46-الصَّلاةُ عَلَى الْحِمَارِ
۴۶-باب: گدھے پر صلاۃ پڑھنے کا بیان
741- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ مُتَوَجِّهٌ إِلَى خَيْبَرَ۔
* تخريج: م/المسافرین ۴ (۷۰۰) ، د/الصلاۃ ۲۷۷ (۱۲۲۶) ، ط/السفر ۷ (۲۵) ، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۸۶) ، حم۲/۷، ۴۹، ۵۲، ۵۷، ۷۵، ۸۳، ۱۲۸ (صحیح)
۷۴۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو گدھے پر صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا، اور آپ کا رخ خیبر کی طرف تھا ۔
742- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ رَاكِبٌ إِلَى خَيْبَرَ، وَالْقِبْلَةُ خَلْفَهُ .
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: لا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى عَلَى قَوْلِهِ: < يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ>، وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسٍ الصَّوَابُ مَوْقُوفٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۵) ، وقد أخرجہ: خ/تقصیرالصلاۃ ۱۰ (۱۱۰۰) ، ط/قصر الصلاۃ ۷ (۲۶) (حسن صحیح)
۷۴۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو گدھے پر صلاۃ پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جارہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔
٭ابوعبدالرحمن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمروبن یحییٰ کی ان کے قول '' یصلی علی حمار'' میں متابعت کی ہو ۱ ؎ اور یحيٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔
وضاحت ۱؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمروبن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے ''حمار'' کی جگہ مطلق سواری (راحلتہ) کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں ''اونٹ'' کی صراحت ہے، یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتاکہ سواری کی حالت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔
وضاحت ۲؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار ہو کر صلاۃ پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاکہا: '' اگر میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کونہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا'' اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
* * *