- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
27- التَّنَزُّهُ عَنِ الْبَوْلِ
۲۷-باب: پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا بیان
31- أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُوسٍ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علَى قَبْرَيْنِ، فَقَالَ: "إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ، وَمَايُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا هَذَا فَكَانَ لا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هَذَا فَإِنَّهُ كَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ"، ثُمَّ دَعَا بِعَسِيبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ، فَغَرَسَ عَلَى هَذَا وَاحِدًا، وَعَلَى هَذَا وَاحِدًا، ثُمَّ قَالَ: " لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا ".
٭خَالَفَهُ مَنْصُورٌ، رَوَاهُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ طَاوُوسًا.
* تخريج: خ/الوضوء ۵۵ (۲۱۶)، ۵۶ (۲۱۸)، الجنائز ۸۱ (۱۳۶۱)، ۸۸ (۱۳۷۸)، الأدب ۴۶ (۶۰۵۲)، ۴۹ (۶۰۵۵)، م/الطہارۃ ۳۴ (۲۹۲)، د/فیہ۱۱ (۲۰)، ت/فیہ ۳ ۵ (۷۰)، ق/فیہ ۲۶ (۳۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۷)، حم ۱/۲۲۵، دي/الطہارۃ ۶۱ (۷۶۶)، و یأتي عند المؤلف في الجنائز ۱۱۶ (رقم: ۲۰۷۰، ۲۰۷۱) (صحیح)
۳۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ''یہ دونوں قبر والے عذاب دئیے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیے جا رہے ہیں ۱؎، رہا یہ شخص تو اپنے پیشاب کی چھینٹ سے نہیں پچتا تھا، اور رہا یہ (دوسرا) شخص تو یہ چغل خوری کیا کرتا تھا''، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی منگوائی، اور اسے چیر کر دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: ''امید ہے کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہو جائیں ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے'' ۲؎۔
٭منصور نے اعمش کی مخالفت کی ہے، اور اسے ''مجاہد عن ابن عباس'' سے روایت کی ہے، اور طاؤس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎: ''کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں'' کا مطلب ہے کہ ان کے خیال میں وہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، مگر شریعت کی نظر میں تو وہ بڑی بات تھی ہی، اگر نہ ہوتی تو انہیں عذاب کیوں دیا جاتا؟ یا مطلب یہ ہے کہ ان سے بچنا زیادہ مشکل بات نہیں تھی، وہ چاہتے تو آسانی سے اس سے بچ سکتے تھے۔
وضاحت ۲؎: یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی سے معلوم ہوا ہوگا، اور بعض نے کہا ہے کہ درخت جب تک ہرا رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے، لہذا تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ہوئی ہوگی، خطابی نے کہا ہے کہ یہ صرف رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے لیے خاص تھا کسی اور کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔