40-الائْتِمَامُ بِالإِمَامِ يُصَلِّي قَاعِدًا
۴۰-باب: امام بیٹھ کر صلاۃ پڑھتا ہو تو مقتدی بھی بیٹھ کر صلاۃ پڑھیں
833- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا، فَصُرِعَ عَنْهُ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَصَلَّيْنَا وَرَائَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ "۔
* تخريج: خ/الأذان ۵۱ (۶۸۹)، م/ال صلاۃ ۱۹ (۴۱۱)، د/ال صلاۃ ۶۹ (۶۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۹)، ط/الجماعۃ ۵ (۱۶)، دي/ال صلاۃ ۴۴ (۱۲۹۱) (صحیح)
۸۳۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس سے گر گئے اور آپ کے داہنے پہلو میں خراش آ گئی، تو آپ نے کچھ صلاتیں بیٹھ کر پڑھیں، ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی، جب آپ سلام پھیر کر پلٹے تو فرمایا: '' امام بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، تو جب وہ کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھے توتم بھی کھڑے ہوکر پڑھو، اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ
''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ''کہے تو تم
''رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ'' کہو، اور جب وہ بیٹھ کر صلاۃ پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو ''۔
834- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ بِلالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلاةِ، فَقَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لا يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ "، فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ، فَقَالَتْ لَهُ، فَقَالَ: " إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ "، قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، قَالَتْ: فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاهُ تَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ، فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ: " قُمْ كَمَا أَنْتَ "، قَالَتْ: فَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا، وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلاةِ أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -۔
* تخريج: خ/الأذان ۳۹ (۶۶۴)، ۶۷ (۷۱۲)، ۶۸ (۷۱۳)، م/ال صلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، ق/إقامۃ ۱۴۲ (۱۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۵)، حم۶/۳۴، ۹۶، ۹۷، ۲۱۰، ۲۲۴، ۲۲۸، ۲۴۹، ۲۵۱، دي/المقدمۃ ۱۴ (۸۲) (صحیح)
۸۳۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی، بلال رضی اللہ عنہ آپ کو صلاۃ کی خبر دینے آئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سُنا سکیں گے ۱؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ابو بکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، تو میں نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیاں ہو ۲؎، ''ابو بکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں''، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے صلاۃ شروع کی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر صلاۃ میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ ''جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو''، ام المومنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھا رہے تھے، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، ابو بکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہو جائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کر سکیں گے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، جیسے قرآن میں صرف امرأۃ العزیز مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ عائشہ امرأۃ العزیز کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہو گئی تو لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کر دی۔
835- أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَلاَ تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " أَصَلَّى النَّاسُ؟ " فَقُلْنَا: لاَ، وَهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: "أَصَلَّى النَّاسُ؟ " قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: " ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ "، فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ قَوْلِهِ، قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلاةِ الْعِشَاءِ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ: " صَلِّ بِالنَّاسِ "، فَجَائَهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ - وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلا رَقِيقًا - فَقَالَ: يَا عُمَرُ! صَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَجَائَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ - أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ - لِصَلاةِ الظُّهْرِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لا يَتَأَخَّرَ، وَأَمَرَهُمَا، فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِهِ، فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاةِ أَبِي بَكْرٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَدَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: أَلاَ أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟! قَالَ: نَعَمْ، فَحَدَّثْتُهُ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ - كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ -۔
* تخريج: خ/الأذان ۵۱ (۶۸۷)، م/ال صلاۃ ۲۱ (۴۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۱۷)، حم۲/۵۲، ۶/۲۴۹، ۲۵۱، دي/ال صلاۃ ۴۴ (۱۲۹۲) (صحیح)
۸۳۵- عبید اللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مرض الموت کا حال نہیں بتائیں گی؟ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کی شدت بڑھ گئی، تو آپ نے پوچھا:'' کیا لوگوں نے صلاۃ پڑھ لی؟ '' تو ہم نے عرض کیا: نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میرے لیے ٹب میں پانی رکھو''؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر اٹھنے چلے تو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر افاقہ ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا :'' کیا لوگوں نے صلاۃ پڑھ لی؟ '' تو ہم نے عرض کیا : نہیں، اللہ کے رسول! وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میرے لیے ٹب میں پانی رکھو''؛ چنانچہ ہم نے رکھا، تو آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھنے چلے تو پھر بے ہوش ہو گئے، پھر تیسری بار بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا، لوگ مسجد میں جمع تھے، اور عشاء کی صلاۃ کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، بالآخر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، تو قاصد ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی تھے، تو انہوں نے (عمر سے) کہا: عمر! تم لوگوں کو صلاۃ پڑھا دو، تو انہوں نے کہا: آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؛ چنانچہ ان ایام میں ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اندر ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے (ان دونوں میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے) صلاۃ ظہر کے لئے آئے، تو جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں، اور ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو ان کے بغل میں بٹھا دیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھا رہے تھے، لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صلاۃ کی اقتداء کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بیٹھ کر صلاۃ پڑھا رہے تھے۔
(عبیداللہ کہتے ہیں) میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے کہا: کیا میں آپ سے وہ چیزیں بیان نہ کر دوں جو مجھ سے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق بیان کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں! ضرور بیان کرو، تو میں نے ان سے سارا واقعہ بیان کیا، تو انہوں نے اس میں سے کسی بھی چیز کا انکار نہیں کیا، البتہ اتنا پوچھا : کیا انہوں نے اس شخص کا نام لیا جو عباس کے ساتھ تھے؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: وہ علی (کرم اللہ وجہہ) تھے۔