• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-الصَّلاةُ فِي الْخُفَّيْنِ
۲۳- باب: موزوں میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


775- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرًا بَالَ، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ؛ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، فَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۱۸ (صحیح)
۷۷۵- ہمام کہتے ہیں کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی منگایا، اور وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور صلاۃ پڑھی، تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24-الصَّلاةُ فِي النَّعْلَيْنِ
۲۴- باب: جوتوں میں صلاۃ پڑھنے کا بیان​


776- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ وَغَسَّانَ بْنِ مُضَرَ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومَسْلَمَةَ وَاسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ - بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ - قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي النَّعْلَيْنِ؟ قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۲۴ (۳۸۶)، اللباس ۳۷ (۵۸۵۰)، م/المساجد ۱۴ (۵۵۵)، ت/الصلاۃ ۱۷۷ (۴۰۰)، حم۳/۱۰۰، ۱۶۶، ۱۸۹، دي/الصلاۃ ۱۰۳ (۱۴۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶) (صحیح)
۷۷۶- ابو سلمہ (ان کا نام سعید بن یزید بصری ہے اور وہ ثقہ ہیں) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جوتوں میں صلاۃ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں (پڑھتے تھے) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25-أَيْنَ يَضَعُ الإِمَامُ نَعْلَيْهِ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ؟
۲۵- باب: جب امام لوگوں کو صلاۃ پڑھائے تو اپنے جوتے کہاں رکھے؟​


777- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَشُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفَتْحِ، فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عَنْ يَسَارِهِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۸۹ (۶۴۸)، ق/إقامۃ ۲۰۵ (۱۴۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۴)، حم۳/۴۱۰ (صحیح)
۷۷۷- عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن صلاۃ پڑھی، تو آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں جانب رکھا ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم امام تھے، آپ کے بائیں جانب کوئی نہیں تھا اس لئے آپ نے اپنے جوتوں کو اپنے بائیں رکھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بائیں جانب ہو تو بائیں بھی جوتا نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ تمہارا بایاں دوسرے شخص کا دایاں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

10-كِتَاب الإِمَامَةِ
۱۰-کتاب: امامت کے احکام ومسائل


ذِكْرُ الإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ
امامت وجماعت کاذکر​
1- إِمَامَةُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ
۱-باب: اہل علم وفضل کی امامت کا بیان​


778- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَأَتَاهُمْ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَابَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالُوا: نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۷)، حم۱/۳۹۶، ۴۰۵ (حسن الإسناد)
۷۷۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ اُن کے پاس آئے، اور کہا : کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو صلاۃ پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابو بکر سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہوگا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابو بکر سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لئے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لئے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہوگا، اس لئے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق ''اقرأکم أبی'' فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے مقدم کیا۔
وضاحت۳؎ : اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-الصَّلاةُ مَعَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ
۲-باب: ظالم حکمرانوں کے پیچھے صلاۃ پڑھنے کا بیان​


779-أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّائِ، قَالَ: أَخَّرَ زِيَادٌ الصَّلاةَ، فَأَتَانِي ابْنُ صَامِتٍ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صُنْعَ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتَيْهِ، وَضَرَبَ عَلَى فَخِذِي وَقَالَ: إنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ - كَمَا سَأَلْتَنِي -؟ فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخْذَكَ وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَمَا سَأَلْتَنِي - فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلاة وَالسَّلامُ: "صَلِّ الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا؛ فَإِنْ أَدْرَكْتَ مَعَهُمْ، فَصَلِّ وَلاَ تَقُلْ: إِنِّي صَلَّيْتُ، فَلاَ أُصَلِّي"۔
* تخريج: م/المساجد ۴۱ (۶۴۸)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۴۸)، حم۵/۱۴۷، ۱۶۰، ۱۶۸، دي/ال صلاۃ ۲۵ (۱۲۶۳)، ویأتی عند المؤلف في الإمامۃ ۵۵ (برقم: ۸۶۰) (صحیح)
۷۷۹- ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے صلاۃ میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ) ابن صامت آئے میں نے ان کے لئے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابو ذر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا:'' صلاۃ اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ صلاۃ کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے صلاۃ پڑھ لی ہے، لہذا اب نہیں پڑھوں گا'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔


780- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ الصَّلاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ، فَصَلُّوا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا وَصَلُّوا مَعَهُمْ، وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً "۔
* تخريج: ق/إقامۃ ۱۵۰ (۱۲۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۱۱)، حم۱/۳۷۹، ۴۵۵، ۴۵۹، وقد أخرجہ: م/المساجد ۵ (۵۳۴) (صحیح)
۷۸۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' عنقریب تم کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو صلاۃ کو بے وقت کر کے پڑھیں گے، تو اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنی صلاۃ وقت پر پڑھ لیا کرو، اور ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرو ۱؎ اور اسے سنت (نفل) بنا لو'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ صلاۃ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں ''واجعلوا صلاتکم معہم نافلۃ '' یعنی بعد میں ان کے ساتھ جو صلاۃ پڑھو اسے نفل سمجھو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ؟
۳-باب: امامت کا زیادہ مستحق کون ہے؟​


781- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ؛ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَائَةِ سَوَائً، فَأَقْدَمُهُمْ فِي الْهِجْرَةِ؛ فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَائً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَائً، فَأَقْدَمُهُمْ سِنًّا، وَلاَتَؤُمَّ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلاَ تَقْعُدْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلا أَنْ يَأْذَنَ لَكَ "۔
* تخريج: م/المساجد ۵۳ (۶۷۳)، د/ال صلاۃ ۶۱ (۵۸۲، ۵۸۳، ۵۸۴)، ت/ال صلاۃ ۶۰ (۲۳۵)، الأدب ۲۴ (۲۷۷۲)، ق/إقامۃ ۴۶ (۹۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۷۶)، حم۴/۱۱۸، ۱۲۱، ۱۲۲، ۵/۲۷۲، ویأتی عند المؤلف برقم: ۷۸۴ (صحیح)
۷۸۱- ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''لوگوں کی امامت وہ کرے جسے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) سب سے زیادہ یاد ہو، اور سب سے اچھا پڑھتا ہو ۱؎، اور اگر قرآن پڑھنے میں سب برابر ہوں تو جس نے ان میں سے سب پہلے ہجرت کی ہے وہ امامت کرے، اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو وہ امامت کرے ۲؎، اور اگر سنت (کے جاننے) میں بھی برابر ہوں تو جو اُن میں عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، اور تم ایسی جگہ آدمی کی امامت نہ کرو جہاں اس کی سیادت وحکمرانی ہو، اور نہ تم اس کی مخصوص جگہ ۳؎ پر بیٹھو، إلا یہ کہ وہ تمہیں اجازت دے دے '' ۴؎۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس صورت میں ہے جب وہ قرآن سمجھتا ہو (واللہ اعلم)
وضاحت ۲؎ : کیونکہ ہجرت میں سبقت اور پہل کے شرف کا تقاضا ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے صحیح مسلم کی روایت (جو ابو مسعود رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے) میں سنت کے جانکار کو ہجرت میں سبقت کرنے والے پر مقدم کیا گیا ہے، ابو داود اور ترمذی میں بھی یہی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے (واللہ اعلم)۔
وضاحت ۳؎ : مثلاً کسی کی مخصوص کرسی یا مسند وغیرہ پر۔
وضاحت ۴؎ : '' إلاأن یاذن لکم'' کا تعلق دونوں فعلوں یعنی امامت کرنے اور مخصوص جگہ پر بیٹھنے سے ہے، لہذا اس استثناء کی روسے مہمان میزبان کی اجازت سے اس کی امامت کر سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-تَقْدِيمُ ذَوِي السِّنِّ
۴-باب: امامت کے لئے عمر دراز شخص کو آگے بڑھانے کا بیان​


782- أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَنْبِجِيُّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي -وَقَالَ مَرَّةً: أَنَا وَصَاحِبٌ لِي - فَقَالَ: " إِذَا سَافَرْتُمَا، فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا، وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا"۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۶۳۵ (صحیح)
۷۸۲- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے ایک چچازاد بھائی (اور کبھی انہوں) نے کہا: میں اور میرے ایک ساتھی- دونوں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب تم دونوں سفر کرو تو تم دونوں اذان اور اقامت کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک اذان کہے دوسرا اس کا جواب دے، یا دونوں میں سے کوئی اذان دے اور دوسرا امامت کرائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-اجْتِمَاعُ الْقَوْمِ فِي مَوْضِعٍ هُمْ فِيهِ سَوَائٌ
۵-باب: لوگ کسی جگہ اکٹھا ہوں اور سب برابر ہوں تو کون امامت کرے؟​


783- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا كَانُوا ثَلاثَةً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ، وَأَحَقُّهُمْ بِالإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ "۔
* تخريج: م/المساجد ۵۳ (۶۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۷۲)، حم۳/۲۴، ۳۴، ۳۶، ۵۱، ۸۴، دي/ال صلاۃ ۴۲ (۱۲۸۹)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۸۴۱ (صحیح)
۷۸۳- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب تین شخص ہوں تو ان میں سے ایک کو امامت کرنی چاہئے، اور ان میں امامت کا زیادہ حقدار وہ ہے جسے قرآن زیادہ یاد ہو ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-اجْتِمَاعُ الْقَوْم وَفِيهمْ الْوَالِي
۶-باب: کئی لوگ ایک ساتھ ہوں اور ان میں حاکم بھی موجود ہوتو کون امامت کرے؟​


784- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَائٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "لاَ يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ، وَلا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلا بِإِذْنِهِ"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۷۸۱ (صحیح)
۷۸۴- ابو مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' آدمی کی امامت ایسی جگہ نہ کی جائے جہاں اس کی سیادت وحکمرانی ہو، اور بغیر اجازت اس کی مخصوص نشست گاہ پر نہ بیٹھا جائے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر حاکم موجود ہو تو وہی امامت کا مستحق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-إِذَا تَقَدَّمَ الرَّجُلُ مِنْ الرَّعِيَّةِ ثُمَّ جَائَ الْوَالِي هَلْ يَتَأَخَّرُ؟
۷-باب: امامت کے لیے رعایا میں سے کوئی آگے بڑھ جائے، پھر حاکم آ جائے تو کیا وہ پیچھے ہٹ جائے؟​


785-أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ - وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ - عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ ابْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلَغَهُ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْئٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ، فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَحَانَتْ الأُولَى، فَجَائَ بِلالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ! إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتْ الصَّلاةُ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، فَأَقَامَ بِلالٌ، وَتَقَدَّمَ أَبُوبَكْرٍ، فَكَبَّرَ بِالنَّاسِ، وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ، وَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيقِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لا يَلْتَفِتُ فِي صَلاتِهِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ، فَرَفَعَ أَبُوبَكْرٍ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - وَرَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَائَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْئٌ فِي الصَّلاةِ أَخَذْتُمْ فِي التَّصْفِيقِ؟، إِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَيْئٌ فِي صَلاتِهِ فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لاَ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ حِينَ يَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ إِلا الْتَفَتَ إِلَيْهِ، يَا أَبَا بَكْرٍ! مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ؟ " قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
* تخريج: خ/الأذان ۴۸ (۶۸۴)، العمل في ال صلاۃ ۳ (۱۲۰۱)، ۵ (۱۲۰۴)، ۱۶ (۱۲۱۸)، السھو ۹ (۱۲۳۴)، الصلح ۱ (۲۶۹۰)، الأحکام ۳۶ (۷۱۹۰)، م/ال صلاۃ ۲۲ (۴۲۱)، وقد أخرجہ: حم۵/۳۳۶، ۳۳۸، دي/ال صلاۃ ۹۵ (۱۴۰۴، ۱۴۰۵) (صحیح)
۷۸۵- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ اختلاف ہو گیا ہے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے کر نکلے تاکہ آپ ان میں صلح کرا دیں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسی معاملہ میں مشغول رہے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آپ ہنچا ۱؎ تو بلال رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہنے لگے: ابو بکر! رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (ابھی تک) نہیں آ سکے ہیں، اور صلاۃ کا وقت ہو چکا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کر دیں گے؟ انہوں نے کہا: ہاں کر دوں گا اگر تم چاہو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، اور اللہ اکبر کہہ کر لوگوں کو صلاۃ پڑھانی شروع کر دی، اسی دوران رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لے آئے، اور آپ صفوں میں چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ (پہلی) صف میں آکر کھڑے ہو گئے، اور (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر) لوگ تالیاں بجانے لگے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی صلاۃ میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے، تو جب لوگوں نے کثرت سے تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم موجود ہیں، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے حکم دیا کہ وہ صلاۃ پڑھائیں، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، پھر وہ الٹے پاؤں اپنے پیچھے لوٹ کر صف میں کھڑے ہو گئے، تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے اور جا کر لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، اور جب آپ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا:'' لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ جب تمہیں صلاۃ میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تالیاں بجانے لگتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے مخصوص ہے، جسے اس کی صلاۃ میں کوئی بات پیش آئے وہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب کوئی سبحان اللہ کہے گا تو جو بھی اسے سنے گا اس کی طرف ضرور متوجہ ہوگا (پھر آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے) اور فرمایا: ابو بکر! جب میں نے تمہیں اشارہ کر دیا تھا تو تم نے لوگوں کو صلاۃ کیوں نہیں پڑھائی؟ ''، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا؟ ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ زیب نہیں دیتاکہ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے صلاۃ پڑھائے ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں اور خود مؤلف کے یہاں (حدیث رقم: ۷۹۴ میں) یہ صراحت ہے کہ یہ عصر کا وقت تھا۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام راتب (مستقل امام) کہیں گیا ہوا ہو، اور اس کی جگہ کوئی اور صلاۃ پڑھا رہا ہو، تو جب امام راتب درمیان صلاۃ آ جائے تو چاہے تو وہی نائب صلاۃ پڑھاتا رہے، اور چا ہے تو وہ پیچھے ہٹ آئے اور امام راتب صلاۃ پڑھائے، مگر یہ بات اس وقت تک ہے جب نائب نے ایک رکعت بھی نہ پڑھائی ہو، اور اگر ایک رکعت پڑھا دی ہو تو پھر باقی صلاۃ بھی وہی پوری کرائے، امام ابن عبدالبر کے نزدیک یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی۔
 
Top