7- ذِكْرُ مَا يَقْطَعُ الصَّلاةَ وَمَا لا يَقْطَعُ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي سُتْرَةٌ
۷-باب: مصلی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز صلاۃ توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑ تی؟
751- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلالٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ قَائِمًا يُصَلِّي، فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ - إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ - مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلاتَهُ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ"، قُلْتُ: مَا بَالُ الأَسْوَدِ مِنْ الأَصْفَرِ مِنْ الأَحْمَرِ، فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الأَسْوَدُ شَيْطَانٌ "۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۵۰ (۵۰۱)، د/فیہ ۱۱۰ (۷۰۲)، ت/فیہ ۱۳۷ (۳۳۸)، ق/إقامۃ ۳۸ (۹۵۲) مختصراً، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۳۹)، حم۵/۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۵، ۱۵۸، ۱۶۰، ۱۶۱، دي/الصلاۃ ۱۲۸ (۱۴۵۴) (صحیح)
۷۵۱- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر صلاۃ پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لئے سترہ ہو جائے گی، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت، گدھا اور کالا کتا اس کی صلاۃ باطل کر دے گا'' ۱؎۔
عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے (کتے) کی کیا خصوصیت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا : جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' کالا کتا شیطان ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے واقعی صلاۃ باطل ہو جائے گی، لیکن جمہور نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ باطل ہونے سے مراد صلاۃ میں نقص ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے دل صلاۃ کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو سکے گا اور صلاۃ کے خشوع وخضوع میں فرق آ جائے گا، اور کچھ لوگوں نے اس روایت ہی کو منسوخ مانا ہے۔
وضاحت ۲؎ : بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کا لے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ دوسرے کتوں کے بالمقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لئے اسے شیطان کہا گیا ہے (واللہ اعلم) ۔
752- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ وَهِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ : قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ: مَا يَقْطَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ : كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: الْمَرْأَةُ الْحَائِضُ وَالْكَلْبُ. ٭قَالَ يَحْيَى: رَفَعَهُ شُعْبَةُ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۰ (۷۰۳)، ق/إقامۃ ۳۸ (۹۴۹)، حم۱/۴۳۷، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۹)، (من طریق شعبۃ مرفوعاً) (صحیح)
۷۵۲- قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا : کون سی چیز صلاۃ کو باطل کر دیتی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے تھے : حائضہ عورت اور کتا۔
٭یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
753- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ لَنَا، وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِعَرَفَةَ - ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا - فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ، فَنَزَلْنَا وَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا۔
* تخريج: خ/العلم ۱۸ (۷۶)، الصلاۃ ۹۰ (۴۹۳)، الأذان ۱۶۱ (۸۶۱)، جزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۷)، المغازي ۷۷ (۴۴۱۲)، م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۴)، د/الصلاۃ ۱۱۳ (۷۱۵)، ت/الصلاۃ ۱۳۶ (۳۳۷)، ق/الإقامۃ ۳۸ (۹۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۴)، ط/السفر ۱۱ (۳۸)، حم۱/۲۱۹، ۲۶۴، ۲۶۵، ۳۳۷، ۳۴۲، دي/الصلاۃ ۱۲۹ (۱۴۵۵) (صحیح)
۷۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں : میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو صلاۃ پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا: ) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزر ے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ہماری کوئی سرزنش نہیں کی، کیونکہ امام مقتدیوں کا سترہ ہوتا ہے، اور وہ دونوں صف کے کچھ ہی حصہ سے گزرے تھے، امام کو عبور نہیں کیا تھا۔
754- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ: زَارَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبَّاسًا فِي بَادِيَةٍ لَنَا، وَلَنَا كُلَيْبَةٌ وَحِمَارَةٌ تَرْعَى؛ فَصَلَّى النَّبِيُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ وَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمْ يُزْجَرَا، وَلَمْ يُؤَخَّرَا۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۴ (۷۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۵)، حم۱/۲۱۱، ۲۱۲ (منکر)
(اس کے راوی ''محمد بن عمر'' لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت ثقات کی روایات کے خلاف ہے)
۷۵۴- فضل بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمارے ایک بادیہ میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے، وہاں ہماری ایک کتیا موجود تھی، اور ہماری ایک گدھی چر رہی تھی، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عصر کی صلاۃ پڑھی، اور وہ دونوں آپ کے آگے موجود تھیں، تو انہیں نہ ہانکا گیا اور نہ ہٹا کر پیچھے کیا گیا۔
755- أَخْبَرَنَا أَبُو الأَشْعَثِ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَنَّ الْحَكَمَ أَخْبَرَهُ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ يُحَدِّثُ عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ مَرَّ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَغُلاَمٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى حِمَارٍ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي؛ فَنَزَلُوا وَدَخَلُوا مَعَهُ؛ فَصَلَّوْا وَلَمْ يَنْصَرِفْ، فَجَائَتْ جَارِيَتَانِ تَسْعَيَانِ مِنْ بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ؛ فَأَخَذَتَا بِرُكْبَتَيْهِ؛ فَفَرَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَنْصَرِفْ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۳ (۷۱۶، ۷۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۸۷)، حم۱/۲۳۵، ۳۴۱ (صحیح)
۷۵۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ وہ اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا دونوں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے سے ایک گدھے پر سوار ہو کر گزرے، آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے، تو وہ دونوں اترے اور آپ کے ساتھ صلاۃ میں شریک ہو گئے، پھر ان لوگوں نے صلاۃ پڑھی اور آپ نے صلاۃ نہیں توڑی، اور ابھی آپ صلاۃ ہی میں تھے کہ اتنے میں بنی عبدالمطلب کی دو بچیاں دوڑتی ہوئی آئیں، اور آپ کے گھٹنوں سے لپٹ گئیں، آپ نے ان دونوں کو جدا کیا، اور صلاۃ نہیں توڑی ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ گدھے کے گزرنے سے لوگوں نے صلاۃ میں کوئی حرج نہیں سمجھا، اسی لیے بعض علماء نے گدھے کو صلاۃ باطل کرنے والی چیزوں میں سے مستثنیٰ کر دیا ہے، لیکن ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث (رقم: ۷۵۱) اس باب میں واضح اور قاطع ہے، نیز یہ قطعی نہیں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا گدھا چھوڑ دینے کے بعد امام کے آگے سے گزرا بھی ہو، بلکہ حدیث (رقم: ۷۵۳) سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صف کے کچھ ہی حصہ تک گدھا بھی محدود رہا، اور دونوں بچیاں چونکہ ابھی بالغ نہیں ہوئی تھیں اس لیے ان کے گزرنے سے کوئی حرج نہیں سمجھا گیا۔
756- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كُنْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَإِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَقُومَ كَرِهْتُ أَنْ أَقُومَ، فَأَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ، انْسَلَلْتُ انْسِلالاً۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۹۹ (۵۰۸)، ۱۰۲ (۵۱۱)، ۱۰۵ (۵۱۴)، الاستئذان ۳۷ (۶۲۷۶)، م/الصلاۃ ۵۱ (۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۸۷)، حم۶/۱۷۴، ۲۶۶ (صحیح)
۷۵۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے تھی، آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گذروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : ایک تو عائشہ رضی اللہ عنہا چارپائی پر سوئی ہوئی تھیں (جس کو آپ نے سترہ بنایا ہوا تھا) دوسرے وہ آپ کے آگے گذری نہیں بلکہ سرک گئی تھیں، مرور کہتے ہیں ایک جانب سے دوسری جانب تک یعنی ادھر سے ادھر تک گذرنا، اور السلال کہتے ہیں کہ ایک ہی جانب سے سرک جانا۔