50-الْمُحَافَظَةُ عَلَى الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ
۵۰-باب: جہاں پر اذان دی جاتی ہو وہاں صلاتوں کی محافظت کا بیان
850- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - غَدًا مُسْلِمًا، فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلائِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ - عَزَّ وَجَلَّ - شَرَعَ لِنَبِيِّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَنَ الْهُدَى، وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَإِنِّي لا أَحْسَبُ مِنْكُمْ أَحَدًا إِلا لَهُ مَسْجِدٌ يُصَلِّي فِيهِ فِي بَيْتِهِ، فَلَوْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَتَرَكْتُمْ مَسَاجِدَكُمْ، لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ، وَمَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُحْسِنُ الْوُضُوئَ، ثُمَّ يَمْشِي إِلَى صَلاةٍ إِلا كَتَبَ اللَّهُ - عَزَّوَجَلَّ - لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا حَسَنَةً، أَوْ يَرْفَعُ لَهُ بِهَا دَرَجَةً، أَوْ يُكَفِّرُ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نُقَارِبُ بَيْنَ الْخُطَا، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلا مُنَافِقٌ مَعْلُومٌ نِفَاقُهُ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ الرَّجُلَ يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتَّى يُقَامَ فِي الصَّفِّ .
* تخريج: م/المساجد ۴۴ (۶۵۴)، د/ال صلاۃ ۴۷ (۵۵۰) مختصراً، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۹۵۰۲)، حم۱/۳۸۲، ۴۱۴، ۴۱۵، ۴۱۹، ۴۵۵ (صحیح)
۸۵۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ جس شخص کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے کہ وہ مسلمان ہو، تو وہ ان پانچوں صلاتوں کی محافظت کرے ۱؎، جب ان کی اذان دی جائے، کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے راستے مقرر کر دئیے ہیں، اور یہ صلاتیں ہدایت کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ تم میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کی ایک مسجد اس کے گھر میں نہ ہو جس میں وہ صلاۃ پڑھتا ہو، اگر تم اپنے گھروں ہی میں صلاۃ پڑھو گے اور اپنی مسجدوں کو چھوڑ دو گے تو تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے، اور اگر تم اپنے نبی کا طریقہ چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے، اور جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر صلاۃ کے لیے (اپنے گھر سے) چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے عوض جسے وہ اٹھاتا ہے اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے، یا اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے، یا اس کے عوض اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے، میں نے اپنے لوگوں (صحابہ کرام) کو دیکھا ہے جب ہم صلاۃ کو جاتے تو قریب قریب قدم رکھتے، (تاکہ نیکیاں زیادہ ملیں) اور میں نے دیکھا کہ صلاۃ سے وہی پیچھے رہتا جو منافق ہوتا، اور جس کا منافق ہونا لوگوں کو معلوم ہوتا، اور میں نے (عہد رسالت میں) دیکھا کہ آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان سہار ادے کر (مسجد) لایا جاتا یہاں تک کہ لا کر صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی انہیں مسجد میں جا کر جماعت سے پڑھے۔
851- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَائَ أَعْمَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الصَّلاةِ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ فِي بَيْتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ، فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، قَالَ لَهُ: " أَتَسْمَعُ النِّدَائَ بِالصَّلاةِ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَأَجِبْ "
* تخريج: م/المساجد ۴۳ (۶۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۲۲) (صحیح)
۸۵۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا ۱؎، اور اس نے عرض کیا: میرا کوئی راہبر (گائیڈ) نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لائے، اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اسے اس کے گھر میں صلاۃ پڑھنے کی اجازت دے دیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، پھر جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے بلایا، اور اس سے پوچھا:'' کیا تم اذان سنتے ہو؟ '' اس نے جواب دیا : ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:'' تو (مؤذن کی پکار پر) لبیک کہو'' ۲؎۔
وضاحت ۱؎ : یہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی مسجد میں آکر جماعت ہی سے صلاۃ پڑھو۔
852-أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ح و أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ يَزَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ الْمَدِينَةَ كَثِيرَةُ الْهَوَامِّ وَالسِّبَاعِ، قَالَ: " هَلْ تَسْمَعُ حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ؟ " قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَحَيَّ هَلاَّ "، وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ۔
* تخريج: د/ال صلاۃ ۴۷ (۵۵۳)، وقد أخرجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۷) (صحیح)
۸۵۲- عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مدینہ میں کیڑے مکوڑے (سانپ بچھو وغیرہ) اور درندے بہت ہیں، (تو کیا میں گھر میں صلاۃ پڑھ لیا کروں) آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: ''کیا تم
''حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ، اور حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ'' کی آواز سنتے ہو؟ '' انہوں نے کہا: ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' پھر تو آؤ''، اور آپ نے انہیں جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہیں دی۔