10-كِتَاب الإِمَامَةِ
۱۰-کتاب: امامت کے احکام ومسائل
ذِكْرُ الإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ
امامت وجماعت کاذکر
1- إِمَامَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ
۱-باب: اہل علم وفضل کی امامت کا بیان
778- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَأَتَاهُمْ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَابَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۷)، حم۱/۳۹۶، ۴۰۵ (حسن الإسناد)
۷۷۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ اُن کے پاس آئے، اور کہا : کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو صلاۃ پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابو بکر سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہوگا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابو بکر سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لئے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہوگا، اس لئے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق
''اقرأکم أبی'' فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے مقدم کیا۔
وضاحت۳؎ : اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔