہ کہ جمعہ اور ظہر کا وقت معتاد ایک ہی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی گرمی کی شدت کے سبب اس کے معتاد وقت سے اسے اتنا مؤخر کرتے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہو جاتاکہ اس میں چل کر لوگ مسجد آ سکیں، اور گرمی کی شدت کم ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
5- الإِبْرَادُ بِالظُّهْرِ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ
۵-باب: سخت گرمی میں ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھنے کا بیان​


501- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ، فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ "
* تخريج: وقد أخرجہ: م/المساجد ۳۲ (۶۱۵)، د/الصلاۃ ۴ (۴۰۲)، ت/الصلاۃ ۵ (۱۵۷)، ق/الصلاۃ ۴ (۶۷۷)، ط/وقوت الصلاۃ ۷ (۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۶)، حم۲/۲۲۹، ۲۳۸، ۲۵۶، ۲۶۶، ۳۴۸، ۳۷۷، ۳۹۳، ۴۰۰، ۴۱۱، ۴۶۲، دي/الصلاۃ ۱۴ (۱۲۴۳)، والرقاق ۱۱۹ (۲۸۸۷)، وعن طریق أبی سلمۃ بن عبدالرحمن عن أبی ہریرۃ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۷) (صحیح)
۵۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب گرمی سخت ہو تو صلاۃ ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : جمہور علماء نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے یہ بطور تشبیہ وتقریب کہا گیا ہے، یعنی یہ گویا جہنم کی آگ کی طرح ہے اس لئے اس کی ضرر رسانیوں سے بچو اور احتیاط کرو۔


502- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، ح وَأَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى يَرْفَعُهُ، قَالَ: " أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، فَإِنَّ الَّذِي تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۳) (صحیح)
(پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ''ثابت بن قیس نخعی'' لین الحدیث ہیں)
۵۰۲- ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ جو گرمی تم محسوس کر رہے ہو یہ جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے''۔
 
Top